• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب طرف سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے بعد آج انڈیا پاکستان کے میچ نے سب کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ حیرت ہوتی ہے کتنی تیزی سے ہماری توجہ بٹ جاتی ہے۔ لیکن ایک جگہ سب توجہ مبذول کروانے کی ضرورت ہے کہ سیلاب زدگان کے لئے اب بڑے پیمانے پہ امداد اکھٹا کی جارہی ہے۔ گلی کوچوں میں سڑکوں پہ موٹی موٹی کیلیں ٹھونک کے ٹینٹ لگا دیئے گئے ہیں۔ محنت اور روزگار سے دور افراد صبح سے شام وہیں بسر کرتے ہیں۔ ایثار و محبت کی بہترین مثال ہے لیکن ماضی کو بھی اپنے دماغ میں رکھنا چاہیے ۔ جب 2005 پانچ کے زلزلے میں لوگ اسی طرح کھڑے ہوگئے تھے اور بہت امداد جمع کی تھی بارسوخ ذرائع کے مطابق بہت سا سامان یونہی سالوں پڑا رہا اور مصیبت زدگان تک نا پہچ سکا اور برباد ہوا۔ کہیں جمع شدہ سامان کو مارکیٹ میں سستے داموں بیچ کر پیسے لے لئے گئے ( جیسے بقر عید کے موقع پر مخصوص لوگ آپ کے دروازے پہ آکر تھیلے بھر بھر کر گوشت لے جاتے ہیں اور کسی غریب بستی میں لوگوں کو یا قصائیوں کو کم قیمت پہ بیچ دیتے ہیں اور پھر وہ قصائی اس کو لوگوں کو بیچتے ہیں)۔ لہذا امداد دینے سے پہلے اس بات کا یقین کر لیں کہ امداد جمع کرنے والے اس کو سیلاب زدگان تک پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا صرف فوٹو شوٹس تک محدود ہیں اور پھر بندر بانٹ۔۔۔ایک چیز خیمہ یا ٹینٹ کی خریداری پہ بہت زور ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہر علاقے کے وڈیرے، سردار، سائیں، چوہدری جن کے گھروں میں بڑے بڑے مہمان خانے ہوتے ہیں سیلاب زدگان کو وقتی طور پر وہاں پناہ دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہر صوبے میں صدر، وزیراعظم اور وزیروں کے کیمپ آفسز بھی ہوتے ہیں یہاں بھی ان متاثرین کو عارضی پناہ دی جاسکتی ہے۔ کیا اس میں کوئی پریشانی کی بات ہے؟؟؟؟ کیا دل بڑا صرف عام لوگوں کا ہونا چاہیے سارے "بڑے" صرف عوام کے خون پسینے کی آمدنی پہ عیاشی کرنے کے لئے ہیں۔ اب آواز تو اٹھانی ہوگی کہ ریاست کے ملازمین احساس ذمہ داری کا ثبوت دیں کلف دھوئیں اور خدمت اور مدد بغیر فوٹو شوٹس کے کریں۔ بہت دکھاوا کر لیا اب سچ مچ کرکے بھی دکھا دیں۔دوسری اہم بات وہ یہ کہ آئندہ کے لئے سیلاب کی تباہ کاریوں سے کیسے بچا جائے اس کا انتظام ابھی سے کرنا ہوگا کیوں کہ ابھی تو دنیا مدد کرنے کا کہہ رہی ہے لیکن ہمیشہ کے لئے کوئی نہیں کرئے گا۔ لہذا ابھی سے سوچا جائے اس کا لائحہ عمل تیار کیا جائے اور پھر اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔ سب سے پہلے دریا، ندی، نالوں اور سمندر کے کنارے تعمیرات کی مکمل ممانعت ہونی

چاہیے۔ باقاعدہ قانون بنایا جائے کہ دریا، ندی نالوں اور سمندر سے کم از کم چند میٹر فاصلے تک کوئی تعمیر نہیں ہوگی چاہے کتنا بڑا کاروباری شخص اور کاروباری گھرانہ ہی کیوں نہ کرنا چاہے۔ کیوں کہ ابھی بھی آپ دیکھیں گے کہ نقصان ہی انہی لوگوں کا ہوا ہے جو دریا کے کنارے آباد ہیں۔ جو بھی ویڈیو دکھائی جارہی ہیں وہ سب دریا سے منسلک یا دریا پر بنائے گئے گھروں کی ہیں۔ جو علاقے یا گھر دریا سے دور ہیں وہ کافی حد تک محفوظ رہے ہیں۔ سستی چیز یا مفت میں ملنے والی ہر چیز ہم سب کو چاہیے ہوتی ہے، بالکل اسی طرح دریا کے کنارے کی زمین مفت میں مل جاتی ہے اور مٹی بھی وہیں سے مل جاتی اور معمولی خرچ پہ گھر بن جاتا ہے۔ لیکن بنانے والے کو پتا ہوتا ہے کہ یہ کچا گھر ہے کبھی بھی تیز پانی کا ریلا اس کو بہا کر لے جائے گا اسی لئے پکے مکان نہیں بنائے جاتے۔ ریاست کو اب سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین