• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ سندھ ابھی 2010 میں آنے والے قیامت خیز سیلاب اور اس کے بعد آنے والے کم درجے کے سیلابوں کےتباہ کُن اثرات سے پوری طرح نکل نہیں سکا تھا کہ اس برس پھر صوبے کے باسیوں پر مون سون کے موسم میں قیامت ٹوٹ پڑی ،لیکن یہ پاکستان ہے جہاں سیلاب، خشک سالی اور زلزلے جیسی قدرتی آفات سے کہیں نہ کہیں سال میں ایک یا دو دفعہ تو واسطہ پڑتا ہی ہے۔ 1947ء سے 2007ء تک پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات ایک محتاط اندازے کے مطابق24کھرب 50ارب روپے کے تھے۔ 

این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری کردہ نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس پلان 2019 کے مطابق 2007 سے2017تک سیلاب، زلزلہ و دیگر قدرتی آفات کے نتیجے میں 6 ہزار 117افراد جاں بہ حق، 11ہزار 42 افراد زخمی ہوئےاور42لاکھ 90ہزار 74 مکانات کو نقصان پہنچا تھا۔ نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس پلان2019 کے مطابق2007 کے دوران سائیکلون سے 443 افرادجاں بہ حق ہوئے اور 71486 مکانات کو نقصان پہنچاتھا۔2008کے سیلاب کے دوران 80 افرادجاں بہ حق ،21زخمی ہوئے اور17172مکانات تباہ ہوئےتھے۔

2010 کے سیلاب میں ملک کے78 اضلاع متاثر ہوئے تھے اور اب 116 اضلاع متاثر ہوئےہیں ۔2010 میں دو کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور 2022 میں اب تک ملک بھر میں 3کروڑ30لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ 2010میں آنے والے سیلاب کو پاکستانی اداروں نے’’سپر فلڈ‘‘ قرار دیا تھا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 2010کا سیلاب ’’دریائی سیلاب‘‘ تھا۔ رواں مون سون میں آنے والے سیلاب کو’’فلیش فلڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ 2010 کے سیلاب میں نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر زلگایا گیا تھا جس میں زرعی اجناس اور اگلے دو سال تک زرعی پیداروار میں کمی کو شامل کرلیا جائے تو12ارب ڈالرز بن جاتے ہیں۔ 

موجودہ سیلاب2010کے سیلاب سے اس حوالے سے زیادہ تباہ کن ہے کہ اس سے متاثرہ رقبہ زیادہ ہے۔وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق 2010 کا سیلاب 17سو جانیں لے گیا تھا اور موجودہ سیلاب تادم تحریر بارہ سو سے زاید افراد کی بھینٹ لے چکا ہے۔ ملک بھر میں اب تک کے ابتدائی اندازوں کے مطابق دس ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ صوبہ سندھ کی حکومت 22 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر یہ کہہ چکی ہے کہ صورت حال 2010 سے بھی زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ دیگر صوبوں، بالخصوص بلوچستان میں بھی غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

اس تمام عرصے میں اقتدار میں رہنے والے فوجی آمروں اور جمہوری حکم رانوں نے انتظام آفات (ڈیزاسٹر) مینجمنٹ کا مؤثر اور مربوط نظام تشکیل دیا ہوتا تو یہ کھربوں روپے ملک کی اقتصادیات اور قوم کی حالت بہتر بنانے پر خرچ ہوسکتے تھے۔ پچھہتّر برسوں میں جب ہم یہ نظام تشکیل نہیں دے سکے تو اس کا گلہ محض موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت سے کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ تاہم پے درپے آنے والی قدرتی آفات ہمیں بار بار ایسا نظام تشکیل دینے کی مہلت یا اشارہ دے رہی ہیں۔

صوبہ سندھ میں حال ہی میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور پھر آنے والے سیلاب کا پانی بیشتر مقامات پر اب بھی موجود۔ چند یوم قبل شہداد پور ، سانگھڑ کے اضلاع کا اندرون اور بیرون ملک مقیم انسان دوست پاکستانیوں، انتظامِ قدرتی آفات، ماحول اور موسمیات کے ماہرین اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بچاؤ اور امداد کے کام کا تجربہ رکھنے والے افراد کے ساتھ دورہ کیاگیا۔ اس دورے میں بہت سے الم ناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ اس کے علاوہ مذکورہ افراد اور مقامی لوگوں نے بعض ایسے حقائق اور مقامات کی نشان دہی کی جن پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔

انگریزوں کے قایم کردہ مراکزِ موسمیات

انگریزوں نے برصغیر پر حکومت کرنے کے دوران موسم کا جائزہ لینے کے لیے یہاں چند بڑے شہروں میں مراکز بنائے تھے۔ 1850ء میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے محض ایک سال بعد انہوں نے لاہور میں ایسا ہی ایک مرکز جیل روڈ پر قائم کیا تھا جو آج بھی محکمہ موسمیات کے زیر استعمال ہے۔ ان کے جانے کے بعد موسمیات کا سارا ریکارڈ حکومت پاکستان کو منتقل ہوگیا تھا۔ یہ دفتر متحدہ پنجاب اور متحدہ کشمیر کے تمام علاقوں کے بارے میں موسم پر نظر رکھتا تھا۔ چوںکہ انگریزوں نے صوبہ سرحد تشکیل نہیں دیا تھا، لہٰذا آج کے صوبہ خیبرپختون خوا اور قبائلی علاقے بھی پنجاب میں شامل تھے اور آج بھی اسی مرکز سے ان تمام علاقوں کے موسم پر نظر رکھی جاتی ہے۔

 اب سے تقریبا پونے دو صدی قبل انہوں نے موسمیات کے دفاتر، موسم کے تغیرات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے قایم کرنا شروع کیے تھے۔ پھر جب یہاں ہوائی جہاز اڑنے لگے تو ان کے پائلٹس کی ذمے داریوں میں موسم کا حال بتانا بھی شامل تھا۔ یوں اس کی شاخیں بڑھتی گئیں۔ اب فضائیہ اور فوج کی ضروریات کو بھی موسمیات کا محکمہ سہولتیں فراہم کرتا ہے ، پھر جن جن علاقوں میں ہوائی اڈے بنتے گئے، محکمہ موسمیات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ ہوا بازی کے بعد زراعت کے شعبے میں بھی اسی علم سے استفادہ کرنے کے بارے میں سوچا گیا تو 1978ء میں ایگرومیٹ کے نام سے اس کی علٰیحدہ شاخ بن گئی۔ 1935ء میں کوئٹہ میں قیامت خیز زلزلہ آیا تو انگریزوں نے زلزلے کی پیمائش کے لیے کوئٹہ اور پشاور میں دو سیسمالوجی سینٹرز قایم کیے۔

ہمارا ڈھیلا ڈھالا نظام

قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں آفات کے حوالے سے قوانین بنائے گئے۔ 1973ء میں زبردست سیلاب آیا تو حکومت کو ایسا مرکز بنانے کا خیال آیا جو سیلابوں کی قبل از وقت اطلاع دے سکے۔ سیلاب عموماً بارشوں کے بعد آتے ہیں اور بارش کی اطلاع محکمہ موسمیات دیتا ہے، لہٰذا محکمہ موسمیات میں سیلاب کے بارے میں قبل از وقت معلومات حاصل کرنے کے ضمن میں ایک اور شعبہ قائم ہوگیا۔ 

اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم نے 1976ء میں لاہور میں ایک مرکز قائم کرنے میں پاکستان کی مدد کی۔ اس مرکز کے قیام کے بعد ہمارے ماہرین عالمی سطح پر ماہرین سے رابطے میں آگئے اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ دنیا ان مسائل کے بارے میں کس طرح سوچتی ہے۔ پھر اقوام متحدہ کی تنظیم نے ایک ریڈار دیا جو سیالکوٹ کے قریب نصب کیا گیا تھا کہ سیلابوں پر نظر رکھی جاسکے۔

بارشوں کے بارے میں اعدادوشمار جمع کرنا محکمہ موسمیات کی ذمے داری ہے۔ محکمہ آب پاشی دریائوں میں بہنے والے پانی پر نظر رکھتا ہے۔ اس محکمے نے پانی کو ناپنے کے لیے مختلف دریائوں پر مختلف مقامات پر پیمانے نصب کررکھے ہیں جنہیں وقفے وقفے سے چیک کیا جاتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں پولیس کی وائرلیس برانچ کا ایک سپاہی روزانہ نصب شدہ پیمانوں کے مقام پر موجود رہتا ہے۔ وہاں محکمہ آب پاشی کا ملازم پیمانے کو پڑھتا ہے اور پھر سپاہی اس کی اطلاع محکمہ موسمیات کے قریبی دفتر کو دیتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں یہ اطلاع ہر گھنٹے پر دی جاتی ہے۔ 

اسی طرح واپڈا کے اہل کار ڈیمز میں آنے اور جانے والے پانی کی اطلاع محکمے کو دیتے ہیں۔ یہ نظام اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم کے تعاون سے قایم کیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت تمام متعلقہ محکموں کے نمائندے محکمہ موسمیات کے دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ ان میں پولیس، فوج، واپڈا، ریونیو اور ذرایع ابلاغ کے نمائندے شامل ہوتے۔ جب یہ نظام بن رہا تھا تو سابق چیف میٹرولوجسٹ برائے سیلاب، شوکت اعوان کے مطابق انہوں نے متعلقہ محکموں سے لائق اور سائنسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افسران کی خدمات مانگی تھیں، لیکن متعلقہ محکموں نے شاید اسے زیادہ اہم کام نہیں سمجھا تھا، لہٰذا انہوں نے جو لوگ بھیجے وہ اس کام کے لیے موزوں نہیں تھے جس کا واضح ثبوت 1992ء کے سیلاب میں مل چکا ہے۔

ہماری غیر ذمّے داری

1988ء اور 1992ء میں بڑے سیلاب آئے تھے، جن کے بارے میں بھارت نے ہمیں بروقت مطلع کردیا تھا۔ سابق چیف میٹرولوجسٹ برائے سیلاب شوکت اعوان کے مطابق انہوں نے یہ اطلاع پنجاب کے متعلقہ محکموں کے نمائندوں کو بروقت دے دی تھی جو اس وقت ان کے دفتر میں موجود تھے۔ مگر یہ نمائندے دونوں بار یہ اطلاع بروقت اپنے محکموں کو دینے میں ناکام رہے تھے۔

اس تجربے کے بعد شوکت اعوان کے محکمے نے یہ کام بھی اپنے ذمے لے لیا تھا۔ کئی برس سے یہ محکمہ روزانہ تقریباً ڈھائی سو متعلقہ محکموں اور شعبوں کو موسم کی صورت حال کے بارے میں تازہ ترین معلومات ارسال کرتا ہے۔ متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ کو بھی یہ معلومات دی جاتی ہیں۔ آج تین ریڈار سیلاب کی نگرانی کے لیے ہیں اور پانچ میٹرولوجی ڈپارٹمنٹ کے تحت کام کرتے ہیں۔ ٹیلی میٹری کا نظام بھی موجود ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا۔ دریائے ستلج، راوی اور چناب بھارت سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ان دریائوں میں رواں پانی کی نگرانی کے لیے ہمارے انڈس واٹر کمشنر کا بھارت سے رابطہ رہتا ہے۔ اگر سیلاب کا خطرہ ہو تو ہر گھنٹے بعد دونوں طرف سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کیا جاتا ہے۔ 

1960ء سے آج تک بھارت کے متعلقہ محکمے نے پاکستان کے متعلقہ محکمے کو سیلاب یا دریائوں کے پانی کے بارے میں بروقت اطلاع دی۔ شوکت اعوان کے مطابق یہ کہنا تیکنیکی اعتبار سے غلط ہے کہ بھارت سیلاب کے دنوں میں سارا پانی پاکستان کی طرف چھوڑدیتا ہے۔ سیٹلائٹ، ریڈار اور ٹیلی میٹری نظام سے معلومات ملنے کے باوجود ہم اپنی نا اہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے کچھ نہیں کرتے۔

درخت، دریا اور کچّے کا علاقہ

صوبہ سندھ میں کشتی کے ذریعے کئی دہائیوں سے وقتاً فوقتاً سفر کرنے والے افراد کے مطابق انہوں نے اس سفر کے دوران صوبے کے کئی علاقوں کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ تبدیلیاں کثیرالجہتی ہیں اور سندھ میں آنے والے سیلابوں کا ان سے بہت حد تک بہ راہ راست تعلق ہے۔ ان افراد کے مطابق پنجاب سے سندھ میں داخل ہونے والا دریائے سندھ اپنے سفر کے اختتام پر بحیرۂ عرب میں گرتا ہے۔ اس پورے راستے میں تین ایسے مقامات ہیں جنہیں مستحکم مقامات (STABLE POINT) کہا جاسکتا ہے جو درج ذیل ہیں:

(1) جب دریائے سندھ سکھر کے پاس سے ہوتا ہے ہوا روہڑی سے گزرتا ہے (2)  کوٹری کے مقام پر جہاں کوٹری کی پہاڑیاں اسے پھیلنے سے روکتی ہیں (3)سیہون کے قریب، یہاں بھی پہاڑیاں ہیں۔ یہاں قدرتی طور پر ایسا بندوبست موجود ہے کہ جب دریا میں زیادہ پانی آتا ہے تو وہ منچھر جھیل کی طرف چلا جاتا ہے۔

مذکورہ تینوں مقامات کے درمیان دریائے سندھ مسلسل اپنا رخ بدلتا رہتا ہے۔ جن علاقوں میں دریا آزادی سے راستے بدلتا رہتا ہے وہ کچّے کا علاقہ (CHAP PLANE) کہلاتا ہے۔ دریا جب رخ بدلتا ہے تو کہیں پرانے شہر یا بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں تو کہیں نئے شہر اور بستیاں بس جاتی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال نیا اور پرانا ہالہ کا علاقہ ہے۔ اسی طرح ٹھٹھہ کی بندرگاہ بھی ختم ہوچکی ہے۔ کیٹی بندر کی بندرگاہ اور اس سے متصل علاقہ جو کبھی بہت خوش حال تھا، قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ 

انگریزوں کے سندھ پر قبضے سے قبل جن مہینوں میں دریا سے سیلابی پانی آتا تھا، ان مہینوں میں ،ان علاقوں میں کاشت کاری کی جاتی تھی۔ باقی مہینوں میں یہ کام صرف دریا کے کناروں پر واقع علاقوں ہی میں ہوتا تھا۔ انگریزوں نے اپنے دور میں ان علاقوں میں بھی سارا سال دریا کا پانی پہنچانے کے کام کا آغاز کیا، جہاں سال بھر میں صرف دو چار ماہ ہی پانی پہنچتا تھا۔

وہ ان علاقوں میں بھی سارا سال کاشت کاری ممکن بنانا چاہتے تھے۔ یوں موسمی اور مستقل نہریں بنانے کے کام کا آغاز ہوا۔ سکھر بیراج بننے کے بعد کچّے کے علاقے میں بڑی تبدیلی آئی۔ اس بیراج کی تعمیر سے ایک بڑا نہری نظام وجود میں آیا اور پورے سندھ میں دریا کا پانی پہنچنے لگا۔ اس نظام کی وجہ سے کچّے کے علاقے میں موجود جنگلات ختم ہوگئے۔ سکھر کے بعد کوٹری بیراج بننے سے اس نظام کو اور وسعت ملی۔

انگریزوں نے جہاں بھی نہریں بنائیں ،وہاں ان کے کناروں پر کیکر وغیرہ کے درخت لگائے گئے تھے تاکہ بارش اور سیلاب کے نتیجے میں زمین کاکٹائو نہ ہو اور نہروں کے کنارے پانی کے ریلے میں بہہ نہ جائیں۔ اسی طرح جگہ جگہ دریا کے دونوں کناروں پر بند بنائے گئے تھے۔ ان بندوں اور دریا کے درمیان جو علاقہ بچا ،آج کچّے کا علاقہ بس وہ ہی ہے۔ اس علاقے میں کچھ جنگلات چھوڑدیے گئے اور کچھ پر کاشت کاری ہونے لگی۔ تاہم یہ سرکاری زمین کسی فرد کی ملکیت میں نہیں تھی اور کاشت کاری کے لیے ٹھیکہ دیا جاتا تھا۔ 

قیام پاکستان کے بعد صوبہ سندھ میں مختلف اوقات میں بہت سے مقامات پر نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ یہ سڑکیں سطح زمین سے دس تا بارہ فٹ اور کہیں بیس فٹ اونچی بنائی گئیں۔ یاد رہے کہ سندھ میں زیادہ تر نہریں دریا کے ساتھ متوازی بنی ہوئی ہیں۔ پرانے زمانے میں بارش کے بعد اضافی پانی خودبہ خود دریا میں چلا جاتا تھا لیکن سڑکیں بننے سے اس عمل میں رکاوٹیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ انگریزوں کے دور میں انجینئرز کو اس مشکل کا اندازہ تھا، لہٰذا یہ سوچا گیا تھا کہ سڑکوں کے ساتھ نکاسی آب کا نظام بھی بنانا ہوگا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس ضمن میں کچھ کوشش کی گئی لیکن یہ نظام نہیں بن سکا۔

مذکورہ افراد کے مطابق کسی زمانے میں سکھر میں دریا کے ساتھ سیم نالہ بہتا تھا جو چار فیٹ گہرا تھا۔ بعد میں وہاں سولہ فٹ اونچی سڑک تعمیر کردی گئی۔ اس نالے کے دونوں طرف واقع مکانات بھی اس لحاظ سے بلند کرلیے گئے۔ کچھ عرصے بعد چار فٹ گہرا نالہ بیس فٹ نیچے ہوگیا جسے فالتو سمجھ کر بعد ازاں بھردیا گیا۔ یہ سیم نالہ بارش کے پانی کو آگے ایک گڑھے تک لے جاتا تھا۔ بعد ازاں وہ گڑھا بھی بھردیا گیا۔ یوں نکاسی آب کا ایک قدرتی بندوبست ختم کردیا گیا۔ یہ سکھر کے لحاظ سے بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اب سیلابوں میں سکھر کے لوگوں کو وہ نالہ بہت یاد آتا ہے۔

اسی طرح کچّے کے پرانے علاقے میں موجود لاکھوں درخت کاٹ کر فروخت کردیے گئے۔ یہ سلسلہ دو تین عشروں پر محیط تھا۔ 2010ء میں آنے والے سیلاب میں ایک بند محض اس لیے ٹوٹ گیا تھا کہ اس پر درخت موجود نہیں تھے جو زمین کے کٹائو کا عمل روکتے۔ یہ سب کچھ 1980ء کی دہائی میں ہوا۔

بہ قول بشیر الدین رازؔ:

اپنی بربادی اپنے ہاتھوں کی

کیسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ

موجودہ سیلاب میں صوبے کے مختلف علاقوں میں بہت سے گائوں صفحۂ ہستی سے غائب ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سنگ میل اور علاقوں کی بہت سی نشانیاں بھی مٹ چکی ہیں۔ بعض مقامی افراد نے یہ اہم سوال اٹھایا کہ پانی اترنے کے بعد وہ اپنے علاقوں میں واپس جائیں گے تو اپنی زیرملکیت زمین کو کس طرح شناخت کریں گے اور اگر اس ضمن میں تنازعات نے جنم لیا تو وہ ختم کیسے ہوں گے؟ پتا چلا کہ زمینوں پر قبضہ کرنے والے گروہ پچھلے سیلابوں کی طرح اس مرتبہ بھی سرگرم ہیں۔ 

اس موقع پر ماہرین زراعت کی رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ زمینوں پر قبضے کا مسئلہ ذرا ٹیڑھا ہے جسے صوبائی یا ضلعی سطح پر حل کرنا کافی مشکل امر ہے۔ یہ مسئلہ تحصیل یا تعلقے کی سطح پر حل کرنا زیادہ دانش مندانہ ثابت ہوگا۔ اس خطے میں شیرشاہ سوری کے زمانے میں بندوبستی نظام قائم کیا گیا تھا جسے بعد ازاں شہنشاہ اکبر کے زمانے میں پورے برصغیر میں پھیلادیا گیا تھا۔ 

انگریزوں نے بعض ترامیم کے ساتھ اسی نظام کو جاری رکھا اور اس کے لیے لینڈ سیٹلمنٹ (انتظامِ اراضی) کے نام سے ایک شعبہ قائم کردیا تھا۔ ہر پانچ برس بعد ایک بندوبستی کسی تعلقے میں جاتا اور وہاں اراضی کے حوالے سے موجود جھگڑوں کو نمٹا دیتا تھا، آج بھی یہ طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔ موبائل ٹیمز تشکیل دی جائیں جو گوٹھوں، قصبات اور شہروں میں جاکر اراضی کے تنازعات کو نمٹائیں۔

بحالی اور تعمیرنو کا کام اور منصوبہ بندی

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بعد از آفت بحالی اور تعمیرنو کا کام کسی بھی صورت میں دو یا چار سال کا نہیں بلکہ طویل المدت ہوتا ہے۔ اس کے لیے دس پندرہ برس کی منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ دنیا میں اب تک اس حوالے سے بہترین کام امریکا میں کیا گیا تھا۔ یہ مثالی کام انہوں نے سول وار (خانہ جنگی) کے بعد کیا تھا۔ بہت سے ممالک اور افراد نے اس سے بہت کچھ سیکھا اور وہ انداز اپنایا ہے۔ 

شمال اور جنوب کی ریاستوں کے درمیان غلامی ختم کرنے کے معاملے پر شروع ہونے والا جھگڑا خانہ جنگی تک جاپہنچا تھا جس میں امریکا کا جنوبی علاقہ بری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ اس خانہ جنگی کے بعد کافی عرصے تک امریکا میں اقتصادی بحران بھی رہا تھا۔ جنوبی علاقہ زراعت کی وجہ سے اہمیت کا حامل تھا۔ تعمیرنو کا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے مسائل کو ان کے علاقے میں جاکر سمجھنے کی کوشش کریں، پھر ان مسائل کی نشان دہی کرکے انہیں حل کرنے کے لیے ماڈل بنائیں۔ یوں تحقیق اور لگن کے ساتھ انہوں نے اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ ماہرین کے مطابق سندھ میں بھی حکومت غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس طرح کا کام کرسکتی ہے۔

دنیا بھر میں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قدرتی آفات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں انتہائی غریب اور نچلے متوسط طبقات کے لوگ سر فہرست ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بحالی کے کاموں میں شفافیت کی کمی اور عام لوگوں کی شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے با اثر افراد بحالی کے لیے ملنے والی رقوم اور امداد کا غلط اور ناجائز استعمال کرتے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر میں 2005ء میں آنے والے قیامت خیز زلزلے اور 2010ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد بھی ایسی شکایات عام تھیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے والوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے لہذا بحالی کے منصوبوں میں ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

متاثرین کا شکوہ

سڑکوں کے کنارے اور اسکولز میں پناہ لیے ہوئے متاثرین کے مطابق، وہ اہم شخصیات کے دوروں سے سخت پریشان ہیں۔ سادہ لوح افراد انہیں دیکھ کر مدد حاصل کرنے کے لیے ہر بار ایک نئی امید کے ساتھ دوڑتے، بھاگتے ہیں، پولیس کے دھکے اور لاٹھی کھاتے ہیں، لیکن وہ تصاویر اور وڈیو بنوا کر چلے جاتے ہیں اور لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ سرکاری اہل کار انہیں ایسے مواقع پر جانوروں کی طرح ہانکتے ہیں۔ فوراً ایمبولینس، سفید کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر، نیم طبی عملہ، راشن کے ٹرکس، پانی کے ٹینکرز اور نہ جانے کیا کیا نظر آنے لگتا ہے۔ 

یوں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ متاثرین کو تمام سہولتیں حاصل ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ خوراک کے علاوہ ادویات اور خواتین کی ضروریات کے سامان کے حصول میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ جہاں مکانات بچ گئے ہیں وہاں نالیاں، ہینڈ پمپ، کنویں، ٹیوب ویلز وغیرہ مٹی سے بھر گئے ہیں، بجلی اور پانی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور سڑکیں، پگڈنڈیاں اور رابطہ پُل بہہ چکے ہیں۔ بہت سے افراد اپنے علاقوں میں واپس جانا چاہتے ہیں، لیکن ان مسائل کے علاوہ انہیں یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ کس جگہ کو اپنے گھر کے طور پر شناخت کریں گے اور اپنی ز رعی اراضی کی حد بندی کس طرح کریں گے۔ قبضہ مافیا سے کس طرح نمٹیں گے اور با اثر افراد کی دھونس، دھاندلی کا کس طرح سامنا کریں گے۔ بعض علاقوں میں سیلاب نے ہر طرح کی نشانیاں مٹا دی ہیں۔

ترجیحی اشیا

اس وقت چاروں صوبوں میں متاثرہ لوگوں کو سرچھپانےکو ٹھکانا اورپیٹ کی آگ بجھانے کو اشیائے خورونوش کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ چارمربع میٹرکے ایسے خیمے دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں آٹھ سے دس افراد زمین پراور چار سے چھ افراد چارپائیاں بچھا کر باآسانی سو سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت ترپال اور خیموں کی بازار میں سخت کمی واقع ہو گئی ہے اوریہ آسانی سے میسر نہیں ہیں۔جہاں دست یاب ہیں وہاں نرخ آسمان کو چھورہے ہیں(عام سائز کےخیمے کا نرخ سترہ تا ستّائیس ہزار روپے )۔

ایسے میں پلاسٹک شیٹ سے چھپر بنانے کے کام یاب تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ مچھر دانی کے نرخ اور دست یابی بھی درد سر ہے، چناں چہ پردوں کے لیے استعمال ہونے والی جالی چھپر کے دو یا تین اطراف استعمال کی جارہی ہے۔رات کو روشنی اور موبائل فون اور ایمرجنسی لائٹس چارج کرنے کے لیے سولر پینلز اور بیٹریز کا استعمال ہورہا ہے۔ ربر کے لانگ شوز،مچھر بھگانے والے محلول، خواتین کی مخصوص ضروریات کی اشیا ،کھانے کے لیے خشک اشیا،مثلا بُھنے ہوئے چنے، نمکو ،بسکٹس، چاکلیٹ ، گُڑ، مُرمُرہ، نمک پارے، وغیرہ،پانی کو صاف کرنے والی گولیاں، ڈسپوز ایبل برتن وغیرہ کو امدادی سامان میں ترجییح حاصل ہے۔

جو رہی سوبے خبری

مئی 2006ء میں کیبنٹ ڈویژن نے کثیر خطرات کے بارے میں پیشگی اطلاع اور ریسپانس کے نظام کے بارے میں قومی سطح پر صلاحیتیں بڑھانے کے عنوان سے قومی منصوبے کی تیاری کے لیے پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر قمرالزماں چوہدری کو ہدایت کی تھی جس کے لیے انہیں کیبنٹ ڈویژن کے سیکریٹری اعجاز رحیم کی رہنمائی حاصل تھی۔ یہ منصوبہ سونامی سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کیے گئے خصوصی نمائندے، امریکا کے صدر بل کلنٹن کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں بننے والے کنسورشیم سے فنڈ حاصل کرنے کی غرض سے اسے پیش کیا گیا تھا۔ 

بل کلنٹن نے بحر ہند کے علاقے میں واقع ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ پیشگی اطلاع اور ریسپانس کا نظام قائم کرنے کے لیے قومی منصوبہ تشکیل دیں۔ ڈاکٹر قمرالزماں نے اس منصوبے کا خاکہ 77 صفحات پر پیش کیا تھا، جس میں پاکستان کی اس ضمن میں موجودہ صلاحیت اور مستقبل کی ضروریات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس ایڈوائزر، اسلام آباد نے دسمبر 2006ء میں پاکستان کی ڈیزاسٹر ریسپانس ایجنسیز کے جائزے کے عنوان سے 158 صفحات پر مشتمل ر پورٹ تیار کی تھی۔ 

اس رپورٹ میں سیلاب، خشک سالی، ڈینگی وائرس مینجمنٹ، آفات کے بارے میں پیشگی اطلاع کے بندوبست، گورننس اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ڈیزاسٹر ریسپانس کے اہم اداروں، ایمرجنسی ریسپانس سروسز، خطرات میں گھرے ہوئے لوگوں اور اسکولز وغیرہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا تھا، لیکن اس کا نتیجہ دھاک کے تین پات کی مِثل نکلا۔ تاہم بِلّی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا اور یہ ثابت ہوگیا کہ مقتدر طبقہ اور نوکرشاہی پاکستان کو لاحق قدرتی آفات کے خطرے اور اپنی تیاری سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود کچھ نہیں کر رہی۔ایسے میں عام آدمی باقی صدّیقی کی زبان میں یہ کہہ رہا ہے:

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری

اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو