• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمندروں کی سطح بلند ہونے کے آبادیوں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟کیا ہم بڑے شہروں کے غائب ہونے کے خدشات سے دوچار ہیں؟گلیشیر پھٹنے کے اب تک کے18واقعات ماحول کو کس طرح متاثر کررہے اور آگے چل کر کیا صورتحال سامنے آسکتی ہے؟سیلاب زدگان کی امداد کے لئے عوامی وسرکاری سطح پر کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ ماحولیاتی کیفیات اور مستقبل کے اندازوں کو سامنے رکھ کر نیشنل ایکشن پلان میں کیا امر مانع ہے؟ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی میں مندرجہ بالا نوعیت کے سوالات وامور کا زیر غور آنا علامت ہے اس امرکی کہ منتخب نمائندگان مذکورہ گمبھیر مسئلے سے تعلق رکھنے والے امور کا حل نکالنے اور اس باب میں جلدپیش قدمی کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیا ہی ا چھا ہو کہ یہ خواہش جلد کسی قومی لائحہ عمل میں ڈھل کر عملی روپ اختیار کرتی نظر آئے۔ چیئر پرسن سینیٹر سیمی ایزدی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کو بتایا گیا کہ سمندروں کی سطح50سینٹی میٹر تک بلند ہونے کا خدشہ ہے۔ اس باعث کئی بڑے شہر غائب ہونے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یوں تو دنیا کے کئی شہر سطح سمندر سے نیچے آباد ہیں تاہم وہاں زمینی ساخت کی نوعیت ایسی ہے کہ پانی شہروں میں داخل نہیں ہوسکتا۔ مگر وطن عزیز کے حوالے سے پانی کی سطح50سینٹی میٹر بلند ہونے کی مذکورہ پیش گوئی اور اس میں مضمر خدشات کو بہرطور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وفاقی وزیر شیری رحمٰن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس باب میں کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوگی۔ متاثرین سے یک جہتی کے اظہار اور امدادی کاموں میں عوامی معاونت کے لئے ایک دن کی تنخواہ دینے کی تجویز زیر غور آئی۔ مون سون کے جانی ومالی نقصانات پر قابو پانے اور گلیشیر پھٹنے سمیت ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی بہرطور ضروری ہے۔ اس پر جلد کام آگے بڑھتا نظر آنا بھی چاہئے۔

تازہ ترین