عکّاسی: رابرٹ جیمس
پاکستان کے دیگر صوبوں سمیت کوئٹہ، بالخصوص اندرون بلوچستان حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے شدید متاثر ہے۔غیر معمولی بارشوں سے صرف صوبے کا بنیادی انفرااسٹرکچر ہی بُری طرح متاثر نہیں ہوا، بلکہ کئی محکموں کی ناقص کارکردگی کا پول بھی کُھل گیا ہے۔ کوئٹہ، جو صوبے کا دارالحکومت ہے، اس کے کئی نواحی علاقوں میں ہائوسنگ اسکیمز بنانے کی اجازت تو دے دی جاتی ہے، لیکن اجازت دینے سے قبل ذمّے دار محکموں کی جانب سے سائٹ انسپیکشن یا سروے وغیرہ نہیں کیا جاتا، جب کہ یہاں کئی ہاؤسنگ اسکیمز تو ایسی بھی ہیں، جو بِنا این او سی ہی تعمیر کرلی گئی ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ کہ اکثر اسکیمز پانی کی قدیم گزرگاہوں اورندی، نالوں پر قائم ہیں، لیکن جب رواں سال مون سون کی شدید بارشیں ہوئیں، توپہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے پرانی گزر گاہوں سے گزرے اور اپنے راستےمیں آنے والی تمام تجاوزات بہا لے گئے۔
یوں، درجنوں مکانات، تعمیرات پانی کی نذر ہوگئیںاورسیکڑوں گھرانے سڑک پر آگئے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ برس میں کوئٹہ میں تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث نواں کلی ،سرہ غوڑ گئی ،ایسٹر ن ویسٹرن بائی پاس اور ملحقہ علاقوں میں درجنوں نجی ہائوسنگ اسکیمز بنائی گئیں، جن میں کئی اسکیمزایسی تھیں، جن کے پاس کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی(کیو ڈی اے) اور ضلعی انتظامیہ کا این او سی تک نہیں تھا۔
گوکہ متعلقہ حکّام کی جانب سے بارہا اخبارات میں تشہیر بھی کی گئی کہ ایسی ہائوسنگ اسکیمز میں خرید و فروخت سے گریز کیا جائے اور مالکان کو بھی ہدایت کی گئی کہ تمام قواعد و ضوابط پورے کر کے این او سی حاصل کر لیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے بیش تر افراد نے اپنے زیورات بیچ کر، زندگی بَھر کی جمع پونجی سے پلاٹ/ مکان خریدے تھے، مگر مون سون کے دوران غیر معمولی بارشوں کے سبب درجنوں پختہ گھر برساتی ریلوں کی نذر ہو گئے اورآج سیکڑوں افراد سڑکوں پر ہیں۔
آبی گزرگاہوں پر قائم متعدّد غیرقانونی ہاؤسنگ اسکیمز، متعلقہ محکموں پر سوالیہ نشان…؟؟
اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل، کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی، مزمّل حُسین ہالیپوٹو کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوئٹہ مین اس وقت 150سے زائد غیرقانونی اسکیمز موجود ہیں، جن کے خلاف کیو ڈی اے کی جانب سےوقتاً فوقتاً کارروائی بھی کی جاتی رہی ہے۔ تاہم، اب ان اسکیمز پر گھر بھی بن چُکے ہیں۔‘‘ ڈی جی، کیو ڈی اے کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس میں کیوڈی اے کے عملے کی بھی غفلت شامل ہے، تاہم ہمارے پاس افرادی قوّت اتنی نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ کی جاسکے۔
مَیں نے ازخود غیر قانونی اسکیمز کے مالکان کے خلاف کریک ڈائون شروع کیاہے اور 30 سے 35 افراد کو گرفتار بھی کروایا۔ جب کہ ایف آئی اے کو بھی اس ضمن میں مراسلہ لکھا کہ ایسی ہاؤسنگ اسکیمز کالے دھن کو وائٹ مَنی میں تبدیل کرنےکے لیے شروع کی گئی ہیں۔ نیز، ان کے خلاف اینٹی مَنی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کرنے کی بھی استدعا کی۔ لیکن زر، زمین کا لالچ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بعض علاقوں میں آبی گزرگاہوں پر بھی اسکیمز بنادی گئی ہیں، جنہیں حالیہ سیلاب بہا لے گیا۔
تاہم، ہم نے اس ضمن میں محکمۂ آب پاشی سے درخواست کی ہے کہ وہ پانی کی گزرگاہوں کی نشان دہی کرے اور ان کارقبہ بھی بتائے تاکہ اس امر کا اندازہ لگایا جاسکے کہ نالے یا پانی کی گزر گاہ کی کتنی زمین پرقبضہ کیا گیا ہے۔ گرچہ ہمارے پاس محدود وسائل ہیں، لیکن اس کے باوجود کوشش کر رہے ہیں کہ شہر میں غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیمز کے خلاف کارروائی کریں۔ نیز، عوام کو بھی اس حوالے سے ذمّے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کیوڈی اے وقتاً فوقتاً بذریعہ میڈیا غیرقانونی ہاؤسنگ اسکیمز کے نام منظرِ عام پر لاتا رہتا ہے،اس کے باوجود لوگ اپنی زندگی بَھر کی جمع پونجی، سرمایہ غیر قانونی اسکیمز میں لگا کر بعد میں نقصان اُٹھاتے ہیں۔‘‘
مزمّل حُسین نے مزیدبتایا کہ ’’ قانون کے تحت مجموعی رقبے کے 60 فی صد پر گھراور 40فی صد پر کمیونٹی پارک، روڈ، مسجد وغیرہ قائم کرنی ہوتی ہے، جب کہ بلڈرز این او سی لیے بغیر قریباً 90 فی صد اراضی فروخت کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ کیو ڈی اے سے این او سی لینے سے کتراتے ہیں۔خیر،ہم نے حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتِ حال کے بعد غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیمز کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کا آغاز کردیا ہے اور اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ، میٹروپولیٹن کارپوریشن سے بھی تعاون طلب کیا ہے، تاکہ مشترکہ طور پر کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔
نیز، ہمیں کیو ڈی اے میں موجود کالی بھیڑوں کا بھی علم ہے، تاہم اب کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور فرائض میں غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم نے مختلف ٹیمز بھی تشکیل دی ہیں، جو ڈیٹا اکٹھا کررہی ہیں، جلد ہی غیر قانونی اسکیمز کی ایک فہرست شایع کردی جائے گی۔ کیو ڈی اے نے ماضی میں بھی شہر میں شان دار ہائوسنگ اسکیمز متعارف کروائیں اور مستقبل میں بھی ہم ایسی ہائوسنگ اسکیمز متعارف کروائیں گے، جہاں متوسّط و غریب طبقہ بآسانی پلاٹس خرید کر گھر بنا سکے۔ مَیں درخواست کرتا ہوں کہ شہری کسی بھی ہائوسنگ اسکیم میں سرمایہ لگانے سے قبل کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے اس حوالے سے ضرور معلومات حاصل کریں، تاکہ ان کی محنت کی کمائی برباد ہونے سے بچ جائے۔ ‘‘
آبی گزرگاہوں اور غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے ایڈمنسٹریٹر میٹروپولیٹن کارپوریشن، عبدالجبار بلوچ کا کہنا ہے کہ ’’ہاؤسنگ اسکیمز کو این او سی دینا ہمارا کام نہیں۔ تاہم، انفرادی حیثیت میں کوئی بھی اپنا گھر بنائے گا، تو نقشے کی منظوری میٹروپولیٹن کارپوریشن کے شعبۂ نقشہ ہی سے لینی پڑے گی۔یاد رکھیں،اگر کوئی بھی بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو میٹروپولیٹن کارپویشن حرکت میں آجاتی ہے۔ ہمارے نظام میں خامیاں ضرور ہیں، مگر ہم پھر بھی اپنے تئیں بہتر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فی الحال، ازسرِنو ایک پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے، کیوں کہ حالیہ بارشیں اور سیلاب ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔ قدیم آبی گزرگاہوں پر کسی صُورت تعمیرات کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ہم نے شہر بَھر کی اسکیمز کا ریکارڈ اکٹھا کرنا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں سروے ٹیمز بھی تشکیل دی جائیں گی۔ جس میں محکمۂ ایری گیشن، کیوڈی اے اور ضلعی انتظامیہ سے بھی تعاون طلب کیا جائے گا، تاکہ تمام محکمے مل کر غیر قانونی اسکیمز کا سروے کریں اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ یہ شہر ہم سب کا ہے، اس کی تعمیر و ترقّی میں ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ بات گرہ سے باندھ لیں کہ اب جو بھی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے این او سی کے بغیر تعمیراتی اسکیم شروع کرے گا، اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘‘
جب کہ صوبائی دارالحکومت کے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ متعلقہ محکمے ،جس میں کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی،کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اورضلعی انتظامیہ وغیرہ شامل ہیں،اُس وقت کہاں تھے، جب پانی کی قدیم گزر گاہوں پر آبادیاں قائم کی جارہی تھیں۔نیز، ایسی بلڈنگز کے نقشے کس نے اور کیسے منظور کیے؟ عوامی حلقوں نے ڈائریکٹر جنرل، کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ایڈمنسٹریٹر میٹروپولیٹن کارپوریشن، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے اپیل کی ہے کہ وہ کوئٹہ میں کُھلے عام غیرقانونی ہاؤسنگ اسکیمز کی تعمیرات میں ملوّث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں اور آیندہ بنا این او سی کے کوئی بھی ہاؤسنگ اسکیم تعمیر نہ ہونے دیں۔
یاد رہے، بلوچستان کے 35اضلاع میں صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ ہی ایسا شہر ہے، جہاں زندگی کی تمام تربنیادی سہولتیں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں اندرون بلوچستان کے عوام نے بڑے پیمانے پر یہاں ہجرت کی اور کوئٹہ کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ۔اور وہ کوئٹہ ، جو زلزلہ زون میں واقع ہے، جہاں 1935ءکے بعد صرف سیون ٹائپ مکانات بنانے کی اجازت تھی، آج پلازوں کا شہر بنتا جا رہا ہے۔ شہر میں جا بجا بلند و بالا پلازوں میںاسپتال،ا سکول، کالجز قائم ہو چُکے ہیں ،جہاں پارکنگ اور دیگر سہولتوں کا بھی کوئی بندوبست نہیں ۔
اسی سبب شہر میں ٹریفک کانظام بھی درہم برہم ہو چُکاہے ۔ کچھ عرصہ قبل کوئٹہ ٹریفک پولیس نے بھی صوبائی حکومت کو ایک رپورٹ ارسال کی ، جس میں استدعا کی گئی کہ جب تک کوئٹہ کے تعلیمی ادارے،اسپتال شہر سے باہر منتقل نہیں کیے جائیں گے، ٹریفک نظام میں بہتری نا ممکن ہے ۔ اس کے باوجود بلند و بالا پلازوں کی تعمیر جاری ہے۔ اسی طرح کوئٹہ میں مکمل طور پر بلڈنگ کوڈ نافذ العمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آبی گزر گاہوں اور پرانی کاریزوں پر مشتمل رہائشی علاقوں کا تازہ سروے ہونا چاہیے۔ نیز، کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں بننے والے ڈیلے ایکشن ڈیمز کی باقاعدہ نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکے۔
سڑکیں بہہ جانے، زمینی رابطہ منقطع ہونے کے باعث علاج معالجے میں شدید مشکلات…
ایک طرف تو بلوچستان میں شدید بارشوں اور مختلف علاقوں میں سیلاب کے بعد متاثرین کی بحالی کا کام تا حال مکمل نہیں ہوسکا، تودوسری جانب مختلف وبائی امراض نے بے گھر ، بے آسراسیلاب متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے والے پیرا میڈیکس کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں سیلاب کے باعث پانی کھڑا ہے، وہاں مختلف اقسام کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ افراد جلدی بیماریوں سمیت ، گیسٹرو، ملیریا، ڈینگی، پیٹ درد، ہیضہ اور بخار میں مبتلا ہورہے ہیں۔
تاہم، متاثرہ علاقوں میں ادویہ کی عدم موجودگی کے سبب امراض پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے ،جب کہ انفرااسٹرکچر تباہ ہوجانے، سڑکیں بہہ جانے اور زمینی رابطے منقطع ہونے کے باعث علاج کے لیے بڑے شہروں کی طرف جانا، سفر کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ محکمۂ صحت کے ترجمان کے مطابق سیلاب سے بلوچستان کے 31 اضلاع متاثرہوئے ہیں، جہاں اب تک 91 لاکھ 82 ہزار 616 افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہو چُکے ہیں۔
مریضوں میں بچّوں کو دودھ پلانے والی ماؤں اور حاملہ خواتین کی تعداد 7 لاکھ 34 ہزار 609 ،جب کہ 5 سال سے کم عُمر بچّوں کی تعداد 13 لاکھ 77 ہزار 392 ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ملیریا، ہیضے اور جِلد کے امراض کا مسئلہ عام ہونے لگا ہے۔ مریضوں کے علاج کے لیے محکمۂ صحت، یونیسف، بی آر ایس پی اور دیگر فلاحی و رفاہی تنظیمیں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس حوالے سے بلوچستان کے عوام نے محکمۂ صحت، حکومت اور عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ متاثرین کی بحالی یقینی بنائی جائے، ورنہ صورتِ حال سنگین تر ہوجائے گی۔