آج لکھنا تو چوہدری شوگر مل اسکینڈل، رینٹل پاور پروجیکٹ ڈاکے پر تھا مگر آج شہزاد اکبر یاد آ رہے، عمران خان کے سیف الرحمان، احتساب کو مذاق، گالی بنا دینے والے، عمران حکومت کے سازشی چھوڑو، کئی خفیہ ڈیلوں، ڈھیلوں کے مرکزی کردار، اب تو سنا جا رہا، اہم کیسوں کا ریکارڈ بھی ساتھ لے گئے، یہ بتاتا چلوں چوہدری شوگر مل کیس میں 3سال مریم نواز کا پاسپورٹ ضبط رہا، اب انہیں پاسپور ٹ مل چکا، وہ لندن جا چکیں، اپنے والد، بھائیوں کے پاس، والد جو 8ہفتوں کیلئے علاج کرانے لندن گئے، ساڑھے تین سال ہو چکے، واپس نہ لوٹے، بھائی جو عدالتوں کو مطلوب، جو پانامہ لیکس کے مشکل لمحوں میں پتلی گلی سے نکل گئے، بعد میں جب عدالت نے حسن نواز، حسین نواز کو بلایا تو مریم نواز نے انکشاف کیا ’’میرے بھائیوں پر تو پاکستانی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہ پاکستانی نہیں غیر ملکی ہیں‘‘ مریم نواز نے اپنے لندن جانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ میں نے ایک سرجری کروانی ہے جو یہاں نہیں ہو سکتی، سوچوں، ان سب کی کوئی بیماری ایسی نہیں، جس کا علاج یہاں ہو سکے، خیر سے مریم نواز لندن میں انہی ایون فیلڈ فلیٹس میں رہیں گی، جن کی منی ٹریل ابھی تک نہ دی جا سکی، ایون فیلڈ فلیٹس کے حوالے سے پچھلے کالم میں آپ یہ تو پڑھ چکے کہ مسلم لیگ کا کہنا ’’ایون فیلڈ فلیٹس 1993سے 1995 کے دوران خریدے گئے‘‘ حسین نوازنے بتایا ’’2005-6میں سعودی عرب میں اپنی فیکٹری بیچ کر یہ فلیٹس خریدے‘‘ حسن نواز نے بتایا ’’میں تو ان فلیٹس میں کرایہ دار، فلیٹس کس کے، میرا کرایہ کون دے رہا، مجھے نہیں معلوم‘‘ مریم نواز، سلمان شہباز سرے سے ہی مُکر گئے، کہا، ہماری تو لندن میں کوئی جائیداد ہے ہی نہیں، نواز شریف نے قومی اسمبلی میں ایک من گھڑت منی ٹریل کہانی سنا کر کہا ’’جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع جن کی مدد سے ایون فیلڈ فلیٹس خریدے‘‘ اور بعد میں مُکر گئے، اب یہ سنیے، یہ پچھلے کالم میں نہیں بتا سکا، شریف خاندان نے 15نومبر 2016کو سپریم کورٹ میں ایک قطری خط پیش کیا، یہ خط قطری شہزادے جو قطر کے سابق وزیراعظم، سابق وزیر خارجہ رہ چکے نے پاکستانی عدلیہ کے نام لکھا، خط میں تھا کہ نواز،شہباز کے والد میاں محمد شریف نے 1990میں قطر کے الثانی گروپ میں ایک کروڑ 20لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی، اس سرمایہ کاری کے منافع سے ایون فیلڈ فلیٹس خریدے گئے، میاں شریف نے وصیت کی تھی کہ یہ فلیٹس میرے پوتے حسین نواز کو دیدیئے جائیں ، 2006میں الثانی خاندان اور حسین نواز کے درمیان معاملات طے پائے اور یو ں یہ چاروں فلیٹس ان کے نام کر دیئے گئے، اب باقی چھوڑیں، صرف یہی نکتہ کہ قطری کہہ رہے کہ حسین نواز کے دادا کی سرمایہ کاری کے منافع سے خریدے یہ فلیٹس حسین نواز کو دیئے، حسین نواز کہہ رہے یہ فلیٹس میں نے اپنی سعودیہ والی فیکٹری بیچ کر خریدے، مزے کی با ت کسی کے پاس کسی خرید و فروخت، سرمایہ کاری، منافع کا کوئی بینک ریکارڈ نہیں ۔
معذرت بات کہاں سے کہاں نکل گئی، چوہدری شوگر مل اسکینڈل ،رینٹل پاور پروجیکٹ ڈاکہ پھر سہی، آتے ہیں اپنے موضوع پر، شہزاد ا کبر کے حوالے احتساب کرنا، بدترین فیصلہ عمران خان کا، دھیلے کا کام نہ کیا، لمبی لمبی چھوڑتے رہے، ان کا احتساب ایسا، اپنوں نے تو کھل کر موجیں کیں ، پرائے بھی خوب مستفید ہوئے، آج خود پتلی گلی سے نکل گئے، یہ کسی قابل ہوتے توجو کل تک جیلوں، حوالاتوں میں تھے، جو تھانے، کچہریوں میں پیشیاں، نیب،ایف آئی اے کی انکوائریاں بھگت رہے تھے، جوبھاگے ہوئے تھے، بھاگنے کے چکر میں تھے، وہ آج اقتدار میں نہ ہوتے، یہی نہیں کل کے ملزم اور آج کے حکمران، اب اپنے اپنے مقدموں، سزاؤں کے حوالے سے عمران احتساب کے ظلم وستم کی ایسی ایسی فرضی داستانیں، من گھڑت کہانیاں سنارہے کہ لگ رہا جیسے 27سال چھ بائی آٹھ فٹ کے سیل میں فرش پر سونے، دھات کی پلیٹ اور ایک مگ میں کھانا کھانے اور روزانہ جیل کے صحن میں پتھر توڑنے والے نیلسن منڈیلا کی سختیاں ان کے سامنے کچھ نہ تھیں، بلاشبہ شہزاد اکبر نے دوچار جھوٹے کیس بھی بنائے، بلاشبہ چند بے گناہوں کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی،مگر عمران حکومت کے 3سال 7ماہ بعد 25دن دیکھیں، شہزاد اکبر جمع بدبودار نظام ، ایسا لذیذ احتساب مطلب مذاق تھا کہ شرجیل میمن کی سب جیل، اسپتال کا وی وی آئی پی کمرہ، وہ جادوئی کمرہ کہ جس سے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو مشروب پکڑا وہ بعد میں زیتون کا تیل بن گیا، سراج درانی نیب حوالات سے نکلتے سیدھے اسپیکر کی کرسی پر آبیٹھتے، کوٹ لکھپت کے قیدی شہباز شریف جیل میں پی اے سی کے چیئرمین بنے اور سیدھے پہنچے منسٹر کالونی کے بنگلے میں، نواز شریف 5میڈیکل بورڈ، 5اسپتالوں میں معائنے، 13میڈیکل رپورٹیں، دو طبی ریلیف، ایک بار 8ہفتے کیلئے رائے ونڈ محل، دوسرا طبی ریلیف سیدھا لند ن، میاں صاحب جب تک یہاں رہے ایمبولینس اور ڈاکٹر 24گھنٹے ان کے جیل دروازے پر موجود، زرداری صاحب کو مساج چیئر کی سہولت نیب حراست میں بھی میسر تھی، زرداری صاحب سے شرجیل میمن تک اور شہبا زشریف سے سعد رفیق تک سب کو پروڈکشن آرڈر سہولتیں، اِدھر اسمبلی اجلاس بلاؤ، اُدھر پروڈکشن آرڈر پر جیلوں، حوالاتوں سے اسمبلی اجلاس میں آؤاور آ کر نصابی، غیر نصابی موجیں اُڑاؤ، اس کے علاوہ کئی شرفاء کے گھر ان کی سب جیلیں،جو جیلوں ،حوالاتوں میں انہیں سہولتیں وہ غریبوں کو اپنے گھروں میں بھی میسر نہیں، من چاہی واکیں، من چاہی ملاقاتیں، من چاہی خوراکیں، ان پر جیلوں میں کیسی سختیاں ہو رہی تھیں، ملاحظہ ہوں، ایک پیشی پر شہباز شریف نے عدالت میں کہا، جج صاحب نیب ٹارچرکر رہا، پوچھا گیا، کیا ٹارچر کر رہا، بولے، نیب اہلکار جو نماز کے وقت میری کرسی قبلہ رخ رکھتا تھا، وہ دو دن سے کرسی قبلہ رخ نہیں رکھ رہا، اب کرسی مجھے خودرکھنا پڑرہی، شہباز شریف نے دوسری شکایت یہ کی، دودن سے میری کھانے کی ٹرے زمین پر رکھ دی گئی، کھانا جھک کر اٹھانے سے مجھے کمر میں درد ہورہا، جج صاحب نے نیب سے کہا، آئندہ یہ شکایت نہ ہو، ایک پیشی پر سعد رفیق نے عدالت میں کہا، مجھے پرانی بنا بریک والی گاڑی میں لایا گیا، مجھے ناشتہ دیا گیا تو انڈا کچا اور سلائس ٹھنڈا تھا، جج صاحب نے نیب سے کہا، آئندہ یہ شکا یتیں نہ ہوں ،بنا بریک والی گاڑی، حدہی ہوگئی ،سوچوں، سعد رفیق کی بجائے ریلوے بنا بریک کے گاڑی چلانے والے ڈرائیور کے حوالے ہوتا، توا ب تک ریلوے منافع بخش ہو چکا ہوتا، ایک سیاستدان کی شکایت تھی کہ مجھے سونے کیلئے ہارڈ (سخت) گدا دیا گیا، نیند میں خلل پڑرہا اور نوازشریف صاحب کی شکایت تھی کہ چیکنگ کے دوران میرا کھانا ٹھنڈا ہو جاتا ہے، مزے کی بات جج صاحبان نے یہ شکایتیں بھی دور کر دیں، اب یہ تھے شہزاد اکبر، یہ تھا ان کا احتساب، یہ تھیں سختیاں، لہٰذا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکلا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)