• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حصولِ پاکستان میں جہاں نوجوانوں، بزرگوں، خواتین اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بے مثال کردار ادا کیا، وہیں موقر روزنامے، ’’روزنامہ جنگ‘‘ کے کلیدی کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔1947 ء کے پُرآشوب دَور اور اس کے بعد اپنا سب کچھ لُٹا کے ہندوستان سے پاکستان پہنچنے والے مہاجرین کی رہنمائی و آگہی کے لیے ’’روزنامہ جنگ‘‘ نے بیش بہا خدمات انجام دیں مثلاً ان مہاجرین کے لیے ’’داستانِ غم‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں ہجرت کےمصائب و مشکلات اور صعوبتیں جھیلنے والے مہاجرین کے خطوط تواتر کےساتھ شایع کیےگئے۔ ذیل میں ’’روزنامہ جنگ‘‘میں 74برس قبل شایع ہونے والے چند خطوط پیشِ خدمت ہیں۔

٭نئی دہلی سے ہجرت کے بعد پاکستان پہنچنے والے سیّد خادم حسین نے 8 فروری 1948ء میں اپنے خط میں لکھا، ’’5ستمبر کی رات علاقہ علی گنج، نئی دہلی میں رات کو قریباً گیارہ بجے ہندوئوں اور سکھوں کے مسلّح گروہ نے اچانک حملہ کرکے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کردیا اور میرا تمام مال اسباب لُوٹنے کے بعد مجھے کرپانوں سے اس قدر زخمی کیا کہ مَیں بےہوش ہوکر گرپڑا، تو وہ مجھے مُردہ سمجھ کر چلےگئے۔ 

میرے ساتھ میری75 سالہ ہم شیرہ فاطمہ بی بی بھی تھیں، اُن کا اب تک پتا نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ پھر6ستمبر 1947ء کو ریڈ کراس سوسائٹی کا ٹرک اُدھر سے گزرا، جس نے مجھے مُردہ سمجھ کر ارون اسپتال، دہلی پہنچا دیا، جہاں دو روز بعد مجھے ہوش آیا۔ ڈھائی ماہ اسپتال میں زیرِعلاج رہنے کے بعد مزید ایک ماہ ہمایوں کے مقبرے سے متصل پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہا۔ اس حملے میں میری داہنی آنکھ ضائع اور داہناہاتھ بے کار ہوگیا۔ چہرے اور پیشانی پر زخموں کے گہرے نشان ہیں، جن میں اب تک تکلیف ہے۔‘‘

1948ء میں ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں شایع ہونے والے چند مہاجرین کے خطوط

٭مہندر گڑھ، ریاست پٹیالہ سے کراچی ہجرت کرنے والے عبدالوحید کا خط فروری 1948ء کو شایع ہوا، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’15اگست1947ء کو مہاراجہ پٹیالہ نے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا ناپاک پروگرام بنا کر ہم سے کہا کہ ’’یہاں تم لوگوں کی جان بہت خطرے میں ہے، پاکستان چلے جائو تو بہتر ہوگا۔‘‘مسلمان اُس کے دھوکے میں آگئے اورپاکستان جانے پر آمادہ ہوگئے، اس کے بعد دیکھا، تو ملٹری بندوقیں تانیں کھڑی تھی کہ ’’مہاراجہ کاحُکم ہے،دو گھنٹے کے اندر تمام مسلمان شہر خالی کردیں، اس کے بعد کوئی نظر آیا، تو گولی سے اُڑا دیا جائے۔‘‘ 

13ستمبر1947ء کو رات آٹھ بجے شدید بارش میں تمام مردوخواتین اور بچّے اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کرکے ریلوے اسٹیشن پہنچے، تو ملٹری اور پولیس نے عورتوں، مَردوں کو ایک طرف کر کے تمام ہتھیار چھین لیے۔ ریل گاڑی آئی، تو تمام عورتوں، بچّوں کو دھکّے دے کر گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ ٹرین ستنالی اسٹیشن سے ایک میل آگے گئی تو ڈرائیور نے گاڑی روک دی، وہاں پہلے سے ہزاروں بلوائی موجود تھے،جنھوں نے یک دَم حملہ کر کے مَردوں اور بچّوں کا قتلِ عام شروع کردیا، عورتوں کو اغوا کرلیا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں پٹریوں پر لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ ہے وہ بہیمانہ سلوک، جو مہاراجہ پٹیالہ نے اپنی رعایا کےساتھ کیا۔ ہم نے اُس کامقدمہ پروردگارِ عالم کی عدالت کے سپرد کردیا ہے، اُمید ہے کہ وہاں سے ہمارے حق میں نہایت اچھا فیصلہ ہوگا۔‘‘

٭پاکستان سینٹرل ہائی اسکول، کراچی کے طالبِ علم، سیّد ممتاز حسین جعفری کا خط 21فروری 1948ء کو شایع ہوا،’’پنجاب میں یوں تو 15اگست سے پہلے ہی فسادات شروع ہوگئے تھے، لیکن عیدالفطر کے بعد یہ آگ روپڑ میں بھی بھڑک اٹھی۔ روپڑ ضلع انبالے کی سب سے بڑی تحصیل تھی۔ اس کی حد ایک طرف سے ریاست پٹیالہ کی خونیں سرحد سے ملتی ہےاور مہاراجہ پٹیالہ کے فوجی، فساد سے کئی روز پہلے شہر میں داخل ہوچُکے تھے۔ پہلے پہل انہوں نےروپڑاور انبالہ کے درمیان چلنے والی گاڑیوں میں لُوٹ مار شروع کی، بعدازاں پُرامن دیہاتیوں کا بےدریغ قتلِ عام شروع کردیا۔ قتلِ عام کےبعد اگرچہ کرفیو لگادیا گیا، مگر مسلّح غنڈوں اور شر پسندوں نےدورانِ کرفیو ہی سیکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 

اسی دوران شہر کے ڈویژنل آفیسر نے مژدہ سُنایا کہ مسلمانوں کو پاکستان لے جانے کے لیے ایک اسپیشل ٹرین کا انتظام کیاگیاہے،جو31اگست شام5 بجے روانہ ہوگی۔ مقررہ تاریخ کو ساڑھے تین ہزار مسلمان گاڑی میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ جب یہ گاڑی گوردوارہ اسٹیشن کے نزدیک فتح گڑھ پہنچی، تو وہاں مشین گنوں اور رائفلز سے مسلّح ہندو اور سِکھ بڑی تعداد میں کھڑے تھے، گاڑی رُکتے ہی انہوں نے قتل عام شروع کردیا۔ ساری رات قتل و غارت کے بعد گاڑی انبالہ اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئی، تو اُس وقت محض ڈیڑھ سو کے قریب ہی لوگ زندہ بچے تھے۔ 

تھوڑا آگے گاڑی کے تمام مسافروں کو اُتار دیا گیا، اور پھر ہم سب پیدل چل پڑے۔ بلوائی شرپسندوں کی سفّاکیت سے ہم سب اس وقت لرز کررہ گئے، جب بچّوں کےکٹےسر نیزوں میں پیوست دیکھے۔ بہرکیف، دس میل پیدل کٹھن سفر کے بعد شام چھے بجے کرالی پہنچے اور گیارہ روز کرالی کیمپ میں قیام کے بعد بذریعہ مال گاڑی کراچی پہنچے۔‘‘

٭آل پاکستان مسلم لیگ، پہاڑ گنج، دہلی کے خزانچی، اشفاق احمد نے 22فروری1948 ء کو اپنے خط میں لکھا کہ’’مَیں7ستمبر1947ء کو دہلی کے بازار پہاڑ گنج کی بربادی کا منظر قیامت تک نہیں بھولوں گا، جب خاکی وردی میں ملبوس سیوک سنگھ کے والنٹیئرزنے مشہور ڈاکٹر حسین بخش اور اُن کے بھائی ڈاکٹر عبدالرزّاق کےخاندان کے تمام افراد کو قتل کرنے کے بعد محلّہ اشنان نگر میں مسلمانوں کے گھروں میں گُھس کر بربریت شروع کردی۔مَیں بالائی منزل سے یہ خونچکاں مناظر دیکھ رہا تھا۔ یہ سنگ دل گھر کے تمام افرادکو بچّوں سمیت قتل کرنے کے بعد پیٹرول چھڑک کر آگ لگارہےتھے۔ 

اس دوران میرے بیٹے مختار عالم سمیت میرے خاندان کے پچیس افرادکو بھی موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ میرے گھر میں حملہ ہوا، تو ہم بچتے بچاتے مع خاندان پہاڑ گنج پہنچ گئےاورچند روز بعد وہاں سے لاہورجانے والی اسپیشل ٹرین پر سوار ہوئے۔ راستے میں مانان والے اسٹیشن پر ہماری ٹرین پر حملہ ہوا، جس میں پچاس کے قریب مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ بہرحال، آگ و خون کا ایک دریا عبور کرنے کے بعد ہم لاہور پہنچے اور پھر وہاں سے کراچی چلے آئے۔ پہاڑ گنج میں ایک ہفتے کے اندر چار ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔‘‘

٭ دریا گنج، دہلی سے تعلق رکھنے والے برکت علی کا خط فروری 1948،کوشایع ہوا، ’’مَیں دہلی کا رہنے والا ہوں اور تین ماہ سے کراچی میں مقیم ہوں۔ میری مختصر داستان یہ ہے کہ شرپسندوں کے حملے شروع ہونے کے بعد لوگ مجھے مشورہ دے رہے تھےکہ مَیں دریا گنج کے مکان سے نکل کرکسی محفوظ علاقے میں چلا جائوں، مگر ایسا نہ ہو سکا، کیوں کہ ہندو ہم سایوں نےحفاظت وہم سائیگی کا یقین دلایا تھا، لیکن 12ستمبر کی رات بہت خوف کے عالم میں گزری، صبح ہوئی، تو مَیں نے بیوی کو ساتھ لیا اور بچّوں کی انگلیاں پکڑ کر گلی سے ہوتا ہوا بازار پہنچا، تو ہُو کا عالم تھا۔ 

ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ پاس کی گلی سے سِکھوں کے ایک گروہ نے یکایک حملہ کردیا۔ میری بیوی کرپان کا زخم کھا کر زمین پر گری، تو میرا معصوم بچّہ انگلی چُھڑا کر اسے پکڑنے دوڑا، مگر آہ!بدمعاش سِکھوں نے میرے دونوں معصوم بچّوں کو میرے سامنے انتہائی بےدردی و سفّاکی سے خون میں نہلادیا۔ اب بس مریضِ ناتواں، میری بیوی ہی میرے ساتھ ہے۔‘‘