• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منی لانڈرنگ، جرم سے حاصل رقم یا اثاثے ثابت کرنا ضروری، قانونی ماہرین

لاہور (نعمان وہاب) قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی فرد کے خلاف منی لانڈرنگ ثابت کرنے کیلئےجرم سے حاصل رقم یا اثاثے ثابت کرنا ضروری ہے ،وکیل شریف خاندان کاکہناہےکہ ایف آئی اے کے پاس جرائم کی آمدنی سے متعلق تحریری کوئی ثبوت نہیں جبکہ ایف آئی اے کے پروسیکوٹر کا کہناہےکہ گواہوں کےشواہد سے ثابت ہو جائیگا شریف خاندان نےبے نامی اکاؤنٹس سے فائدہ اٹھایا۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) عدالت میں جمع کرائے گئے چالان میں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف وہی ثابت کرنے میں ناکام رہی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈپازٹرز کی جانب سے مبینہ بے نامی اکاؤنٹس میں جمع کرائی گئی مجرمان کی جانب سے حاصل کی گئی رقم یا کک بیکس (خصوصاً تعاون کے بدلے منافع میں حصہ داری) تھی۔

منی لانڈرنگ کے مقدمات کو نمٹانے میں مہارت رکھنے والے وکلاء شہباز خاندان کے خلاف ایف آئی اے کی چارج شیٹ (چالان) کو ایک نازک دستاویز سمجھتے ہیں، جس میں زیر بحث رقم کے حوالے سے خامیاں ہیں کیونکہ اس نے یہ ثابت نہیں کیا کہ مبینہ رقم مجرمان کی جانب سے حاصل کی گئی رقم ہے۔ یہ ثابت نہیں ہوا کہ منی لانڈرنگ شہباز شریف اور ان کے خاندان نے کی اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں کوئی لین دین نہیں ہوا۔

ایڈووکیٹ عدنان شجاع بٹ، جو کہ سینئر وکیل ہیں اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کو نمٹانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے ایک ایسے کیس کی ناقص تفتیش کی ہے جو اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ میں مجرمان کی جانب سے حاصل کی گئی کسی رقم کا ذکر نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ، اگر ٹیکس کے معاملات سے متعلق کوئی غلط کام ہوا ہے تو اسے سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت سمجھا جا سکتا ہے۔

 شجاع نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے یہ ثابت نہیں کیا کہ ڈپازٹرز کی جانب سے مبینہ طور پر 28 بے نامی اکاؤنٹس میں جمع کرائے گئے 16 ارب روپے شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مجرمان کی جانب سے حاصل کی گئی رقم یا کک بیکس تھی جو منی لانڈرنگ کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے ایک شرط ہے۔ شجاع نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کو مجرمان کی جانب سے حاصل کی گئی رقم اور یہ کہ جرم شہباز شریف اور دیگر ملزمان نے کیا، ثابت کرنا تھا۔

ایف آئی اے اس بات کی پابند ہے کہ وہ تفتیش مکمل کرے تاکہ مجرمان کی جانب سے حاصل کی گئی رقم کو ملزمان (مفاد کاروں) سے منی ٹریل کے ذریعے جوڑا جا سکے۔ تاہم ایجنسی واقعات کو ترتیب سے جوڑنے میں ناکام رہی تاکہ اسے منی لانڈرنگ کا ایک قابل ثبوت کیس بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے 28 ایسے اکاؤنٹس ثابت نہیں کر سکی جو شریفوں کے بے نامی اکاؤنٹس تھے۔

 چالان میں نہ تو رقم کی اصل اور منزل کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کے استعمال کنندگان یا بینیفشریز کا۔ سرکاری عہدیدار ہوتے ہوئے شہباز شریف یا حمزہ شہباز کی رشوت ستانی/بدعنوانی ثابت کئے بغیر انسداد بدعنوانی ایکٹ (پی سی اے) 1947 کی دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکا اور اس کیس میں کسی بینکر اور سرکاری عہدیدار کو شریک ملزم نہیں بنایا گیا۔

شہباز شریف اور ان کے بیٹے کے وکیل امجد پرویزنے دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس دستاویز (چالان) پر عدالت کی مدد کر رہے ہیں، جو سابق حکومت کی تشکیل کردہ تحقیقاتی ٹیم نے جمع کرائی تھی۔انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے ’اربیئن نائٹس‘ کی کہانی بیان کی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگلی سماعت پر وہ گواہوں کے بیانات پڑھنے جا رہے ہیں، جو 161ضابطہ فوجداری کے تحت ریکارڈ کیے گئے تھے، کیونکہ ان میں سے کسی کے پاس بھی رشوت اور کک بیکس کے حوالے سے ان کے مؤکلوں کے خلاف کچھ نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس جرائم کی آمدنی سے متعلق تحریری کوئی ثبوت نہیں اور جرم پر مبنی رقم ثابت کئے بغیر منی لانڈرنگ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر بیٹے کی ملکیت والی کمپنی کا کوئی ملازم والد کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم جمع کرائے اور وہ رقم جرم پر مبنی نہ ہو تو کوئی مقدمہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے موکل شہباز شریف نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ایک ایک پائی کو ذرائع آمدن کے ساتھ ظاہر کیا تھا اور اس کا آڈٹ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے عدالت میں بتایاہےکہ ان کے مؤکل شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف کرپشن اور کک بیکس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے عدالت کا فیصلہ ایک اہم دستاویز ہے جو وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی ضمانت قبل از گرفتاری کی تصدیق پر جاری کی گئی۔

اس مقدمے میں ایف آئی اے کی نمائندگی کرنے والے اسپیشل ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کیسز میں قرائن شواہد اہم ہوتے ہیں اور مقدمے کی سماعت کے دوران 100 سے زائد گواہوں کے شواہد سے ثابت ہو جائے گا کہ شریف خاندان نےکیسے بے نامی اکاؤنٹس سے فائدہ اٹھایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ استغاثہ شہباز اور حمزہ کی بریت کی درخواست کی مخالفت کرے گا اور اسے ٹرائل تک پہنچانے کی کوشش کرے گا۔

اہم خبریں سے مزید