جتنی پرانی صحافت کی تاریخ ہے، اتنی پرانی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی! پاکستان تو ایک طویل جدوجہد کے بعد بن گیا مگر انگریزوں کے زیرسایہ تربیت حاصل کرنے والی بیوروکریسی نے صحافت کو پابند کرنے والے انہی قوانین کو یہاں بھی لاگو کروا دیا جو کبھی صحافیوں کے خلاف استعمال ہوتے تو کبھی سیاست اور شہری آزادیوں کے خلاف! لہٰذا جنگ آزادی کے بعد انہی کالے قوانین کو اپنے ملک میں نافذ کرنے کے خلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ ’’آزادی صحافت‘‘ آزادی اظہار اور جابر سلطان کے سامنے ’’انکار‘‘ کو آزادی کی لڑائی! وہ کالے قوانین آج تک لاگو ہیں تو لڑائی بھی بلاخوف جاری ہے۔
بات بانی پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے پہلی تقریر (11؍اگست 1947ء) پر پریس ایڈوائس کی ہو یا اس کے ایک سال بعد ان کی بیماری کے دوران ’’ایمبولینس‘‘ کی خرابی کی! نوکر شاہی نے صحافت کو اس انداز میں پابند کرنے کی کوشش کی جس طرح ’’انگریز‘‘ متحدہ ہندوستان میں کرتا تھا جدوجہد کو کچلنے کیلئے!
ابھی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم بنی نہیں تھی کہ 1948ء میں کئی اخبارات بند کردیئے گئے اور پھر 1949ء میں کراچی کے انگریزی اخبار ’’سندھ آبزرور‘‘ میں ہڑتال کردی جو کئی دن جاری رہی تھی۔ انہی دنوں میں کئی صحافیوں جن میں نمایاں لوگوں میں جناب اسرار احمد، ایم۔اے شکور، احمد علی خان، حامد زہری وغیرہ شامل تھے، سندھ یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد رکھی جو آگے جاکر 2؍اگست 1950ء میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں تبدیل ہوئی اور ایک ملک گیر تنظیم بن گئی جس کے تین بنیادی مقاصد تھے۔ (1)ملک میں آزادی صحافت کیلئے جدوجہد کرنا۔ (2)صحافیوں کے حالت زار کی لڑائی اور (3)صحافیوں کی بہتر تربیت۔ یہ تینوں لڑائیاں آج بھی جاری ہیں۔ ایک کا تعلق حکومت یا ریاست سے دوسری کا مالکان سے اور تیسری کا صحافیوں کی اپنی کمزوریوں اور ذمہ داریوں سے!
آزادی صحافت کی جدوجہد کبھی بھی آسان نہیں رہی اور پچھلے 75؍سالوں میں صحافی کبھی ریاست تو کبھی غیر ریاستی عناصر کے جبر کا شکار رہے۔ کبھی اخبارات بند ہوتے، کبھی رسائل تو کبھی صحافی! مگر جدوجہد رکی نہیں۔ فیض احمد فیض 1953ء میں ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر تھے، جب پہلی بار گرفتار ہوئے۔
صرف سیاستدانوں نے ہی نہیں صحافیوں نے بھی غداری کے مقدمات کا سامنا کیا۔ ایک صحافی ہمایوں مہر کو تو 80ء کی دہائی میں سزائے موت تک سنا دی گئی تھی جو بعد میں ان کی بیماری کی وجہ سے ملتوی کردی گئی اور پھر انہیں رہا کردیا گیا۔
صحافیوں نے صحافت کے اصولوں پر بھی قید کاٹی اور مارے بھی گئے۔ شاید بہت سے ساتھیوں کو یقین نہ آئے مگر 1963ء میں مغربی پاکستان کے گورنر نواب کالا باغ کے کہنے پر صحافی راجہ اصغر کو صرف اپنی خبر کی ’’سورس یا ذرائع‘‘ نہ بتانے پر ایسا ٹارچر کیا گیا جو کسی دہشت گرد یا جرائم پیشہ افراد پر بھی نہیں کیا جاتا مگر سلام ہے ان پر کہ انہوں نے پھر بھی بتانے سے انکار کیا۔ آج 75؍سال بعد صحافیوں کیلئے جرنلسٹس پروٹیکشن بل میں واضح طور پر یہ درج کیا گیا کہ صحافی سے اس کی سورس نہیں پوچھی جائے گی۔
راجہ اصغر اس وقت ’’حریت‘‘ اخبار میں کام کرتے تھے پشاور سے بعد میں وہ انگریزی صحافت میں آئے اور ’’ڈان‘‘ اخبار سے برسوں وابستہ رہے۔ وہ PFUJ کے بھی بانی اراکین میں سے تھے۔
راجہ صاحب کی خبر کا تعلق ایک سیکریٹ سرکلر سے تھا جس کے ذریعے اس وقت کے چیف سیکرٹری نے تمام سرکاری اداروں کے افسران کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ اگر اپوزیشن کے اراکین ان کے پاس کسی کام سے آئیں تو فوراً اعلیٰ حکام کو مطلع کریں۔ اس خبر کہ چھپنے پر راجہ صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ سخت سردی کا زمانہ تھا، پولیس نے ’’اوپر‘‘ کی ہدایت پر ’’سورس‘‘ معلوم کی مگر انہوں نے انکار کردیا۔
دو سال مقدمہ چلا۔ پولیس ریمانڈ کے دوران انہیں دریائے کابل کے قریب ایک بس میں لے گئی۔ رات بھر جگایا جاتا، اکثر نہلا کر باہر بٹھا دیا جاتا تو کبھی برف کی سل پر بیھٹنے کو کہا جاتا۔ اس وقت PFUJ کے صدر اسرار احمد تھے جنہوں نے یہ کیس لڑا اور پشاور کی عدالت نے 1965ء میں انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں اسرار صاحب نے اپنی کتاب میں یہ پورا واقعہ تحریر کیا۔ بدقسمتی سے اس اخبار کے مالک اور مدیر نے راجہ صاحب کے ساتھ کھڑے رہنے کے بجائے حکومتی دبائو میں انہیں نوکری سے نکال دیا۔
پاکستان کی صحافتی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ شاذونادر ہی مالکان صحافیوں کے دفاع میں کھڑے ہوتے ہیں، آخری مشکل خود صحافی کو جھیلنی پڑتی ہے۔ اپنی خبر کی سچائی پر کھڑے رہنا اور ’’سورس‘‘ نہ بتانا، صحافت کے بنیادی اصولوں میں آتا ہے۔ ایک بار ’’جنگ‘‘ گروپ سے وابستہ رپورٹر افضل ندیم ڈوگر پر بھی ایک سرکلر تھانوں کو بھیجنے والی خبر پر بغاوت کا مقدمہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم ہوا مگر بات FIR سے آگے نہیں گئی۔
’’ڈان‘‘ کے سابق رپورٹر جو اب ’’بزنس ریکارڈر‘‘ میں سینئر پوزیشن پر کام کررہے ہیں، سرفراز احمد کو میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے سلسلے میں قائم جوڈیشل کمیشن نے طلب کیا اور قتل کی ممکنہ وجوہات کے حوالے سے ایک خبر کے ذرائع معلوم کرنے چاہے تو انہوں نے کہا۔ ’’میں خبر پر قائم ہوؒں کہ یہ جھوٹی نہیں ہے مگر میں اپنی سورس کا نام نہیں بتا سکتا، چاہے آپ مجھے سزا دے دیں۔‘‘ یہاں بھی معاملہ زیادہ آگے نہیں گیا۔
آزادی صحافت محض صرف نعرہ نہیں رہا بلکہ ایک بہتر صحافت کے فروغ کی ایک ایسی جدوجہد کا نام ہے جس کی پاداش میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو مقدمات، ٹارچر، سول و فوجی عدالتوں اور کورٹس کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ یہ سب ثابت قدمی سے برداشت کرکے دفتر پہنچتے تو انہیں ہار پہنانے کے بجائے مالکان نوکری سے فارغ کرنے کا حکم نامہ تھما دیتے جیسا کہ راجہ اصغر اور بعد میں بے شمار صحافیوں کے ساتھ ہوا۔
1962ء میں ایوب خان کے دور میں پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کا اجراء ہوا جس کے بعد 1963ء میں ایک ترمیمی آرڈیننس بھی لایا گیا جس کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں اور کورٹ کی خبریں بھی پریس انفارمیشن کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی تھیں۔
میں یہ بات پورے اعتماد اور دعویٰ سے کہہ رہا ہوں کہ آزادی صحافت کی اعلیٰ اقدار کو قائم رکھنے اور بہتر معاشی حقوق کی جو لڑائی پاکستان کی صحافی برادری نے لڑی ہے، اس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔
ہمیں آج پاکستان بنائے 75؍سال ہوگئے ہیں۔ اس ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے پہلے بھی آزادی صحافت کیلئے عملاً جدوجہد کی، اخبارات کی بندش کے خلاف بھی اور سنسر شپ کے خلاف بھی! ہماری بدقسمتی کہ جناح کی رحلت اور ان کی بیماری کے حوالے سے بھی خبر کو چھپانے کی کوشش کی مگر ایمبولینس کی خرابی آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں صحافت 1948ء سے یا یوں کہیں کہ 1947ء سے ہی پابند سلاسل ہے۔ کبھی قوانین کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی غیر قانونی طریقے سے ’’نامعلوم افراد‘‘ جن کا سب کو معلوم ہوتا ہے، لے جاتے ہیں۔ کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں جو واپس آجاتے اور کچھ صحافی حیات اللہ اور سلیم شہزاد کی طرح بدقسمت ہوتے ہیں۔ ایک کی ہاتھ بندھی لاش ملتی ہے تو دوسرے کی دریا کے کنارے باڈی پائی جاتی ہے؎
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
میری صحافتی کمزوری یہ ہے کہ مجھے اس جدوجہد کا ماضی بھی پتا ہے اور حال بھی! ویسے تو اب ہماری صحافت، آزادی سے بربادی تک آگئی ہے مگر جن لوگوں نے جدوجہد کرکے اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جو تاریخ رقم کی ہے، وہ ایک بہتر صحافت اور لوگوں کو سچ جاننے کے حق کیلئے کی تھی۔
ماضی اگر حیات اللہ اور سلیم شہزاد کے واقعات یاد دلاتا ہے تو حال ناظم جوکھیو کے بہیمانہ قتل کے بعد ایک بھیانک داستان سناتا ہے اور پھر مرکزی ملزم پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کو پہلے اس مقدمہ سے باہر کیا گیا اور پھر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسے ذاتی دشمنی قرار دے کر دہشت گردی کی دفعات نکال کر سیشن عدالت منتقل کردیا۔ ناظم کی بیوہ بچاری کیا کرتی ’’راضی نامہ‘‘ کرلیا۔ آخر عدم اعتماد کی تحریک منظور کرانے کیلئے اس رکن اسمبلی کی ضرورت تھی۔ ’’مفرور‘‘ واپس آیا تو پی پی پی والوں نے اس کو ہار پہنائے۔ اس ناظم جوکھیو کا جرم کیا تھا ایک ’’ویڈیو‘‘ ہی تو بنائی تھی ’’غیر قانونی‘‘ شکار کی۔
پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں اظہار بھی مشکل ہے اور انکار پر بھی سزا ہے۔ بقول ہمارے صحافی دوست اور شاعر فاضل جمیلی؎
مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی
ہم مانگنا چاہیں گے انکار کی آزادی
میں نے آپ سے کہا تھا کہ آزادی صحافت کی جدوجہد کی دردناک داستانیں بیان کروں گا۔ اوپر حیات اللہ کا ذکر کیا ہے جسے اکتوبر 2005ء میں اغوا کیا گیا۔ اس کے قتل کے بعد بھی اس کے خاندان پر گھیرا تنگ ہوتا رہا اور پھر جب اس کی بیوہ انصاف کے در پر پہنچی اور جوڈیشل کمیشن کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ کون لوگ تھے تو اس کو انصاف تو خیر کیا ملتا ’’گولی‘‘ ملی اور اس طرح یہ قصہ بھی ختم ہوا۔
ایک لمبی فہرست ہے صحافیوں کے قتل کی اور وہ کونسی ’’خبریں‘‘ تھیں جن کی بنیاد پر انہیں راستے سے ہٹایا گیا، یہ سب آزادی صحافت کی جدوجہد کی کہانیاں اس وجہ سے بھی ہیں کہ انہیں سچ بولنے اور سچ لکھنے کی سزائیں ملیں۔
’’جیو‘‘ کے رپورٹر ولی خان بابر کا کیس تو اس وجہ سے بھی مختلف ہے کہ شاید ہی کسی اور صحافی کے قتل میں اس سے جڑے کئی کرداروں کو راستے سے ہٹایا گیا۔ غالباً سات افراد جن میں گواہ اور تفتیش کار شامل ہیں، نشانہ بنے شاید اس وجہ سے یہ مقدمہ بھی کراچی سے منتقل ہوا۔
امریکی صحافی ڈینل پرل جسے 23؍جنوری 2002ء کو کراچی سے اغوا کیا گیا اور سہراب گوٹھ کے نزدیک ایک کمپائونڈ میں اسے بہمیانہ طریقے سے قتل کیا گیا اور اس کی ویڈیو بھی بنا کر امریکی سفارت خانے کو بھیجی گئی کہ واقعہ نے پاکستان کو کو صحافیوں کیلئے دنیا کے پانچ خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔
یہ چند واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک طرف ملک کے قیام کے بعد آزادی صحافت کی جدوجہد کی پاداش میں صحافی گرفتار بھی ہوئے، جیلیں بھی کاٹیں، بے روزگاری بھی برداشت کی تو دوسری جانب جب صحافی نے قلم اٹھایا، سچ بتانے کی کوشش کی، اسے راستے سے ہی ہٹا دیا گیا۔ محض حکومت پر تنقید کرنا، تنقیدی بیانات کو خبروں کی زینت بنانا ہی آزادی صحافت نہیں ہوتی بلکہ حاکم وقت کی غلط کاریوں کو بے نقاب کرنا بھی اس کی اہم صحافتی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جانیں کہ ان کے حکمرانوں کا طرزحکمرانی کیسا ہے اور صحافت کی آزادی اسی لئے ضروری ہے۔
جدوجہد آسان نہیں تھی، کل بھی مشکل تھی اور آج بھی…! پہلے صحافی کم تھے مگر اپنے مقاصد میں پکے تھے۔ وہ حکومتوں سے دور اور سچ سے قریب رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب معاملہ ذرا الٹا ہوگیا ہے۔ بظاہر ہم ضرورت سے زیادہ آزاد ہوگئے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی صحافی غائب ہوجاتا ہے، کبھی چینل آف ایئر ہوجاتا ہے، کبھی دن دہاڑے حامد میر کو گولیاں ماری جاتی ہیں کراچی میں تو کبھی اسلام آباد میں اپنی اہلیہ کو اسکول چھوڑنے والے مطیع اللہ جان کو اغوا کرلیا جاتا ہے اور اس سب کے دوران اپنے ہی صحافی بھائی انہیں غدار کہتے پائے جاتے ہیں اور سوالات اٹھاتے ہیں۔
خواتین تو ویسے ہی اس معاشرے میں آسان ہدف رہی ہیں مگر صحافت میں اگر کوئی آصمہ شیرازی کی … لکھنے یا بولنے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے اس کی کردارکشی کی جاتی ہے۔ ہماری خواتین صحافیوں کی بھی لمبی فہرست ہے جنہوں نے آزادی صحافت کیلئے جدوجہد کی، کچھ نے لاٹھیاں کھائیں تو لالا رخ کی طرح اپنے ایک سالہ بیٹے کے ساتھ صحافیوں کی تحریک میں 1978ء میں جیل بھی کاٹی۔
صحافیوں نے جیلیں بڑے صبر سے کاٹی ہیں، نہ معافی نامہ دیا، نہ ضمانت کروائی، کوڑے لگ رہے تھے اور وہ آزادی صحافت زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ جیلوں سے بھی اخبار ’’زندان‘‘ نکالتے۔ ہفتہ روزہ ’’ویو پوائنٹ‘‘ پر پابندی لگی اور مدیر و مالک مظہر علی خان سمیت آئی۔اے رحمٰن، حسین تقی وغیرہ کو گرفتار کیا تو کوٹ لکھپت جیل لاہور میں مظہر علی خان نے جیلر سے درخواست کی کہ ایک ٹیبل، پانچ کرسیاں چاہئیں۔ پہلے تو وہ حیران ہوا مگر یہ جانتے ہوئے کہ یہ سب صحافی ہیں، اس نے انتظام کروا دیا۔ پھر کیا تھا ’’ویو پوائنٹ‘‘ کا مواد جیل میں تیار ہوتا اور ’’ملاقاتیوں‘‘ کے ذریعے باہر چھپوا لیا جاتا جس نے فوجی حکومت کو جیل میں مزید سختی کرنے پر مجبور کردیا تاکہ کسی طرح یہ چھپ نہ سکے۔
ایسا ہی کچھ ’’مساوات‘‘ اخبار پر پابندی کے بعد کچھ پی پی پی کے دوستوں نے کیا اور کراچی میں بیٹھ کر ’’مساوات دبئی‘‘ نکالا اور تاثر دیا کہ یہ دبئی سے پرنٹ ہوکر آتا ہے جبکہ اس کی پرنٹنگ لاہور میں ہوتی تھی اور دو افراد بذریعہ ٹرین کاپیاں لے کر کراچی آتے اور گھروں میں تقسیم کرتے۔ بعد میں کچھ لوگ گرفتار ہوئے۔ بہرحال ایک طویل جدوجہد کے بعد صحافت پر سے پابندی سب سے پہلے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت میں اٹھائی گئی۔ مشکلات پھر بھی رہیں اور آج بھی ہیں مگر اب معاملہ ذرا مختلف ہے۔ بات پرنٹ سے الیکٹرونک اور اب ڈیجیٹل میڈیا تک آگئی ہے جسے روکنا اب شاید ممکن نہ ہوگا۔
حکمرانوں اور ریاست نے دوسرا راستہ اختیار کیا جو خیر نیا تو نہیں مگر اس سے ایک طرف پیشہ ورانہ صحافت کو شدید دھچکا لگا تو دوسری طرف صحافی تنظیمیں ذاتی مفادات کی خاطر اختلافات کا شکار ہوکر تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئیں۔ پہلے اخبارات اور مالکان کو خریدا جاتا تھا، اب صحافی بھی اس وباء کا شکار ہوگئے۔ مدیر کا معتبر ادارہ ختم ہوا تو ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا نظام ختم ہوکر رہ گیا۔ اس وقت صحافت میں کرپشن نے اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلی ہیں۔
1973ء کا نیوز پیپرز ایمپلائز ایکٹ جو پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور ہوا تھا، خاصی حد تک اخباری صنعت کے کارکنوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اگر اس ملک میں ’’انصاف‘‘ کا کوئی نظام ہو مگر ایسا نہ ہوسکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج 85؍فیصد کارکن مستقل نہیں رہے۔
الیکٹرونک میڈیا میں اخبارات کے مقابلے میں تنخواہیں بہتر ہیں مگر کوئی بھی لیبر قوانین نہیں جس کی صورتحال بھی اب خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ شاید ہمارا ’’صحافتی ماڈل‘‘ پہلے دن سے ہی ناقص رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پیسہ کے بغیر کوئی کاروبار نہیں چل سکتا مگر ہمارے یہاں معاملہ ذرا مختلف ہے۔ مفادات، صحافت پر حاوی آگئے ہیں اور ’’خبر‘‘ اشتہاروں کے بیچ کہیں کھو گئی ہے۔
اگر یقین نہ آئے تو اخبارات کا جائزہ لیں اور 36؍منٹ کے ٹاک شو میں بات چیت اور اشتہارات کا تناسب دیکھ لیں۔ ایک بار میں ایک نجی چینل میں کرنٹ افیئرز کے … کے طور پر کام کررہا تھا۔ یہ غالباً 2013ؤ کے الیکشن کا وقت تھا، سیاسی جماعتوں کی مہم اپنے عروج پر تھی، سیاسی جماعتوں کے اشتہار کی بھرمار تھی۔ مہم کے آخری دن ایسا بھی ہوا کہ دو ٹاک شوز صرف اس وجہ سے نہیں چل سکے کہ اشتہارات کے پیسے پیشگی مل گئے تھے۔
آزادی صحافت کی لڑائی لڑ لی، معاشی حقوق کی جنگ لڑ لی، صحافیوں کو درپیش خطرات کیلئے قوانین بھی بنا لئے مگر 1950ء میں ایک اور اصول جو جدوجہد کا اہم ترین نکتہ تھا جو کہیں اس پوری لڑائی میں کھو گیا، وہ حقائق پر مبنی ’’صحافت‘‘ الفاظ چاہے چھپے ہوئے ہوں یا آپ ٹی وی اسکرین پر اظہار کریں، عوام کی امانت ہوتے ہیں۔ اگر یہ الفاظ حقائق کو توڑموڑ کر پیش کریں، ذاتی یا میڈیا کے مفادات کیلئے ہوں تو سنگین جرم کے مرتکب ہوتے ہیں مگر خیر اس کی پروا کسے۔ اب تو معاملات طے ہوجائیں تو صحافت تبدیل ہوجاتی ہے۔
اپنے ساتھیوں سے انتہائی معذرت کے ساتھ ہم دن، رات یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ سیاستدان، سرکاری ملازمین، عدلیہ سے لے کر ریاستی اداروں تک کرپشن میں ڈوب چکے ہیں مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ میڈیا نے خود بھی اپنے چہرے پر ’’بدعنوانی‘‘ کی سیاہی مل لی ہے۔ ظاہر ہے کسی بھی شعبے میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں مگر تناسب تیزی سے بدل رہا ہے۔ کبھی اسے ضرورت، کبھی مجبوری کا نام دے دیا جاتا ہے۔
ایسے میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے بعض ساتھیوں کو سیاست میں آنے اور حکومتوں کا حصہ بننے کا بھی شوق چرانا ہے۔ بدقسمتی سے مالکان اس بات کا اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ کون کس طرح اخباری صفحات یا ٹی وی اسکرین کو اپنی ذاتی خواہشات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ بعض مالکان تو خود بھی جماعتوں اور اداروں سے معاملات طے کرلیتے ہیں اور وہ جھلک کوریج، خبر اور کالموں میں نظر آتی ہے۔
ایسی صورتحال میں وہ صحافی اور ادارے قابل تحسین ہیں جو بنیادی صحافتی اصولوں پر کھڑے رہتے ہیں مگر ان کی تعداد محدود سے محدود ہوتی جارہی ہے اور وہ اقلیت میں ہوتے جارہے ہیں۔ PFUJ جیسی تنظیم کو تقسیم در تقسیم نے جدوجہد آزادی صحافت اور میڈیا کارکنوں کے معاشی مسائل اور صحافیوں کے پیشہ ورانہ ایشوز کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
پہلے صحافیوں کی تعداد کم ہوتی تھی مگر عزم مضبوط اور اسی لئے ’’جابر سلطان‘‘ کے آگے کلمہ حق کہنا بھی آتا تھا۔ آج صحافیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ادارے بھی بے شمار ہیں، اطلاعات کی بھی بھرمار ہے۔ آج جس شخص کے پاس موبائل ہے، وہ اپنے تئیں صحافی ہے۔ لوگوں کو سوال کرنے آگئے ہیں مگر ایسے میں ’’سچ‘‘ کہیں کھو سا گیا ہے کیونکہ جس کی ذمہ داری ’’سچ‘‘ اور حقائق کو سامنے لانا تھی، وہ خود کسی جھوٹ اور مفادات کی ’’دلدل‘‘ میں پھنس گیا ہے۔
آج کی صحافت کمرشل ازم کا شکار ہوگئی ہے اور صحافت کے بنیادی اصول یعنی عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا، کو ’’مفادات‘‘ پر قربان کردیا گیا ہے۔ ہمیں آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے میں کسی جگہ نوکری کروں یا اپنا یو ٹیوب چینل کو آمدنی کا ذریعہ بنائوں، کیا میں لوگوں کو ’’خبر‘‘ دے رہا ہوں یا گمراہ کررہا ہوں؟ آج کی دنیا میں نہ کوئی ’’اطلاع‘‘ کو روکا جاسکتا ہے، نہ خبر کو دبایا جاسکتا ہے البتہ صحافت کو بھی خریدا جاسکتا ہے اور صحافی کو بھی! یہ ایک نئی جدوجہد کا نکتہ آغاز ہے؎
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے