تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کو زمانہ قدیم سے جن آفات کا سب سے زیادہ سامنا رہا ان میں زلزلے، سیلاب، طوفان، خشک سالی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ ایک قدرتی آفت کئی دیگر آفات کا سبب بنتی ہے۔ مثلاً 2005 میں ملک میں آنے والے تباہ کن زلزلے اور 2010 اور اس کے بعد آنے والے خوف ناک سیلابوں کولے لیں۔ ان کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک، زخمی اور در بہ در ہوئے۔ ان کے گھر تباہ ہو گئے یا صفحۂ ہستی سے مٹ گئے، سامان بہہ گیا اور بڑی تعداد میں مویشی ہلاک یا لاپتا ہو گئے۔اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
یہ نقصانات بہت دیرپا اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ تاریخ کے ابتدائی مراحل میں انسان نے آفات کا انفرادی طور پر مقابلہ کیا، پھر ریاست کا تصور سامنے آیا تو یہ ذمے داری ریاستی مشینری کو منتقل ہو گئی۔ تہذیب اور سائنس کی ترقی کے ساتھ ان آفات اور ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کے ضمن میں ریاستوں اور عوام کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
آج یہ کام ایک سائنس بن چکا ہے اور اس سے متعلق بہت سے شعبے اور محکمے وجود میں آچکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ سارا کام قاعدے قوانین کے تحت ہوتا ہے، تاہم پاکستان میں اس ضمن میں قانون سازی کرنے اورقوانین کے تحت مؤثر اور فعال ادارے بنانے پر کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔دوسری جانب حالات کے جبر کے تحت جو قوانین اور ادارے بنائے گئے ان کی کارکردگی بہت ناقص ہے۔
1880سے 1973تک
جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی تو انہوں نے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کی تھی۔ اس ضمن میں1880میں ایک قانون متعارف کرایا تھا۔ بنیادی طور پر یہ امراض سے تحفظ اور حفظِ ماتقدّم کا قانون تھا۔ اس کے ذریعے وبائی امراض سے لوگوں کو بچانے کے لیے ٹیکے لگانے کا نظام متعارف کرایا گیا۔ انگریزوں کے دور سے1958تک اس ضمن میں دو درجن سے زاید قوانین سامنے آئے۔ 1944میں وبائی امراض سے تحفظ کے قانون سے لے کر 1958 کے وبائی امراض ایکٹ ، قومی آفات (انسداد و امداد ) کے بارے میں صوبہ پنجاب کا 1958کا ایکٹ اور مغربی پاکستان ایکٹ تک یہ سلسلہ دراز رہا۔
حالات اور واقعات کے تحت اس ضمن میں پاکستان میں مزید پیش رفت ہوئی اور1965میں قومی رضا کار آرڈی نینس سامنے آیا اور صوبہ سندھ میں قحط سے نمٹنے کے لیے امدادی فنڈ کے لیے 1966 میں قانون سامنے آیا۔پھر ہمیں سیلاب نے آگھیرا تو1973میں سنیما گھروں اور ریس کورس کے ٹکٹس پر سیس (CESS) کی صورت میں مزید ٹیکس عاید کر کے سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے قانون بنایا گیا۔ پھر وقتاً فوقتاً مزید قوانین متعارف ہوئے اور ان میں ترامیم کی جاتی رہیں۔
مثلاً لینڈریونیو ایکٹ وغیرہ۔ یہ قوانین زرعی اراضی پر محاصل سے لے کر دریا بُرد ہونے والی ، دریا کے راستہ بدلنے کی وجہ سے سامنے آنے والی اراضی ، سیلاب کے پانی سے تحفظ اور قحط کی صورت حال سے نمٹنے جیسے معاملات کا احاطہ کرتے ہیں۔ لینڈریونیو ایکٹ اس اعتبار سے بہت اہم ثابت ہوا کہ اس کے نفاذ کی وجہ سے متعلقہ سرکاری اداروں کے پاس آبادی اور اراضی کے بارے میں سائنسی بنیادوں پر اعداد و شمار جمع ہوئے۔ کینال اینڈ ڈرینیج ایکٹ میں بھی اس قسم کے قانونی نکات شامل ہیں۔
ہیوگو اعلامیے پر دست خط اور 2005کا زلزلہ
تیز رفتار سائنسی ترقی کی وجہ سے بے شمار فواید کے ساتھ بہت سے نقصانات بھی سامنے آئے۔ لوگوں کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا۔ ایک سے دوسرے مقام پر نسبتاً بہت کم وقت میں منتقل ہونا آسان ہوگیا۔ نت نئی صنعتیں لگیں۔ قدرتی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال ممکن ہوا۔ انسان نے مہلک ہتھیار تیار کیے اور جنگوں میں بڑے پیمانے پر انہیں استعمال بھی کیا گیا۔ اس سارے عمل میں قدرتی وسائل اور ماحول کو بہت نقصان پہنچا۔ ماحول کے لیے نقصان دہ گیسز کے اخراج کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں شگاف پڑے۔
دنیا بھر میں موسم تبدیل ہوئے، نت نئی بیماریاں سامنے آنے لگیں اور کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے قدرتی آفات میں بھی اضافہ ہونے لگا جس نے کئی طرح کے انسانی اور ماحولیاتی المیوں کو جنم دیا۔ چناں چہ2005میں جنوری کے مہینے میں جاپان کے شہر ہیوگو میں عالمی برادری کے نمائندے جمع ہوئے اور انہوں نے قومی آفات و سانحات کا مقابلہ کرنے کے لیے ماڈل قوانین اور حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان نے بھی اس بات پر صاد کرتے ہوئے ہیوگو اعلامیے پر دست خط کیےتھے، تاہم اس ضمن میں ہماری روایتی مجرمانہ غفلت کا سلسلہ جاری رہا تا آں کہ ملک میں ا کتوبر 2005 میں تباہ کن زلزلہ آگیا۔
اگرچہ 2005 کا زلزلہ ایک قدرتی آفت تھی، لیکن ہمارے حکم رانوں کی روایتی مجرمانہ غفلت اور بے حسی کی وجہ سے اس آفت کی شدت اور اس کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصانات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ اس بارے میں ملکی اور غیر ملکی سطح پر بہت کچھ کہا اور لکھا گیا، حکومت کے خوب لتّے لیے گئے اور ملک میں آفات سے نمٹنے کے لیے مربوط،منظّم اور فعال نظام کی عدم موجودگی کو ہر سطح پر شدت سے محسوس کیا گیا۔
چناں چہ بعد از خرابی بسیار انتظام آفات آرڈی نینس مجریہ21 دسمبر 2006 کے ذریعے قومی کمیشن اور اتھارٹی برائے انتظامِ آفات قایم کی گئی۔پھر وزیراعظم کی سربراہی میں قومی کمیشن برائے انتظامِ آفات قائم کیا گیا جس میں ایوان زیریں اور بالا میں موجود حزبِ اختلاف کے راہ نما، صحت، خزانے، دفاع، خارجہ امور ودیگر اہم وزارتوں کے انچارج وزراء، اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بر بنائے عہدہ اراکین ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کمیشن میں سول سوسائٹی کے نمائندوں یا دیگر افراد کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔
مذکورہ آرڈی نینس کی روشنی میں سانحات و آفات کے بارے میں قانون سازی کرنے کا اختیار چاروں صوبوں کی اسمبلیز نے آئین کی دفعہ 144 کے تحت قرار دادیں منظور کر کے پارلیمان کو دیا تھا۔ مذکورہ آرڈی نینس کی دفعہ نمبر2کی ذیلی دفعات میں متاثرہ علاقہ، آفت، آفت کا انتظام (مقابلہ، تیاری وغیرہ) ، قومی، صوبائی اور ضلعی اتھارٹی اور منصوبے وغیرہ کی صراحت موجود ہے۔ دفعہ 6 میں کمیشن کے اختیارات اور طریقۂ کار کی وضاحت موجود ہے۔ آرڈی نینس کی دفعہ نمبر10قومی منصوبہ تیار کرنے کو لازم قرار دیتی ہے۔
دفعہ نمبر13اور 14کے ذریعے صوبائی سطح پر کمیشن کے قیام اور انتظامات ممکن بناتی تھیں۔دفعہ نمبر15اور16صوبائی اتھارٹیز کے قیام اور انتظامات کو قانونی تحفظ فراہم کرتی تھیں۔ دفعہ نمبر17کے تحت صوبائی سطح پر منصوبہ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس آرڈی نینس کی دفعہ نمبر25اس لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل تھی کہ اس میں مقامی اتھارٹی کے فرایض بیان کیے گئےتھے اور اہم ترین بات مقامی اتھارٹی کے عملے کی آفات سے نمٹنے کے لیے تربیت کو لازمی قرار دیا گیا تھا اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ذرایع کی فوری فراہمی یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی۔ دفعہ نمبر26انتظامِ آفات کے لیے قومی انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے بارے میں تھا۔ یہ انسٹی ٹیوٹ قائم تو ہو گیا مگر صرف نام کی حد تک۔
آرڈی نینس کی دفعہ نمبر 27میں بہت اہم بات کی گئی تھی یعنی نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کا قومی اتھارٹی کے تحت قیام۔ لیکن اس دفعہ میں یہ صراحت موجود نہیں تھی کہ مذکورہ فورس کے اراکین مستقل ملازم ہوں گے یا رضاکار بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ ادارے افراد کی مد د سے کام کرتے ہیں، لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ ایسے میں انتظامِ آفات کی قومی اتھارٹی کس طرح کام کر سکتی ہے ؟ اس کا جواب ہمیں 2010اور2011 میں آنے والے اور حالیہ سیلابوں کے دوران مل چکا ہے۔ اس قانون کے تحت کام کرنے والے اداروں کے کام میں رخنہ اندازی کرنے یا ان کے احکامات نہ ماننے وغیرہ کی صورت میں آرڈی نینس کے دسویں باب میں سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔
بعد از خرابیِ بسیار
ہمارے حکم رانوں اور اداروں کی تاریخ یہ رہی ہے کہ وہ بعد از خرابیِ بسیار خوابِ گراں سے کچھ حد تک باہر آتے ہیں اور تھوڑی بہت کاغذی اور عملی کارروائی کرنے کے بعد پھر اپنی دنیا میں لوٹ جاتے ہیں ۔2005کے زلزلے کے بعد دنیا بھر کے لوگوں نے یہ مناظر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دیکھے کہ جوہری بم بنانے کے صلاحیت رکھنے والے ملک میں اکیسویں صدی میں زلزلہ آیا تو لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لکڑی اور لوہے کے ٹکڑوں کے ذریعے کئی روز تک ملبہ کریدتے اور ہٹاتے رہے ،تو ہر طرف سے لعن طعن ہوئی۔
چناں چہ اس سانحے کے ایک برس بعد انتظام آفات سے متعلق آرڈی نینس نافذ ہوا لیکن نومبر2008 میں بلوچستان میں آنے والے زلزلے سے لے کر حالیہ سیلاب تک اور چاروں صوبوں کے بڑے شہروں میں اسی دوران رونما ہونے والے بڑے بڑے سانحات میں بھی نیشنل اور پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کا کوئی قابل ذکر کردار سامنے نہیں آیا، بلکہ ان واقعات نے ہم پر یہ واضح کیا ہے کہ یہ ادارے کس طرح چل رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم نے اس ضمن میں رہی سہی کسر ایک ایسی مشاورتی کونسل بنا کر پوری کر دی جس کا انتظامِ آفات سے متعلق آرڈی نینس میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ ان حالات میں بعض ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ این ڈی ایم اے جیسا اہم ادارہ بھی اپنے آغاز ہی سے روایتی بیورو کریسی ، سست روی اور بے حسی کا شکار ہوگیا اور دیگر سرکاری اداروں کی طرح یہ بھی محض من پسند افراد کو نوکریاں دینے والا سرکاری دفتر بن گیاہے؟ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد حزب اختلاف کے راہ نما نے بھی این ڈی ایم اے کا ڈھانچا نظر انداز کر کے محض بحالی کمیشن ہی کی بات کی تھی۔
آفات کے بارے میں چند اہم ملکی قوانین کا مختصر جائزہ
سول ڈیفنس ایکٹ مجریہ 1951 :
اس ایکٹ کے تحت وزارت داخلہ کے کنٹرول میں محکمۂ شہری دفاع (سول ڈیفنس) قائم کیا گیا۔ طویل عرصے بعد 1994 میں اس قانون میں چند ترامیم کر کے وفاقی اور صوبائی سطح پر اس ادارے کو ذمے داریاں دی گئیں۔ چوں کہ اس محکمے کا بنیادی کام نچلی سطح سے متعلق ہے، اس لیے ضلعی سطح پر اس کی چند اہم ذمے داریوں پر نظر ڈالتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
٭ مقامی آبادیوں کے لوگوں کو بلا تفریق شہری دفاع سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنا اور تربیت دینا۔٭ سرکاری تحویل میں موجود ایسے مقامات کی حفاظت کرنا جو دفاعی نقطۂ نظر سے اہم ہوں٭ کسی ہنگامی صورت حال میں روشنیوں، لائوڈ اسپیکرز اور ذرایع آمد و رفت کا نظام کنٹرول کرنا٭ شہری دفاع سے متعلق سامان کا ذخیرہ کرنا اور بہ وقتِ ضرورت مہیا کرنا٭ آتش زدگی کے واقعات سے تحفظ کے لیے اور آتش زدگی کی صورت میں نقصانات کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا٭ تباہ شدہ عمارتوں سے لاشیں نکالنا،ہنگامی اخراجات کے راستے متعین کرنا اور انخلاء کے لیے آبادیوں کو معلومات فراہم کرنا۔
درج بالا ذمے داریوں کے ساتھ اس ایکٹ کے تحت محکمۂ شہری دفاع کو بعض اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں، جن کے تحت ہنگامی صورت حال میں ذاتی ملکیت کو سرکاری تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسی ملکیت کا معاوضہ/ کرایہ رائج قوانین کے تحت ادا کیا جانا لازم ہے۔ اسی طرح جو شخص اس قانون کی خلاف ورزی یا اس سے انحراف کا مرتکب ہوگا اس کے خلاف محکمہ قانونی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
اگرچہ یہ قانون 1951میں نافذ کیا گیا تھا اور اس کے متعدد نکات بہت اہمیت اور افادیت کے حامل ہیں، تاہم اس کے نفاذ کے بعد سے ملک میں جب بھی ہنگامی حالات پیدا ہوئے اس قانون کا مؤثر انداز میں استعمال نہیں کیا گیا، محکمہ شہری دفاع کے عملے اور عوام کی تربیت پر کوئی خاص توجہ دی گئی نہ متعلقہ سامان ذخیرہ کرنے میں دل چسپی لی گئی۔ صرف 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران اس محکمے کی کچھ کارکردگی نظر آئی، مگر وہ حالات کچھ اور تھے اور اس وقت عوام کا جذبۂ حب الوطنی عروج پر تھا۔ آفات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس محکمے کو وزارت داخلہ کے ماتحت رکھنا بہت بڑا سوال ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ اس جیسے بہت اہم ادارے کو ہر دور میں غیر مؤثر اور غیر فعال کیوں رکھا گیا؟ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم ایز کی تشکیل کے بعد اسے اس کے ماتحت کیوں نہیں کیا گیا ؟ ان کے مطابق ہمیں انتظامِ آفات کے ضمن میں ان سوالات پر فوری توجہ دینا ہوگی۔
نیشنل کلیمٹی (بچائو اور امداد) ایکٹ مجریہ 1958 :
یہ قانون سابق مغربی پاکستان کی اسمبلی نے 3 اپریل 1958 کو منظور کیا تھا اور اس کا اطلاق قبائلی علاقوں سمیت تمام ایسے علاقوں پر کیا گیا تھا جو مسلسل قدرتی آفات، بالخصوص سیلاب، کی زد میں آتے رہتے تھے۔ اس ایکٹ کے تحت صوبائی ریلیف کمشنر کو کافی اختیارات دیے گئے تھے۔ اس قانون میں قرار دیا گیا کہ صرف متعلقہ صوبائی حکومت ہی متاثرہ علاقوں کی نشان دہی کر کے ہنگامی حالات کا اعلان کر سکتی ہے۔ اس کے مطابق آفات کی صورت میں درج ذیل اہم اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں:
٭ کسی آفت (بالخصوص سیلاب) کی متوقع آمد کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا٭ سیلاب یا دیگر اقسام کی آفات کی صورت میں معلومات جمع کرنا٭ آفت زدہ علاقے کا سروے کرنا٭ کسی فرد یاافراد کی ذاتی جائیداد/ ملکیت کا سروے کرنا یا معاوضے کی ادائیگی اس قانون میں تجویز کیے گئے طریقۂ کار کے تحت کی جائے گی٭ اس ایکٹ کی کسی شق میں ترمیم کا اختیار صوبائی اسمبلی کو دیا گیا تھا تاہم 1973میں اس قانون کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کر دیا گیا تھا۔
لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس مجریہ 2001 :
اس قانون کے تحت ضلعی سطح پر مختلف سرکاری محکموں کو آفات کے انتظام اور تدارک کے ضمن میں مناسب ذمے داریاں اور اختیارات دیے گئے تھے۔ اس ضمن میں منصوبہ بندی اور ترقی کے عمل میں خاص اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ مثلاً تحصیل کی سطح پر میونسپل انتظامیہ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ شہری منصوبہ بندی جیسے اہم عمل میں خدشات کی جانچ پڑتال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ہنگامی صورت حال میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور آفات کے انتظام اور اس کے تدارک کے حوالے سے ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر بنیادی ڈھانچے اور خدمات کے نظام کو درست حالت میں رکھنے اور اسے بہتر بنانے کے بارے میں خصوصی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی تھی، اس ضمن میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، سیلاب کے پانی کے اخراج اور آتش زدگی سے نمٹنے جیسے امور شامل تھے۔
اس قانون میں سیلاب کی روک تھام کے لیے حفاظتی اقدامات اٹھانے، قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے منصوبے بنانے اور شہری دفاع کے امور کے حوالے سے بہت مختصراً اور واضح انداز میں ذمے داریوں کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح پیشگی اطلاع دینے اور کوئی آفت آنے سے قبل اٹھائے جانے والے اقدامات کے ضمن میں یہ قانون خاموش ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام میں بہت سی اچھی باتیں بھی تھیں، لیکن چوں کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے یہ نظام بنانے سے قبل وسیع پیمانے پر سیاسی مشاورت کرنے سے فوجی حکومت کو روایتی طور پر دور رکھا تھا اس لیے یہ نظام ان کا اقتدار ختم ہونے کے ساتھ ہی دم توڑ گیا تھا۔
پنجاب ایمرجینسی سروس ایکٹ مجریہ2006 :
اس قانون کے تحت صوبہ پنجاب میں ایمر جنسی سروس کا نظام بنایا گیا تاکہ کسی ہنگامی صورت حال میں متاثرہ افراد کو تلاش کرنے، بچانے، ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے اور بروقت کارروائی جیسے اہم کام کیے جا سکیں۔ ریسکیو 1122 کا ادارہ اسی قانون کے تحت صوبہ پنجاب میں کسی حد تک اچھا کام کر رہا ہے۔ اس قانون کے تحت تفویض کیے گئے اختیارات اور فرائض میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
٭… ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا٭ کسی بھی آفت یا حادثے کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو بروقت کارروائی کرکے بچانا اور ہر طرح کی طبی امداد فراہم کرنا۔
٭… ہنگامی کارروائی کے دوران متعلقہ تنظیموں یا محکموں کے ساتھ رابطہ کرنا٭… زخمیوں کو جائے حادثہ سے اٹھا کر اسپتال منتقل کرنا٭… مقامی سطح پر کمیونٹی ریسپانس ٹیمز تشکیل دینا ٭… جدید تقاضوں کو سمجھنے کے لیے ملکی اور عالمی اداروں کے ساتھ رابطہ رکھنا٭… ہنگامی کارروائی سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا تاکہ یہ معلومات آفات کی روک تھام کے لیے استعمال کی جا سکیں٭… تعلیمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ افراد کی ایمرجینسی ریسپانس کے ضمن میں تربیت کرنا۔
تعلیمی نصاب، قوانین اور رضا کار
دنیا بھر میں آفات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے کئی سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ مثلاً وہ اس بارے میں تعلیمی نصاب میں مواد شامل کرنے کے لیے تجاویز دیتے ہیں۔ عوام، اسکول کے بچوں، اساتذہ، طبیبوں، نیم طبّی عملے، ذرایع ابلاغ کے نمائندوں، ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے آلات اور مشینیں چلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے ہنر مندوں وغیرہ کو وقتاً فوقتاً تربیت دیتے ہیں۔ اس کام میں دل چسپی رکھنے والوں کو رضاکاروں کی فہرست میں شامل کر کے ان کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو مدنظر رکھ کر ان کی درجہ بندی کرتے اور انہیں تربیت فراہم کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ایساکچھ بھی نہیں ہوتا۔
چناں چہ 1951اور 2006 کے بعد بھی تعلیمی کتب میں ان قوانین کے بارے میں کوئی بات شامل نہیں تھی۔ اسی طرح 2005 کے قیامت خیز زلزلے اور 2010کے الم ناک سیلاب کے بعد بھی تعلیمی نصاب میں ترمیم کرنے پر غور نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ آفات اور ہنگامی حالات سے محض سرکاری ملازمین نہیں نمٹ سکتے بلکہ اس کام کے لیے بڑی اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے،جس پر ہم نے کبھی توجہ نہیں دی،پھر یہ کہ بغیر سیاسی مشاورت کے بنائے گئے نظاموں کا وہ ہی حال ہوتا ہے،جو قدرتی آفات اورہنگامی حالات کے ضمن میں سابق فوجی آمروں ایوب خان اور پرویز مشرف کے ادوار حکومت میں بنائے گئے نظاموں اور قوانین کا ہوا۔
انتظامِ آفات کے آرڈی نینس میں کئی خامیاں اور ابہامات موجود تھے
ملک طاہر اقبال ایڈووکیٹ چیئرمین لیگل رائٹس فورم
قدرتی آفات اور بڑی تباہی سے نمٹنے کےضمن میں 2005 کے زلزلے کے بعد ایک اہم قانون سامنے آیا جس کی وجہ سے این ڈی ایم اے اور ڈی ڈی ایم ایز قائم ہوئے، لیکن ان اداروں کا دائرہ ٹائون اور یوسیز کی سطح تک وسیع نہیں کیا گیا۔ این ڈی ایم کے تحت افسران کی تربیت اور شعور اجاگر کرنے کے بارے میں بات کی گئی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہمارے ارباب اقتدار قدرتی آفات کے انتظام کے بارے میں کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری جامعات میں اس ضمن میں مضامین کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں حالاں کہ ہمیں پرائمری سطح تک اس کی تعلیم دینی چاہیے۔
2006کے قانون میں ایمرجنسی ریسپانس سسٹم کے ساتھ پوسٹ ڈیزاسٹر ریکوری سسٹم بنانے کی بھی بات کی گئی تھی، لیکن یہ دونوں نظام کاغذوں تک محدود رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کی تربیت اور ایڈووکیسی کا دائرہ ٹائون اور یونین کونسل کی سطح تک وسیع کیا جائے، شہری دفاع کے ادارے کو مؤثر اور فعال بنایا جائے، دریائوں کے قریب واقع علاقوں کی اراضی کوپٹّے پر دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے اور وہاں آبادیاں قائم کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
نیشنل کیڈٹ کور کی طرح آفات سے نمٹنے کی تربیت دی جائے اور اسے حاصل کرنا ہر شہری کے لیے لازم قرار دیا جائے۔2005کے زلزلے کے بعد بلدیاتی کونسلرز نے متاثرہ علاقوں میں فعال اور مؤثر کردار ادا کیا تھا۔ کونسلرز محلے کی جانی پہچانی شخصیت ہوتے ہیں اور انہیں آئندہ بھی ووٹ لینے ہوتے ہیں۔ وہ ایک جانب عوام سے اوردوسری جانب یونین کونسل، ٹائون اور ضلعی ناظمین سے رابطے میں رہتے ہیں، اس طرح ایک رنجیر بن جاتی ہے جو ہنگامی حالات میں مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین ان کی طرح لگن اور جذبے سے کام نہیں کر سکتے، لہٰذا بلدیاتی نظام کا احیاء کیا جائے۔
انتظام آفات کے آرڈی نینس میں کئی خامیاں، خلا اور ابہامات موجود تھے۔ مثلاً اس قانون کے تحت جو نظام قائم ہونا تھا اس میں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کو کلیدی حیثیت حاصل تھی لیکن اس فورس کے بارے میں قانون میں بہت کم زوری اور ابہام نظر آتا ہے۔ اس نظام میں رضا کاروں کی شمولیت اور تربیت کے بارے میں یہ قانون مکمل طور پر چپ سادھے ہوئے نظر آتا ہے۔ حالاں کہ اس میں سماجی تنظیموں کے ضمن میں مبہم سی بات شامل تھی، لیکن اس بارے میں ٹھوس اور بنیادی نوعیت کے نکات غائب تھے۔ اس قانون کا دوسرا بہت اہم سقم یہ ہے کہ اس میں آفات اور حادثات کی سائنسی بنیادوں پر پیش بینی کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کی گئی۔
اس کا تیسرا بہت اہم سقم یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کے باہمی ربط و تعاون کے بارے میں یہ قانون کوئی رہنمائی فراہم نہیں کرتا کہ ہنگامی حالات میں کون سا عہدے دارکس افسر یا ادارے کے احکامات پر عمل کرنے کا پابند ہوگا۔ کوئی آفت آنے یا بڑا حادثہ ہونے کی صورت میں عوام کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے کی غرض سے کسی خاص سمت کا تعین کس طرح کیا جائے گا؟ ایسے حالات میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ افواہوں اور متضاد آراء کی وجہ سے لوگ بے یقینی اور افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ایسے میں ذرائع ابلاغ سے سرکاری اداروں کے مؤثر رابطے اور تعاون کی شدید ضرورت ہوتی ہے تاکہ عوام تک بر وقت اور حقائق پر مبنی خبریں پہنچ سکیں۔ لیکن اس قانون میں ایک مربوط پالیسی کے تحت ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے اور ان کے ایک ضابطے کے تحت کام کرنے کے بارے میں کوئی نکتہ نظر نہیں آتا۔ ان سقموں اور ابہامات کی موجودگی میں قانون اور آئینی امور کے ماہرین اسے قانون تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اسے ایسا مجموعۂ قوانین (Codified Law) نہیں کہا جا سکتا جو ہنگامی حالات میں تمام متعلقہ اداروں کے لیے چھتری کا کام کرے۔