• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر ہاتھ میں جادو کی ڈبیا ہے۔ کوئی تو کان میں آلہ لگائے سن رہا ہے۔ کبھی ہنس رہا ہے۔ کبھی اداس ہورہا ہے۔ کچھ آلے کا تکلف نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے آس پاس والے بھی جان جاتے ہیں کہ موصوف یا موصوفہ کس بات سے محظوظ ہورہی ہیں اور کس پوسٹ سے متفکر۔ جادو کی ڈبیا جسے اسمارٹ فون کہا جاتا ہے اس پر الگ الگ دنیائیں آباد ہیں۔ کہیں فیس بک کا طلسم کدہ ہے ۔ کہیں ٹوئٹر کی بستیاں آباد ہیں۔ کہیں انسٹرا گرام انگڑائیاں لے رہا ہے۔ کہیں واٹس ایپ کروٹیں بدل رہا ہے۔ ان سارے خرابوں پر سوشل میڈیا آباد ہے۔ کہیں افراد۔ کہیں گروہ۔ کہیں حکومتیں۔ 

کہیں فوج۔ کہیں کمپنیاں اپنے اپنے جذبات کا مصنوعات کا اعلان کررہی ہیں۔ پہلے ملکی تعزیرات۔ شعر و ادب۔ کاروبار کی اپنی اپنی اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں۔ اب سوشل میڈیا کی اپنی اصطلاحات ہیں جو زیادہ تر انگریزی میں ہیں۔ ان کا اُردو ترجمہ گوگل تو کررہا ہے مگر کسی ادارہ فروغ قومی زبان۔ انجمن ترقیٔ اُردو یا کسی پرائیویٹ سرکاری یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو نے نہیں کیا ہے۔ سوشل میڈیا علاقائی اطلاعات بھی دے رہا ہے۔

ملکی اور عالمی بھی۔ اخبار کو تو 24گھنٹے بعد شائع ہونا ہے اس لیے وہ تو 24گھنٹے پسماندہ ہے۔ الیکٹرونک میڈیا اگر چہ بہت تیز رفتار ہے۔ لیکن وہ بھی سوشل میڈیا سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ کیمرہ لگا اسمارٹ فون اکثر افراد کے پاس موجود ہے۔ اس لیے کسی حادثے۔ کسی جرم کے ارتکاب۔ کسی واقعے اور کسی تقریب کی خبر اور تصاویر چند سیکنڈ میں ہی آویزاں(پوسٹ) ہوکر دنیا بھر میں نشر ہوجاتی ہے۔ اب تو یہ بھی ہورہا ہے کہ ٹیلی وژن چینلوں یا اخباروں کے نامہ نگار۔ رپورٹر اپنی خبر اپنے ادارے کو بھیجنے سے کہیں پہلے اپنے گروپ کو منتقل کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔

یہ آج کا میڈیاہے۔ تیز تر۔ متحرک۔ تھر تھراہٹ کے ساتھ۔

میں 75 سال پیچھے جاتا ہوں۔ بہت پُر سکون۔ لوگ مطمئن۔ چند اخبارات۔ چند رسائل۔ اور ریڈیو پاکستان۔ ریڈیو بھی بہت کم لوگوں کے پاس ۔ مجھے یاد ہے کہ ہم کرکٹ میچ پر تبصرہ سننے کے لیے اپنے شہر کے ایک متمول ملک صاحب کے گھر جاتے تھے۔ اخبار رسالے لیتھو پر شائع ہوتے تھے۔ پیلا کاغذ۔ اس پر کتھئی سیاہی سے کتابت کی جاتی تھی۔ پھر پتھر پر طباعت ہوتی تھی۔ اخبارات اور رسائل بہت خلوص اور جذبے سے پڑھے جاتے تھے۔ 

گھر گھر اخبار کی آمد کا انتظار ہوتا تھا۔ پہلے صرف بڑے شہروں میں بڑے اخبار شائع ہوکر بسوں ٹرینوں سے دوسرے شہروں میں پہنچتے تھے۔ بعض مقامات پر اخبار اگلے دن بھی تقسیم ہوتا تھا۔ اس لیے اخبارات پر تاریخ دو روز بعد کی دی جاتی تھی۔ تاکہ اخبار اگلے روز بھی تازہ رہے۔ کچھ سال بعد ایک دن بعد کی تاریخ دی گئی۔ پھر اسی روز کی تاریخ دی جانے لگی۔ خبروں میں پہلے سرخی کے نیچے اس روز کی تاریخ دی جاتی تھی۔ بعد میں تاریخ کی بجائے دن دینے لگے۔ جیسے بدھ کی شام۔ یا رات یہ ہوا۔

پنجاب میں بڑے اخبار ان دنوں روزنامہ نوائے وقت۔ روزنامہ امروز۔ زمیندار۔ روزنامہ آزاد اور انگریزی میں Pakistan Times ۔Civil and Military Gazzet ہوتے تھے۔ ہم جھنگ میں تھے تو لائل پور(اب فیصل آباد) سے روزنامہ ’غریب‘۔ بہت مقبول اخبار آکر پورے شہر میں نظر آتا تھا۔ یہ لاہور کے اخبارات سے ہمیشہ پہلے صبح سویرے پہنچ جاتا تھا۔

کراچی سے روزنامہ ’جنگ‘۔ روزنامہ ’انجام‘ ۔ انگریزی میں Dawnیاد آتے ہیں۔ یہ ٹرین یا جہاز سے لاہور۔ ملتان۔ لائل پور پہنچتے تھے۔ وہاں سے دوسرے چھوٹے شہروں میں۔ صحافت ان دنوں کالجوں یونیورسٹیوں میں انہیں پڑھائی جاتی تھی۔ اس لیے اُردو زبان میں شاعری کرنے والے افسانے یا مضامین لکھنے والے اخبارات سے منسلک ہوتے تھے۔ صحیح زبان کی بہت اہمیت تھی۔ چاہے وہ اُردو ہو یا انگریزی۔ پنجابی میں ان دنوں کوئی اخبار نہیں شائع ہوتا تھا۔ البتہ سندھی میں روزنامہ ’عبرت‘ اور روزنامہ ’الوحید‘ کی دھوم تھی۔

یہ منظر نامہ ہے 75سال پہلے کے پاکستانی میڈیا کا۔ بھارت سے بھی ان دنوں اخبارات و رسائل پاکستان باقاعدگی سے آتے تھے۔ بمبئی سے ہفت رزہ بلٹز۔ دہلی سے ہفت روزہ نشیمن۔ ماہنامہ شمع۔ بچوں کے لیے کھلونا۔

مشرقی پاکستان سے انگرزی اخبار ’مورننگ نیوز‘۔ اُردو میں ’پاسبان‘۔ انگریزی ہفت روزہ ’ہالیڈے‘ ۔

وقت کے ساتھ ساتھ اخبارات کی طباعت میں ٹیکنیکل تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ 60 کی دہائی کے وسط میں فوٹو آفسٹ طباعت کا آغاز ہوتا ہے۔ اخبارات کی لے آئوٹ اور خوبصورت ہوجاتی ہے۔ تصاویر بھی شائع ہونے لگتی ہیں۔ اس سے پہلے تصویر کے لیے بلاک درکار ہوتا تھا۔ انگریزی اُردو دونوں میں۔ اشتہارات کے بھی بلاک بنتے تھے۔

اخبارات پر پابندیاں تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھیں۔ پہلے سیفٹی ایکٹ اور دوسرے قانون استعمال ہوتے تھے۔ 1953 کی احمدی مخالف تحریک میں حکومت پنجاب نے کئی اخبارات پر پابندیاں عائد کیں۔ کئی کی طباعت منسوخ کردی۔ فیلڈمارشل صدر ایوب خان کا دَور(1958سے 1969) پاکستان میں صنعتی پھیلائو۔ اور سماجی استحکام کا زمانہ ہے۔ مارشل لاء ہے۔ اس لیے سیاست اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لازم و ملزوم ہیں۔ سیاستدانوں پر ایبڈو کا قانون نافذ کیا گیا۔ بہت سے سیاسی رہنمائوں کو اس قانون کے ذریعے نا اہل کیا جاتا ہے۔ اخبارات و رسائل کی زبان بندی کے لیے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس(1964) لایا جاتا ہے۔ 

یہ ایک زنجیر تھی۔ جس نے لکھنے والوں۔ اخبار رسالے چھاپنے والوں کے قلم کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اخبار کے ڈیکلریشن کا حصول مشکل سے مشکل تر کردیا گیا۔ پہلے سے نکلنے والے کئی اخبارات اس کی زد میں آگئے۔ اس کو صحافتی انجمنوں اور مالکان اخبارات نے بجاطور پر سیاہ قانون قرار دیا۔ اس کے ضابطے اور قواعد اتنے سخت تھے کہ ان کی پابندی بہت ہی مشکل بلکہ نا ممکن تھی۔ صوبائی محکمۂ اطلاعات کو اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی اخبار یا رسالے میں کوئی تحریر ۔ خبر۔ مضمون۔ اداریہ۔ نظم ۔ اس آرڈی نینس سے متصادم سمجھتا ہے تو وہ نوٹس جاری کرتا تھا کہ اخبار۔ رسالے میں اس عنوان کے تحت شائع تحریر پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس کے خلاف قاعدے سے متصادم ہے۔ کیوںنہ آپ سے 20 ہزار روپے زر ضمانت طلب کی جائے۔ 

پبلشر اس کا جواب دیتا تھا تو اگلا مرحلہ یہ ہوتا تھا کہ آپ کا جواب تسلی بخش نہیں پایا گیا۔ آپ فلاں تاریخ تک زر ضمانت 20ہزار روپے جمع کروائیں ورنہ آپ کا ڈیکلریشن منسوخ کردیا جائے گا۔ تیسرا مرحلہ یہ ہوتا تھا کہ آپ نے چونکہ مقررہ تاریخ تک زر ضمانت جمع نہیں کروایا ۔ اس لیے آپ کے اخبار یا رسالے کا ڈیکلریشن منسوخ Null and Void قرار دے دیا گیا ہے۔ اب اس کی اشاعت غیر قانونی ہوگی۔ اگر اس کی بھی خلاف ورزی کی جاتی تو دفتر اور پریسسر بمہر کردیے جاتے تھے۔ آج کی میڈیا کی نسل کو اندازہ ہونا چاہئے کہ اس وقت کے رپورٹر۔ سب ایڈیٹر۔ پبلشر اور ایڈیٹر کتنے دبائو میں اخبار۔ رسالہ نکالتے تھے۔ پاکستان میں اخباری کاغذ کی قلت رہی ہے۔ مشرقی پاکستان تھا تو وہاں کرنا فلی پیپر ملز(کھلنا) سے بھی نیوز پرنٹ مل جاتا تھا۔ بعد میں نیوز پرنٹ ہمیشہ درآمد کیا گیا ہے۔ اس کا بھی کوٹہ مقرر کیا جاتا رہا۔ اس کی اجازت کے حوالے سے بھی اخبارات کا صبر آزمایا جاتا تھا۔ منظور نظر اخبارات کے نیوز پرنٹ کوٹے میں کبھی مشکل ہوتی تھی نہ سرکاری اشتہارات کے اجراء میں کوئی پریشانی ہوتی تھی۔

اسّی کی دہائی تک زیادہ تر بینک۔ بڑے کارخانے۔ فضائی کمپنی ۔ سمندری کمپنیاں۔ ریاست کی تحویل میں تھیں۔ ان کے اشتہارات وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذریعے جاری ہوتے تھے۔ ناپسندیدہ اخبارات و رسائل کی حوصلہ شکنی کے لیے ان اشتہارات کے اجرا پر پابندی یا کمی بھی سرکار کا ایک ہتھکنڈہ رہا ہے۔

ایوب خان کے زمانے میں ہی ایک اور بھیانک میڈیا دشمن یہ اقدام کیا گیا کہ نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ اس میں کئی اخبارات بالخصوص پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے روزنامہ پاکستان ٹائمز۔ روزنامہ امروز۔ ہفت روزہ لیل و نہار۔ اور ماہنامہ اسپورٹس ٹائمز کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ ان کے علاوہ بھی روزنامہ مشرق۔ روزنامہ کوہستان بھی ٹرسٹ کے زیر اہتمام کردیے گئے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ(این پی ٹی) اس طرح حکومت کا مکبّر بن گیا۔ حکومت کا سرمایہ۔ سرکاری اشتہارات ۔ نیوز پرنٹ کوٹہ سب کا رُخ این پی ٹی کی طرف ہوگیا۔ دوسرے اخباری گروپ مزید دبائو میں آگئے۔

ایک طرف آزادیٔ اظہار پر پابندی کا سامنا تھا۔ دوسری طرف ٹیکنیکل پیش رفت۔ اس وقت روزنامہ ’جنگ‘ اپنے بانی میر خلیل الرحمن کی مدبرانہ منصوبہ بندی سے طباعت اور تزئین میں آگے نکل رہا ہے۔ ہفت روزہ ایڈیشن میں رنگین تصاویر بھی شائع کی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں سے خبروں اور تصاویر کے حصول کے لیے معاہدے بھی کیے جارہے ہیں۔ انگریزی اخبارات ملک کی مقتدرہ۔ بیورو کریسی اور فوج پر زیادہ اثر انداز ہوتے تھے۔ اس لیے ان کو اُردو اخبارات پر ایک فوقیت حاصل رہتی تھی۔ انگریزی میں طباعت کے باعث سفارت خانوں میں بھی ان کا رسوخ زیادہ رہتا تھا۔ ان کے بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں سے صرف خبروں کے ہی نہیں فیچرز کے تصاویر کے کامکس۔ اور کارٹونوں کے معاہدے بھی رہتے تھے۔

1964میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی وژن کے دَور میںبھی داخل ہوجاتا ہے ۔ خواہش یہی ہے کہ حکومتی فرامین لوگوں کے گھروں تک پہنچیں۔

بھوک اور علم پہ ترجیح ملی ٹی وی کو

تاکہ فرمان شہی خواب گہوں میں اترے

ایوب خان حکومت کے خاتمے کے بعد ایک اور مارشل لاء بلکہ تازہ دم مارشل لاء اور ہشاش بشاش جنرل آجاتے ہیں۔ یحییٰ خان آزادیٔ صحافت کا نیا فارمولا لے کر آتے ہیں کہ اخبارات سیاستدانوں۔ سیاسی پارٹیوں۔ تاجروں۔ صنعت کاروں ۔ اساتذہ کے بارے میں جو چاہے لکھیں۔ ان کے اسکینڈل شائع کریں۔ صرف یحییٰ خان اور فوج کے بارے میں کچھ نہ لکھا جائے۔ اس عرصے میں بھی اخبارات اور رسائل پر پابندیاں عاید کی گئیں۔ نیشنل پریس ٹرسٹ بھی قائم رہتا ہے۔ اس دوران میں کچھ نئے اخبارات بھی شائع ہوجاتے ہیں۔ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ترجمان روزنامہ مساوات نمایاں ہے۔ الیکشن کے دنوں میں مولانا کوثر نیازی کا ہفت روزہ ‘ شہاب‘ بھی بہت مقبول ہوتا ہے۔ 

انتخابی مہم ایک سال جاری رہتی ہے۔ جس سے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے انگریزی اُردو۔ بنگلہ سندھی روزناموں اور رسالوں کی اشاعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن سے تمام سیاسی لیڈروں کے انٹریوز نشر ہوتے ہیں۔ جنہیں دونوں بازوئوں کے عوام بہت دلچسپ اور عقیدت سے سنتے ہیں۔ اخبارات و رسائل کے لیے مقبولیت کے حوالے سے یہ بہت اہم عرصہ ہے۔ مگر اس کا اختتام سقوط مشرقی پاکستان کے عظیم المیے پر ہوتا ہے۔ پاکستان کا بڑا بازو کٹ جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے دوران قبل از اشاعت سنسر بھی نافذ ہوتا ہے کچھ اخبارات بند بھی ہوتے ہیں۔ جب عوامی لیگ کا غلبہ تھا۔ اس وقت وہ اپنے مخالف اخبارات کے دفاتر پر چڑھائی کرتے ہیں۔ انہیں دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔

1971 کی جنگ میں ظاہر ہے کہ اخبارات کو سنسر کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ نیوز پرنٹ کے مسائل ہیں۔ فوجی کارروائی کے خلاف مضامین اداریوں پر گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں۔ روزنامہ ’مساوات‘ کو بہت سی خبریں شائع کرنے سے روکا جاتا ہے۔

عالم اسلام کے سب سے بڑے سانحے سقوط ڈھاکا کی خبر سنگل کالم صرف پانچ چھ سطروں میں شائع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

اخبارات کے لیے یہ دَور بہت مشکل ہے۔ نیوز پرنٹ کی قلت۔ خبروں پر پابندیاں۔

ذوالفقار علی بھٹو بر سر اقتدار آتے ہیں تو سب کو توقع ہے کہ اب صحافت کی آزادی کا دَور ہوگا۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم نہیں ہوں گے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ توڑ دیا جائے گا۔ مگر ان میں سے اکثر توقعات پوری نہیں ہوتی ہیں۔ بعض اخبارات بھٹو صاحب کے بارے میں ایسے ذاتی الزامات عائد کرتے ہیں جو اخلاقیات سے گرے ہوئے ہیں اس لیے بعض اخبارات بند کیے جاتے ہیں۔ گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں۔ نیشنل پریس ٹرسٹ قائم رہتا ہے۔

روزنامہ ’جنگ‘ کے خلاف انکم ٹیکس کی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ’جنگ‘ بھٹو صاحب سے یہ اپیل بھی کرتا ہے کہ ’بھٹو صاحب۔ اپنی اے ٹیم لائیں۔‘‘ کراچی سمیت سندھ میں جب لسانی فسادات ہوتے ہیں تو سندھ میں قبل از اشاعت سنسر بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اس وقت روئیداد خان چیف سیکرٹری سندھ ہیں۔ وہ ایڈیٹروں کو اس سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں اور دھمکیاں بھی۔

دائیں بازو کے اخبار نویسوں اور اخبارات کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں۔ نیشنل پریس ٹرسٹ نہیں ٹوٹتا۔ اور نہ ہی پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس تحلیل کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس کے اطلاق میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

بھٹو صاحب کے دَور میں پاکستان ٹیلی وژن سیاہ و سفید سے آگے بڑھ کر رنگین ہوجاتا ہے اور بعد میں جب سفّاک آمر جنرل ضیاء الحق اپنی رنگین وردی میں ٹی وی پر نظر آتے ہیں تو بھٹو صاحب جیل سے اپنے بیان حلفی میں یہ کہتے ہیں کہ میںنے پاکستان ٹیلی وژن کو رنگین اس لیے نہیں کیا تھا کہ ایک غاصب اپنی رنگین یونیفارم میں جلوہ گر ہو۔

جنرل ضیا کا دَور (جولائی 1977سے اگست 1988) اخبارات و رسائل کے لیے بہت زیادہ خطرناک اور سخت رہتا ہے۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز کے تحت بہت سے اخبارات و رسائل بند کیے جاتے ہیں۔ جس میں میرا ہفت روزہ ’معیار‘ بھی شامل تھا۔ اخبار نویسوں کو کوڑے بھی لگائے جاتے ہیں۔ روزنامہ ’مساوات‘ کی بندش پر ملک گیر احتجاج ہوتا ہے۔ سینکڑوں اخباری کارکن خود گرفتاریاں پیش کرتے ہیں۔ بہت سوں کو گھروں سے اٹھالیا جاتا ہے۔ سیاسی خبروں پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ مجھے بھی دو مہینے کراچی اور حیدر آباد کی سنٹرل جیلوں میں گزارنے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

1979 میں اخبارات و رسائل پر قبل از اشاعت سنسر کا جبر نازل ہوتا ہے۔ تمام اخبارات و رسائل پر پاگندی ہے کہ کوئی بھی سنسر کرائے بغیر شائع نہیں ہوگا۔ محکمۂ اطلاعات کے دفاتر میں انفارمیشن آفیسر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ کونسی خبر اداریہ۔ کالم اشتہار شائع ہوگا یا نہیں ہوگا۔ سندھ میں پہلے دن جب اخبارات اپنی کاپیاں لے کر محکمۂ اطلاعات پہنچتے ہیں تو وہاں ایک کرنل صاحب نگرانی کررہے ہیں۔ وہ اخبارات کے پہلے صفحے پر شہ سرخی دیکھتے ہیں۔ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ کیا ہے۔ سب کی شہ سرخی ایک ہونی چاہئے۔

وہاں جتنے بھی اخبارات کے مالک ۔ مدیر۔ نیوز ایڈیٹر تھے۔ انہیں اس روز ’یونیفارم‘ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ قبل از اشاعت سنسر کئی ماہ تک نافذ رہتا ہے۔ کچھ دن اخبارات کاپی سے اتاری گئی ۔ خبروں کی جگہ خالی چھوڑتے رہتے ہیں۔ مارشل لاء حکام اس پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔ اور حکم صادر ہوتا ہے کہ سب اخبارات کچھ متبادل خبریں۔ مضامین لے کر آیا کریں۔ خالی جگہ نہیں چھوڑی جائے گی۔

میں ان دنوں ’اخبار جہاں‘ کے لیے ’کراچی کی فضائوں سے‘ کالم لکھتا تھا۔ ہم نے یہ راستہ اختیار کیا کہ کالم پہلے سے انفارمیشن آفیسر کی خدمت میں پیش کرکے سنسر کروالیا جاتا تھا تاکہ بعد میں کاپی کے وقت اکھاڑ پچھاڑ نہ ہو۔ یہ بہت ہی تاریخ ساز دن ہیں۔ جب محکمۂ اطلاعات سندھ کے آفیسرز۔ خواتین مرد۔ سب پہلے سے قینچیاں۔ سرخ قلم اور گوند لے کر بیٹھے ہوتے تھے۔ پورے ملک میں ہر بڑے چھوٹے اخبار کو اس مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔ اخبار کی اشاعت میں تاخیر بھی ہوتی تھی۔ سوشل میڈیا سے سرشار نسل کو اسّی کی دہائی کے اس ابتدائی برسوں کے حالات کی آگاہی ہونا چاہئے۔ تب انہیں اندازہ ہوگا کہ آج کی آزادی کن دُشواریوں۔ آبلہ پا ئیوںکے بعد نصیب ہوئی ہے۔

جنرل ضیا کے دَور میں جب محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنتے ہیں تو وہ اپنے مرشد روحانی پیر صاحب پگاڑا اور اپنے صدر جنرل ضیا کی توقعات کے برعکس نکلتے ہیں۔ تاریخ انہیں یہ موقع عطا کرتی ہے کہ ان کے دَور میں جب الٰہی بخش سومرو وزیر اطلاعات ہیں۔ اس وقت پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نیننس کی باقاعدہ تدفین عمل میں آتی ہے۔ بعد میں اس کے متبادل قوانین بھی لائے جاتے ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَور میں اخبارات کو نسبتاً آزادی میسر آتی ہے۔ لیکن نیشنل پریس ٹرسٹ قائم رہتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کے دَور میں بھی یہی عالم رہتا ہے۔ جمہوریت کے دعوئوں کے باوجود اخبارات و رسائل پر قدغن اسی طرح رہتی ہے۔ اپنے حامی اخبار نویسوں کو نوازے جانے اور مخالفین کے خلاف کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے دوسرے دَور میں 1998میں روزنامہ ’جنگ‘ زیر عتاب آتا ہے۔ ’لندن‘ کے ایک اخبار میں ان کی کرپشن کے بارے میں خبر کی اشاعت روکنے کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے۔ 

مشاہد حسین اس وقت وزیر اطلاعات ہیں۔ جب انتقامی کارروائی شروع ہوتی ہے۔ تو نہ صرف انکم ٹیکس حکام کو حرکت میں لایا جاتا ہے ۔ ایف آئی اے والے بھی چھاپے مارتے ہیں۔ اخبار کا نیوز پرنٹ بندرگاہ پر روک لیا جاتا ہے۔ اتنا ظلم۔ جبر کہ اخبار صرف چار صفحات کا رہ جاتا ہے۔ باقاعدہ ایک فہرست جاری کرکے کہا جاتا ہے کہ ان صحافیوں کو برطرف کیا جائے۔ فلاں صاحب کو پورے گروپ کا ایڈیٹر بنایا جائے۔ میر شکیل الرحمن استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کسی بھی صحافی کو نوکری سے نکالنے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔

حکومت کا یہ جبر ایک طویل عرصے تک جاری رہتا ہے۔مشرف دَور ابتدا میں اخبارات و رسائل کے لیے بہتر رہتا ہے۔ ان دنوں پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلوں کی اجازت پر بھی غور ہوتا ہے۔ کارگل میں پیشقدمی کے بعد جو ہزیمت ہوتی ہے اس پر بھارت میں پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے ذریعے بھارت اپنے فوجی موقف کو بڑی کامیابی سے بھارتی عوام کے ذہنوں پر مرتب کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی عسکری حلقوں میں یہ ذہن بنتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسا متحرک اور تھر تھراتا پرائیویٹ الیکٹرونک میڈیا ہو تو ہم بھی اپنے موقف کو نہ صرف اپنے عوام کے ذہنوں میں مرقسم کرسکتے ہیں۔ 

بلکہ بھارتی میڈیا کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔ شیخ محمد رشید ان دنوں وزیر اطلاعات ہیں۔ پہلے تو یہ دبائو ہے کہ پہلے سے موجود اخباری گروپوں کو ٹے وی چینل لا لائسنس نہ دیا جائے۔ اس طرح اجارہ داری قائم ہوجائے گی۔ لیکن بعد میں Cross Media Ownershipدہری میڈیا ملکیت کی منظوری ہوجاتی ہے۔ مشرف دَور میں آزاد۔ پرائیویٹ الیکٹرونک میڈیا کی اجازت دی جاتی ہے۔ بعد میں پھر چینل بند بھی کیے جاتے ہیں۔ جیو خاص طور پر 77دن بند رہتا ہے۔ ان دنوں پورے ملک میں آزادیٔ صحافت کے لیے پھر ایک تحریک چلتی ہے۔ گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں۔

الیکٹرونک میڈیا کے آنے کے بعد پرنٹ میڈیا ثانوی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ لوگ جب 24گھنٹے تازہ ترین خبریں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ سن رہے ہیں۔ تو وہ اگلے روز وہی خبریں پڑھنے کے لیے اخبار کیوں خریدیں۔

الیکٹرونک میڈیا کی اپنی مشکلات ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں چینل آنے کے بعد اتنی تعداد میں تربیت یافتہ رپورٹرز۔ ٹیکنیکل اسٹاف نہیں ہے۔ بہت مہنگا میڈیم ہے۔ اس کی مشینیں آلات۔ اسٹاف کی تنخواہیں الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ ہی سوشل میڈیا کی مختلف اقسام بھی وجود میں آرہی ہیں۔ کائنات سمٹ گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی ایجاد نے پرانی اجارہ داریاں ختم کردی ہیں۔ آمریتیں جمہوریتیں بادشاہتیں۔ سب پریشان ہیں۔ فرد کو آزادی مل رہی ہے۔ وہ جو چاہے سوشل میڈیا پر بول رہا ہے۔ اپنا اظہار کررہا ہے۔ جھوٹی خبروں کو بھی نمایاں جگہ مل رہی ہے۔ وڈیو۔ آڈیو جعلی بھی بنائی جارہی ہے۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں جعلی خبروں Fake News کا بازار گرم ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ریاستوں ۔ فوجوں۔ بیورو کریسی سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ 

پرائیویٹ یو ٹیوب چینل۔ ویب سائٹس۔ واٹس ایپ گروپ۔ ٹوئٹر نے باقاعدہ میڈیا یعنی اخبارات اور ٹی وی چینل دونوں کو مدافعت پر مجبور کردیا ہے۔آج میڈیا منظر بدلا ہوا ہے۔ بعض بلاگرز بڑے بڑے اخبار نویسوں۔ کالم نگاروں سے کہیں زیادہ مقبول ہیں۔ حکومتیں گھبرارہی ہیں۔ریاستیں دم بخود ہیں۔آزادی کے 75ویں سال میں اخبارات رسائل۔ ریڈیو ٹی وی سب کو نئے راستے اختیار کرنے ہوں گے۔ ریڈیو بھی پرائیویٹ ملکیت میں قائم ہورہے ہیں۔ یہ علاقائی ریڈیو۔ مقامی ریڈیو۔ قومی ریڈیو کے لیے چیلنج بن رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی غالب ہورہی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی بھی درآمد کررہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کی پوری تربیت حاصل نہیں کررہے ہیں۔ امریکہ یورپ میں ہر روز ٹیکنالوجی ایک نیا افق تسخیر کررہی ہے۔ ہر لمحے کوئی نئی ڈیوائس کوئی نیا میڈیا سامنے آرہا ہے۔ اب دولت کے ساتھ ساتھ بصیرت اور تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے ورنہ ہم ٹیکنالوجی کے یرغمال بن رہے ہیں۔ انسان نہیں ٹیکنالوجی انسان کو استعمال کررہی ہے۔