• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امام احمد رضا ؒ کی معرکتہ الآراء تصنیف ’’فوزِ مبین ‘‘ کی ضرورت و اہمیت

پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری

امام احمد رضا خاں قادری بریلوی کے زمانۂ حیات ۱۸۵۶ء تا ۱۹۲۱ء میں سائنس کی دنیا اپنی ترقی کی منزلیں تیزی سے عبور کر رہی تھی۔ دنیا کے نامور غیر مسلم سائنسدان اپنی ایجادات کے ذریعے مسلمانوں کو اسلامی نقطہء نظر سے دور کرکے اپنے نظریات کی طرف مائل کر رہے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کے تسلط کے باعث ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جارہے تھے جہاں قرآن و حدیث کے مخالف نظریات کی پر چار کی جارہی تھی۔

امام احمد رضا نے۱۲۸۶ھ/۱۸۷۰ء میں عالم دین بننے کے بعد اس ماحول میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے قلم اُٹھایا بلکہ اس زمانے کی سائنس کے نظر یات میں جو جو نظریہ انھوں نے باطل اور اسلام کے خلاف پایا اس کا بھی رَد کیا اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اس زمانے میں متعدد سائنسی علوم کے حوالے سے تصانیف قلم بند فرمائیں جو سائنسی اندازمیں لکھی تھیں۔ آپ نے تن تنہا اسلام کے نظریات کی روشنی میں اپنے سائنسی نظریات پیش کیے۔ کاش کہ ان کی وہ تصنیفات اس وقت شائع ہوکر ان سائنسدانوں کے ہاتھ تک پہنچ جاتیں ، مگر افسوس کہ اس وقت امام احمد رضا کے گرد رہنے والوں کی اس طرف توجہ نہ ہوئی۔

آپ کے وصال کو عیسوی اعتبار سے بھی اب سوسال مکمل ہورہے ہیں، ان کی سائنسی موضوعات میں لکھی جانے والی۲۰۰؍سے زیادہ عربی، فارسی اور اردو تصانیف ابھی بھی الماریوں میں حفاظت سے بند رکھی ہیں۔ آپ کے علوم نقلیہ پر بہت کام کیا جاچکا ہے، ان کی فقہ ،حدیث ،تفسیر، تصوف،سیاسی امور، اردو، عربی ادب وغیرہ پر متعدد تحقیقی مقالات بصورت ایم۔ فل /پی۔ ایچ۔ ڈی لکھے جا چکے ہیں پچھلے ۷۰؍ سالوں سے تحقیق کرنے والوں کے کام کو بریلی شریف سے مولانا مفتی محمد حنیف خاں رضوی نے ۲۰ جلدوں میں” جہان امام احمد رضا‘‘ کے نام سے شائع کردیا ہے۔

اس سے پہلے مفتی عبدالقیوم ہزاردی ؒنے ۳۳ ؍جلدوں میں رضا فاونڈیشن،لاہور کے زیر اہتمام فتاویٰ رضویہ کو شائع کردیا ہے اور پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد ؒ اور حکیم محمد موسیٰ امر تسری ؒ نے تین دہایوں تک دنیا بھر میں تعارف بھی کرادیا ہے، لیکن ایک صدی گزر جانے کے باوجود امام احمد رضا ؒ بحیثیت مسلم سائنسدان ا بھی تک متعارف نہ کرائے جاسکے! لگتا ایسا ہے کہ مجدد دین و ملت کے سائنسی تجدیدی کا موں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا وقت ان کے وصال کے ۱۰۰؍ سال بعد اب آگیا ہے شاید وہ اسی وقت کے لیے یہ بات کہہ گئے تھے۔ ؎

بے نشانوں کا نشان مٹتا نہیں

مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا

ا ے رَضاؔ ہر کام کا اک وقت ہے

دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا

آپ کے نزدیک اسلام کے قوانین یعنی قرآن وحدیث کے نظر یات حق اور اٹل ہیں جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں، جب کہ سائنس کی دنیا میں سائنسدانوں کے پیش کردہ قوانین اور نظریات میں برابر تبدیلی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ ایک نظریہ طویل عرصے کے بعد بھی باطل قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ نیا نظریہ سامنے آجا تا ہے۔ فاضل بریلویؒ کے سائنسی نظریات سے قبل ان کا ایک اہم نظریہ ملاحظہ کریں ۔اس کے بعد امام احمد رضا کی کتاب” فوزمبین “کی سائنسی معلومات سے آگاہی دوں گا۔

آپ اپنے ہم عصر پروفیسر حاکم علی نقشبندی (م۔۱۹۴۴ء) کو ان کے ایک استفسار پر جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :” محب فقیر! سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات ونصوص میں تاویلات ودور ازکار کرکے سائنس کے مطابق کر لیا جائے،یوں تو معاذ اللہ اسلام نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام۔ وہ مسلمان ہوگی تو یوں کہ جتنے اسلامی مسائل سے اسے اختلاف ہے، سب میں مسئلہ اسلامی کو روشن کیا جائے ‘دلائل سائنس کو مردود ،پال کر دیا جائے۔

جا بجا سائنس کے اقوال سے اسلامی مسئلے کا اثبات ہو، سائنس کاابطال واسکات ہو، یوں قابو میں آئے گی اور یہ آپ جیسے فہیم سائنسدا ن کو باذنہٖ تعالیٰ دشوار نہیں، آپ اسے بچشم پسند دیکھتے ہیں (عین الرضا ءعن کل عیب کلیلۃ) اس کے مصائب مخفی رہتے ہیں مولیٰ عزوجل کی عنایت اور حضور سید عالم ﷺ کی اعانت پر بھروسا کرکے اس کے دعاویٰ باطلہ مخا لفہء اسلام کو بنظر تحقیر ومخالفت دیکھئے ،اسی وقت ان شاء اللہ اس کی ملمع کا ریاں آپ پر کھلتی جائیںگی ۔یوں سائنس کے مقابل آپ نصرتِ اسلام کے لیے تیار ہوجائیں گے، ولکن عین الخط تبدی المساویا‘‘ ۔(فتاویٰ رضویہ جلد نہم، ص: ۱۹۰۔۱۹۱،مطبوعہ کراچی)

آپ نے اپنے اسی بیان کردہ نظریہ پر کئی مقالات فتو ے کی شکل میں تحریر کیے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

۱۔ الکلمۃ الملھمۃ فی الحکمۃ المحکمۃ لوھاء فلسفۃ المثمئۃ ۱۳۳۸ھ

۲۔ فوز مبین در رد حرکت زمین ۱۳۳۸ھ

۳۔معین مبین بہر دور شمس وسکون زمین ۱۳۳۸ھ۔

۴۔نزول آیات فرقان بسکون زمین وآسمان ۱۳۳۹ھ۔

ان تمام تصنیفات میں ” فوز مبین درردحرکت زمین‘‘ سب سے اہم کتاب ہے، جب کہ” معین مبین‘‘ اور ” نزول آیات فرقان‘‘ کسی حد تک اسی کتاب کے ضمنی ابواب ہیں، البتہ الکلمۃ الملمھۃ قدیم فلسفہ پر زیادہ اہم تصنیف ہے۔ ”فوز مبین“ سب سے پہلے اسّی کی دہائی میں غالباً ۱۹۸۸ء میں بریلی سے ادارئہ سُنی دنیا ‘بریلی سے شائع ہوئی تھی ،اس کتاب کو ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی علیگ نے جو سنی دنیا رسالے کے مدیر بھی تھے، نے مخطوطہ کو تبیض ،تصحیح کرکے مختصر فرہنگ مع چند نوٹس کے تاج الشریعۃ مفتی محمد اختر رضا الازہری ؒ کے اہتمام شائع کیا تھا۔

یہ کتاب ادارئہ تحقیقات امام احمد رضا میں خود مرتب کے ذریعہ ۱۹۸۹ء میں موصول ہوئی تھی۔ کتاب کی اشاعت بہت زیادہ معیار کی نہ تھی، مگر چھپ کر ضرور سامنے آگئی تھی۔آپ نے تمام سا ئنسدانوں کے موقف کو رد کر کے ثابت کردیا کہ زمین ساکن ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں بھی اس کی علمی بازگشت سنائی نہ دی، اگر چہ دنیا کے کونے کونے میں رضوی صاحبانِ علم وقلم موجود تھے اورآج بھی ہیں۔ اس کتاب کو شائع ہوئے بھی ۳۰ ۔ ۳۵ سال گزر گئے، مگر ہنوز ابھی تک یہ گم نام سی ہے!

ادارئہ تحقیقات امام احمد رضا نے اس کتاب فوز مبین کی اشاعت کے بعد یہ ارادہ کیا کہ اعلیٰ حضرت کی سائنسی کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرو اکے شائع کیا جائے اور اہل علم تک ان کو پہنچا یا جائے، چنانچہ سب سے پہلے اس سلسلے میں امام احمد رضا کا رسالہ ” معین مبین بہر دور شمس وسکون زمین ۱۳۳۸ھ‘‘کاانگریزی ترجمہ نگار عرفانی چشتی صابری سے کروایا گیا اورادارے کی طرف سے ۹ ویں سالانہ امام احمد رضا کانفرنس کے موقع پر ۱۹۸۹ء میں شائع کیا گیا۔

اس کتاب میں زیادہ دلائل مختلف سیارو ں کی چالوں کے باعث دیے گئے تھے ۔ اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں آسانی سے کردیا گیا، مگر چند اصطلاحات کے صحیح انگریزی ترجمے نہ ہونے کے باعث اہل علم حضرات کی طرف سے خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ اس کے بعد فوزمبین کاانگریزی ترجمہ کرانے کی کوششیں شروع کردیں اور ایک اردو ادب کے ایسے ماہر کی خدمت حاصل کی جو انگریزی زبان میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ عبدالحمید صاحب ، جنہوں نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ادارے نے اسے اپنی ۲۵ ویں سالانہ امام احمد رضا کانفرنس کے موقع پر شائع کیا۔

امام احمد رضا نے فوزمبین میں ۱۰۵؍سائنسی دلائل قائم کرکے قرآن کا نظریہ ثابت کیا ہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج وچاند ودیگر تمام سیار ے ستارے گھوم رہے ہیں(کل فلک یسبحون) آپ نے اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ قبل زمانے کے سا ئنسدانوں کا علمی تعاقب کیا ہے دوسری طرف آپ نے ۱۰۵دلائل دیتے وقت جو اصطلاحات سائنسی علوم کی استعمال کیں، وہ قدیم عربی اور فارسی کے الفاظ ہیں جو عام لغت کی کتابوں میں نہیں ملتے ،اس لیے اب تک نہ کوئی اسے اچھی طرح سمجھ سکا ،اوراسی وجہ سے اب تک کوئی اسے انگریزی زبان میں منتقل بھی نہ کر سکا ،اس کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے علم توقیت ، علم فلکیات ،علم ھیئت، علم حساب، علم اوشین گرافی،علم ہندسہ ، علم الجبرا وغیرہ کے ساتھ ساتھ ماہرین لغت ، ماہرین فقہ اور ایسے ماہرین کی تلاش جو مولانا احمد رضا بریلویؒ کی عبارات کو پڑھ، سمجھ کر دوسروں کو سمجھا سکیں، تا کہ پھر اس مفہوم کو انگریزی زبان میں منتقل کیا جاسکے ۔

آپ نے فوزمبین میں دو طرح کا کام کیا ہے۔(۱) اول ۱۰۵ دلائل میں سے ابتدائی ۳۵ دلائل میں، انھوں نے اپنے ہم عصر اور ماقبل کے سائنسدانوں کے بیان کردہ فارمولے ،تھیوری یا نظریات کا تعاقب کرتے ہوئے ان میں جہاں جہاں آپ کے نظریہ کے مطابق غلطیاں ہیں ،ان کو درست کرکے ان ۳۵ مقامات میں اپنے نظریئے کو اُجاگر کیا ۔(۲)اس کے بعد ان ہی ۳۵ نظریات اور فارمولوں کو استعمال کرکے بقیہ ستردلائل سے زمین کو ساکن بتایا ہے ۔ہم نے اسی نہج پر ایک ٹیم ورک شروع کر دیا ہے۔

یہ اول ان ابتدائی ۳۵ دلائل کو آپس میں بحث مباحثہ کے بعد اتنا آسان بنانے کی کوشش کرے گی کہ اس زمانے کے سائنسداں ان ۳۵ ترمیم شدہ اصولوں پر راضی ہوجائیں یاکم ازکم اس بات پر اتفاق کرنے لگیں کہ ہاں ان اصولوں کوا ستعمال کیا جاسکتا ہے۔ اصل میں یہ ہی ہماری کامیابی ہوگی کہ زمین کو ساکن سمجھنے کے لیے امام احمد رضا کے بتائے ہوئے اسلامی قواعدقابل عمل ہیں اور ان کے ذریعے بھی زمین کی حرکت ہونے یا نہ ہونے پر غورکیا جا سکتا ہے۔ 

دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ معروف سائنسدانوں سے ان اصولوں پر گفتگو ہوگی اورا نہیں بتایا جائے گا کہ اگر آپ ان ۳۵ ترمیم شدہ اصولوں کو کسی حد تک صحیح سمجھتے ہیں تو امام احمد رضا نے ان کو استعمال کرتے ہوئے آگے ۰ ۷ دلائل زمین کو ساکن رکھنے کے لیے استعمال کیے ہیں ۔کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دو،چار دلائل بھی کافی ہوتے ہیں، مگر امام احمد رضا کے پاس علم کا اتناذخیرہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ دلائل بھی دے سکتے ہیں۔