سابق پاکستان ہائی کمشنر(برطانیہ)
لندن…میرے ستارے اچھے ہیں کہ جب ایک برطانوی چینل نے مری میں کم عمر معلمہ کو زندہ جلائے جانے پر تبصرے کیلئے رابطہ کیا تو میری طبیعت کچھ نا ساز تھی۔ 19سالہ ماریہ کے والدین کی طرف سے رشتے سے انکار پر ایک شادی شدہ شخص نے اپنے بھائیوں اور مجمعےکیساتھ اسے جلا دیا تھا۔ اس خونی واقعے نے قرون وسطیٰ میں چرچ کےعلم دشمن مذہبی طبقےکی جانب سے سخت باز پرس میں مردوں اور خواتین کو جلائے جانے کی یاد دلادی ۔ ماریہ کے گھر پر ایک مجمعے نے حملہ کرکے اس پر پٹرول کی کین انڈیل کر آگ لگا دی اور وہ وفاقی دارالحکومت کے پمز ہسپتال میں بری طرح جھلسے جانے کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسی ۔ اسلام آباد میں 145میل فی گھنٹہ رفتار سے آنے والا طوفان صرف ایک موسمیاتی واقعہ نہیں تھاشاید یہ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار کے انحطاط پر غضب کا ایک اظہار تھا۔ جیسے میکبتھ میں طوفانی بارش کا تذکرہ ہوا ہے۔ ماریہ کے وحشیانہ قتل سے صوبے پر حکمرانی کرنیوالوں کی نیندیں نہیں اڑیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے سوا ماریہ کے قتل اور معاشرے میں خواتین ، جنسی استحصال کا شکار بچوں اور اقلیتوں کیخلاف اندہناک کارروائیوں کی مذمت میں زیادہ آوازیں سنائی نہیں دیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خواتین کے تحفظ میں صوبائی حکومت کی شرمناک ناکامی کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا ہوتا تو ماریہ کا قتل بھی چھپا لیا جاتا ۔ ان کی طرف خواتین کیخلاف تشدد کے بڑھتے واقعات کے باوجود دانستہ طور پر ان وحشیانہ کارروائیوں کو نظرانداز کرنے کی سخت مذمت سے کچھ ہلچل تو پیدا ہوئی ۔ ماریہ کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں چند روز قبل ایبٹ آباد میں ایک قبائلی جرگے کے حکم پر گزشتہ ماہ ایک اور خاتون کو بے ہوش کرکے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا اور پھر اس کی لاش کو ایک وین میں رکھ کر جلا دیا گیا۔ بلاول نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے بجا طور پر کہا کہ بیگناہ خواتین کیخلاف خوفناک تشدد کے واقعات جاری ہیں لیکن پنجاب حکومت صرف کمیٹیاں قائم اور دکھاوے کے اقدامات کر رہی ہے۔ بلاول نے ماریہ کے قتل کے تمام ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کو خواتین، جنسی استحصال کا شکار بچوں اور اقلیتوں کیخلاف ایسی خوفناک کارروائیوں پر جاگنا ہو گا۔ ایسے جرائم کے ذمہ داروں کو سر عام لٹکانا اور ان کی سزا کو ہمیشہ کیلئےنشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے ۔ کیا ایسے ماحول میں بے بس خواتین کا تحفظ ممکن ہے جہاں پولیس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی اداروں کی طرف سے مسلم مردوں کے خواتین (بیویوں) پر حقوق کے حوالے سے گمراہ کن تجاویز دی جا رہی ہوں ؟ میں کوئی مذہبی عالم نہیں ہوں تاہم ایک انسان کی حیثیت سے اور عام سمجھ بوجھ کے مطابق سب جانتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اوراسے عقل دی ہے جو برے بھلے میں تمیز کرتی ہے ۔اگر عقل کو درست اور مثبت طور پر استعمال کیا جائے تو یہ ایسے تمام گمراہ کن خیالات اور تجاویز کو رد کر سکتی ہے ۔ ہمیں اپنے خالق کے کہنے پر چلنا چاہئے، اس ذات نے اپنے رسول ؐ کو رحمت اللعالمین کا عظیم خطاب دیا جس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے رسولؐ کو تمام انسانیت کیلئے رحمت بنایا ۔ اور جیسا کہ وہ بلا تخصیص رنگ و نسل و جنس تمام سیاہ فام ، سفید فام اور دیگر مرد و خواتین کیلئے رحمت اللعالمین ہیں تو مردوخواتین سے سلوک کیلئے دہرا معیار نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے بل میں جو بھی تجویز دی ہے وہ احکام الٰہی کیخلاف ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل خالق حقیقی کی طرف سے اپنے رسول ؐ کو عطا کئے گئے رحمت اللعالمین کے خطاب کے طفیل انسانیت کو نوازے گئے جو ہر کو نہیں چھین سکتی ۔ نہ صرف یہ بلکہ اللہ خواتین کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ اس بالاتفاق حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے حضرت خدیجہ ؓ کو حضرت محمد ؐ کے انسانیت کیلئے آخری رسول ؐ ہونےکی پہلی گواہی کیلئےچنا، مزید برآں روز قیامت تمام انسانوں کو اپنے باپ نہیں بلکہ ماں کی نام سے پکارا جائیگا ۔ اسی طرح شوہر کے اپنی بیوی پر حقوق سے متعلق مجوزہ بل مذہبی ، اخلاقی یا قانونی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ تجویز صرف مردوں پر مشتمل اسلامی نظریاتی کونسل نے دی ہے جس میں خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں جبکہ خواتین ملکی آبادی کا نصف ہیں۔ ایسی یکطرفہ تجویز خلاف عقل ہے ،اس کو روکنے کیلئے درست اقدام کیا جانا چاہئے۔جن لوگوں کےبڑوں نےبانی پاکستان اورقیام پاکستان کی مخالفت کی انکی بجائےہمیں قائد اعظم کی بات سننی چاہئے۔ ایسی تجاویز قائد کے ویژن کے بالکل بر عکس ہیں۔ قائد اعظم کےخیالات اسلام میں مساوات کےسیکولرنظرئیے کے خلاف نہیں ہیں۔تقسیم سے بہت پہلے انہوں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ قبائلی یا پسماندہ خیالات اور روایات کا پاکستان میں کوئی مقام نہیں ہو گا۔ یہاں میں محمد علی جناح ؒ کو نقل کروں گا۔ ’’ہماری قوم اس وقت تک عظمت نہیں پا سکتی جب تک آپ کی خواتین آپ کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوں ، ہم بری روایات کا شکار ہیں۔ خواتین کو قیدیوں کی طرح گھر کی چار دیواری میں بند رکھناانسانیت کیخلاف جرم ہے ۔ کسی بھی جگہ ایسے نا گفتہ بہ حالت کیلئےکوئی پابندی نہیں جس میں ہماری خواتین کو رہنا پڑ رہا ہے۔‘‘ مزید برآں انہوں نے خواتین کو مردوں سے عظیم تر طاقت قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’دنیا میں 2طاقتیں ہیں ایک تلوارکی اوردوسری قلم کی، ان دونوں طاقتوں میں زبردست مقابلہ اور مخاصمت ہے۔ ایک تیسری طاقت بھی ہے جو ان دونوں سے قوی ہے وہ قوت خواتین کی ہے۔‘‘