پاکستان اور چین دونوں اہم ملک ہیں، دونوں کی ابتدائی قیادتوں کو آنے والے حالات کا اندازہ تھا اس لئے دونوں نے دوستی کا بندھن باندھا، دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوئے کہ یہ دوستی مثال بن گئی۔ یہ بھی کہاگیا کہ یہ دوستی سمندروں سے گہری ہے، ہمالیہ سے بلند ہے اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ تاریخ اس سچائی پر مٹی نہیں ڈال سکتی کہ چین کی تیرہ ملکوں سے سرحدیں ملتی ہیں اور چین کا اپنے ہر ہمسائے کے ساتھ کسی نہ کسی دور میں تنازع رہا ہے سوائے پاکستان کے۔ پاکستان اور چین کی محبت ہمیشہ ہی سے قائم ہے۔ خنجراب کی طرف سے پاکستان کی سرحد روس سے ملتی تھی اور روس ہر قیمت پر گرم پانیوں تک رسائی چاہتا تھا،رسائی کایہ راستہ بند کرنےکیلئےپاکستان نے وہاں سے کچھ علاقہ چین کو دے دیا جبکہ چین نے ایک اور طرف سے کچھ علاقہ پاکستان کو دےدیا۔ چین جب دنیا کے لئے بند تھا اور امریکی چین سے ملنے کیلئے بے تاب تھے تو دونوں ملکوں کا ملاپ پاکستان نے کروایا۔
چین کو پاکستان کی ترقی عزیز ہے اس لئے کچھ سال پہلے پاک چین اقتصادی راہداری کا آغاز ہوا۔ عام طور پر آپ سی پیک کا تذکرہ سنتے ہیں۔ یہی وہ منصوبہ ہے جو پاکستان کی اقتصادی حالت بدل دے گا مگر کیا کیجئے کہ اس منصوبے کے پیچھے پورا جہان پڑا ہوا ہے۔ اس نازک مرحلے پر دونوں ملکوں کی قیادتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے منصوبے کوسست روی کا شکار نہ ہونے دیں۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو ہی نہیں ریاست پاکستان کو بڑا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ شمال میں قراقرم کے بلند و بالا پہاڑوں سے لے کر بحیرہ عرب کے نیلے پانیوں تک بہترین سڑکوں کا جال ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں گزشتہ آٹھ سال میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔ سی پیک کے تحت بننے والی شاندار سڑکوں نے فاصلوں کو سمیٹا ،اس وقت پشاورسے کراچی جانے کے لئے کم از کم سکھر تک شاندار سڑک ہے، سکھر سے حیدر آباد اور پھر حیدر آباد سے کراچی تک شاندار سڑک بن گئی تو ایک انقلاب برپا ہوجائےگا۔ اسی طرح اسلام آباد کے نزدیک ہکلہ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک شاندار سڑک نے فاصلوں کو کم کیا ہے۔ یہ شاندار سڑکیں ہی ہماری اقتصادی حالت بدلیں گی کیونکہ صنعتی اور زرعی پیداوار کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئےسڑکوں کا شاندار ہونا ضروری ہے۔
شاید آپ کویاد نہ ہو کہ جب گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کی بات چلی تو چینی قیادت نے ہمارے سامنے چار چیزیں رکھیں۔اول یہ کہ گوادر میں بندرگاہ تعمیر ہوگی،دوئم،اس بندرگاہ کو کامیاب بنانےکیلئے سڑکوں کا شاندار منصوبہ ہوگا اس لئے کہ خالی سڑکیں روزگار فراہم نہیں کرتیں سو چینیوں نے تیسرے نمبر پر کہا کہ آپ کے صنعتی زون بنیں گے۔ پھر سوال یہ تھا کہ جس ملک کو انرجی کی کمی کا سامنا ہو وہاں صنعتی زون کیا کریں گے تو چینیوں نے چوتھی بات یہ کہ ہم پاور پلانٹس لگائیں گے تاکہ انرجی کی کمی کا احساس نہ ہو۔ اس طرح لوگوں کو روزگار ملے گا۔ چین تو زرعی شعبے میں بھی ہماری مدد کو تیار ہے تاکہ ایک صاف ستھرا ،سبز اور ہرا بھرا پاکستان نظر آئے۔ مثلاً چین گوادر میں صنعت کیلئے فری زون قائم کرے گا، گوادر میں شاندار ہوائی اڈا تعمیر کرکے چین گوادر کو دنیا سے ایک اور طرح سے جوڑنا چاہتا ہے۔ چین گوادر میں شاندار اسپتال قائم کرے گا، چین گوادر میں روزگار کے اور منصوبے بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں کروٹ ہائیڈرو پاور ا سٹیشن نے کام شروع کردیا۔ یہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کا شاندار منصوبہ ہے۔ چین پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں بھی مدد کر رہا ہے۔ ظاہر ہے جب ڈیم بنیں گے توسستی بجلی مہیا ہو گی اور دوسری طرف پاکستان کایہ آ بی ذخیرہ ہماری بنجر زمینوں کو آباد کرے گا۔ یہ زمینیں سونا اگلیں گی۔ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں پانی کی مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر سے نہ صرف پانی کی یہ کمی دور ہوگی بلکہ اضافی پانی بھی ہمارے پاس ہوگا۔ ہمیں اپنی زراعت کو جدید بنانے کیلئے بھی چین سے مدد لینی چاہئے تاکہ ہماری زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔
چین پاکستان میں ایسے صنعتی پارک آباد کرنا چاہتا ہے جوآلودگی سے پاک ہوں تاکہ پاکستان میں صاف ستھرا ماحول رہے، اس طرح وطن عزیز ماحولیاتی آلودگی سے بچ جائے گا۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے کیونکہ دونوں ملک ایک دوسرے کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ چین اور پاکستان کو اپنی دوستی بدنظروں سے بچانی چاہئے۔ خطے میں دونوں ملکوں کی مضبوطی ہی پائیدار عالمی امن کی ضمانت ہے۔ بقول شکیل بدایونی ؎
مجھے دوست کہنے ولے ذرا دوستی نبھا دے
یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے