ڈاکٹر خالدہ غوث
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعین اس کے عدم استحکام اور عدم تحفظ کے پیش نظر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کووجود میں آنے کے فوراً بعد ہی بھارت کے ساتھ ایک محدود نوعیت کی جنگ لڑنا پڑی جس سے اسے اندازہ ہوگیاکہ اسے اپنا دفاع اور اقتصادی حالت مستحکم کرنی چاہیے۔ پاکستان ایسے زمانے میں وجود میں آیا تھا جب دنیا دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے والوں کے پیش نظر اس وقت دو اہم مقاصد تھے۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تحفظ کیا جائے اور دوسرا مقصدبین الاقوامی برادری میں پاکستان کا مناسب مقام بنانا تھا۔
جب پاکستان وجود میں آیا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ آبادی کے لحاظ سے بھی دنیاکاپانچواں بڑا ملک تھا۔ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے کے بعد یہ سب سے بڑا اسلامی ملک تو نہیں رہا پھر بھی دنیا کے زیادہ آبادی والے ممالک میں سے ایک ملک اب بھی ہے۔ 1971کا سانحہ اس کی سیاسی اورجغرافیائی اہمیت میں کوئی کمی نہیں کرسکا کیونکہ یہ ملک ایسے علاقے میں واقع ہے جو متعدد جنگوں اور بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ پاکستان کو خلیج کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل ہے اور یہ ملک ایک معتدل رویہ رکھنے والی مسلم مملکت کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے ڈرامائی واقعات نے اس کی خارجہ پالیسی پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور اسے ہمیشہ سے فوجی معاہدے اور اقتصادی تعاون کے اشتراک پر مجبور کررکھا ہے۔
پہلا دور۔ 1947۔1958
اس زمانے میں پاکستان اپنے وجود کے ابتدائی تعمیراتی دور سے گزر رہا تھا جبکہ بین الاقوامی سیاسی رجحانات و معاملات آہستہ آہستہ شدید اختلافات کی لپیٹ میں آرہے تھے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور روس سپر پاورز بنے ہوئے تھے اوردنیا کو سرمایہ دار اور سوشلسٹ بلاکوں میں تقسیم کرنے میں اہم رول ادا کررہے تھے۔ بین الاقوامی سیاست کا انحصار نظریات پر تھا۔ اس کے برعکس پاکستان نیا نیا وجود میں آیا تھا اور اقتصادی و عسکری اعتبار سے نہایت کمزور تھا۔ پاکستان کو ورثے میں نہ تو کوئی ادارے ملے تھے اور نہ ہی کوئی انفرااسٹرکچر اس کے حصے میں آیا تھا۔ ایسی صورتحال میں کشمیر کے مسئلے پر بھارت نے اسے جنگ لڑنے پر بھی مجبور کردیا تھا۔ جنگ بندی اقوام متحدہ کی مداخلت کے ذریعے ہوئی تھی۔
مگر کشمیر کے مسئلے نے پاکستان کی دفاعی اہمیت کو واضح کر دیا تھا اور پاکستان مجبور ہو گیا کہ وہ اپنے دفاع کو بہتر بنانے کے لئے بیرونی طاقتوں سے رجوع کرے۔ 1954ء میں جو باہمی تعاون کا معاہدہ عمل میں آیا تھا اس نے جلد ہی پاکستان کے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں میں داخلے کی راہ ہموار کردی۔ یہ تینوں فوجی معاہدے تھے۔ سینٹو میں امریکا شاید اس لئے شامل نہیں تھا کہ اس معاہدے کے اراکین میں سے ہر ایک کے ساتھ امریکا کا امدادی پیکٹ موجود تھا۔ ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کی فوجی قوت میں کچھ اضافہ ہوا تھا۔ بقول مورس جیمس کے ’’تین سال پہلے کی صورتحال کے بالکل برعکس ایوب خان اب چار انفنٹری ڈویژنز اور ڈیڑھ آرمڈ ڈویژن کو جدید امریکی اسلحہ سے لیس ہونے کی توقع رکھتے تھے کہ جدید طرز کے ٹینک، بندوقیں، ٹرک، جیپ، انجینئرنگ اور سگنل ایکوئپمنٹ بغیر کسی معاوضے کے فوج کو دیا جانا تھا۔ اس کے ساتھ جدید لڑاکااور ٹرانسپورٹ طیارے پاکستانی فضائیہ کو دیے جانے تھے اور جدید جنگی جہاز پاکستانی بحریہ کو ملناتھے۔ یہ تمام چیزیں صرف ا یک بار نہیں ملنا تھیں بلکہ امریکا کی طرف سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس جنگی ساز و سامان کو جدید تر بناکر دیا جائے گا۔ اگر کوئی سامان خراب ہو جائے گا یا پرانا ہو جائے گا تو اس سامان کو نئے اور جدید طرز کے سامان سے تبدیل کردیا جائے گا‘‘۔
پاکستان امریکا کی طرف کیوں جھک گیا تھا؟ اس نے کسی بھی کمیونسٹ پیش قدمی کو روکنے کے لیے بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل تک ایک رکاوٹ کھڑی کرنے میں امریکا کی مدد کیوں کی تھی اور پھر اس حصار کا ایک لازمی حصہ بن کر امریکا کو اپنی سرزمین پرخفیہ معلومات جمع کرنے کا اجازت نامہ کس لیے پیش کیا تھا؟ان سوالوں کے جوابات کئی طرح سے دیئے جا سکتے ہیں: (1) پاکستان کو فوری طور پر بھارتی حملے کے خطرے کا مقابلہ کرنا تھا۔(2)روس اپنی توسیع پسند پالیسی پر عمل پیرا تھا اور اس نے مشرقی یورپ میں اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں پیش قدمی شروع کردی تھی۔(2)امریکا معاشرتی بحران سے کام یابی کے ساتھ باہر نکل آیا تھا۔
اس کے ساتھ اس کے پاس ایک بڑا فوجی منصوبہ بھی تھا۔ پھر یہ کہ امریکا دوسرے ممالک کی نسبت تیکنیکی لحاظ سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ ان حالات میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں خارجہ پالیسی بنانے والوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا یعنی ایک بہتر دفاعی نظام اور معاشی سماجی حالات میں ترقی کا امکان پا لیا تھا ،لیکن یہ سب کچھ اس قیمت پر ہوا تھا کہ پاکستان مغربی بلاک کا بہت واضح حلیف بن گیا تھا۔
پاکستان کے ابتدائی دس برسوں میں لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون کی حکم رانی رہی۔ پہلے دس برسوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کا مقصد تمام ممالک کے ساتھ (خاص طور پر) امریکا اور مسلم ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات کا قیام اور ان کی بہتری کی کوشش کرنا تھا۔ ابتدائی دس برسوں میں تمام وزرائے اعظم نے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور استوار کرنے میں سخت جدوجہد کی۔ محمد علی بوگرہ نے اگست 1953ء میں بھارتی رہنمائوں سے مذاکرات شروع کیے تھے۔ وہ بھارتی وزیراعظم سے ملنے دہلی گئے تھے اور ایک پریس اعلامیہ جاری کیا گیا تھاجس میں کہاگیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے منصفانہ استصواب رائے ہی بہترین حل ہے جس کے ذریعے کشمیر کے عوام کی مرضی معلوم کی جا سکے۔
اس اعلامیے کو پاکستان کی ڈپلومیسی کی کام یابی کہا گیا تھا کیوں کہ بعد میں بھارت کو اپنے عہد سے روگردانی کرنا پڑی تھی کہ اب یہ عہد پابندی کے لائق نہیں رہا ہے۔ مگر یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کادوسرا معاہدہ تھا۔ پہلامعاہدہ 1949ء میں جنگ بندی کا سمجھوتا تھا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا تقرر کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر پاکستان کے کنٹرول میں رہا اور جموں اورکشمیر کی وادیاں بھارت کے قبضے میں رہیں۔ اس وقت سے دونوں ملکوں کے درمیان کنٹرول لائن قائم ہے جو بین الاقوامی سرحد نہیں ہے۔ پانی کے جھگڑے کے بارے میں مئی 1948ء کا معاہدہ پاکستان کی ڈپلومیسی کے لئے ایک چیلنج تھا۔ دونوں ملکوں کو متبادل پانی کے ذرائع کو ترقی دینا تھی۔ چونکہ اس معاہدے کے دو فریق متبادل ذرائع کے بارے میں متفق نہیں ہو سکے تھے اس لیے پاکستان نے اس معاہدے کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن بھارت نے معاہدے کو تسلیم کرتے ہوئے پوکھران پروجیکٹ پرکام جاری رکھا۔
اس اسکیم کے ذریعے دریائے ستلج کا پانی راجستھان کے علاقے میں منتقل کیا جا رہا تھا جو بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ اس کارروائی کے سنگین نتائج کا احساس کرتے ہوئے اور یہ خیال کرتے ہوئے اس جھگڑے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان نفرت کی مستقل بنیاد پڑ جائے گی پاکستان نے اس خطے کو بین الاقوامی حیثیت دےدی اور عالمی بینک کے صدر یوجین بلیک نے اس معاملے میں ثالث کاکردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں سندھ طاس معاہدہ عمل میں آیا ۔ اس معاہدے پر کراچی میں جنرل ایوب اور نہرو نے دست خط کیے۔
دوسرا دور……1958۔1969
ہماری خارجہ پالیسی کا دوسرا دورجنرل ایوب خان کے دور حکومت پر محیط ہے۔ایوب خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کا جھکائو چین کی طرف بڑھ گیا تھا۔ شاید اس کا سبب یہ تھا کہ امریکا کی جانب سے پابندی عائدہونے کے بعد پاکستان اسلحے کے حصول میں ناامید ہو گیا تھا۔ اس وقت خارجہ پالیسی کو بہت ہی مشکلات کا سامنا تھا۔ بھارت کے جنگی عزائم کا سامنا کرنا، اپنے دفاع کے لیے اقدامات کرنے ،اپنی دفاعی پالیسی کی تشکیل نو کرنا، نہری پانی کا جھگڑا طے کرنا، چین اور پاکستان کی سرحد کا مسئلہ حل کرنا، بھارت اور پاکستان کی جنگ، اسلحے پر پابندی اور تاشقند کا سمجھوتا، جیسے مسائل پاکستان کے سامنے کھڑے تھے۔
1960میں بھارت اور پاکستان کی مذاکراتی ٹیموں نے مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد کے مسائل پر بات چیت کی۔ رن آف کچھ کے جھگڑے کے علاوہ باقی تمام معاملات طے پاگئے[ مگر رن آف کچھ کے مسئلے پر اختلافات میں اضافہ ہوتاگیا۔ یہاں تک کہ اس جھگڑے کو طے کرنے کےلیے ثالثی کا اصول تسلیم کیاگیا اور اس کا شمالی نصف حصہ پاکستان کو دے دیا گیا۔ برطانیہ نے اس خطے میں ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے معاہدہ کرایا۔ اس معاہدے سے پتا چلتاہے کہ برطانیہ نے پاکستانی دفاعی تقاضوںاور قانونی حق کو سامنے رکھا تھا۔
بھارت ۔ پاکستان اور کشمیر کا تنازع
ایوب خان کے دور میں دونوں ممالک نے کوشش کی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے پرامن طور پر حل کر لیا جائے۔ برطانیہ اور امریکا نے کوشش کی کہ بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔ دونوں ممالک معاملات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں۔ پانچ مہینوں کے دوران وزیروں کی سطح پر گفتگو کے پانچ دور ہوئے۔ مذاکرات کا پہلا دور راولپنڈی میں ہو رہا تھا جہاں سے بھارتی مندوب اس بیان پر ناراض ہو کر واپس چلا گیا تھاجو ایک دن پہلے جاری کیا گیا تھا اور اس میںکہاگیا تھا کہ چین اور پاکستان ایک مشترکہ سرحد پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چین نے آزاد کشمیر پر پاکستان کاحق تسلیم کر لیا تھا۔ بھارت کی ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر اس اعلان کا مقصد کوئی بدمزگی پیداکرنا نہیں تھا۔
دو ہفتوں بعد دونوں کی ملاقات پھر دہلی میں ہوئی۔ طرفین نے فیصلہ کیا کہ دونوں علاقوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد کھینچنے کا مسئلہ اور اس علاقے اوراس کے آس پاس سے مسلح افواج کو ہٹانے کا مسئلہ بھی کشمیر کے تصفیے میں شامل کر لیا جائے۔ بات چیت کے اختتام پر طرفین نے کام یابی کا دعویٰ کیا لیکن 24؍جنوری کو محمد علی بوگرہ کا انتقال ہوگیا اور بھٹو کو وزیرخارجہ بنا دیاگیا۔ اس کے بعد مذاکرات کے تیسرے چوتھے اور پانچویں دور میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی،کیوں کہ دونوں کے نقطہ نظرمیں بڑا فرق آچکا تھا۔ بھارت نے تجویز پیش کی کہ سیزفائر لائن کو ہی سرحد بنا لیا جائے، لیکن پاکستان نے اسے تسلیم نہیں کیا کیوں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان استصواب رائے کے مطالبے سے دست بردار ہو گیا ہے۔
ان تینوں ادوار میں دونوں حریف اپنے مؤقف پر سختی کے ساتھ قایم رہے اور مذاکرات بھی کرتے رہے۔ شاید امریکا اور برطانیہ کے ذریعے مذاکرات کے آخر ی رائونڈ میں پاکستان نے یہ تجویز پیش کی کہ چھ ماہ کے لیے وادی کشمیر کو بین الاقوامی نگرانی میں دے دیا جائے اوراس کے بعد وہاں استصواب رائے کرایا جائے۔ بھارت نے پاکستان کی یہ تجویز رد کردی اور مذاکرات تعطل کا شکار ہو کر ختم ہوگئے۔ مذاکرات تو ناکام ہوگئے، مگر ان سے ایک بات تو ظاہر ہو ئی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ سے پاکستان کی طرف بھارت کے مخاصمانہ رویے کی ایک اور نشان دہی ہوتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری دشمنی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ لہٰذا دونوں ملکوں میں سماجی بہبود کی نسبت دفاعی اخراجات پر زیادہ رقم خرچ کی جائے گی۔ 1968ء میں بھارت کےوزیر خزانہ مرارجی ڈیسائی نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ اس سال 1150ملین روپے کی مزید رقم دفاع پر خرچ کی جائے گی۔ اس طرح اسلحے کی دوڑ نے دونوں ملکوں کو معاشی و معاشرتی ترقی میں اضافہ کرنے سے روک دیا۔
اس جنگ کے موقعے پر امریکی غیر جانب داری نے پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے والوں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ امریکا کے ساتھ 1957ء کے ڈیفنس پیکٹ اور سیٹو اور سینٹو میں اپنی شمولیت کی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اپنی ترجیحات میں تبدیلی کی اور باہمی تعلقات پر زیادہ زو ردیاگیا۔ کچھ غیر ملکی مندوبین نے پاکستان کے دورے کیےجن سے پاکستان کی ان کوششوں کو شدید نقصان پہنچا جو پاکستان بھارت کے ساتھ دوستانہ اور انصاف اورباہمی احترام پرمبنی تعلقات قائم کرنے کے لیے کر رہا تھا۔ ایوب خان کے الفاظ میں:’’ اس معاملے میں سب سے اہم رکاوٹ بھارت کا پاکستان کی طرف معاندانہ رویہ ترک نہ کرنے پر اصرار تھا۔‘‘بھارت کےحملے اورامریکا کی طرف سے پاکستان کے لیے اسلحے پر پابندی نے یہ امر ضروری کر دیا تھا کہ پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی جائے۔
اعلان تاشقند سے اگرچہ جنگ بند کرانے میں ثالثی کردارکی اہمیت تو اجاگر ہوتی ہے مگر اس کے ذریعے پاکستان کے دفاع کو لاحق خطرات کا تدارک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ روسی وفد اوردوسرے وفود نے 1968ء کے شروع میں دورے کیے اور ان سے پاکستان کے سماجی، تمدنی اور تجارتی رشتوں کو فروغ حاصل ہوا۔ کچھ ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان اپنے باہمی تعلقات استوار کرنے کے لیے یورپ اور افریقا کے ممالک کوترجیح دے رہا تھا۔ اس دور میں پہلی مرتبہ پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تعلقات قائم ہوتے معلوم ہو رہے تھے۔
ان دونوں ممالک کے درمیان تین سالہ تجارتی معاہدہ ہوا جس پر جنوری 1969ء سے عمل درآمد شروع ہوا اور تجارت کا حجم بڑھ کر 300ملین روپے تک پہنچ گیا۔ پھر ایک پانچ سالہ تجارتی معاہدے پر دست خط کیے گئے۔ اس معاہدے کے تحت برآمدکیے جانے والے سامان میں خام اشیاء اور مصنوعات کی مقدار برابر سے شامل ہونا تھیں جو ہماری صنعتوں کے لیے انتہائی مفید اور کارآمد چیزیں تھیں۔
1960ء کی دہائی کی ابتداء ہی سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ پا ک چین سرحدی سمجھوتے پرمارچ 1963ء میں دست خط ہو چکے تھے اور یہ سمجھوتا دونوں ممالک کی ڈپلومیسی کی کام یابی کا نتیجہ تھا ۔لیکن بھارتی اس سمجھوتے سے سخت ناراض تھے کیوں کہ وہ اسے اپنے خلاف سمجھتے تھے۔اس سمجھوتے سے پہلے ایک تجارتی معاہدہ بھی ہو چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان اور چین میں تجارتی روابط بڑھ رہےتھے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو پسندیدہ ترین قوم کادرجہ دیا ہوا تھا۔اس تجارتی معاہدے کے بعد ایک فضائی معاہدہ بھی ہوا تھا جس سے امریکا ناراض ہوگیا تھا اور اس نے پاکستان کا3.4ملین ڈالرز کا وعدہ کیا ہوا قرضہ معطل کر دیا تھا۔
اس کے جواب میں چین نے پاکستان کو بغیرسود کے 60ملین ڈالرز کا قرضہ دینے کی پیش کش کی۔ دونوں ممالک کے درمیان اس وقت تک قریبی تعلق قایم ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں پاک چین سرحدی معاہدہ اورایک تمدنی معاہدہ وجود میں آیا تھا۔ چین کے ساتھ دوستی کی وجہ سے غیروابستہ ملکوں میں بھی پاکستان کو اہم حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ ایک طرف پاکستان دونوں فوجی معاہدوں کا رکن تھا اور دوسری طرف چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات تھے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں مسلسل بہتری آرہی تھی۔ دونوں ممالک بین الاقوامی اداروں اور پلیٹ فارم پر بھی ایک دوسرے کی حمایت کرتے تھے۔ پاکستان اور چین کی دوستی ایسی دوستی تھی جو آزمایش سے گزر چکی تھی اور جس پر دونوں کو فخر تھا۔
1960ء کی دہائی میں پاکستان بین الاقوامی قانون کی تشکیل میں بھی اہم کردارادا کر رہا تھا۔ پاکستان ہر طرح کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف تھا اوران ایشیائی اور افریقی ممالک کی حمایت میں آواز بلندکیے ہوئے تھا جواس نظام کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان دونوں براعظموںکے ملکوں کے درمیان خوش گوار تعلقات کا حامی تھا۔ اس طرح پاکستان کی ڈپلومیسی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور نہایت کام یاب تھی۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بے مثال کام یابی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
تیسرا دور … 1969۔1977
بین الاقوامی سطح پر تو ایوب خان تمام مسائل سے کاج یابیوں کے ساتھ عہدہ برا ہو رہے تھے مگر ملک کے اندر بے چینی پھیلتی جا رہی تھی۔’’اگر تلہ سازش کیس‘‘کی وجہ سےشیخ مجیب الرحمن کو گرفتارکرلیا گیا تھااور افراتفری کی وجہ سے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار دے دیا گیا تھا۔ یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالتے ہی 1962ء کا آئین معطل کر دیا، اسمبلیاں توڑ دیں اور ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ اس کے ساتھ ون یونٹ بھی ٹوٹ گیا تھا۔ یحییٰ خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلادیش بن گیا۔ ان کے زمانے میں پاکستان پر شدید تنقید ہوئی اور پاکستان کی شہرت سخت متاثر ہوئی خاص طور پر مشرقی پاکستان کے بحران کو صحیح طور پر حل نہ کرنے کی وجہ سے ان پر تنقید کی جا رہی تھی۔
حالات کی وجہ سے یحییٰ خان کے اقتدار کو زوال ہوا اور بھٹو کو پہلا سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹرمقرر کیا گیا۔ اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ بعد ہی بھٹونے پاکستان کو دولت مشترکہ سے باہر نکال لیا۔اس طرح شملہ معاہدے کے ذریعےپاکستانی قیدیوں کو واپس لانے کی راہ ہم وار ہوگئی ۔اس دور کے واقعات کی وجہ سے مغربی پاکستان سے بنگالیوں کی منتقلی اور مشرقی پاکستان سے غیر بنگالیوں کی منتقلی عمل میں آئی۔ پاکستان بیرونی طورپر خود کو بدلے ہوئے سیاسی حالات کے مطابق ڈھال رہا تھا۔ اس لیے1970ء کی دہائی میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں کئی تبدیلیاں کیں۔پاکستان نے ہنری کسنجر کا چین کا خفیہ دورہ کرانے میں اہم کردار اداکیا۔ اس طرح دوبڑی طاقتوں کے درمیان راہ ورسم کا راستہ بھی ہموار ہوا۔ اس دورے سے دو طرفہ تعلقات کی راہ بھی ہم وار ہوئی ۔یعنی چین، روس اور امریکا کے تعلقات بہتر ہونے کے مواقعے پیدا ہوئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان اپنی شناخت کی تلاش میں مسلم ممالک سے قریب ہوتا گیا،لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی اور مسلم امہ کی اہمیت پر زور دیا جاتارہا۔ بھٹو، قذافی اور یاسر عرفات نے ایک ایسا گروپ بنا لیا تھا جس سے مغرب بھی ڈرنے لگا تھا اور اسلامی بم کے خطرے کا اظہار کیا جا رہا تھا۔پاکستان نے فیصلہ کیا کہ وہ دونوں علاقائی فوجی معاہدوں سیٹو اور سینٹو کو چھوڑ دے گا۔ اس خیال کے ساتھ پاکستان نے اسلامی ممالک کی تنظیم اوراقوام متحدہ میں زیادہ سرگرمی سے حصہ لینا شروع کردیا۔ اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ وہ مغرب اور مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن قایم کرے۔
بدقسمتی سے ملک کے اندرونی حالات ایک بار پھر خراب ہوگئے۔ 1977ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہونے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی گئی اور اندرونی عدم استحکام نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی راہ ہم وار کردی۔جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو اس وقت عالمی سطح پر آزادی کی جدوجہد کا بہت زور تھا۔ فلسطینیوں کی تحریک آزادی سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو تقویت ملی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی۔ افغانستان پر روس نے قبضہ کرلیا تھا۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتاہے کہ ضیاء کے دور میں علاقائی حادثات وواقعات نے خارجہ پالیسی کے بارے میں فیصلوں کو آسان بنا دیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان کی خارجہ پالیسی کبھی اس قدر واضح نہیں تھی۔
1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کےنو ماہ بعد ہی افغانستان پر روس نے دھاوا بول دیا۔ افغانستان پرروسی قبضے نے پاکستان کو ایک بار پھر فرنٹ لائن ملک بنا دیا تھا۔
1990ء کی دہائی کے آغاز ہی سے امریکا نے پاکستان کو دی جانے والی امداد میں اضافہ کردیا تھا ۔ افغانستان میں دوبڑی طاقتوں کے درمیان بلواسطہ جنگ جاری تھی۔ اس وقت پاکستان کو بڑی اہمیت حاصل تھی کیوں کہ یہ ایسا ملک تھا جو روسیوں کو افغانستان سے نکال سکتا تھا۔ پاکستان نے اسلام آباد میں مسلم ممالک کانفرنس منعقد کی جس میں تقریباً تمام مسلم ممالک نے شرکت کی اور سب نے پاکستان کی حمایت کی ۔غیر وابستہ ملکوں کی بڑی تعداد کی طرف سے روس کے جارحانہ عزائم کی مذمت کی گئی۔
افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے سفارتی کام یابی ضرور حاصل کر لی تھی مگر اس کے سماجی اور تمدنی نتائج پاکستان پربہت گہرے انداز میںپڑے تھے۔ اس ضجن میں منشیات کی لعنت اور اسلحے کی بھرمار کو بدترین کہا گیا ہے۔
اسی دوران ایران، عراق جنگ میں پاکستان کا کرداراور او آئی سی میں پاکستان کا دوبارہ داخلہ قابل ذکر حقائق ہیں۔پاکستان نے مسلم ممالک کے اتحاد پر زور دیا ۔ جنرل ضیاء الحق نے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بند کرانے کی کوشش کی اور خود کو اس امن کمیٹی میں شمولیت کےلیے پیش کیا جس کمیٹی کی ذمے داری تھی کہ جنگ بند کرائی جائے۔ یہ کمیٹی جنگ تو بند نہیں کراسکی، مگر اس میں پاکستان کی شمولیت اور ضیاء الحق کے کردار کو مسلم ممالک میں ضرور سراہا گیا۔ مصر کو او آئی سی میں واپس لانے میں بھی ضیاء الحق نے اہم کردار ادا کیا۔ مصر کو اس تنظیم سے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے پر دست خط کرنے کے بعد نکال دیا گیا تھا۔
1988ء میں ضیاء الحق ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ان کی موت کے بعد پاکستان کو پھر پارلیمانی جمہوریت کے راستے پر ڈال دیاگیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان عدم استحکام رہا اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچا۔ پاکستان میں تیزی سے ایک کے بعد ایک حکومت کے برسراقتدار آنے کی وجہ سے پاکستان کی قوت میں کمی آئی اور سوویت یونین کے ٹوٹنے سے جو حالات پیدا ہوئے تھے پاکستان ان سے فایدہ نہیں اٹھا سکا۔
سرد جنگ کے بعد کادور
سرد جنگ کے خاتمے سے دنیا کے سیاسی نقشے میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ اب دنیا کی سیاست کا انحصار نظریات کی ایجاد پر نہیں رہا تھا۔ اب دیوار برلن کا وجود باقی نہیں رہا تھا کہ اب تو صرف ایک ہی سپرپاور باقی تھی جو دنیا پر اپنی مرضی کا ورلڈ آرڈر مسلط کرنا چاہتی تھی ۔ اب دنیا کو نئے خطرات اور غیر یقینی حالات کاسامنا تھا۔
دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کی مختلف فوبیاز ایک ساتھ کام کر رہی ہیں۔ اتنی بات تو عام طور پر کہی جا سکتی ہے کہ سرد جنگ کا دورجغرافیائی اور اقتصادی حقائق کا دور تھا۔ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے بعد کسی ملک کی سلامتی کا دارومدار اس کی اپنی معاشی ترقی اوراس کے اپنے معاشی استحکام پر ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے تجارتی رابطے نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک اور مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ استوار کرے بلکہ وسطی ایشیا کے ممالک سے بھی اپنے تجارتی تعلقات قائم کرے۔ اس صورتحال کےلحاظ سے پاکستان ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں سے ہم کئی علاقوں سے خود کو وابستہ کرسکتے ہیں۔
وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کے ظہور پذیر ہونے کے بعد بھی پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوئی ہے۔ ایسا خیال کرنا بھی غلط ہو گا کہ افغان جنگ ختم ہونے کے بعد پاکستان کے محل و وقوع کی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے مشرقی بازوکے کٹ جانے کے بعد بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان آج بھی تیل سے مالا مال خلیج کی ریاستوں اور وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کے درمیان راستہ مہیا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس کے ٹوٹنے سے ان دو علاقوں کے درمیان صدیوں کا پرانا مذہبی اور تمدنی رشتہ دوبارہ قائم ہوگیا ہے۔ جب افغانستان کی خانہ جنگی ختم ہو جائے گی تو وسط ایشیاکی ریاستوں کے لیے پاکستان کے ذریعے سمندر تک پہنچنے کا یہی مختصر ترین راستہ ہوگا۔
پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے ملک کی خارجہ پالیسی بنانے والوں کو اس حقیقت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اقتصادی تعاون کی جو کونسل 1985ء کے درمیان پاکستان،ایران اور ترکی نےقایم کی تھی اب اس میں افغانستان کے علاوہ وسط ایشیاء کی چھ اور ریاستیں بھی شامل ہوگئی ہیں ۔اس کونسل کا خاص مقصد یہ ہی ہے کہ باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے۔لیکن ای سی اوکے مستقبل کا انحصارافغانستان کی صورت حال پر ہےکہ ای سی او کے وجود کے لیے افغانستان میں امن قایم ہونا نہایت ضروری ہے۔افغانستان میں جاری جنگ کے بارے میں پاکستان کی پالیسی سے ظاہر ہوتاہے کہ اسے ای سی او کے مستقبل کی کس قدر فکر ہے۔
مختصراکہا جاسکتا ہے کہ تمام خامیوں اور کم زوریوں کے باوجود پاکستان نے درپیش چیلنجوں کے سامنے ردعمل کے طورپر ایک مضبوط سیاسی ارادے کا اظہار کیاہے تاکہ وہ اپنے مسائل حل کرسکے۔پاکستان کی سالمیت کو روایتی اور غیر روایتی خطرات کا سامنا ہے،مگر پاکستان میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ نئے دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتاہے اور سرد جنگ کے بعد کی عالمی طاقتوں کے نظام میں اپنے لیے جگہ بھی بنا سکتا ہے۔
(ترجمہ: این ایچ تمکین)