• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت میں اتار چڑھائو نے سیاسی مبصرین اور دانشوروں کا دماغ چکرا کر رکھ دیا ہے۔سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پرشدید نوعیت کے الزامات لگا رہی ہیں اور حالیہ آڈیو لیکس نے جمہوریت کے مستقبل کو مخدوش کر دیا ہے۔ فواد چودھری نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ان کے قائد عمران خان بھی کبھی اسٹیبلشمنٹ پر تو کبھی سیاسی رہنمائوں پر حملے کر رہے ہیں۔ عمران خان یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اور وہ ایک پیچ پر ہیں لیکن آج وہ کہتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنرکو انکے کہنے پر مقرر کیا۔ایک جدید نو آبادیاتی دائرے میں رہتے ہوئے عمران خان ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں قاصر دکھائی دیئے۔ وہ کوئی بنیادی ترقی نہ لا سکے بلکہ مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔سیاسی تشدد کرنے اور سیاسی رہنمائوں اورکارکنوں کو جیلوں میں بھرنے میں اپنا ملکہ دکھایا۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود عمران خان نے انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ کہا کہ انہیں امریکہ نے اقتدار سے ہٹایا ہے اور یہ کہ انہوں نے عوام سے کیے ہوئے تمام وعدے پورے کیے ۔ اب کچھ عرصے سے عمران خان اسلام آباد پر لشکر کشی کیلئے اپنے کارکنان کو تیار کر رہے ہیں اور اس لشکرکشی کو جہاد قرار دے کر’’نازیوں‘‘کی طرح بازوسیدھا کر کے حلف لے رہے ہیں۔ انہوں نے ضیاالحق کی طرح مذہبی کارڈ کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور کارکنان سے جان کی بازی لگانے کا وعدہ لے رہے ہیں۔حالیہ آڈیو لیکس سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ عمران خان کی سیاست، غیر جمہوری روش اور اقتدار برقرار رکھنے کیلئے جائز اور ناجائز ہر قسم کے حربوں کے استعمال سے مزین تھی۔ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاست کو ان نازک حالات سے نکالا جائے اور تمام سیاسی پارٹیاں ملکر ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کریں جس کا مقصد سویلین سپر میسی اور آئین کی پاسداری ہو آج پاکستان کے دانشوروں اور سیاسی پارٹیوں پر ایک تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پچھتر سالہ دورکا تنقیدی جائزہ لیں اور یوں اس چارٹر آف ڈیموکریسی میں ان تمام باتوں کو شامل کریں جس سے یہ تاثر ملے کہ سیاسی طاقت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور نیوٹرلز اور بیرونی سرپرست پاکستان کی سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتے۔ ایسا چارٹر سائن کیے بغیرنمائندہ حکومت منتخب کرنے کا ڈھونگ مزید نہ رچایا جائے۔جدید جمہوریت کے ارتقاپذیر ہونے کے عمل کو یورپ میں دیکھا جائے تویہ پتا چلتا ہے کہ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ پی ڈی ایم کی پارٹیاں عمران خان کو ایک ٹیبل پر لے کر آئیں تاکہ یہ میثاق جمہوریت عملی طور پر واضح ہو سکے۔ یہی وہ واحد صورت ہے جس سے پاکستان میں جمہوریت کو فروغ مل سکتا ہے اور عمران خان بھی ارتقاء پذیر ہو کر اس عمل کا حصہ بن سکتے ہیں۔اس کے بعد بھی اگر کوئی جماعت محکمہ زراعت کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو بھی جلدبدیر اس معاہدے میں شامل کرنا ہوگا۔ یہی ایک واحد حل ہے جس سے جمہوریت ایک پسماندہ سماج میں ارتقاء پذیر ہو سکتی ہے۔یاد رہے کہ برطانیہ میں میگنا کارٹا 1215ء میں سائن ہو ا تھا ۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے ارتقا ء کا عمل برطانیہ میں آج سے آٹھ سو سال پہلے شروع ہوا لیکن اس کے باوجود یورپ میں عورتوں کو ووٹ کا حق بیسویں صدی میں ملا۔ وہاں جمہوریت کے اثر و رسوخ کے ذریعے ایک سیکولر سماج پروان چڑھا اور یوں کلیسائی اثر و رسوخ سمٹ کر رہ گیا اور یورپ کے شہری جمہوری نظام کے ایک نئے عمرانی معاہدےکے تحت زندگی گزارنے کے عادی ہوگئے جس کے لیے وہاں کے دانشوروں ، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں نے بے انتہا قربانیاں دیں اور آج یورپ کا سیاسی کلچر اپنی مثال آپ ہے۔ ہمیں اسی سیاسی کلچر کی طرف بڑھنا ہے جس کیلئے چارٹر آف ڈیموکریسی ایک لازمی شرط ہے ۔تمام اختلافی معاملات کوصرف پارلیمنٹ میں ہی بحث کر کے انکا حل نکالنا ہو گا۔ بلوچستان کے مسائل کا صرف اور صرف سیاسی حل ڈھونڈنا اور تمام علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرناہونگے۔طلبہ اور مزدور یونینز کو بحال کرنا اور مزدور کی تنخواہ کم از کم پینتیس ہزار مقرر کرنا ہو گی۔ تمام پڑوسی ممالک جس میں ہندوستان سرفہرست ہے ، سے تجاری تعلقات بحال کیے بغیر پاکستان اقتصادی طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ جو ہر قسم کے حالات میں خوش وخرم رہتی ہے ، اس پر ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے،ٹیکس ٹو جی ڈی پی ہندوستان کی طرح بڑھا کر کم ازکم 18فیصد تک کیاجائے اور تمام غیر پیداواری محکموں کاخاتمہ کیا جائے ۔ حالیہ سیلاب میں حکومت خود بڑے پیمانے پر متاثرین کو مکانات بنا کر دے جس طرح آواران کے زلزلے میں ریاست نے بنا کر دیے تھے۔غرض کہ اس چارٹر آف ڈیموکریسی میں ایسی تمام باتیں شامل ہو ں جس سے ریاست اور لوگوں کے درمیان رشتہ مضبوط پیدا ہو اور وفاق اور اس میں رہنے والی تمام قوموں کو انکے سیاسی حقوق دیے جائیں تاکہ ملک میں جمہوریت اور سویلین بالا دستی کو پاسداری حاصل ہو۔

تازہ ترین