• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز جیو کے ٹاک شو ’’نیا پاکستان‘‘ میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرمی ایکٹ 2020 میںکی گئی ترامیم پر نظرثانی کی خبر کے سوال پر کہا کہ ہفتہ کی شام تک تو ایسی کسی قانون سازی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ۔

 اُنہوں نے کہا کہ انصار عباسی باخبر صحافی ہیں ہو سکتا ہے اُنہیں کہیں سے کوئی بھنک پڑی ہو اُنہیں اس کا علم نہیں ہے۔ ہفتہ کے روز جنگ اور دی نیوز میں شائع ہونے والی میری خبر کے مطابق حکومت کے اندرونی حلقوں (closed circles) میں یہ بات ہو رہی ہے کہ ڈیفنس فورسز ایکٹ میں 2020 میں متعارف کرائی جانے والی اُن ترامیم کو ختم کیاجائے جو وزیر اعظم کو سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیاردیتی ہیں ۔

 خبر میں اس امکان کا ظہار کیا گیا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں میں یہ معاملہ وسیع تر حلقوں میں زیر بحث آ سکتا ہے تا کہ آرمی ایکٹ، نیوی ایکٹ اور ائیر فورس ایکٹ میں جنوری 2020 میں متعارف کرائی گئی ترامیم کو ختم کرنے کا فیصلہ ہو سکے۔

ان ترامیم کے مطابق سروسز چیفس اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کےچیئرمین کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے اور ان کی جانب سے ان عہدوں پر دوبارہ تقرر یا مدت ملازمت میں توسیع دینے کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

ان ترامیم کے ذریعے فور سٹار جنرل کے لیے تقرر یا توسیع کی صورت میں بالائی حد 64 سال مقرر کی گئی ہے۔ خواجہ آصف صاحب کا کہنا تھا کہ ہفتہ کی شام تک ایسی کسی قانون سازی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا ۔ میری خبر میں تو ایسا کہا بھی نہیں گیا تھا۔

خواجہ صاحب ن لیگ حکومت کے با خبر وزیر ہیں۔ میری صرف اُن سے گزارش ہے کہ وہ صرف یہ معلوم کر لیں کے گزشتہ جمعہ کے دن کس وفاقی وزیر نے وزیر اعظم ہاؤس میں ایک اہم سٹیک ہولڈر سے اس معاملے پربات کی۔ ابھی یہ ابتدائی سٹیج ہے، اس پر بات چیت ہو گی اور میری ذاتی رائے میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد اس قانون میں تبدیلی کرنے کا فیصلہ ہو گا ،جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں مشاورت ہو گی۔

مریم نواز ان ترامیم کے حوالے سے ،جس کو ن لیگ نے بھی مکمل طور پر سپورٹ کیا تھا ،کہہ چکی ہیںکہ وہ اس گناہ میں شریک نہیں تھیں۔2020 میں کی جانے والی ان ترامیم کی نہ تو فوج کی طرف سے کسی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا نہ ہی حکومت یا پارلیمنٹ کی کوئی ایسی سوچ تھی۔

 اس قانون سازی ،جس نے افواج پاکستان کے سربراہان کی ایکسٹینشن کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھول دیا، کا سہرا اُس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف کھوسہ کے سر جاتا ہے۔ نجانے کھوسہ صاحب کو کیا ہوا تھا کہ اُنہوں نے اس معاملہ کو چھیڑا اور ایک ایسی قانون سازی کروا دی جو کسی طور پر بھی اداروں کے مفاد میں نہیں۔

 ایکسٹینشن ایک قانونی آپشن نہ کبھی تھا نہ ہونا چاہیے۔ کھوسہ صاحب کی مداخلت کی وجہ سے اس کو ایک قانونی آپشن بنا دیا گیا جو نہ فوج کے مفاد میں ہے نہ ہی اس سے کوئی سیاسی جماعت خوش ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کی افواج بلکہ پاکستان کے لیے بھی بہتر ہو گا کہ 2020 کی ترامیم کو جتنا جلد ممکن ہو واپس لے لیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین