• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

کمیونٹی تنظیموں نے پل ، آبی گزرگاہیں اور دیگر چھوٹے تعمیراتی منصوبے کہیں زیادہ کم لاگت میں مکمل کیے ہیں کیوں کہ افرادی قوت اور منصوبوں کیلئے زمین انہی تنظیموں کی فراہم کردہ تھی ۔ سامنے رکھی گئی ترغیبات نے انھیں احساس دلایا کہ یہ منصوبے اُن کی زرعی آمدنی دگنی کرسکتے ہیں۔ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے زرعی پیداوار کی بہتر مارکیٹنگ ممکن ہوگی۔ اس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور خوراک کے تحفظ میں مدد ملی ۔ یہ کمیونٹی تنظیمیں اپنے سماجی اشاریے ، جیسا کہ اسکولوں میں حاضری، طلبا کا تعلیم جاری رکھنا ، غذائیت، پانی کی فراہمی اور صفائی کا نظام بھی بہتر بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان اشاریوں میں یہ خطہ پاکستان کے دیگر صوبوں سے نسبتاً بہتر ہوچکا ہے۔ دیگر ترقیاتی شراکت دارجیسا کہ پاکستان تخفیف غربت فنڈ (پی پی اے ایف )نے بھی پیش رفت کرتے ہوئے کسانوں اور کاروبار کرنے والوں کو چھوٹے قرضوں اور تربیت کی سہولیات فراہم کیں ۔

حالیہ برسوں میں دیہی آبادی کی معاونت کیلئے ایک اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ۔ یہ عالمی فنڈ برائے زرعی ترقی (آئی ایف اے ڈی)ہے ۔

120 ملین ڈالرحجم رکھنے والے اس فنڈکی منظوری 2015 ء میں دی گئی اور اس کا دورانیہ دس سال ہے ۔ گلگت بلتستان کی معاشی تبدیلی کا منصوبہ (ای ٹی آئی جی بی )زرعی پیداوار بڑھاکر، نقد آور فصلیں متعارف کراکے اور کسانوں کا مقامی منڈیوںکے ساتھ رابطہ جوڑکر کم و بیش ایک لاکھ دیہی گھرانوں کی مدد کررہا ہے ۔ کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ فصلیں کاشت کرنے کے روایتی طور طریقے تبدیل کریں۔ زیادہ خوبانی کاشت نہ کریں جو بہت حد تک ضائع چلی جاتی ہے اور وہ اس سے زیادہ مالی فائدہ نہیں اٹھا پاتے ۔ اس علاقے کی دوسری اہم فصل آلو ہے۔ اس منصوبے کے تحت 49000 ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرنے کیلئے گلیشیر سے بہہ کر آنے والے پانی کیلئے گزرگاہیں تعمیر کی گئیں ۔ 20000 ایکڑ زمین سیراب کرنے کیلئے پچاس آبی گزرگاہیں بنائی گئی ہیں ۔ 480کلو میٹر طویل سڑکیں زیر تعمیر ہیں۔ تشکیل دیے گئے زرعی کوآپریٹوز کا50000 گھرانوں کوتعاون حاصل ہے ۔ آبی گزرگاہوں اور سڑکوں کی تعمیر اور ترقی کے بعد راقم الحروف کو اس علاقے کے ایک گائوں میں کوآپریٹو اراکین اور کسانوں کی بحث سننے کا موقع ملا ۔ اس میں خواتین بھی شامل تھیں ، بلکہ ان کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی ، اور وہ فریز کی ہوئی سبزیاں فروخت کرنے کے امکانات تلاش کررہی تھیں۔ اُنھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سرد چین، جیسا کہ فریج والی وین ، پروسسنگ اور اسلام آباد تک کی ترسیل کے خرچ کے بعد بھی یہ ان سبزیوں سے سستی ہوں گی جو وہ وہاں مقامی ذرائع سے حاصل کرتے ہیں ۔ یہ وہ کاروباری امکانات ہیں جن میں نجی شعبہ آگے قدم بڑھاتے ہوئے کمیونٹی ممبران کے مقامی علم اور معروضی حالات سے آگاہی کی روشنی میں تکنیکی اور معاشی مطالعے کو عملی شکل دے سکتاہے ۔ سہ فریقی اشتراک، جیسا کہ این جی اوکمیونٹیز کو تحریک دیں اور تکنیکی معاونت فراہم کریں، حکومت فنڈز فراہم کرے ، جیسا کہ آئی ایف اے ڈی کررہا ہے، اور نجی شعبہ بہت سے غریب ممالک اور دشواراور مشکل حالات میں معاشی امکانات دیکھتے ہوئے کررہا ہے۔

گلگت بلتستان بنیادی طور پر ایک دیہی معاشرہ ہے جس کی آبادی تقریباً 700 دیہات کی صورت پھیلی ہوئی ہے ۔چھوٹے زمین مالکان کا بنیادی پیشہ زراعت ہے اور آبادی وسیع پہاڑی خطوں سے زیادہ ہے۔ زیادہ تر کاشتکاری 3000 میٹر کی بلندی پر ہوتی ہے۔ اس پہاڑی ماحول میں وادیاں اور کھلے علاقے (چراگاہیں اورشکار گاہیں)قابل استعمال زمین ہیں۔ دریائوں، ندیوں اور آبپاشی کے ذخائر کے کناروں پر تہہ در تہہ بنے ہوئے کھیتوں میں کاشت کاری ہوتی ہے ۔ اس علاقے کی ایک منفرد خصوصیت زمین کی منصفانہ تقسیم ہے اور تقریباً 90% گھرانوں کے پاس زرعی اراضی ہے۔ چونکہ ملکیتی رقبہ کم ہے، اس لیے مالک خود ہی کاشت کاری کرتا ہے ۔اس کے نتیجے میں گھر والوں کی زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ وہ مویشی، بھیڑ، بکریاں بھی پالتے ہیں جن سے ان کی نقد آمدنی کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ شاہراہِ قراقرم اور دیہی ترقیاتی پروگراموں کی تعمیر نے روایتی فصلوں کی بجائے غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بہتر پیداوار دینے والی فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ ان فصلوں کو موسم گرما میں خطے کے زرعی ماحولیاتی حالات میں اُگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فصلیں باقی ملک کی منڈیوں میں فروخت بھی کی جاتی ہیں۔ کاشت کاری کی توسیع کیلئے آبپاشی کے ذرائع، بہتر بیج، زرعی قرض و مارکیٹوں سے فزیکل اور ڈیجیٹل دونوں طرح کے رابطے کی ضرورت ہوگی۔ گلگت بلتستان نامیاتی زراعت ، پولٹری اور مویشیوں کی مصنوعات کیلئے زیادہ موزوں ہے۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کو ایسے تجربات کرنے چاہئیں جن کا مقصد بہتر بیج، نسلیں، پانی کے موثر استعمال اور بہتر مارکیٹنگ کے ذریعے نامیاتی کاشتکاری کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنا۔ اسلام آباد تک ملحقہ شہروں میں صحت کے بارے میں شعور رکھنے والا شہری متوسط طبقہ نامیاتی فارم کی پیداوار خریدنے کے وسائل رکھتا ہے۔ محکمہ زراعت، اے کے ڈی این اور سدپارہ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے ذریعہ تیار کردہ زرعی شعبے پر 2018 کے ایک جامع مطالعہ نے ایک پالیسی فریم ورک مرتب کیا ہے جس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔اس علاقے کی قدرتی ماحول کی خوبصورتی اور ثقافتی سیاحت کے امکانات کا اب تک پوری طرح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ یہاں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد ہے لیکن ان کی رہائش، خوراک، ٹرانسپورٹ اور رہنمائی کیلئے مربوط منصوبہ بندی موجود نہیں۔ سنگین خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ سیاحوں کی طرف سے پھینکے جانے والے کوڑے اور انسانی فضلے سے ماحول آلودہ ہو رہا ہے ۔ اگر اس آلودگی کا تدارک نہ کیا گیا تو کوہ پیماان چوٹیوں کی طرف نہیں آئیں گے۔ جبکہ حکومت کو کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے اور جلانے والے پلانٹس قائم کرنے چاہئیں ۔ملحقہ علاقوں کی کمیونٹیز کو کچرا جمع کرنے، دیکھ بھال اور صفائی میں شامل کرنے کی پچھلی کوششیں پائلٹ سطح پر کامیاب رہی ہیں اور اسے بڑے پیمانے پر نقل کیا جانا چاہیے۔ ایئر بی این بی رہائش کے ساتھ نئے ہوٹل اور نجی گیسٹ ہاؤسز، ریستوران اور کیفے قائم ہورہے ہیں لیکن وہ سب جزوقتی اقدامات کررہے ہیں۔ مقامی تنظیموں اور ضلعی انتظامیہ کو مشترکہ طور پر حفاظت، صفائی اور معیارات کو یقینی بنانا چاہیے۔ مہمان نوازی کی صنعت اور دیگر متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ ملازمتوں کیلئے تربیت درکار ہے ۔ پاکستان اور خلیجی ممالک میں اس شعبے میں مانگ بڑھ رہی ہے۔ اس کی تربیت نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے مسئلے پر دبائو کم ہوسکتا ہے۔ Visit GBایپ جو سیاحوں کو معلومات فراہم کرنے کیلئے محکمہ سیاحت کی جانب سے تیار کی گئی ہے، سیاحوں کے فیڈ بیک کی روشنی میں اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر اور اپ ڈیٹ کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین