• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ ن کی اپنی طاقت کے گڑھ، پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھوں دندان شکن شکست اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ وقت کا دھارا تبدیل ہوچکا۔اب اس لہر کا رخ بدلنا کم و بیش ناممکن ہے۔ شاید یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ملک کے سیاسی منظر نامے کیلئے یہ جھٹکا اس شدید نوعیت کا ہوگا اور اس کے ممکنہ نتائج اس قدر دور رس ہوں گے۔ آنے والے چند ہفتوں کے دوران اس تبدیلی کی نوعیت اور وسعت کا اندازہ ہونا شروع ہوجائے گا جسکے آثار نمودار ہوتے جارہے ہیں۔

یہ پیش رفت بالکل غیر متوقع نہیں۔ گزشتہ انتخابات میں شکست کے بعد سے حزب اختلاف کے رہنمائوں کی تمام تر تگ و دو کا محور بدعنوانی کے مقدمات سے نجات حاصل کرنا تھا۔ تحریک انصاف پر ہر قسم کی ہرزہ سرائی کرنا دراصل ان خفیہ کوششوں کی پردہ داری تھی جو وہ اپنی گردن چھڑانے کیلئے کررہے تھے۔ بیرونی طاقتوں نے اُن کی کوششوں کی عملی حمایت کی کیوں کہ اُنھیں ملک میں ایسی ہی داغ دار قیادت درکار تھی جسے کنٹرول کیا جاسکے۔

گزشتہ تین برسوں کے دوران اُنھوں نے جمہوریت کو آگے بڑھانے کا جو بھرم قائم کیا تھا، وہ دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ اس کی بجائے مفاد پرست جماعتوں کا ایک عارضی بندوبست دکھائی دیا جن کے درمیان مزید دولت اور جاہ طلبی کے لالچ کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں۔ ممکنہ سزا سے اپنی گردن بچانے کی فکر میں وہ عوام کے تبدیل شدہ موڈ سے بے خبر تھے جو اُن کی مشکوک سرگرمیوں کے بے نقاب ہونے کے بعد بن چکا تھا۔ ابھی انھوں نے اقتدار سنبھالا ہی تھا کہ مالیاتی منظر نامہ سیاہ سے سیاہ تر ہونے لگا جس نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے تک پہنچا دیا۔ آئی ایم ایف کے ہر حکم کی تعمیل کی وجہ سے قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ مالیاتی استحکام نام کو نہیں تھا اور نہ اس سمت کوئی پالیسی تھی۔ اس کا تمام تر دبائو غریب عوام کو برداشت کرنا پڑا۔ ملکی کرنسی کی قدر تیزی سے گرنے لگی۔ صرف تین ماہ کے اندریہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 178 سے گر کر 226 تک پہنچ گئی۔ یہ ملکی تاریخ میں کرنسی کی قدر میں تیز ترین عمودی گراوٹ تھی۔

عمران خان نے ایک ان تھک اور تجربہ کار رہنما کی طرح انتخابی مہم کا نقارہ بجایا۔ عوام سے پورے خلوص سے مخاطب ہوتے ہوئے چند دنوں میں ان کے دل میں وہ بات اتار دی جو عام رہنما برسوں تک نہیں اتار سکے تھے۔ اس پر عوام نے والہانہ ردعمل کا اظہار کیا۔ عوام کے امڈتے ہوئے ہجوم کے سامنے جلسوں کی جگہیں کم پڑ نے لگیں۔ عوام اُن کے بولے ہوئے ایک ایک لفظ کو سننے اور اس کی تائید کرنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایسا تعلق تو خوابوں میں ہی استوار ہوتا ہے جو ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس ملک کے لوگ عمران خان کو نہایت مختصرمدت، صرف دو ہفتوں کے اندر زیادہ سے زیادہ تاب وتواں حاصل کرتا دیکھ رہے تھے۔ اُنھوں نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے قلعے میں شگاف ڈال دیا تھا۔

عمران خان سچائی کا علم تھامے، یقین کی دولت سے مالا مال تھے۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر اور ان کا پہاڑایسا انمول جذبہ ان کے ساتھ تھا۔ باقی تاریخ ہے۔ تحریک انصاف20میں سے 15، مسلم لیگ ن صرف چارنشستیں جیتی، جب کہ ایک آزاد رکن کامیاب ہوا۔ اسکورکارڈ بتاتا ہے کہ یہ محض انتخابی نتیجہ نہیں نکلا، حریف کا مکمل صفایا ہو گیا ہے۔ یہ سیاسی تباہی خبر دیتی ہے کہ شریف خاندان کے دن گنے جا چکے۔ وہ شاید ہی اس خاکستر سے اٹھ سکیں، اپنی طاقت کے مرکز میں ناقابل شکست ہونے کی ساکھ تحلیل ہورہی ہے۔ پورے انتظامی وسائل کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کے باوجود ان کی اچھی خاصی سیاسی ٹھکائی ہوگئی۔ یہ صرف خان اور تحریک انصاف کی جیت نہیں۔ یہ ایک ایسی قوم کی بحالی کی فتح ہے جو برسوں سے انتہائی کرپٹ اور سمجھوتا کرنے والے طبقوں کی شکل میں ایک تکلیف دہ بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ وہ خاندان جن کی باریوں کے درمیان آمریتیں بھی قائم ہوئیں۔

نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے ساتھ، امید واثق ہے کہ بائیس جولائی کو پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوچکی ہو گی۔ اس طرح مرکزی حکومت پر گھیرے میں آنے کا دبائو بڑھ جائے گا۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کریں تاکہ بدعنوانی کے کئی ایک سنگین مقدمات کی سزا سے بچ سکیں یا پھر ممکن ہے کہ وہ جلداز جلد انتخابات کا علان کر دیں تا کہ عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ اس ملک پر کسے حکومت کرنا ہے۔ جس دوران وزیر اعظم کا اختیار اسلام آباد کے چند ایک علاقوں تک محدود ہوچکا ہوگا، ملک کی کئی ایک غیر جمہوری قوتوں کی پشت پناہی سے ان کا اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا مضحکہ خیز ہی نہیں خطرناک بھی ہو گا۔ گزشتہ چند ماہ سے جمہوریت کی راکھ پر قائم ڈگمگاتے ہوئے غیر قانونی اور غیر آئینی ڈھانچے کے انہدام میں ہی دانائی ہے جو اس کے موجودہ حکمراں دکھا سکتے ہیں تاکہ یہ ملک ایک بار پھر عازم سفر ہو سکے۔ اس فتح نے عمران خان کو دور حاضر کا سب سے غالب اور جرات مند سیاست دان ثابت کر دیا ہے۔ اُنھوں نے عوام کو خوف کی زنجیریں توڑنے کی تحریک دی۔ اب یہ آواز معاشرے کے تمام طبقوں اور دھڑوں میں گونج رہی ہے۔ امید کا قافلہ چل نکلا ہے۔ یہ قافلہ مقامی سازشیوں اور غیر ملکی حکم کے اطاعت گزاروں سے نجات کے پاکستان کے عزم کا عملی اظہار ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین