• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسب ِ معمول رواں برس جب مُون سُون کا سلسلہ شروع ہوا، تو آغاز میں کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وقفے وقفے سے ہونے والی بارشوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے خطرناک سیلابی ریلوں میں تبدیل ہوکر تباہی کی ایک اَن مٹ داستان رقم کرجائے گا۔ اگرچہ محکمۂ موسمیات نے بہت پہلے ہی معمول سے زیادہ بارشوں اور اُن کے نتیجے میں ندی نالوں میں طغیانی کے علاوہ سیلاب کے خطرے سے بھی آگاہ کردیا تھا، لیکن اس پیش گوئی کے باوجود کوئی سنجیدہ خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ 

نتیجتاً غیر معمولی بارشوں کے باعث جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں آنے والے سیلابی ریلوں کے باعث کافی جانی و مالی نقصان ہوا، 1500افراد اپنی جان سے گئے،8لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہوئے ، لوگ اپنی عُمر بھرکی جمع پونجیوں سے محروم ہوگئے، اُن کے کچّے پکّے گھر بہہ گئے۔ تقریباً چھے ہزار کلو میٹر سڑکیں اور ڈھائی سو پُل تباہ ہوگئے، تو لگ بھگ 4ملین ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی تباہ و برباد ہوگئیں۔2010ء کے سیلاب سے20 ملین لوگ متاثر ہوئے تھے، جب کہ اس سیلاب سے40ملین سے زائد آبادی متاثر ہوئی۔

تاریخ کے اس بدترین سیلاب کے بطن سے تباہی و بربادی کی لاتعداد داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں۔ ایسی ہی ایک داستان کے عینی گواہ ہم بھی ہیں۔ جب ماہِ اگست کے اواخر میں صوبہ خیبر پختون خوا، مالاکنڈ ڈویژن میں واقع وادی میں خوف ناک سیلابی ریلوں نے قیامت ڈھائی، تو اتفاق سے ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ وہیں موجود تھے۔ 

ہم ایک نجی کام کے سلسلے میں اگست کے تیسرے ہفتے کراچی سے اسلام آباد پہنچے تھے، تو کام مکمل ہونے کے بعد وادئ سوات کی سیّاحت کا پروگرام بنا ڈالا اور براستہ موٹروے سوات (مینگورہ) کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ جب اسلام آباد کی گرم فضا سے کے پی کے کی ٹھنڈی، پُرسکون وادی، وادئ سوات کا رُخ کیا، تو سب کچھ ٹھیک اورمعمول کے مطابق تھا۔ ہمیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے سات دِنوں میں ہم کس طرح ’’موسم کے قیدی‘‘ بننے جارہے ہیں۔

اگرچہ پانچ سال قبل بھی ہم وادئ سوات آچکے تھے، لیکن اس بار آئے تو کافی تبدیلی نظر آئی، نئی کشادہ سڑکیں اور فلائی اوورز کے علاوہ رواں دواں ٹریفک دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ مالم جبّہ یہاں کا انتہائی حسین و جمیل علاقہ مقام ہے۔ وہاں ایک روز قیام کے بعد دوسرے دن یعنی 24اگست کو کالام کے لیے روانہ ہوئے۔ ابھی سفرکا آغاز ہی ہوا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ پختہ اور معیاری سڑکیں تعمیر ہونے کے بعد مینگورہ سے کالام تک کا 93کلو میٹر کا سفر اب محض دو گھنٹوں پر محیط رہ گیا ہے۔ مسلسل بارش کی وجہ سے موسم سرد ہوتا جارہا تھا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ بہنے والے دریائے سوات کا پانی مستقل مٹیالا نظر آرہا تھا۔ 

اس راستے میں مدین اور بحرین جیسے پُرفضا سیّاحتی مقام بھی آتے ہیں۔ دریا پر کئی ہوٹلز، گیسٹ ہائوسز اور ریسٹورنٹس بڑی تعداد میں قائم ہیں۔ کالام سے کچھ پہلے پشمان پہنچے تھے، تو موسم نے اپنارنگ دکھانا شروع کردیا تھا۔ آب شار سے گرنے والا پانی انتہائی تیزی سے سڑک سے ہوتا ہوا دریا میں گررہا تھا، جس کی وجہ سےٹریفک کی آمد و رفت معطل تھی، کچھ دیر بعد پانی کابہائو کم ہوا تو آمد و رفت بحال ہوگئی۔ وادئ کالام میں داخل ہوتے ہی کشادہ، چوڑی اور معیاری سڑک کے دونوں جانب چھوٹے بڑے متعدّد ہوٹلز نظر آتے ہیں۔ مقامی گائیڈ کے مطابق گزشتہ چار پانچ برسوں میں نئے ہوٹلز کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ 

کالام میں سڑک کے ایک جانب دریائے سوات اور گھنے جنگلات ہیں، تو دوسری طرف بلندو بالاسرسبز پہاڑ۔ دریا پر بھی بہت سے خُوب صُورت ہوٹلز موجود ہیں، لیکن ہم نے پہاڑ پر تعمیر ایک ہوٹل میں قیام کا فیصلہ کیا۔ ہوٹل پہنچے تو شام ہوچکی تھی اور بارش بھی تھم چکی تھی۔ شام کی چائے پینے کے بعد سیر و تفریح کی غرض سے کالام کی مرکزی سڑک پرپہنچے، توسب سے پہلے ہماری نگاہ دریائے سوات پرپڑی، شور مچاتے دریا کی سطح معمول سے بلند نظر آرہی تھی۔ دریا کے ساتھ ہوٹلز میں سیّاحوں کی گہما گہمی عروج پر تھی۔ دریا کے ساتھ سرخ رنگ کے منہگے ہوٹل ’’ہنی مون‘‘ میں سیّاحوں کی چہل پہل سے کافی رونق نظر آئی۔ مختلف ماڈلز کی گاڑیاں جا بجا کھڑی تھیں، بازار میں بھی کافی رش تھا۔ کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی، تو ہم بھی اپنے ہوٹل آگئے۔

26اگست کو پروگرام کے مطابق ہمیں یہاں سے کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا، لیکن مسلسل ہونے والی تیز، موسلا دھار بارش راہ کی رکاوٹ بن گئی۔ بارش کی وجہ سے رات سے بجلی غائب تھی، صبح ناشتے کےبعد بالکونی پر گئے، تو سامنے شور مچاتا دریائے سوات کچھ زیادہ ہی بپھرا محسوس ہوا۔ دریا کی خطرناک موجوں سے گھبرا کر نیچے اُترے اور لابی میں آگئے۔ وہاں بڑی تعداد میں سیّاحوں اور دیگر مہمانوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اچانک اتنے بہت سے لوگ کہاں سے آگئے۔ ہوٹل اسٹاف سے پتا چلا کہ اِن تمام لوگوں کو دریا پر تعمیر دیگر ہوٹلز میں کسی ممکنہ حادثے کے خدشے کے پیشِ نظر یہاں منتقل کیا گیا ہے۔ 

ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی اور ساتھ ہی دریا کے سامنے ہر طرف دھواں سا پھیل گیا۔ موقعے پر موجود لوگ افراتفری کے عالم میں اِدھر اُدھر بھاگتے دکھائی دیئے۔ معلوم ہوا دریائے سوات میں بارشوں سے پیدا ہونے والی شدید طغیانی کے باعث کالام کا مشہور اورمنہگا ہوٹل ہنی مون بہہ گیا ہے۔ ہنی مون ہوٹل اپنی جغرافیائی حیثیت ہی کے سبب سیّاحوں کی دل چسپی کا محور اور قیام کے لیے پہلا انتخاب ٹھہرتا تھا۔ مگر، ایک مقامی شخص کے بقول ’’دریا نے اپنی جگہ واپس لے لی۔‘‘ خوش قسمتی سے مقامی انتظامیہ نے بروقت احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے رات ہی کو دریا کے ساتھ ساتھ قائم سارے ہوٹلز خالی کرواکر سیّاحوں کو پہاڑ پر تعمیر نسبتاً محفوظ ہوٹلز میں منتقل کردیا تھا۔ اس موقعے پر تمام ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز کے مالکان نے بھی بڑے کُھلے دل کا مظاہرہ کیا۔ ان ہی کی پیش بندی اور بروقت کارروائی کے سبب کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

چھتری تھامے بارش میں ہم جب سیلاب کے نتیجے میں آنے والی اُفتاد کا اندازہ لگانے کے لیے جائے حادثہ کے قریب پہنچے، تو وہاں ایک دہشت زدہ کردینے والا منظر سامنے تھا۔ دریا کے بالکل کنارے پر نو تعمیر شدہ خوب صورت اور منہگا ترین ہوٹل ’’ہنی مون‘‘ وہاں سے ایسا غائب تھا، جیسے کبھی وہاں اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔اس خوف ناک تباہی کے بعد بھی متواتر بُری خبریں موصول ہورہی تھیں۔ مسلسل بارش اور طغیانی کے باعث مدین، بحرین سیلاب کی زد میں تھے، کئی ہوٹلز، بازار اور گائوں پانی کے ساتھ ہی بہہ گئے تھے۔ کالام کے نواح میں سیلاب کے باعث کمراٹ، گبرال وغیرہ سیلاب کی زد میں تھے، بجلی فراہم کرنے والے پاوراسٹیشن جڑوں سے اکھڑ گئے تھے۔ 

پہاڑوں سے گرتے پانی کے ریلے نے مینگورہ تک آمدروفت کے واحد زمینی راستے کو اس بُری طرح نقصان پہنچایا تھاکہ کئی مقامات پر گہرے گڑھے اور کئی کلومیٹر تک راستہ ملیا میٹ ہو چکا تھا۔ تباہی کے ان مناظر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ موسم بہتر ہونے کے بعد بھی کئی ہفتوں تک اِن راستوں کی بحالی ناممکن ہے۔ مذکورہ صورتِ حال مقامی افراد کے ساتھ ساتھ دُوردراز سے آنے والے سیّاحوں کے لیے بھی خاصی پریشانی کا باعث تھی۔ سیّاحوں کے لیے اس خراب موسم میں رہایش اور تحفّظ کی آخری اور واحد امید وہاں کے ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز ہی تھے۔ 

ہمیں خدشہ تھا کہ اب ہنگامی صورتِ حال میں سیّاحوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے گا۔ ماضی میں مَری کے حوالے سے میڈیا میں شایع اور نشرہونے والی ساری کہانیاں یاد آرہی تھیں اور دل دہلارہی تھیں۔ ہمیں بتایا جارہا تھا کہ زمینی راستے مسدود اور منقطع ہوجانے کے باعث، یہاں سے واپسی کا معاملہ ہفتوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ راستے کی بندش سے خوراک، ادویہ، پیٹرول، گیس سمیت متعدد بنیادی اشیا کی قلّت کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔ قصّہ مختصر،وہاں سیر و تفریح کی غرض سے آئے تمام ہی سیّاح بُری طرح پھنس چکے تھے۔ 

اپنی ذاتی گاڑیوں میں آئے افراد غیر یقینی کیفیت اور خوف و پریشانی کے عالم میں کالام کی ٹوٹی پھوٹی، تباہ حال سڑک کے پاس بے یارومددگارکھڑے تھے۔ ایسے میں تھک ہار کر ہوٹل پہنچے، تو وہاں بجلی غائب تھی۔ صرف دو موبائل فون نیٹ ورک کام کررہے تھے۔ اکثر کویہی پریشانی لاحق تھی کہ محدود بجٹ میں طویل عرصے تک یہاں کیسے ٹھہرسکیں گے۔ ہم اسی گومگو کی کیفیت میں ہوٹل میں داخل ہوئے، تو منیجرنے بتایا ’’اگلے تین چار روز تک موسم خراب رہے گا۔‘‘ ہوٹل انتظامیہ اشیائے خورو نوش کا انتظام کرچکی تھی۔ رات کو اطلاع ملی کہ’’ کالام ہوٹلز ایسوسی ایشن‘‘ نے مہمانوں کے لیے ہوٹل کی رہائش اور کھانا مفت کردیا ہے۔

اگلے روز27اگست کو بھی رات بھربارش ہوتی رہی۔ اُس وقت ایک اندازے کے مطابق مطابق وادی میں قریباً آٹھ سو سیّاح و دیگر مہمان موجود تھے۔ ہوٹل منیجر نے اطلاع دی کہ ’’ان شاء اللہ کل سے بذریعہ ہیلی کاپٹر آپ لوگوں کی محفوظ مقام تک منتقلی کا عمل شروع ہوجائے گا، جہاں سے آپ اپنے گھروں کو واپس جاسکیں گے۔‘‘ ساتھ خوش خبر ی دی کہ ’’گزشتہ روزسے یہاں موجود تمام افراد کا قیام مفت اورطعام انتہائی رعایتی قیمت پر ہوگا، آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘ ہم سب لوگ بہت حیرانی اور بے یقینی سے اُن کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ 

اُس وقت کالام کے لوگ ایک بالکل نئے اور بہت ہی مہربان رُوپ میں ہمارے سامنے تھے۔ کل تک ہمارا ایک دوسرے سے صرف گاہک اورہوٹل مالک کا تعلق تھا، لیکن مصیبت اور آزمائش کی اس گھڑی میں اب سب کے دُکھ سُکھ سانجھے محسوس ہونے لگے تھے۔ ریسکیوآپریشن کا پہلا دن بہت دبائو میں گزرا، اگلے دن 29اگست کو ہمیں بتایا گیا کہ فوج کی زیرِنگرانی ریسکیو آپریشن یہاں کے بلند مقام ایگل ہٹ کے ہیلی پیڈ سے کیا جارہا ہے، جس کے ذریعے یہاں محصور تمام سیّاحوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا جائے گا۔ ہم پوری اُمید کے ساتھ وہاں پہنچے، تو عوام کی کافی بڑی تعداد نظر آئی، فوج کے جوان بڑے منظّم انداز سے اپنی ٹیم کے ساتھ لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کررہے تھے۔ نظم وضبط کے سبب صورتِ حال اطمینان بخش نظر آرہی تھی۔

رضاکار ٹیم بلاتخصیص لوگوں کو محفوظ مقام کی جانب روانہ کررہی تھی اور ان کی ہمّت و شجاعت ہی کی بدولت کافی سیّاح کالام سے نکل چکے تھے۔ فوجی جوانوں پر مشتمل ٹیم دن بھر اپنے کھانے پینے کی پروا کیے بغیر آپریشن جاری رکھے ہوئے تھی۔ بہرحال، شام ہونے پر ایک بار پھر آپریشن ملتوی کردیا گیا اور ہماری باری اُس روز بھی نہ آسکی، لیکن پھر 30اگست کو بالآخر ہم ریسکیو کے تیسرے دن ایم 17ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے میں کام یاب ہوگئے۔ ہمارے ساتھ چار بچّوں سمیت 30افرادہیلی کاپٹرپر سوار تھے۔

اگلے 25منٹ بعدہیلی کاپٹر نے ہمیں کانجوکنٹونمنٹ میں اتار دیا، جہاں فوجی حکّام پہلے سے موجود تھے۔ ہمیں سامان سمیت ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں تواضع کا انتظام تھا۔ اس موقعے پر آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ سوات کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کررہے تھے۔ ریسکیو آپریشن کے جائزے کے بعد وہ ہمارے درمیان موجود تھے۔ ہمیں محفوظ دیکھ کر اُن کے چہرے پر اطمینان صاف محسوس ہورہا تھا۔

وہ ہم سب سے فرداً فرداً ملے، خیریت دریافت کی اور یقین دلایا کہ ’’اِن شاء اللہ سیلابی صورتِ حال پر ہم جلد قابو پالیں گے۔ سیلاب سے متاثر راستے بحال ہوں گے اور باقی تمام افراد کو بھی کالام سے نکال لیا جائے گا۔‘‘ بعد ازاں، میڈیا سے گفتگو کے بعد وہ روانہ ہوگئے۔ آرمی چیف کے روانہ ہوتے ہی فوجی حکام نے ہمیں بہ سہولت راول پنڈی پہنچانے کے لیے گاڑیاں فراہم کیں، جنہوں نے ہمیں اسلام آباد بس اسٹینڈ پر اتارا۔وہاں سے ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ اسلام آباد پہنچے اور یکم ستمبر کو نجی ائرلائن کے ذریعے کراچی واپس آگئے۔

اپنے مُلک کے دیگر شہروں میں ہم نے کسی بھی آفتِ ناگہانی کی صُورت میں یا مختلف تہواروں پر منافع خوری کرنے اور موقعے سے فائدہ اٹھانے والے بہت سے مفاد پرستوں کو دیکھا، لیکن ان طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد وادئ کالام کے مقامی باشندوں، ہوٹل اور ریسٹورنٹ مالکان اور دیگر اشیائے ضروریہ کا کاروبار کرنے والے افراد نے جس طرح وادی میں پھنسے مہمان مسافروں اور سیّاحوں کو مفت رہائش اور انتہائی رعایتی نرخوں پربنیادی اشیائے ضروریہ بلا رکاوٹ فراہم کرکے بے لوث و بے مثال خدمت کی، اُسے تا عُمر بُھلایا نہیں جاسکتا، خصوصاً پاک فوج کےجوانوں نے جس طرح نظم وضبط سے بلاتخصیص وادی میں پھنسے سیّاحوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، بلاشبہ ایک انتہائی قابلِ تحسین و ستائش امَر ہے۔