بات چیت … عالیہ کاشف عظیمی
ہر سال دُنیا بَھر میں بچّوں کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے ماہِ اکتوبر کا پہلا پیر’’نیشنل چائلڈ ہیلتھ ڈے‘‘کے طور پر منایا جاتاہے، جس کا بنیادی مقصد ہر سطح تک بچّوں کی بہترصحت و نشوونما کے ساتھ دورانِ حمل حاملہ کی دیکھ بھال، متوازن غذا کے استعمال، معالج سے باقاعدہ معائنے اور حفاظتی ٹیکوں کی افادیت سے متعلق شعور و آگہی فراہم کرنا بھی ہے۔واضح رہے، 1928ءمیں امریکا میں پہلی بار فیصلہ کیا گیا کہ اگلے برس سے ہر سال یکم مئی کو ’’نیشنل چائلڈ ہیلتھ ڈے‘‘ منایا جائے گا۔
بعد ازاں، ایک مشترکہ فیصلے کے تحت1960ءسے یہ دِن اکتوبر کے پہلے پیر پرمنتقل کر دیا گیا۔ اِمسال یہ یوم 3اکتوبر کو جس تھیم کے ساتھ منایا جارہا ہے، وہ "You Are What You Eat"ہے۔ یعنی آپ جیسا کھاتے ہیں، ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں بچّوں کی صحت کے حوالے سے صورتِ حال قطعاً تسلی بخش نہیں، جس کی بنیادی وجوہ میں حاملہ خواتین کا غیرمتوازن طرزِ زندگی، شعور و آگاہی کی کمی، طبّی سہولتوں کا فقدان، مائوں کی ناخواندگی اور حکومت کی غفلت اور عدم توجہی جیسے محرّکات شامل ہیں۔نیز، حالیہ سیلاب کے باعث توحالات مزید ابتر ہوگئےہیں۔ سو، ہم نے اس یوم اور حالیہ صُورتِ حال کے تناظر میں ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی کے ایسو سی ایٹ پروفیسر،معروف ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر محمّد خالد شفیع سے خصوصی بات چیت کی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔
ڈاکٹر محمّد خالد شفیع نے1997ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی سےایم بی بی ایس کے بعد ڈی سی ایچ(ڈپلوما آف چائلڈ ہیلتھ)، ایم سی پی ایس(ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز، فیملی میڈیسن )، ایم پی ایچ(ماسٹرز آف پبلک ہیلتھ) اور ایف سی پی ایس (فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس وقت ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی سے بطور ایسو سی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں، جب کہ زینب پنجوانی میموریل اسپتال میں شعبۂ اطفال کے سربراہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر خالد پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن(پی پی اے) کے سیکریٹری جنرل، سوسائٹی فار اِن ہریٹیڈ ڈس آرڈرز آف چلڈرن کے وائس پریزیڈنٹ، ٹیگ ڈبلیو ایچ او برائے پولیو خاتمہ پاکستان اور افغانستان، نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ اور پولیو ایکسپرٹس ریویو کمیٹی، سندھ کے رُکن ہیں۔ اس کے علاوہ اے ای ایف آئی(Adverse Events Following Immunization) اور ای پی آئی (Expanded Program on Immunization)، سندھ کے کو چئیرمین اور بے بی فرینڈلی اسپتال، سندھ کے فوکل پرسن بھی ہیں۔ نیز، اب تک 3ہزار سے زائد ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف کو تربیت دے چُکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
س: دُنیا بَھر میں ہر سال اکتوبرکے پہلے پیر کو’’ نیشنل چائلڈہیلتھ ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے ،تو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، نیز حاصل ہونے والے فوائد پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟
ج: اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اَن مول نعمت اولاد ہے، جس کی دیکھ بھال اور بہتر نگہداشت صرف والدین ہی کی نہیں، بلکہ معاشرے کی بھی ایک اہم ذمّے داری ہے۔ چوں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چُکی ہے کہ ایک صحت مند معاشرے کی ابتدا صحت مند بچّے ہی سے ہوتی ہے، تو ماہرینِ صحت نے عالمی سطح پر کوئی ایک ایسا دِن مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا کہ جس روز دنیا بَھر میں موجود بچّوں کو درپیش صحت سے لے کر عمومی مسائل تک کا جائزہ لیا جائے اور ایسے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں ،جن کے نتیجے میں بچّے صحت مند اور خوش حال زندگی بسر کر سکیں۔
اس کے ساتھ ہی عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف نے بے بی فرینڈلی ہاسپٹل انیشییٹو (Baby-Friendly Hospital Initiative) کا آغاز کیا، جس کے تحت ماؤں میں بریسٹ فیڈنگ کے رجحان کو فروغ دینا شامل تھا۔ دراصل بچّے کے لیے ماں کا دودھ ،خاص طور پر زچگی کے فوری بعد پلانا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں ایسے غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں، جو بچّے کی قوّتِ مدافعت مضبوط بنانے کے ساتھ کئی خطرناک بیماریوں سے تحفّظ بھی فراہم کرتے ہیں۔بے بی فرینڈلی انیشییٹو پراجیکٹ کو وفاقی وصوبائی حکومتوں سمیت محکمۂ صحت اور صحت سے متعلقہ کئی آرگنائزیشنزکا تعاون حاصل ہے، جب کہ اسے پاکستان میں مَیں لیڈ کررہا ہوں۔ ہم نے چار سالوں میں 3ہزار سے زائد ہیلتھ کیئر پروائیڈرز کو تربیت دی ہے۔
اس کے علاوہ سندھ کے18 اسپتالوں کو رول ماڈل کے طور پر کام کرنے کے لیے بھی تیار کیا جارہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بچّوں کی صحت سے متعلقہ نصف مسائل کا حل ماں کا دودھ اور حفاظتی ٹیکے ہیں۔ اسی لیے ہم پروموشن آف بریسٹ فیڈنگ اور پروموشن آف امیونائزیشن پر کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹاپ فیڈ(ڈبّے کےدودھ) کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں، جیسا کہ فارمولا ملک کی تشہیر روکنے کے ضمن میں اگرچہ پہلے ہی ایک قانون موجود ہے، لیکن اس کی کچھ شِقوں کا فائدہ اُٹھایا جارہا تھا۔ سو، پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن نے اس پُرانے قانون میں ترمیم کی، تاکہ فارمولا ملک کی تشہیر مکمل طور پر روکی جاسکے۔ ابھی یہ نیا قانون منظوری کے مرحلے میں ہے۔
س: رواں برس اس یوم کے لیے جو تھیم منتخب کیا گیا ہے، وہ "You Are What You Eat"ہے، توذرا اس کی بھی کچھ وضاحت فرمادیں؟
ج: دیکھیں، بچّوں کی صحت و تن درستی کوئی ایک دِن کا معاملہ تو ہےنہیں، ہمیں تو ہر روز اپنا بچّہ صحت منداور ہنستا مُسکراتا چاہیے۔ اسی لیے ماہرینِ صحت متوازن غذاکے استعمال پر زور دیتے ہیں ۔ پیدایش کے بعد ماں کا دودھ ہی بچّے کے لیے بہترین متوازن غذا ہے۔ بعد ازاں، جب بچّہ ٹھوس غذا کا استعمال شروع کردے، تو اُسے گھر کی پکی ہوئی غذائیں کھلائیں، کیوں کہ پیکٹس والی ٹھوس غذائیں، ٹاپ فیڈ ہی کی طرح ہوتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچّے کو ہمیشہ اس کی جسمانی ضرورت کے مطابق کھانا کھلائیں۔
مطلب یہ کہ خوارک کی مقدار کم ہو، نہ زائد۔ کیوں کہ غذائی قلّت اور بسیار خوری دونوں ہی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ آج کل بچّے تازہ پھلوں کے بجائےڈبّے کے جوسز، کولڈ ڈرنکس اور انرجی ڈرنکس زیادہ شوق سے استعمال کرتے ہیں، جن میں غذائیت نہیں ہوتی۔ پھر بچّوں میں فروزن اور فاسٹ فوڈز کا استعمال بھی بہت بڑھ گیا ہے، تو یہ تھیم منتخب کرنے کا مقصد یہی ہے کہ بچّوں میں تازہ پھل، سبزیوں اور صحت بخش اشیاء کے استعمال کے رجحان کو فروغ دیا جائے، تاکہ وہ ایک صحت مند زندگی بسر کرسکیں۔
س: گلوبل وارمنگ کے سبب دنیا بَھر اور خصوصاً ایشیائی مُمالک میں خاصی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، تو بچّوں پر کس قسم کے موسمی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ج: بعض بیکٹریا، وائرسز گرم آب و ہوا اور کچھ سرد موسم میں پنپتے ہیں، جیسے گرمیوں میں ٹائی فائیڈ، ڈائریا، ہیپاٹائٹس اور سرد موسم میں نمونیا جیسے امراض عام ہیں۔ ہمارے مُلک میں گرمی اور سردی دونوں ہی کی شدّت اور دورانیے میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوچُکا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں اب دُنیا بَھر، خصوصا پاکستان کےبچّے بیماریوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
ہمارے بچّے خاص طور پر اس لیے کہ اُن میں بیماریاں برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ اگر دورانِ حمل، حاملہ متوان غذا کا استعمال کرے، بچّے کی پیدایش میں دو سال کا وقفہ رکھے، زچگی معیاری اسپتال سے کروائے، پیدایش کے فوری بعد اپنا دودھ پلائےاور بچّے کوحفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں ، تو بچّوں میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی سکت پیدا ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کنٹرول کر نے کے لیے حکومت شفّاف طریقے پر شجر کاری مُہم کا آغاز کرے اور غیرمعمولی بارشوں کے اثرات سے تحفّظ کے لیے ڈیمز بنائے، تو بچّوں، بڑوں پر موسمی اثرات کم سے کم اثر انداز ہوں گے۔
س: پاکستان میں بچّوں میں کون کون سےوبائی امراض عام ہیں، اور وہ کون سے عوامل ہیں، جو ان کے پھیلاؤ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، نیز ان سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟
ج: پاکستان میں سرِفہرست اسہال(ڈائریا) ہے۔اس کے بعد ہیپاٹائٹس اے، جو آلودہ پانی سے پھیلتا ہے۔ پھر ٹائی فائیڈ ، جو آج کل انتہائی پریشان کُن ثابت ہورہا ہے۔ اس کے بعد نمونیے کا مرض ہے۔ ملیریا اور ڈینگی بھی بچّوں کو متاثر کرتے ہیں۔ آج کل شیر خوار بچّوں میں بھی ڈینگی رپورٹ ہو رہا ہے۔ وبائی امراض کے پھیلاؤ کے اسباب میں ہمارا ماحول، بچّے کی عمومی صحت اور پینے کا آلودہ پانی وغیرہ شامل ہیں۔ رہی بات بچاؤ کی، تو اگر ہم بچّوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کریں، ان کی صحت کا خیال رکھیں اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کریں، تو انہیں وبائی امراض سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
س: پاکستان میں قریباً ہرایک ہزار میں سے8بچّے اپنی پہلی سال گرہ منانے سے قبل ہی انتقال کر جاتے ہیں۔ اس صُورتِ حال پر قابو پانے کے لیے اقوامِ متحدہ نے دیگر ترقّی پذیر مُمالک کی طرح پاکستان میں بھی میلینئم ڈیویلپمنٹ گول پروگرام متعارف کروایا، تو اس پروگرام کے تحت اب تک کیاسرگرمیاں انجام دی گئیں، نتائج کیا رہے اور مزید کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟
ج: مہذّب مُمالک کی اپنے عوام سے محبّت، اُس سرزمین پر جنم لینے والے ایک سال سے کم عُمر بچّوں کی شرحِ اموات سے( جسے طبّی اصطلاح میں Infant Mortality Rate کہتے ہیں)جانچی جاتی ہے۔ انفینٹ مورٹیلیٹی ریٹ ایک ایسا پیمانہ ہے، جو چند برس کی محنت سے بدلا جا سکتا ہے۔ حالاں کہ ہمارے پاس کئی ایسے پروگرامز موجود ہیں، جو بچّوں میں شرحِ اموات کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہماری اُن کی طرف توجّہ کم ہے۔پھر والدین میں بھی معلومات کا سخت فقدان پایا جاتا ہے۔
دُنیا میں اُن قوموں نے ترقّی کی ، جنہوں نے خواتین پر توجّہ دی اور اُن کا خیال رکھا۔ ہمارے یہاں زیادہ تر گھرانوں میں صحت مند اور خُوب صُورت بچّے کی خواہش کی جاتی ہے، لیکن حاملہ کا خیال نہیں رکھا جاتا، زیادہ تر خواتین کو وہ مقام و توجّہ حاصل نہیں ،جن کی وہ مستحق ہیں۔ خواتین پر تشدّد کی خبریں ہم تقریباً روز ہی سُنتے ہیں۔
پھر پاکستان بَھر میں بچّوں کے چند ہی اسپتال ہیں، جب کہ سرکاری اسپتالوں کا تو یہ حال ہے کہ ایک بستر پر تین تین بچّےدکھائی دیتے ہیں، حالاں کہ اس طرح ایک دوسرے کی بیماریوں سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، مگر بچّے کی جان بچانے کے لیے ایسا کرنا مجبوری ہے۔ اگر ہمیں بچّوں کی شرحِ اموات کم کرنی ہے، تو صرف حکومت ہی کو نہیں، ہم سب کو مل جُل کر اُن سب عوامل پر خاص توجّہ دینی ہوگی، جو اس شرح میں اضافے کا باعث ہیں۔
س: دیہی علاقوں میں تو پس ماندگی اور مسائل بڑی وجہ ہیں، مگر شہروں کے اسپتالوں میں بچّوں کی اتنی بڑی شرحِ اموات کیا لمحۂ فکریہ نہیں؟
ج: جی بالکل لمحۂ فکریہ ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہےکہ ہمارے یہاں اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں توخاصی بہتر ہیں، مگر انتظامیہ کی زیادہ توجّہ بڑوں پر رہتی ہے۔ اگر بڑوں کے 2 ہزار بیڈز ہیں، تو بچّوں کے 2سو بھی نہیں، لہٰذا ہمیں ترجیحی بنیادوں پر نہ صرف ہر چھوٹے بڑے شہر، گاؤں، دیہی علاقے میں بچّوں کے اسپتال قائم کرنا ہوں گے، بلکہ اس وقت جو اسپتال بچّوں کو علاج معالجےکی سہولتیں فراہم کررہے ہیں، وہاں بستروں کی تعداد اور دیگر وسائل میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔
س: کیا پس ماندہ علاقوں میں بسنے والے بچّوں کے لیے ’’صحت مند زندگی‘‘ محض ایک خواب ہے؟
ج: لگتا تو ایسا ہی ہے، لیکن حقیقتاً میرا خواب تو یہ ہے کہ پس ماندہ علاقےکے ہر بچّے کا چہرہ بھی چمک رہا ہو، بال نفاست سے بنے ہوں، صاف ستھرا یونی فارم پہنا ہو، کاندھے پر اسکول بیگ لٹکا ہو اور وہ ایک ہاتھ میں لنچ باکس اوردوسرے میں پانی کی بوتل لیے اسکول کی طرف جارہا ہو۔ اور مجھے اُمید ہے کہ ان شاء للہ تعالیٰ میرا یہ خواب ایک دِن ضرور پورا ہوگا۔ اگرچہ ابھی منزل دُور ہے، لیکن بہرحال ہمارے حوصلے بُلند ہیں۔
س: یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ ’’پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد بچّے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور غذائی قلّت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں۔‘‘تو اس حوالے سے قومی اور بین الاقوامی طور پر کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟
ج: اگرچہ حکومت کے پاس بجٹ کم ہے، مگر وہ دیگر وسائل سے کٹوتی کررہی ہے۔ پھر بیرون مُمالک سے بھی امداد آرہی ہے، مختلف این جی اوز، آرگنائزیشنز اور سوسائٹیز کابھی امدادی کاموں میں تعاون شامل ہے۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ امدادی امور اس منظّم طریقے سے انجام دئیے جائیں کہ تمام سیلاب زدگان کو ان کی ضروریات کے مطابق امداد فراہم ہوسکے۔
کوششیں تو جاری ہیں، آگے اللہ مالک ہے۔ میری قوم سے درخواست ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق متاثرین کی عزّتِ نفس مجروح کیے بغیر مدد کریں،کیوں کہ یہ لوگ قطعاً بھکاری نہیں، عزّت دار لوگ ہیں۔ یہ بھی اپنے اپنے گھروں میں رہتے تھے، ان کی بھی ایک زندگی تھی،مال، مویشی تھے۔ انہیں بھی چادر، چار دیواری کا تحفّط حاصل تھا، تین وقت کا کھانا کھاتےاور کماتے تھے، لیکن آج کُھلے آسمان تلے بے یارو مددگار رہنے پر مجبور ہیں۔
س: تھر میں ازل سے غذائی قلّت کے سبب بچّوں میں شرحِ اموات بُلند ہے اور اب تو سیلاب کے باعث حالات خاصے ابتر ہیں، تو اس بدترین صُورتِ حال سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟
ج: ہنگامی بنیادوں پراقدامات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس وقت ایک بہت بڑا نقصان بلکہ المیے سے دوچار ہوچُکے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جب تک متاثرین کی معمول کی زندگیاں بحال نہیں ہوجاتیں، انہیں تین وقت کا کھانا فراہم کیا جائے، ان کی بحالی کے مؤثراقدامات کیے جائیں، مگر یہ اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے بیرونی امداد کے ساتھ مخیّر افراد کا تعاون بھی درکار ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے مؤثراقدامات کرنا ہوں گے، بصورتِ دیگر شاید اس سے بھی زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے۔
س: مُلک میں سیلابی صورتِ حال کے بعد ملیریا، ڈینگی، جِلدی امراض اور گیسٹرو میں خاصا اضافہ ہورہا ہے، اس حوالے سے کیا ہدایات دینا چاہیں گے؟
ج: فی الوقت تو ملیریا، ڈینگی، جِلدی امراض اور گیسٹرو وغیرہ کے کیسزکم تعداد میں رپورٹ ہورہے ہیں کہ ابھی تو سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پُھوٹنے کے سنگین خطرات ہمارے سَروں پر منڈلا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ سیکڑوں بچّے، بوڑھے، خواتین اور مَرد بھی لقمۂ اجل بن جائیں ،ہمیں ہنگامی بنیادوں پر مل جُل کر کام کرنا ہوگا، خاص طور پر سیلاب زدگان کو فوری طور پر شیلٹرز اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں، بچّوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں، پینے کے لیے صاف پانی اور رفعِ حاجت کا انتظام کیا جائے۔اور یہ اقدامات صرف حکومت ہی بیرونی امداد کے ذریعے کرسکتی ہے، مختلف این جی اوز اور ایسوسی ایشنز کے بس کی بات نہیں۔
س: پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے لاکھوں بچّوں کے ساتھ متعدّد حاملہ خواتین بھی سخت خطرے میں ہیں، تو حکومتی اور عوامی سطح پر کن اقدامات کی فوری اور اشد ضرورت ہے؟
ج: اگرچہ حکومت سیلاب زدہ علاقوں میں دستیاب وسائل کے پیشِ نظر اقدامات کررہی ہے، لیکن کام کی رفتار سُست ہے۔ پھر وہ جذبہ بھی نظر نہیں آتا ،جو2005ء میں زلزلہ زدگان کی بحالی کے وقت دیکھنے میں آیا ۔بہرحال، حاملہ خواتین کے لیے فوری طور پر ایسے علاقوں میں جہاں سیلابی پانی نہیں، فیلڈ اسپتال قائم کیے جائیں اور ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی فراہم کی جائے، تاکہ دُور دراز کے سیلاب میں گِھرے علاقوں سے حاملہ خواتین کو بروقت اسپتال لایا جاسکے۔ جب کہ زچگی سے قبل معائنہ بھی ضروری ہے،تاکہ کسی پیچیدگی کی صُورت میں فوری طور پر شہر منتقل کیا جاسکے۔
س: ایک عام بچّے کا دِن بَھر کا شیڈول کیسے مرتّب کیا جائے کہ اس کے سونے جاگنے، کھیلنے کودنے، کھانے پینے اور تعلیم و تدریس وغیرہ میں توازن برقرار رہے؟
ج: دیکھیں، ہر گھر کے معاملات جدا جدا ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے زیادہ تر گھرانوں میں بچّے کا روزمرّہ شیڈول ترتیب دیا جاتا ہے، تو والدین اپنے بچّے کا دِن بَھر کا شیڈول جو بھی مرتّب کریں، بس اُس میں ایک گھنٹہ بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لیے لازماً وقف کیا جائے، تاکہ بچّے کو پسینہ آئے، اس کا تھوڑا سا سانس بھی پُھولے اور وہ اپنی جسمانی توانائی استعمال کرے، کیوں کہ اسی طرح بچّے جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند و توانا رہتے ہیں اوران کا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے۔
س: بچّوں کے لیے موبائل فونز اور دیگر اسکرینز نقصان دہ ہیں، اس کے باوجود ان کا استعمال بڑھتا ہی جارہا ہے، تو اس ضمن میں والدین کو کیا مشورہ دیں گے؟
ج: والدین کے لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ سب سے پہلے وہ خود موبائل فون کا استعمال کم کریں، تاکہ بچّےان کی تقلید کرسکیں۔
س: ’’نیشنل چائلڈ ہیلتھ ڈے‘‘کی مناسبت سے ماؤں اور بچّوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: میری تمام ماؤں سے درخواست ہے کہ نومولود بچّوں کو اپنا دودھ پلائیں۔میری نظر میں ماں کا دودھ بچّوں کے لیے جنّت کا میوہ ہے۔ تاہم، بعض صُورتوں میں مثلاً اگر ماں ایسی مخصوص ادویہ استعمال کررہی ہو، جس سے بچّے کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہونے کا خطرہ ہو یا ماں ایچ آئی وی انفیکشن یا ایڈز کا شکار ہو، تو بریسٹ فیڈنگ سے منع کیا جاتا ہے۔ پھر بچّوں کی صحت کے حوالے سے ایک بہت اہم بات حفاظتی ٹیکوں کا بروقت استعمال بھی ہے، لہٰذا اپنے سب بچّوں کی ویکسی نیشن کا کورس بروقت مکمل کروائیں، تاکہ وہ ایک صحت مند زندگی جی سکیں۔