• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ارباب اقتدار کا بھی کیا کہنا، ملکی نظریاتی اساس کے خلاف ایشوز کو اٹھا کر آئے روز ایک نیا تماشا لگائے رکھتے ہیں۔عوام کے اصل مسائل مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت و افلاس کی انھیں کوئی پروا نہیں ہے۔ٹرانس جینڈر ایکٹ پاکستان کے خلاف گہری سازش ہے۔ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں یہ ہر گز قابل قبول نہیں ہے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی بجا طور پر درست کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر قانون کو ختم نہ کیا گیاتو اسلام آبادکی جانب مارچ کریں گے۔ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے بھی اس شرمناک اقدام میں حکومت کے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ سیکولر لابی پاکستان کے اسلامی تشخص اور معاشرتی اقدار پر حملہ آور ہے۔ پاکستان کے باشعور اور غیور عوام اس اہم ایشو پرمتحدہیں اور غیر اسلامی قانون سازی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ملک کے اسلامی تشخص اور نظام مصطفیٰ ﷺکے خلاف ہونے والی سازشوں کو ہر صورت میں بے نقاب ہونا چاہیے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ براہ راست ہمارے خاندانی نظام پر حملہ ہے۔سیکولر طبقہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ایسے اقدامات کررہا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018کو غیر شرعی قرار دینا قابل تحسین ہے۔ در حقیقت یہ ایکٹ تحفظ فراہم کرنے کی آڑ میں فحاشی و عریانیت کو فروغ دینے کا قانون ہے۔ تمام مکاتب سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے اس کو مسترد کردیا ہے۔ حکومت نے اس ایکٹ میں ترمیم کا عندیہ تودیا ہے مگر ابھی تک عملاً کوئی کام نہیں ہوا۔ ایک سوچی سمجھی ساز ش کے تحت پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا جارہا جو اسلام اور شریعت کے منافی ہے۔ پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا نظام حیات ہی کامیابی سے چل سکتا ہے۔ ملک و قوم کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ 1947ء میں انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی تو حاصل کرلی مگر آج بھی انگریزوں کا دیا ہوا نظام اور ہندوانہ رسم و رواج ہی چل رہا ہے۔ پاکستانی قوم اس ملک کو کبھی سیکولر ازم کی طرف دھکیلنے والوں کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ حکو متی بدانتظامی ہر جگہ دکھائی دے رہی ہے۔اب تو وزیر اعظم ہائوس کی سیکورٹی بھی مذاق بن چکی ہے کبھی خفیہ آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آتی ہے تو کبھی سائفر کی کاپی غائب ہونےکی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں۔حکومت کی جانب سے محض وزیر اعظم ہائوس کے ایس او پیز تبدیل کرنا کافی نہیں بلکہ ذمہ داران کا تعین کر کے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔

اب کچھ ذکر ہو جائے ملک کے ممتاز شاعر اور دانشور سید سلمان گیلانی کا۔چند روز قبل ان سے میری علامہ عبدالستار عاصم کے ہمراہ لاہور میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ آجکل ٹی وی چینلز پر بھی اپنی مزاحیہ شاعری کا جادو جگا رہے ہیں۔صاحب زادہ سید سلمان گیلانی واقعی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سید سلمان گیلانی کے ساتھ ملاقات میں اندازہ ہوا کہ وہ مزاحیہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ درد دل رکھنے والے انسان بھی ہیں۔وہ ملک وملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کے والد گرامی سید امین گیلانی مرحوم برصغیر پاک و ہند کے عظیم حریت پسند شاعر ختم نبوت کے مجاہد تھے۔ ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ،میری باتیں یاد رکھنے کی، پاکستان میں خاصی مقبول ہو چکی ہے۔مختصر عرصے میں اس کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔سید سلمان گیلانی کی خود نوشت ”میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی“ ان کی یادداشتوں اور تجربات و مشاہدات کا ایسا حسین مرقع ہے جسے انہوں نے خون دل سے تحریر کیا ہے۔ یہ مشاہدات ناقابل فراموش واقعات کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ کوئی دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔ گزشتہ پچاس پچپن برس سے ہی انہوں نے ایک ایسی بھرپور زندگی گزاری اور بہت بڑی بڑی اور عظیم ہستیوں کی صحبت میں رہ کر زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا کہ ان کی یادوں کی زنبیل میں ایسے ایسے عجیب و غریب اور ناقابل فراموش واقعات جنہیں انسان کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ زیر تذکرہ کتاب لکھتے ہوئے یہ تاریخی، سماجی، روحانی، معاشرتی اور محیر العقول واقعات ایک ایک کر کے انہیں سب یاد آتے چلے گئے اور وہ کرونا کے وبائی لاک ڈائون کے دنوں میں انہیں قلم و قرطاس کے حوالے کرتے چلے گئے اور یوں ایک ایسا مجموعہ گل رنگ مرتب ہو گیا ہے کہ جس میں درج دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات عام زندگی میں عام لوگوں کو تو بہت خال خال ہی دیکھنے سننے کو ملتے ہیں۔ البتہ فلموں اور کہانیوں میں ضرور ہوتے ہیں۔ سید سلمان گیلانی ان کے چشم دید گواہ ہیں۔ یہ ایک حقیقی سچی کتاب ہے۔ یہ کتابِ زندگی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتابوں کا زمانہ نہیں لیکن معروف دانشور محقق، ادیب علامہ عبدالستار عاصم کہتے ہیں کہ جس طرح دریا اپنا راستہ خود بناتا ہے اسی طرح اچھی کتاب بھی اپنی جگہ خود بنا لیتی ہے۔ سید سلمان گیلانی کو دنیا ایک مزاح نگار شاعر کی حیثیت سے زیادہ جانتی ہے انکی حقیقی پہچان ایک تحریکی، انقلابی، مذہبی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر ختم نبوت کے مجاہد کے طور پر ہے۔ وہ صدر جنرل ایوب سے لیکر نواز شریف تک اور لمحہ موجود تک حکومت میں رہنے والے ہر بڑے شخص سے ملتے رہے۔ بڑی بڑی اہم شخصیات کے بہت اہم راز جو سبق آموز بھی ہیں اور چشم کشا بھی، ان سربستہ رازوں میں پوشیدہ سبق زندگی میں سیکھنے کی چیز ہیں۔

تازہ ترین