• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

عکّاسی: اسرائیل انصاری

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں اکتوبر کی دوسری جمعرات کو ’’بصارت کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بینائی کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ اس سے متعلقہ طبّی مسائل سے آگہی بھی فراہم کرنا ہے۔اِمسال یہ دِن13اکتوبر کو گزشتہ برس ہی کے تھیم "Love Your Eyes" کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ چوں کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ امراضِ چشم سے متعلق معلومات ہی کا فقدان نہیں پایا جاتا ہے، بلکہ جب تک بصارت کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، معالج سے رجوع کرنے کا رجحان بھی موجود نہیں۔ سو، عالمی یوم کی مناسبت سے ہم نے معروف ماہرِامرضِ چشم پروفیسر ڈاکٹر ہارون طیّب سے بات چیت کی ہے۔

ڈاکٹر ہارون طیّب نے2003ء میں آغا خان یونی ورسٹی، کراچی سے ایم بی بی ایس کیا۔بعدازاں، کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز، پاکستان سے 2010ء میں آپتھالومولوجی (Ophthalmology) اور 2014ء میں وِٹرو۔ریٹینل سرجری(Vitreo-Retinal Surgery) میں ایف سی پی ایس کی اسناد حاصل کیں۔2015ءمیں انٹرنیشنل کاؤنسل آف آپتھالومولوجی اِن وِٹرو ریٹینل سرجری، گنما یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن، جاپان سے فیلوشپ کے بعد2020ءمیں رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف گلاسکو اور رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف ایڈن برگ سے ایف آر سی ایس کیا، جب کہ2021ء میں فیلو آف امریکن کالج آف سرجنز سے ایف اے سی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ 

ڈاکٹر صاحب نے اپنے کیرئیر کا آغاز 2017ء میں شریف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، لاہور سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر کیا۔ بعد ازاں، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی، لاہور سے بطور کلینیکل سپروائزر، وِٹرو ریٹینل سروسز وابستہ ہوئے۔ اس وقت آغا یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف آپتھالومولوجی اینڈ ویژول سائنسز سے بطور اسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں اور اسی شعبے میں کنسلٹنٹ آپتھالومولوجسٹ کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ان سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے 

س: آنکھوں کی کون کون سی بیماریاں عام ہیںاوران کی وجوہ کیا ہیں؟

ج: بچّوں، بڑوں اور عُمر رسیدہ افراد میں آنکھوں کی مختلف بیماریاں عام ہیں۔اگر بچّوں کا ذکر کریں،تو ان میں بصارت، خاص طور پر دُور کی نظر کم زور ہوجانا عام مسئلہ ہے، جس کی بنیادی وجہ زیادہ نزدیک سے کام کرنا،ا نٹرنیٹ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل اور ٹیبلیٹ وغیرہ کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔کم عُمر بچّے اکثر موبائل فون یا ٹیبلیٹ پر کارٹونز یا نظمیں وغیرہ دیکھتے ہیں اور آج کے جدید دَور میں بچّوں کو گیجٹس سے دُور رکھنا ممکن بھی نہیں، تو ہم والدین کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بچّے کا دِن بَھر کا شیڈول اس طرح ترتیب دیں کہ وہ پورے دِن میں صرف 30سے 40 منٹ تک الیکٹرانک ڈیوائسز کا استعمال کریں۔ 

پھر متوازن غذاکے استعمال کے ساتھ آؤٹ ڈور ایکٹی ویٹیز بھی ازحد ضروری ہیں۔بعض بچّوں میںنظر کی کم زوری موروثی ہو تی ہے،تو وہ والدین جن کی بینائی کم زور ہو ، بہتر ہوگا کہ چار یا پانچ سال کی عُمر میں اپنے بچّے کی بینائی کا معائنہ لازماً کروائیں ،کیوں کہ اگر بچّے کو بروقت چشمہ لگ جائے، تو پھر اُسے مستقبل میں بینائی سے متعلقہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بڑوں میں کالا موتیا اور ذیابطیس اور بُلند فشارِ خون کی وجہ سے بصارت کے مسائل عام ہیں۔ کالے موتیے کی وجہ موروثی بھی ہوسکتی ہے، جب کہ بعض کیسز میںادویہ کے استعمال سے بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ 

عام طور پر چالیس سال کی عُمرکے بعد کالے موتیے سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا جب عُمر تیس سال سے زائد ہو جائے، توخواہ کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو، آنکھوں کا سالانہ طبّی معائنہ لازماً کروائیں اور اگر کالا موتیافیملی ہسٹری میں شامل ہو، تو پھر خاندان کے تمام افراد ہر سال اپنی آنکھوں کا معائنہ کروائیں۔ یہ مرض قابلِ علاج ہے، بشرطیکہ بروقت تشخیص ہوجائے۔عُمر رسیدہ افراد میں سفید موتیا اور آنکھ کے پردے کی بیماریاں عام ہیں،جن کی بنیادی وجہ عُمر میں اضافہ ہے۔

س: کیا آنکھ کے پردے کا اپنی جگہ چھوڑ دینا(Retinal Detachment)بھی کوئی مرض ہے، اس سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: آنکھ ایک کیمرے کی مانند ہے،جو صرف منظر قید کرسکتی ہے، دیکھ نہیں سکتی۔ جب کہ پردہ ٔبصارت پر کسی بھی منظر یا شے کا عکس بنتا ہے۔ اگر بصارت کا پردہ اپنی جگہ چھوڑ دے تو منظر یا شے کا عکس نہیں بنتا۔ یہ ایک ایمرجینسی کی صُورت ہے، جس کا فوری علاج ضروری ہے، بصورتِ دیگر بینائی عُمر بَھر کے لیےضایع ہوجاتی ہے۔یہ مرض لاحق ہونے کی بڑی وجہ دُور کی بینائی متاثر ہونا ہے، جب کہ کوئی چوٹ یا آنکھ کا ایسا سرجیکل علاج، جو درست نہ ہوا ہو، مرض لاحق ہونے کی وجہ بن سکتا ہے۔ 

ہمارے پاس ریٹینل ڈی ٹیچمنٹ کے کافی مریض آتے ہیں، لیکن تاخیر سے رجوع کرنے کے نتیجے میں علاج کا وقت گزر چُکا ہوتا ہے۔ ان افراد کی آنکھ کا پردہ اگر جوڑ بھی دیا جائے، تو بھی بینائی بحال نہیں ہوتی۔ جن افراد میں مائنس کا نمبر پانچ یا چھے سے زیادہ ہو،اُن میں اس مرض سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا ایسے تمام افراد سال میں ایک بار مستند ماہرِ امراضِ چشم سے آنکھوں کا معائنہ لازماً کروائیں۔

س: وقت کے ساتھ بینائی کی کم زوری معمول کی بات ہے یا یہ کسی مرض کی علامت ہے؟

ج: بینائی کی کم زوری چاہے دُور کی ہو یا نزدیک کی، قطعاً کوئی مرض نہیں۔البتہ یہ اُس صورت میں مرض کہلائےگا ،جب چشمہ لگانے کے بعدبھی ٹھیک سے دکھائی نہ دے اور دیکھنے کے لیے آنکھوں پر زور ڈالنا پڑے۔

س: آنکھ کا سرطان کیسے ہوتا ہے اورپاکستان میں اس کی کیاشرح ہے؟

ج: پاکستان میں مجموعی طور پر آنکھ کے سرطان کی شرح کم ہے، لیکن بڑوں کی نسبت بچّوں میں، خاص طور پر ریٹینوبلاسٹوما(Retinoblastoma)کی شرح بُلند ہے، جن میں سےزیادہ تر کا تعلق شمالی علاقہ جات سے ہے۔ اس سرطان میں آنکھ کی پُتلی کا رنگ سفید ہوجاتا ہے،جو طبّی اصطلاح میں leukocoria کہلاتا ہے۔ یہ کیوں لاحق ہوتا ہے، اس کی وجوہ تاحال معلوم نہیں ہوسکیں، البتہ زیادہ تر کیسز میں موروثیت کا عُنصر پایا جاتا ہے۔ عام طور پر ریٹینوبلاسٹوما آنکھ کے بعد جگر، پھپپھڑوں یاپھر دماغ کواپنا نشانہ بناتا ہے۔

اسی لیے علاج کے دوران ان اعضاء کی اسکریننگ بھی ضروری ہے۔بچّوں میں ایک سے دوبرس کی عُمر میں مرض کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔اگر یہ سرطان آنکھ کے بعد جسم کے کسی اور عضو میں پھیل جائے تو نصف مریض بچّے پانچ سال کے بعد انتقال کرجاتے ہیں۔ اس سرطان کے علاج کےلیےکولڈ یا ہاٹ لیزرز اورکیمو تھراپی وغیرہ مستعمل ہیں۔ ریٹینوبلاسٹوما کی مختلف اسٹیجیز ہیں، جو اے ،بی ،سی ،ڈی اورای سے موسوم کی گئی ہیں۔ پہلی اور دوسری اسٹیج میں لیزر کے ساتھ کیمو تھراپی کی جاتی ہے۔تیسری اسٹیج میں کیموتھراپی، جب کہ چوتھی اور پانچویں میں جان بچانے کے لیے آنکھ نکالنی پڑسکتی ہے۔

س: اِمسال عالمی یومِ بصارت کا تھیم"LoveYourEyes" ہے، آپ اس حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے؟

ج: یہ تھیم منتخب کرنے کی کئی وجوہ ہیں۔اگر پاکستان کی بات کریں، تو یہاں ذیابطیس عام ہے اور یہ ایک ایسا مرض ہے، جو جسم کے کئی اعضاء پر اپنے مضر اثرات مرتّب کرتاہے۔ تاہم، اس مرض میں سب سے پہلے آنکھیں اور پھر گُردے متاثر ہوتے ہیں۔ چوں کہ ذیابطیس کی وجہ سے بینائی ضایع ہونے کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے، تو مَیں خاص طور پرڈائی بیٹیک افرادکو مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی آنکھوں سے محبّت کریں، اُن کاسالانہ معائنہ کروائیں، اپنے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کا بھی خاص خیال رکھیں۔ 

اس کے علاوہ پاکستان میں نومولود بچّوں میں آنکھ کے پردے کی بیماریوں میں سب سے عام اور خطرناک ریٹینوپیتھی آف پِری میچوریٹی ہے (Retinopathy Of  Prematurity) ہے۔ دراصل جو بچّے پِری میچور پیدا ہوتے ہیں، انہیں این آئی سی یو میں رکھا جاتا ہے، جہاں اُنہیں زندہ رکھنے کے لیے زیادہ مقدار میں آکسیجن دی جاتی ہے،جس کے اثرات آنکھ پر مرتّب ہوتے ہیں۔آج سے دس ،پندرہ برس قبل اس بیماری سے متعلق آگہی نہیں تھی،لیکن اب ایسے این آئی سی یو دستیاب ہیں، جو بچّوں کو کئی مضر اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ 

اگر اس مرض سے متعلق والدین میں شعور و آگہی اُجا گر کرنے کے ساتھ ماہرینِ امراضِ چشم کو ٹرینڈ نہ کیا گیا، تو آئندہ5سے 10برسوں میں ریٹینوپیتھی آف پِری میچوریٹی کی شرح کئی گُنا بڑھ جائے گی۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے، جس سے نمٹنا ازحد ضروری ہے۔ پھر بُلند فشارِ خون بھی آنکھ کی بنیادی شریان کو متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے، تو اس طرح کے کئی عوامل ہیں، جن سےتحفّظ کے لیے اپنی آنکھوں سے محبّت کا ثبوت بروقت معائنےکی صُورت دیا جائے، تاکہ علاج میں تاخیرکے سبب بینائی سے مکمل طور پر محرومی کا عذاب نہ جھیلنا پڑے۔

س: بھینگا پَن بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس کی وجوہ کیا ہیں اور یہ عموماًکس عُمر میں تشخیص ہوتا ہے؟

ج: آنکھ کا بھینگا پَن ایک عام مسئلہ ہے، جو زیادہ تر بچّوں کوچھے ماہ سےچار برس کی عُمرکے دوران اپنا شکار بناتاہے۔ بھینگے پَن کی عمومی وجوہ میں موروثیت، بینائی اور آنکھ کے پردے کی کم زوری شامل ہیں۔ بھینگے پَن کی تقریباً 10،12 اقسام ہیں،جن میں سب سے عام قسم محض عینک لگانے، تھراپی یا ورزش سے باآسانی ٹھیک ہوجاتی ہے، جب کہ بعض کیسز میں سرجری بھی کی جاتی ہے۔ بھینگے پَن کے علاج کے ماہرینِ امراضِ چشم علیٰحدہ ہوتے ہیں، جوStrabismologist کہلاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ تصوّر عام ہے کہ پیدایشی بھینگا پَن قابلِ علاج نہیں، تو یاد رکھیے، ماسوائے بھینگے پَن کی چند ایک اقسام کے، تمام قابلِ علاج ہیں۔

س: اگر ذیابطیس کے سبب کسی مریض کی آنکھ کا پردہ متاثر ہوجائے، تو کیا درستی کی کوئی صُورت ہوسکتی ہے؟

ج: ذیابطیس کے سبب اگر کسی مریض کی آنکھ کا پردہ متاثرہ ہوجائے تو ابتدائی مرحلے میں درستی ممکن ہے، لیکن اگر مرض ابتدائی مراحل سےآگے بڑھ چُکا ہو، تو پھر آنکھ کے اندر انجیکشن لگایا جاتا ہے، جو خاصا منہگا اور طویل دورانیے کا علاج ہے۔ ویسے ان مریضوں کی سو فی صد بینائی واپس نہیں آسکتی۔

پھر مشاہدے میں ہے کہ اکثر مریض لیزر یا انجیکشن کے علاج کے بعد ماہرِ امراضِ چشم سے فالو اَپ نہیں لیتے، جو درست نہیں۔ علاج کے بعد بھی باقاعدہ معائنہ ضروری ہے۔ یاد رہے، جب تک مرض پر کنٹرول رہتا ہے، آنکھ کا پردہ متاثر نہیں ہوتا۔وگر نہ باربارانجیکشن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔

س: بُلند فشارِ خون بھی بینائی پر اثر انداز ہوتا ہے؟

ج: بُلند فشارِ خون کی وجہ سےآنکھ اور دماغ کو ملانے والی آپٹک نَرو(Optic Nerve) یا پھرمیکولا(Macula)متاثر ہوجاتا ہے ۔اوراگر خدانخواستہ بُلند فشارِ خون کی وجہ سے آنکھ کو خون فراہم کرنے والی شریان بند ہوجائے تو بینائی ضایع ہوجاتی ہے، جس کا کوئی علاج نہیں۔ ہمارے پاس مہینے میں ایک یا دو مریض بلڈ پریشر کی وجہ سے بینائی متاثر ہونے کے آتے ہیں، تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جس آنکھ کی بینائی سلامت ہے، وہ بچالی جائے۔

س: کالا و سفید موتیا ہونے کے کیا اسباب ہیں؟

ج: کالےموتیے کوطبّی اصطلاح میں"Glaucoma"کہتے ہیں، جسے زیادہ تر مریض ابتدائی علامات سے ناواقفیت کی بنا پر سمجھ نہیں پاتے ،حالاں کہ اگرایک بار بینائی ضایع ہوجائے، تو پھر کسی صُورت بحال نہیں ہوسکتی۔سفید موتیے میں عُمرکے ساتھ آنکھ کے عد سے میں ٹوٹ پھوٹ سےگدلا پَن آجاتا ہے۔ بعض اوقات یہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ آنکھ کے اندر روشنی مکمل طور پر نہیں پہنچ پاتی، جس کے باعث افراد اور چیزیں غیر واضح ہونے لگتی ہیں۔ تاہم، بذریعہ آپریشن آنکھ کی جھلّی نکال کر اس کی جگہ مصنوعی لینس لگادیا جاتا ہے، تاکہ معمول کے مطابق زندگی بسر کی جاسکے۔

آج کےجدید دَور میں سفید موتیا مرض کے زمرے میں نہیںآتا ، کیوں کہ جس طرح عُمر کے ساتھ بال سفید ہوجاتے ہیں، تو یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔سفید موتیے کے 90فی صد کیسز کی وجہ عُمر میں اضافہ ہے،جب کہ دیگر10 فی صد اسباب میں بعض ادویہ، کوئی چوٹ اورمیٹا بولک ڈس آرڈرز وغیرہ شامل ہیں۔ سفید موتیا 45سال کی عُمر کے بعد کبھی بھی اپنا شکار بناتا ہے، جب کہ کالا موتیا 35 سال کی عُمر کے بعد لاحق ہوسکتا ہے۔

سفید موتیے کی علامات میں بینائی کی کم زوری، پڑھنےلکھنے یا ڈرائیونگ کے دوران دقّت محسوس ہونا شامل ہیں۔ اکثرمریضوں کواندھیرے میں بھی کم دکھائی دیتا ہے۔ کالے موتیے کی ایک قسم میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں،مگر یہ مرض خاموشی سے آنکھ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے، جب کہ دوسری قسم کی بنیادی علامت آنکھوں کے اطراف کی بینائی متاثر ہوجانا ہے۔

س: کیا پاکستان میں آنکھوں کے امراض کے علاج کے ضمن میں بین الاقوامی معیار کی سہولتیں میسّر ہیں؟

ج: میرے خیال میں پاکستان میں امراضِ چشم ہی صحت کا وہ واحد شعبہ ہے، جس میں بین الاقومی معیارکی تمام تر سہولتیں میسّر ہیں۔

س: اس وقت دُنیا بَھر میں امراضِ چشم کے علاج معالجے کے حوالے سے کیا کام ہورہا ہے؟

ج: فی الوقت جس تحقیق پر زور و شورسے کام جاری ہے،وہ عُمر بڑھنے کے ساتھ لاحق ہونے والی آنکھ کی بیماریوں کے(Age Related Macular Degeneration) انجیکشنز کی تیاری ہے، جس پر2007ء سے کام کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ آنکھ کے پردے کی موروثی بیماریوں کے علاج معالجے پر بھی مسلسل تحقیق کی جارہی ہے۔ نیز، آنکھ کی اوپن سرجری کے بجائے لیزر کے ذریعے علاج پر بھی تحقیق ہورہی ہے۔

س: کیا عینک سے نجات کےلیے لیزر سرجری مفید ہے اور یہ کس حد تک محفوظ طریقۂ علاج ہے؟

ج: عینک سے نجات کےلیے لیزر سرجری مفید ہے،لیکن ہمارے یہاں لوگ اس معاملے میں سنجیدگی اختیار نہیں کرتے، حالاں کہ یہ ایک مکمل سرجری ہے، جس کے بعد تاعُمرچند احتیاطی تدابیر پر عمل ناگزیر ہے۔ اس سرجری میں احتیاط نہ برتنے کی صُورت میں جو پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں، اُن میں آنکھوں کی خشکی، آنکھ کے پردے کا ضایع ہوجانا اور دوبارہ چشمہ لگنا وغیرہ شامل ہیں۔ ویسےاس سرجری کی موزوں عُمر 20سے 40سال تک ہے۔اس کے بعد زیادہ بہتر نتائج سامنے نہیں آتے۔

س: کانٹیکٹ لینسز کے استعمال حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: اگر تو اس ضمن میں بعض باتوں کا خاص خیال رکھاجائے، مثلاً کانٹیکٹ لینسز ہمیشہ معیاری کمپنی کے استعمال کیے جائیں۔لینسز لگاتے یا اُتارتے ہوئے ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔ انہیں ان کے مخصوص سلوشن میں رکھیں اور ہرروزیہ سلوشن تبدیل کریں۔ لینسز اُتار کر سوئیں، دورانِ تیراکی ہرگز نہ لگائیں اور میعاد ختم ہونے کا بھی خاص خیال رکھا جائے، تو لینسز لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے مَیں کانٹیکٹ لینسز کے استعمال کا حامی نہیں کہ اگر احتیاطی تدابیر کا خیال نہ رکھا جائے، تو کسی بیماری کے بغیر بھی آنکھ خرابی سے دوچار ہوجاتی ہے۔

س: کیا یہ درست ہے کہ صُبح سویرے گھاس پر ننگے پائوں چلنے، سبزہ دیکھنے اور سُرمہ لگانے کے بینائی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

ج: اگر آپ واک کرتے ہیں تو اس کے اثرات پورے جسم پر مرتّب ہوتے ہیں، ایسا نہیں صرف بینائی پر ہوں، پھر سُرمے سے متعلق بھی آج تک کوئی سائنسی توجیہہ پیش نہیں کی گئی۔ میرے پاس تو زیادہ تر ایسی مائیں آتی ہیں، جن کے بچّے سُرما لگانے سے مختلف طبّی مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ سبزہ دیکھنے یا گاجر کھانے کی افادیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن ان سب سے خصوصاً بینائی پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے۔یہ سب مفروضات ہیں۔

س: کن غذاؤں کا استعمال بینائی کے لیےفائدہ مند ثابت ہوتا ہے؟

ج: آنکھوں کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں صاف رکھاجائے، متوازن غذا کے ساتھ موسمی پھل اور سبزیاں، مچھلی، وٹامن اے اور سی کا استعمال کریں، اگر دُور یا قریب سے دیکھنے میں دقّت پیش آرہی ہو یا الرجی کی شکایت ہو، تو تاخیر کیے بغیر مستند معالج سے معائنہ کروائیں، کوشش کریں کہ ایک ہی آپٹیکل سینٹر سے چشمہ بنوائیں اور جب دھوپ میں نکلیں، معیاری سن گلاسز استعمال کریں۔