• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

مسلمانوں کی تاریخ سلاطین و امراء اور بادشاہوں کے عروج و زوال کی داستان ہے، لیکن اسلام کی تاریخ اُن نفوس قدسیہ کی پاکیزہ سیر توں کے مطالعے سے بھی عبارت ہے جو اخلاق فاضلہ اور روحانی قدروں کے چمن آباد کرتے ہیں ،جن کے فیض و کرم سے دکھی دلوں کو سکون میسر آتا ہے ، جو انسانی شرف و عظمت کے احیاء کی کوشش کرتے ہیں جو عبد اور معبود کے رشتوں کو جوڑتے ہیں۔ 

جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کمتر اور دین برتر نظر آنے لگتا ہے۔ جن کی باتیں علم کی روشنی دیتی اور کردار سے عمل کی خوشبو آتی ہے،جو خوفِ خدا (تقویٰ) کا پیکر اور اطاعتِ رسول ﷺ(اسوۂ حسنہ) کا عملی مظہر اور نمونہ ہوتے ہیں، جو احسان (سلوک و معرفت) کی کیفیت میں ڈوب کرمحبت ِالہٰی سے سر شار اور عشقِ رسولﷺ سے مخمور ہوتے ہیں۔ یہ راہِ نور کے مسافر ہوتے ہیں اور معرفتِ الہٰی کا اجالا پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہ نفوسِ قدسیہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی امت کے صوفیائے کرام اور اولیائے عظام ہیں۔

اللہ کے ان برگزیدہ بندوں اور رسول اللہ ﷺ کے ان عظیم پیرو کاروں نے اپنے اپنے دور میں دنیا کے کونے کونے تک اسلام کا پیغام ہدایت پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔ کفرو شرک کی ظلمت سے مبنی تاریک راہوں کو اپنے نورِ عمل سے منور کیا، انہی صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے امت کی ظاہری تعلیم یعنی ہدایت اور باطنی تربیت تزکیہ کا فریضہ انجام دیا اور انسانوں کی زندگیوں میں حسنِ ظاہری اور نور ِ باطنی پیدا کیا۔

صوفیائے کرام کے اسی قافلے کے ایک نامور رہبر حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ بھی ہیں۔ حضرت بابا فرید گنجِ شکرؒ خطۂ ملتان کے اُن اولیائے کرام میں سے ہیں ،جن پر زمانہ ہمیشہ فخر اور عالمِ اسلام ناز کرتا رہے گا۔ آپ کا اصل نام فرید الدین مسعودؒ تھا اور لقب گنج شکرؒ ہے۔ آپ تقریباً 800سال پہلے کے بزرگ ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرتِ عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔ آپ کے اجداد افغانستان سے ہندوستان تشریف لائے ،اولین قیام لاہور میں کیا، آپ کے والد قاضی جمال الدین سلمان ؒ لاہور میں قاضی کے منصب پر فائز تھے۔ پھر آپ کا خاندان ملتان کے قریب ایک قصبے کھتوال میں قیام پذیر ہوا۔ یہیں 1186ء میں بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی ولادت ہوئی۔ بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ 

آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت آپ کی نیک و پارسا والدہ نے کی۔ مقامی تعلیم اور حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد مزید تعلیم کے لئے کھتوال سے ملتان تشریف لے گئے۔ جہاں وقت کے جید علماء سے درس لیا۔ ملتان ہی میں آپ کی ملاقات سلسلہ چشتیہ کے عظیم صوفی بزرگ اور خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے ہوئی ۔آپ ان کے گرویدہ ہو کر ان کے ساتھ دہلی تشریف لے آئے اور یہاں حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی بیعت و ارادت حاصل کی اور تزکیۂ نفس کا سبق شروع کیا۔ 

دہلی کے بعد ہانسی اور وہاں سے اوچ تشریف لائے تو حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے خلافت عطا فرمائی، اس کے بعد کھتوال تشریف لائے اور کھتوال سے اجودہن میں قیام اختیار کیا اور آخر عمر تک اسی جگہ رہے۔ بابا فرید ؒ سلسلہ چشتیہ کے وہ عظیم بزرگ ہیں کہ جنہیں ان کے دادا پیر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور پیر قطب الدین بختیار کاکیؒ نے بیک وقت فیض سے مستفیض کیا۔ کیفیت یہ تھی کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور قطب الدین بختیار کاکیؒ نے بابا صاحب ؒ کو بیچ میں کھڑا کر لیا اور دونوں بزرگوں نے اپنی توجہات ِ باطنی سے تمام روحانی نعمتوں سے مالا مال کر دیا جس کی دوسری مثال تاریخ تصوف میں نہیں ملتی۔

حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر ؒشیخ ِکبیر کے لقب سے بھی پکارے جاتے ہیں۔ آپ نے اجودھن جو اب پاکپتن ہے ،میں بیٹھ کر اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا وہ فریضہ انجام دیا جو طریقت و تصوف کا بنیادی مقصد اور اہم ترین کام ہے ۔ حضرت بابا فریدؒ تصوف و طریقت کے عالمگیر ادارے اور تربیت گاہ کے شیخ کبیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے بر صغیر میں اشاعتِ اسلام ،غلبۂ دینِ حق اورسلسلہ چشتیہ کی عظیم خدمات انجام دیں ،اسی لیے آپ کو سلسلہ چشتیہ کا ’’آدمِ ثانی‘‘ کہا جاتا ہے۔

دین کی ترویج و اشاعت میں جتنی محنت بابا فرید ؒ نے انجام دی، پاک و ہند کے اس خطے میں کسی اور نے ایسی محنت نہیں کی۔ مغربی پنجاب کے بہت سے بڑے بڑے قبیلے سیال، راجپوت، اور وٹو وغیر آپ ہی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ اسلامی تاریخ کے معروف اسکالر صباح الدین عبدالرحمٰن اپنی تصنیف ’’بزم صوفیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’پاک پتن کے اطراف میں زیادہ تر جو مسلم اقوام ہیں، وہ بابا صاحب ہی کی برکت سے مسلمان ہوئی ہیں۔ جواہر فریدی میں ہے کہ پنجاب میں بہت سے قبائل بابا صاحبؒ ہی کی برکت ، کوشش اور محنت سے مسلمان ہوئے‘‘۔

اسلام کے پیغامِ امن وسلامتی کے فروغ اور دین کی ترویج و اشاعت میں آپؒ نے تاریخ ساز کردار ادا کیا

حضرت بابا فرید ؒ کے رشد و ہدایت سے نہ صرف مسلمان کامل مسلمان بنے، بلکہ غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہوئی۔ حضرت بابا فریدؒ اپنی زندگی کے ایک ایک قدم ،ایک ایک مرحلے میں قرآن و سنت کے سخت پابند رہے۔ آپ کا کوئی سانس ذکرِ الہٰی سے خالی نہیں تھا۔ آپ کے ذکر الہٰی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ وجد میں آکر ذکر الہٰی کرتے تو سارا ماحول اور ماحول کی اشیاء آپ کے ساتھ ذکر میں شامل ہوجاتی تھیں۔ ایک بہت معتبر روایت جو سات سو سال سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے کہ بابا صاحب نے ریاضت و مجاہدے اور اشاعت اسلام کے لئے بہت سیاحت کی۔

حضرت بابا فریدؒ کی شاعری عشقِ الہٰی اور عشقِ رسول ﷺ کا بہترین مظہر ہے اور عشق رسالت میں ڈھلی یہی شاعری تصوف کا بہترین منظوم ذخیرہ ہے۔ آپ کے ارشادات بھی انسانوں کے لئے نصیحت کا بہترین خزینہ ہیں۔

توبہ کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ توبہ چھ طرح کی ہوتی ہے، ایک دل اور زبان کی توبہ، دوسری آنکھ کی توبہ، تیسری کان کی توبہ، چوتھی ہاتھ کی توبہ، پانچواں ناک کی توبہ اور چھٹی نفس کی توبہ۔ مخلوق کا پیٹ بھرنے کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہر شخص کی روٹی نہیں کھا، لیکن ہر شخص کو روٹی کھلا‘‘۔

دشمن سے حفاظت اور دوست کی قربت کا طریقہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں’’دشمن کو عقل مندی سے دور کر اور دوست کو تواضع (عاجزی) سے غلام بنا‘‘۔ دائمی حیات اور ہمیشہ زندہ رہنے کا فلسفہ پڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہمیشہ اس کوشش میں رہ کہ تو مرکہ بھی زندہ رہے‘‘۔خودی کا سبق پڑھاتے ہوتے فرماتے ہیں کہ ’’خودی کی تکمیل اس عبادت سے ہوتی ہے جس میں ظاہر و باطن دونوں سر بسجود ہوں‘‘۔ حکمت و دانش پانے کا طریقہ سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وہی دل حکمت و دانش کا مخزن بن سکتا ہے جو دنیا کی محبت سے خالی ہو‘‘۔ درویش کی پہچان بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’درویش وہ ہے جو زبان، آنکھ اور کانوں کو بند رکھے‘‘ ۔ یعنی بری بات نہ سنے، نہ کہے اور نہ دیکھے۔