مسلم لیگ ن کو حکومت سنبھالے تقریبا ًچھ ماہ ہونے والے ہیں۔میاں نواز شریف کی کافی تگ و دو کے بعد اسحاق ڈاروزیر خزانہ بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔عمومی تاثر ہے کہ شاید مفتاح اسماعیل شہباز شریف کے پسندیدہ تھے اور اسحاق ڈار ان کی خواہش کے برعکس وزیرخزانہ بنے ہیں۔ کیونکہ شہباز شریف مفتاح اسماعیل کی معاشی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔اسحاق ڈار چونکہ میاں نوازشریف کے سب سے قریبی ساتھی ہیں ،اس لئے وہ وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ حکومت کے باقی معاملات پر بھی کنٹرول رکھیں گے۔شاید اس لئے مسلم لیگ ن کی پاکستان میں موجود قیادت اسحاق ڈار کی واپسی اور انہیں وزیر خزانہ بنائے جانے کے حوالے سے شش و پنج کا شکار تھی۔مگر حقائق اس کے بر عکس ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کے بانی و قائد ہیں۔مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کے وارث تصور کئے جاتے ہیں۔تاہم آج اگر مسلم لیگ ن کی کشتی بدترین طوفانوں کا مقابلہ کرکے اپنے آپ کو گرداب سے نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے تو اس میں شہبا ز شریف کا کلیدی کردار ہے۔اسحاق ڈار جتنے نوازشریف کے پسندیدہ ہیں ، شہباز شریف بھی ان کی صلاحیتوں کے اتنے ہی مداح ہیں۔گو کہ وزیراعظم پاکستان میاں شہبا زشریف نے چند روز قبل پریس کانفرنس کے دوران اسحاق ڈار کی قابلیت و دیانتداری کا میڈیا کیمروں کے سامنے اعتراف کیا۔مگر خاکسار کئی ملاقاتوں کا گواہ ہے ،جب شہباز شریف تنہائی میں بھی اسحاق ڈار کے متعلق اسی طرح کے کلمات ادا کرتے رہے ہیں۔آج شاید جن حالات میں اسحاق ڈار صاحب کی واپسی ہوئی ہے ،اس میں سب سے کلیدی کردار شہباز شریف نے ہی ادا کیا ہے۔کیونکہ شہباز شریف خود بھی ذاتی طورپر جانتے ہیں کہ پاکستان کو موجودہ معاشی گرداب سے اسحاق ڈار ہی نکال سکتے ہیں۔معمر قذافی کے معاشی ایڈوائزرسے لے کر عرب ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات کی حکومت کو معاشی معاملات پر ایڈوائس کرنا ،اسحاق ڈار کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک سمیت دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں میںاہم پوزیشن ہولڈرز سے ذاتی تعلقات رکھتے ہیں۔ان کے وزیرخزانہ بننے سے پاکستان کے معاشی مسائل میں کمی آنے کے واضح امکانات ہیں۔اسحاق ڈار کا شمار دنیا کے بہترین معیشت دانوں میں ہوتا ہے۔1998کے ایٹمی دھماکوں کو لے کر جب پاکستان پر شدید دباؤ تھاسابق وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ وفد بل کلنٹن سے ملنے وائٹ ہاؤس پہنچا۔دوران میٹنگ امریکی صدر بل کلنٹن اسحاق ڈار کی قابلیت اور دلائل سے اتنا متاثر ہوا کہ داد دئیے بغیر نہ رہ سکا اور پاکستان کے ساتھ معاشی معاملات میں نرمی کا فیصلہ کیا۔میاں نوازشریف وائٹ ہاؤس سے باہر نکلے تو میڈیا کے نمائندے انتظار میں کھڑے تھے۔نوازشریف نے اپنے وزیراطلاعات کو اشارہ کیا کہ آپ میڈیا کو بریف کردیں۔مشاہد حسین سید وزیراطلاعات تھے،انہوں نے پوری میٹنگ کو ایک جملے میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ "بل کلنٹن نے اسحاق ڈار کی سی ۔وی مانگ لی ہے"یہ اسحاق ڈار کی قابلیت ہے،جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔اس لئے شہباز شریف سے زیادہ اسحاق ڈار کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں سے کوئی واقف نہیں ہے۔
چونکہ گزشتہ چار سالوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان کافی فاصلے پیدا ہوگئے تھے۔اسحاق ڈار بھی انہی فاصلوں کی سزا بھگت رہے تھے۔شہباز شریف نے وزیراعظم بننے سے پہلےکچھ فاصلے کم کرنے کی کوشش کی اور وزیراعظم بننے کے بعدکچھ فاصلے کم کرنے میں انہیں چھ ماہ لگ گئے۔اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان غلط فہمیوں کو کم کرنے میں شہباز شریف کا کردار دونوں فریقین فرامو ش نہیں کرسکتے۔مگر شہباز شریف کی یہ خوبی ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ جارحانہ موڈ میں اور جذباتی ہوکر نہیں کرتے۔جذباتی فیصلہ یہ تھا کہ وزارت عظمیٰ کا اپریل میں منصب سنبھالتے ہی اسحاق ڈار کی واپسی کا مطالبہ رکھتے مگر انہوں نے حالات کو بھانپتے ہوئے درست وقت کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا۔شہباز شریف میں بہت خامیاں ہوں گی مگر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ میاں نوازشریف کے بہت وفادار بھائی اور ساتھی ہیں۔ان کے مفاد پر ان سے زیادہ نظر رکھتے ہیں۔جن حالات میں میاں نوازشریف جیل سے رہا ہوکر علاج کی غرض سے لندن کے لئے روانہ ہوئے۔اس میں شہباز شریف کا جو بھی کردار تھا،یہ فیصلہ میں تاریخ پر چھوڑتا ہوں۔میں اکثر کہتا ہوں کہ کاش ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی شہباز شریف جیسا بھائی ہوتا تو بھٹو کے ساتھ ایسا سلوک نہ ہوتا۔
شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ در پردہ اپنی جماعت اور بھائی کے لئے جو کچھ کررہے ہوتے ہیں ،اس کا اظہار کم ہی کرتے ہیں۔ایک یا دو قریبی دوستوں کے علاوہ کھل کر کم ہی گفتگو کرتے ہیں۔لیکن یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ مسلم لیگ ن آج جس جگہ پر کھڑی ہے۔ اس میں شہباز شریف کی دن رات کی کاوشیں شامل ہیں۔مسلم لیگ ن کے پاس اب صرف دو راستے ہیں۔ایک یہ کہ بہتر پرفارم کرے اور دوسرا آئندہ انتخابات کی تیاری پر توجہ مرکوز کرے۔بہتر پرفارم کرنے کے لئے غریبوں اور کسانوں کو ریلیف دینا اشد ضروری ہے۔جبکہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں کے لئے نوازشریف کی واپسی لازمی ہے۔نوازشریف کے بغیر مسلم لیگ ن کوئی انتخاب بھی نہیں جیت سکتی۔پنجاب آج بھی نوازشریف کو دیکھ کر ووٹ دیتا ہے۔اس لئے مسلم لیگ ن کے اکابرکی اولین ترجیح نوازشریف کی واپسی ہونی چاہئے اور اس میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات پر توجہ مرکوز کریں۔وگرنہ مسلم لیگ ن کے لئے آئندہ انتخاب جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔