• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی خالد محمود

’’اسلام ایک ایسا دین ہے جس کی حدود مقرر ہیں، یعنی وحدتِ الوہیت پر ایمان، انبیاء علیہم السلام پر ایمان اور رسول کریم ﷺکی ختم رسالت پر ایمان، در اصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لیے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ 

مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریم ﷺکو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء ؑکے ذریعے وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریم ﷺکی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں۔‘‘(حرفِ اقبال۔علامہ محمد اقبال)

شاعر مشرق علامہ اقبال لکھتے ہیں:’’میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیں، یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا پھر ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کریں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو، تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘(حرف اقبال ، ص ۱۳۷)

وہ مزید لکھتے ہیں’’میرے خیال میں قادیانی حکومت سے کبھی علیحدگی کا مطالبہ کرنے میں پہل نہیں کریں گے، ملت اسلامیہ کو اس مطالبے کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کردیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ منظور نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے، کیوں کہ وہ ابھی اس قابل نہیں کہ چوتھی جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کی برائے نام اکثریت کو ضرب پہنچاسکے۔ حکومت ہند نے ۱۹۱۹ء میں سکھوں کی طرف سے علیحدگی کے مطالبے کا انتظار نہ کیا، اب وہ قادیانیوں سے ایسے مطالبے کے لیے کیوں انتظار کر رہی ہے؟‘‘(حرفِ اقبال ، ص: ۱۳۸)

’’میری رائے میں حکومت کے لیے بہترین راستہ یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے اور یہ قادیانیوں کی اپنی پالیسی کے بھی عین مطابق ہوگا۔ ادھر مسلمان بھی ان سے وہی رواداری برتیں گے جو وہ باقی مذاہب کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔‘‘(حرفِ اقبال، ص ۱۲۸)

سطور بالا میں یہ چند اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جو مفکر اسلام علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے قادیانیوں کے بارے میں ان کے بیانات اور خطوط سے لیے گئے ہیں، ان اقتباسات میں علامہ اقبال نے قادیانیت کو اسلام کے خلاف ایک فتنہ اور خطرہ قرار دیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ قادیانی اسلام سے خارج اور مسلمانوں سے علیحدہ ہیں اور اس وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ تصادم اور ہنگامہ آرائی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ ایک جماعت قرار دے دیا جائے، کیوں کہ علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ قادیانیوں اور مرزائیوں کے جو نظریات ہیں ،ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ 

کیوں کہ مرزا نے نبوت کا دعویٰ کیا او رقادیانی خواہ و ہ مرزائی ہوں یا لاہوری وہ اس نئے نبی کے ماننے والے ہیں اور نئی نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور اس کے ماننے والے الگ قوم شمار ہوتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’ مسلمان ان تحریکوں کے معاملے میں زیادہ حساس ہے جو اس کی وحدت کے لیے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مـذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو ، لیکن اپنی بنا ءنئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے، مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لیے ایک خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لیے کہ اسلامی وحدت نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔(حرفِ اقبال ، ص ۱۲۲)

علامہ اقبال نے مزید فرمایا’’ہمیں قایانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بانی (مرزا غلام احمد) نے ملت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے اور اپنے مقلدین کو ملت اسلامیہ سے میل جول رکھنے سے اجتناب کا حکم دیا تھا۔ علاوہ بریں ان کا بنیادی اصولوں سے انکار، اپنی جماعت کا نیا نام (احمدی) مسلمانوں کی قیام نماز سے قطع تعلق، نکاح وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں سے بائیکاٹ اور ان سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ دنیائے اسلام کافر ہے، یہ تمام امور قادیانیوں کی علیحدگی پر دلالت کرتے ہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ اسلام سے اس سے کہیں دور ہیں، جتنے سکھ، ہندوئوں سے، کیوں کہ سکھ ہندوئوں سے باہمی شادیاں کرتے ہیں، اگر چہ وہ ہندو مندروں میں پوجا نہیں کرتے، اس امر کو سمجھنے کے لیے کسی خاص ذہانت یا غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے کہ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں ،پھر وہ سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رہنے کے لیے کیوں مضطرب ہیں؟‘‘ (حرفِ اقبال ، ص ۱۳۸، ۱۳۷)

علامہ اقبال نے قادیانیت کا بغور مطالعہ کیا اور انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، اس لیے وہ اس کی سنگینی اور اس کے عواقب و نتائج سے نہ صرف یہ کہ باخبر تھے، بلکہ اس فتنے نے انہیں بے چین کردیا تھا۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں:’’علامہ مرحوم جدید تعلیم یافتہ طبقے میں پہلے شخص تھے جنہیں ’’فتنہ قادیانیت‘‘ کی سنگینی نے بے چین کر رکھا تھا۔ وہ اسے اسلام کے لیے مہلک اور وحدت ملت کے لیے مہیب خطرہ تصور کرتے تھے، ان کی تقریرو تحریر میں ’’قادیانی ٹولے‘‘ کو ’’غدارانِ اسلام‘‘ اور ’’باغیانِ محمد‘‘ سے یاد کیا جاتا تھا، اس لیے کہ ان کے نزدیک اس فرقہ کے موقف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر کے لیے اس سے زیادہ موزوں کوئی لفظ نہیں تھا، نہ ہوسکتا تھا۔ وہ اس فتنہ کے استیصال کو سب سے بڑا ملی فریضہ سمجھتے تھے ، اور وہ ایک شفیق اور صاحب بصیرت سرجن کی طرح مضطرب تھے کہ اس ’’ ناپاک ناسور‘‘ کو جسد ملت سے کاٹ پھینکا جائے ،ورنہ یہ ساری اُمت کو لے ڈوبے گا۔‘‘(تحفہ قادیانیت جلد سوم ۱۰۹)

کاش اس وقت علامہ اقبال کی بات کو مان لیا جاتا اور قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت قرار دے دیا جاتا تو بعد میں رونما ہونے والے روح فرسا واقعات جنم نہ لیتے۔ حضرت لدھیانویؒ لکھتے ہیں:’’اگر نقاش پاکستان کے انتباہ پر توجہ کی جاتی تو اقبال کے پاکستان کی تاریخ ، شہید ملت لیاقت علی خاں کے قتل سے شروع ہوکر مشرقی پاکستان کے قتل تک رونما ہونے والے واقعات سے یقیناً پاک ہوتی۔ ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کا فیصلہ پیغامِ اقبال کا جواب نہیں، بلکہ اس کی بسم اللہ ہے، اقبال کا پیغام یہ ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی اداروں میں اس باغی گروہ کی شرکت اُمت مسلمہ کی موت ہے، آج صرف پاکستان نہیں ،بلکہ پورا عالم اسلام (خصوصا خطہ عرب اور مشرقِ وسطیٰ) ان باغیان اسلام کی سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ تل ابیب سے ربوہ کا رابطہ اہل نظر سے مخفی نہیں، اور یہودی فوج میں قادیانی ٹولے کی ’’خدمات‘‘ عالم آشکارا ہوچکی ہیں۔‘‘ (تحفہ قادیانیت جلد سوم، ص ۱۱۰)

آغا شورش کاشمیری نے قادیانیوں کے بارے میں علامہ اقبال کے دو بیان نقل کرنے کے بعد لکھا:’’علامہ کے ان دو بیانوں نے قادیانیت کو مسلمانوں کی ذہنی فضا سے نکال باہر کیا اور قادیانی قلعہ مسمار ہوگیا۔ علامہ ان بیانوں کے بعد کچھ دن کم تین سال زندہ رہے ،اگر پاکستان بن جانے تک زندہ رہتے تو اغلب تھا کہ مرزائی امت آغاز ہی میں اقلیت کا درجہ پا جاتی۔ ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ نہ ہوتا اور قادیانی پاکستان میں اقتدار حاصل نہ کرپاتے جو مختلف الاصل سازشوں کا محرک ہوا ،پاکستان میں نہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت چلتی ،نہ مسلمانوں کا خون ارزاں ہوتا، نہ مارش لاء لگتا،نہ ملک دو لخت ہوتا، نہ قادیانیت عرب ملکوں میں صہیونیت کا مثنیٰ ہوتی، نہ عالمی سامراج اس سے گٹھ بندھن کرتا اور نہ عالمی سامراج کا آلۂ کار ہونے کی حیثیت میں اسے کوئی حوصلہ ہوتا۔‘‘ (تحریک ختم نبوت ص ۱۲۹)

علامہ اقبال مرحوم نے اپنے خطبات ، مقالات اور خطوط میں جس طرح سے قادیانیت کا تجزیہ کیا ہے اس سے جدید طبقے کو قادیانیت کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملی۔ علامہ کے ان خطبات و مقالات اور خطوط میں جس طرح قادیانیت کا تجزیہ کیا ہے، اس سے جدید طبقہ کو قادیانیت کے پس منظر کو سمجھتے میں مدد ملی۔ علامہ کے یہ خطبات و مقالات حرف اقبال ، اقبال اور قادیانی، ارمغانِ اقبال، انوار اقبال اور دیگر کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں۔

علامہ اقبال کے اس مطالبے پر حکومت وقت نے تو کوئی توجہ نہیں دی، کیوں کہ اس وقت انگریز کی حکومت تھی اور انگریز حکومت اپنے ہی تخلیق کردہ گروہ کے خلاف کیونکر فیصلہ دے سکتی تھی، لیکن احرار اسلام نے اس مطالبے کو اپنا مشن بنالیا اور انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور مرزائی جماعت کی کفر یات کو تسلسل کے ساتھ اور ان کے غیر مسلم اقلیت کے مطالبے کو اپنے ہر جلسے میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوتی چلی گئی کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ ایک قوم ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کی سرگرمیاں بڑھتی چلی گئیں ۔بد قسمتی سے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی کو بنایا گیا، قادیانیوں نے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور کلیدی مناصب پر قبضہ کرلیا۔ یہ حالات ایسے تھے کہ مرزا محمود نے بلوچستان کو باقاعدہ قادیانی اسٹیٹ بنانے کا اعلان کردیا۔

حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ؒقادیانیوں کے ان ناپاک عزائم سے ناواقف نہیں تھے ،انہوں نے اپنے رفقاء کو جمع کرکے مشاورت کی اور تمام جماعتوں اور مکاتب فکر کوایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، اس کے لیے ایک ایک کے دروازے پر دستک دی، انہیں حضور اکرم ﷺکی عزت و ناموس کا واسطہ دیا اور بالا ٓخر ’’مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ وجود میں آئی اور اس کی قیادت میں ۱۹۵۳ء کی تحریک چلی ،جس کے بنیادی مطالبات یہ تھے (۱) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔ (۲)ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹا یا جائے۔ مجلس عمل نے پورے پاکستان میں جلسے کیے، رائے عامہ کو بیدار کیا، مجلس عمل کے راہنمائوں نے اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے کئی بار ملاقات کی، مگر خواجہ ناظم الدین نے ہر مرتبہ مطالبات کو ماننے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ امریکہ ناراض ہوجائے گا اور وہ امداد نہیں دے گا اور تحریک کو قوت و طاقت سے کچل دیا گیا ۔

۱۹۵۳ء کی تحریک بظاہر ناکام ہوگئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک اپنے مقاصد کے اعتبار سے کامیاب ہوئی ،اس تحریک کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن خواجہ ناظم الدین اور ظفر اللہ کی وزارتیں بھی گئیں اور ان کی وزارتوں کے تمام محافظ بھی اللہ کی بے آواز لاٹھی کا نشانہ بنے۔ قادیانی جو منہ زور گھوڑے پر سوار تھے، انہیں اپنی حقیقت معلوم ہوگئی اور ان کی سازشوں کو لگام دے دی گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تحریک نے عوام میں قادیانیوں کے بارے میں شعور پیدا کیا اور انہوں نے قادیانیوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ایک سازشی ٹولے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

۱۹۷۴ء میں ایک بار پھر قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی۔ ۲۹؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ اسٹیشن پر پیش آنے والا سانحہ اس تحریک کی بنیاد بنا۔کسے خبر تھی کہ یہ سانحہ اور واقعہ ایک عظیم الشان فیصلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ دشمنوں نے تو اپنی طرف سے شر انگیزی کرنے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے خیر نکالی۔ اس واقعے نے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو ہوا دی، ان کے دلوں کو جھنجھوڑ ڈالا، وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے، پوری قوم حضور اکرم ﷺ کی عزت و ناموس اور آپ ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک ہوگئی اور پوری قوم نے متحد ہوکر خواہ کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو، ایسی عظیم الشان تحریک چلائی کہ ملت اسلامیہ شاید ہی اس کی کوئی نظیر پیش کرسکے۔ ۲۹؍ مئی تا ۷ ستمبر تقریبا ً سو دن بنتے ہیں، مگر برصغیر کی تاریخ میں یہ سو سال کے برابر ہیں۔قوم کے مطالبے پر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے حوالے کیا کہ وہ اس پر غورو فکر کرکے تجویز کرے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی پوری قوم کے لیے وہ قابل قبول ہوگا۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر تھے، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ فیصلہ اس انداز میں ہو کہ کسی کے لیے اعتراض کی گنجائش نہ ہو اور بیرونی دنیا کے لیے بھی وہ قابل قبول ہو۔

اس موقع پر قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر نے از خود درخواست پیش کی کہ ہمیں بھی اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی یہ درخواست منظور کرلی گئی، انہوں نے ۱۸۲؍ صفحات پر مشتمل اپنا محضر نامہ پیش کیا، اسے چھاپ کر تمام ممبران قومی اسمبلی میں تقسیم کیا گیا، قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر ہی اپنا موقف جمع نہیں کرایا بلکہ تمام ممبران کے سامنے زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کی درخواست کی، جسے مفتی محمود رحمہ اللہ سے مشاورت کے بعد قبول کرلیا گیا۔جب ان کی درخواست قبول ہوگئی تو انہیں فکر ہوئی اور انہوں نے بھٹو صاحب سے شکوہ کیا کہ وہاں مولوی ہماری بے عزتی کریں گے، ہم سے الٹے سیدھے سوال کریں گے ، اس پر جے۔اے۔ رحیم نے کہا کہ سوال اٹارنی جنرل کے ذریعے کیے جائیں، اس پر فیصلہ ہوا۔ 

سوال پیدا ہوا کہ قادیانی اور لاہوری گروپ کے سربراہان او راٹارنی جنرل تو قومی اسمبلی کا حصہ نہیں تو وہ کس حیثیت سے قومی اسمبلی سے خطاب کریں گے؟ اس کے حل کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس طرح اٹارنی جنرل کے ذریعے مرزا ناصر اور لاہوریوں پر جرح ہوئی ۔ ۵؍اگست ۱۹۷۴ء سے اس خصوصی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا۔ ۵؍ اگست سے ۱۱؍اگست تک ۶؍ دن اور ۲۰؍ اگست سے ۲۴؍اگست ۵؍ دن کل گیارہ دن مرزا ناصر پر جرح ہوئی۔ ۲۷، ۲۸ اگست د ودن لاہوری گروپ کے صدر الدین عبدالمنان اور مسعود بیگ پر جرح ہوئی۔

مرزا ناصر کو اپنی چال بازیوں اور فریب کاری پر بڑا گھمنڈ تھا، وہ بڑا پر امید تھا کہ ہم تمام ممبران کو چکرا دینے اور ان کی ذہن سازی میں کامیاب ہوجائیں گے، وہ اسمبلی میں بڑے اکڑ کر فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے، ان کے ظاہری حلیہ (سر پر عمامہ، چہرے پر داڑھی، بدن پر اچکن) کو دیکھ کر ممبران اسمبلی نے مفتی محمود ؒاور ان کے رفقاء کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھا کہ آپ ان نیک لوگوں کو کافر بنانے چلے ہیں۔ تو مفتی محمود رحمہ اللہ نے مسکرا کر کہا کہ صبر کرو، بہت جلد ان کی حقیقت کا پتا چل جائے گا۔ 

یہی ہوا جب ان پر جرح شروع ہوئی اور سوال و جواب ہوئے تو ہر ایک کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس پوری بحث کے دوران ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ممبر نے ان کے حق میں کوئی ایک لفظ کہا ہو، ان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہو، کسی بات پر ناراض ہوکر احتجاج کیا ہو، بائیکاٹ تو دور کی بات صرف واک آئوٹ ہی کیا ہو، بلکہ بحث کے آخر میں ممبران اسمبلی نے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ خیالات بتارہے ہیں کہ ان کی رائے قادیانیوں اور لاہوریوں کے حق میں کیا تھی۔

پوری جرح، بیانات ، سوال و جواب اور غوروخوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے ۷؍ ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے، چنانچہ ۷؍ ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا ،جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد وزیر اعظم نے تقریر کی۔

وزیر اعظم کی تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا۔ اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔

آج قادیانی واویلا کرتے ہیں کہ ہم اس آئین کو کیسے تسلیم کریں جس میں ہماری نفی کی گئی ہے، حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس آئین نے تو انہیں ایک قانونی حیثیت دی ہے، ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ اس ترمیم سے پہلے ان کا اپنا کوئی وجود نہیں تھا، نہ وہ مسلمانوں میں شامل تھے، نہ دیگر اقلیتوں میں۔ آئین نے ان کی ایک حیثیت متعین کرکے نہ صرف یہ کہ ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے، بلکہ انہیں آئینی طور پر حقوق دئیے ہیں کہ وہ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔

دوسری اقلیتوں کی طرح ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، وہ غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں، غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے انتخاب لڑ سکتے ہیں، دیگر اقلیتوں کی طرح اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں، آئین انہیں یہ سارے حقوق دیتا ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ جب وہ مسلمان نہیں اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور وہ خود بھی اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ سمجھتے ہیں تو وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کرسکتے اور تمام وہ القاب اور الفاظ جو اسلام اور مسلمانوں کے شعائر ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں ،ان کو استعمال نہیں کرسکتے، یہ پابندی ہے اور یہ ایک اصولی پابندی ہے اور ہر مسلمان کا یہ حق ہے کہ جو اس کی شناخت کو چھیننے کی کوشش کرے، بلکہ مسلمانوں کی شناخت کو اپنے آپ پر چسپاں کرے تو اسے روکے، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے، مسلمان جب اپنا یہ قانونی حق استعمال کرتے ہیں تو شور مچایا جاتا ہے کہ ہمارے حقوق کو چھینا جارہا ہے، حالاںکہ قادیانی مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور ان کی پہچان چرانے کی کوشش کررہے ہیں جو قانوناً جرم ہے۔

مگر افسوس آئین کی جس شق کو متفقہ طور پر منظور کرکے آئین کا حصہ بنایا گیا، جس کی پوری امت مسلمہ نے توثیق کی، عدالت عظمیٰ جس کی کئی بار توثیق کرچکی، قادیانی امت اس شق کو نہ ماننے پر بضد ہے اور تمام فیصلوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے خود کو مسلمان کہلانے اور اسلام کا نام استعمال کرنے پر بضد ہے، دنیا بھر میں بغاوت کا کھلم کھلا اظہار کررہی ہے ، خصوصاً آرڈیننس کے بعد اپنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ قادیانی دنیا بھر میں اس متفقہ اور جمہوری فیصلے کے خلاف لابنگ کررہے ہیں اور اسے ختم کرانے کے لیے پورا زور لگارہے ہیں۔ مغربی عالمی سیکولر لابیوں کی انہیں مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ ان حالات میں تمام مسلمانوں خصوصاً اہل پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ چوکنا رہیں اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور اس دستوری فیصلے کا مسلسل پہرہ دیتے رہیں ، جس دن سے یہ فیصلہ ہوا ہے مغربی دنیا اسے ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ 

اس قانون کو بہانہ بناکر پاکستان کے لیے طرح طرح کی خصوصاً اقتصادی مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت میں گھسے ہوئے اور چھپے ہوئے قادیانی اور ان سے ہمدردی رکھنے والے عناصر بھی آئے دن سازشیں کرتے رہتے ہیں ،لیکن یہ مسلمانوں کی بیداری کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ ۷؍ستمبر کا دن تجدید عہد وفا کا دن ہے ۔ آئیے!آج ہم یہ عہد کریں کہ حضور اکرم ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ اور آپ کی ختم نبوت کے دفاع کے لیے اپنا تن من دھن قربان کردیں گے، مگر اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے اور ان اسلامی دفعات کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔