سپریم کورٹ کا نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ عمران خان کے گلے کا پھندا بن سکتا ہے۔ پاناما کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ،جس میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے کے ساتھ ساتھ عمر بھر کے لیے رکنِ پارلیمنٹ بننے یا کسی بھی حکومتی عہدےکے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا، پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک بُری نظیر سمجھا جاتا ہے۔
تاہم آئین و قانون اور عدالتی روایات کے مطابق وہ فیصلہ کتنا ہی بُرا یا متنازعہ کیوں نہ ہوایک عدالتی نظیر کے طور پر موجود ہے اور اب اُسی کی روشنی میں اس قسم کے کیسوں کا فیصلہ کیا جاتا رہے گا۔ ہاں،صورتِ حال تب مختلف ہو سکتی ہے ، اگرسپریم کورٹ اپنے اُس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوے اُسے بدل دے ۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے جس فیصلہ پر تحریک انصاف خوشیاں مناتی رہی اور آئے دن اُس کے حوالے دیتی رہی کہ کس طرح سپریم کورٹ نے ایک’’ چور، ڈاکو‘‘ کو ہمیشہ کے لیے نااہل قراردے ڈالا، اُسی کی وجہ سے عمران خان اور پی ٹی آئی کو بھی اب گھبرانا پڑے گا۔
نواز شریف کوجس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا، وہی بنیاد عمران خان کی نااہلی کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ عمران خان کے خلاف بھلے کرپشن کا کوئی اسکینڈل نہ ہو لیکن توشہ خانہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کو ویسی ہی بلکہ اُس سے بھی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے جو نواز شریف کی نااہلی کا سبب بنی۔ جون 2017میں دیے گئے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اس لیے نااہل قرار دیا تھا کہ اُنہوں نے 2013 کے عام انتخابات کے وقت کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے وقت الیکشن کمیشن کو دیے گئے ڈیکلریشن میں اُس تنخواہ کو اپنے اثاثہ جات میں ظاہر نہیں کیا تھاجو اُنہوں نے اُس وقت تک وصول بھی نہیں کی تھی۔ یعنی جو پیسہ اُنہیں ملنا تھا لیکن ملا نہیں تھا اُس کو ظاہر نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نوازشریف نے جعلی ڈکلریشن جمع کروایا جس کی وجہ سے وہ صادق اور امین نہیں رہے اس لیے اُنہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔نواز شریف کے کیس کے فیصلے کو ذہن میں رکھیں اور پھر ذرا عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر کیے گئے توشہ خانہ ریفرنس کا جائزہ لیں۔ ایک بار پھر یہ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اس لئے نا اہل قرار دیاتھا کہ وہ کاغذات نامزدگی میں اپنے اُن اثاثہ جات کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے تھے جو ''Unwithdrawn Receivables'' تھے یعنی وہ اثاثہ جات جو انہوں نے ’’اس وقت تک وصول نہیں کیے تھے۔‘‘ عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے توشہ خان کے تحفے اپنے اُس سالانہ گوشوارے میں ظاہر ہی نہیں کیے جو انہوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروایا۔ حلف کے ساتھ ہر رکن پارلیمان ہر سال اپنے اثاثہ جات کی مکمل تفصیل الیکشن کمیشن کو فراہم کرتا ہے ،جسے گزٹ نوٹیفیکشن کے ذریعے پبلک کیا جاتا ہے۔ عمران اور نواز کا کیس ملا کر دیکھا جائے تو دونوں نے گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے۔ نواز شریف کے معاملے میں انہوں نے وہ اثاثہ جات ظاہر نہیں کیے جو انہیں ملے ہی نہیں تھے لیکن قابلِ وصول تھے۔ عمران خان کے کیس میں دیکھیں تو انہوں نے وہ اثاثہ جات ظاہر نہیں کیے جو انہیں توشہ خانہ کے تحفوں کو فروخت کرنے سے حاصل ہوچکے تھے۔ عمران خان نے یہ اثاثہ جات ایک سال یا دو سال بعد کے ڈکلیریشن میں ظاہر کیے۔ آپ جب سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھتے ہیں اور پھر نواز ،عمران کے کیسوں کا تقابل کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان بُرے طریقے سے پھنس چکے ہیں اور اُن کے پھنسنے کی وجہ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جو متنازعہ ہے، جس کو عدالتی تاریخ کی کوئی اچھی نظیر نہیںسمجھا جا سکتا۔ لیکن وہ فیصلہ اب نظیر تو بن گیا اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو گھبرانا چاہئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاستدانوں کو کیسے کیسے بہانوں کی وجہ سے نااہل قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں سب سے بڑا قصور بھی سیاستدانوں کا اپنا ہوتا ہے کیوں کہ وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ پہلے نواز شریف کی ٹانگیں کھینچی گئیں تو عمران خان اُس سارے عمل کی حمایت کر رہے تھے۔ اب عمران خان کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں اور نواز شریف اورعمران خان کے دوسرے مخالفین خان کو ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر کرنے کے در پے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)