برطانیہ میں نئی حکومت نے گزشتہ ماہ ایک مالیاتی منصوبہ پیش کیا جس میں دیگر اقدامات کے ساتھ ٹیکسوں میں بھاری کٹوتیاں شامل تھیں۔ اس تجویز نے مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچا دی اور برطانوی پاؤنڈ کی قدر گرنے کا سبب بنی۔ بہت سے ناقدین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ منصوبہ برطانیہ کے قرض میں اضافہ کرے گا۔ اس کے بعد برطانوی حکومت نے مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی مجوزہ متنازعہ تجویز واپس لے لی۔
برطانیہ کی جانب سے ٹیکس میں کٹوتیوں کا ایک ایسا ہی ناقد بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (IMF) تھا، جس نے ایک باقاعدہ بیان جاری کیا۔ اس میں برطانیہ پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے منصوبے کا ’’دوبارہ جائزہ‘‘ لے۔ آئی ایم ایف ترجمان نے کہا کہ، ’’برطانیہ سمیت کئی ممالک میں افراط زر کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو دیکھتے ہوئے، ہم اس موقع پر بڑے اور بے ہدف مالیاتی اعانت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے‘‘۔
اسی طرح، آئی ایم ایف مختلف مواقع پر پاکستان کو بھی مالیاتی خسارے اور بین الاقوامی ادائیگیوں میں عدم توازن کے حوالے سے متنبہ کرتا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کا بیان اس بات کی ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ یہ ادارہ کس طرح دنیا بھر میں معاشی استحکام کو فروغ دینے کے اپنے مشن کو آگے بڑھاتا ہے۔ اکثر، اس میں ممالک کی معاشی صحت کی نگرانی کرنا اور معاشی بدحالی پھوٹ پڑنے اور مالیاتی عدم استحکام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قرضے اور دیگر اقسام کی امداد فراہم کرنے کے لیے شرائط شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے یہ ہتھکنڈے تنقید کی زد میں آتے رہے ہیں اور بہت سے لوگ اس میں ادارہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود جب عالمی اقتصادی استحکام خطرے میں پڑجائے تو ادارہ ایک اہم شراکت دار کے طور پر اپنا روایتی کردار ادا کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کی ضرورت
20ویں صدی کے ابتدائی نصف میں دنیا بے چینی اور بدامنی کے دور سے گزری۔ دو عالمی جنگوں نے یورپ اور ایشیا کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا جب کہ 1930ء کی دہائی میںشدید معاشی بدحالی دنیا بھر میں مالی تکلیف کا باعث بنی۔ پھر بھی 1940ء کی دہائی میں، معاشی کساد بازاری اور دوسری جنگ عظیم کے دوران، 40سے زیادہ ممالک ایک نیا، اصولوں پر مبنی عالمی نظام وضع کرنے کے لیےامریکا میں اکٹھے ہوئے، جہاں یہ طے کیا گیا کہ نئے مالیاتی اداروں کے ذریعے مشکلات میں گھری بین الاقوامی برادری کو سہولت فراہم کی جائے گی۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ معاشی عدم استحکام عالمی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، ان ملکوں نے آئی ایم ایف اور اس کا شراکت دار ادارہ ’ورلڈ بینک‘ تشکیل دینے پر اتفاق کیا۔
آئی ایم ایف، جس کا صدر دفتر واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہے، اس نے 1944ء میں 44 رکن ممالک کے ساتھ کام شروع کیا۔ بعد کی دہائیوں میں، آئی ایم ایف نے بحرانوں میں گھرے کئی ملکوں کی مالیاتی اور پالیسی سطح پر مدد کے لیے قدم بڑھائے، قرضے فراہم کیے اور ان ملکوں میں مالیاتی استحکام بحال کرنے اور معاشی بدحالی کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں میں مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے منصوبے لازمی قرار دیے۔ اس طرح کے بحرانوں میں 1970ء کی دہائی میں اوپیک کی جانب سے امریکا کو تیل کی برآمد پر پابندی، 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کا خاتمہ، 1997ء میں ایشیائی مالیاتی بحران اور 2020ء میں کووِڈ-19کی وَبا شامل ہیں۔
آج 190ممالک آئی ایم ایف کے رکن ہیں۔ ہر رکن ملک، عالمی معیشت میں اپنے حجم کے مطابق آئی ایم ایف کو فائنانسنگ فراہم کرتا ہے، جسے کوٹہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی رکن ملک کو آئی ایم ایف سے قرض درکار ہوتا ہے تو اس ملک کو امداد بھی مقررہ کوٹہ کے مطابق فراہم کی جاتی ہے، تاہم آئی ایم ایف مختلف دو طرفہ اور کثیرالجہتی پروگراموں کے ذریعے اس میں اضافہ کرنے کا مجاز ہے۔ ادارے کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے، جس کی سربراہی 24رکن ممالک پر مشتمل ایگزیکٹو بورڈ جب کہ ایگزیکٹو بورڈ کی سربراہی منیجنگ ڈائریکٹر کرتا ہے۔ روایت کے مطابق، آئی ایم ایف کا منیجنگ ڈائریکٹر یورپ سے لیا جاتا ہے، تاہم کئی رکن ممالک اب کھل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
ادارے کا مالیاتی استحکام کو فروغ دینا
ابتدائی دہائی میں، آئی ایم ایف کی توجہ دنیا کے مالیاتی نظام کی نگرانی اور سہولت فراہم کرنے پر تھی۔ اس میں بڑی حد تک زر مبادلہ کی شرحوں اور بین الاقوامی ادائیگی کے نظام کو منظم کرنا شامل تھا۔ تاہم، 1970ء کی دہائی کے اوائل میں، امریکی حکومت کی جانب سے ڈالر کی سونے میں تبدیلی کو معطل کرنے کے بعد مقررہ (فکسڈ) شرح مبادلہ کا عالمی نظام تحلیل ہو گیا۔ تب سے، ملکوں کو آزادانہ طور پر شرح تبادلہ مقرر کرنے کی اجازت ہے اور بہت سی حکومتوں نے اپنی کرنسیوں کی شرحِ تبادلہ کو ’’فری فلوٹنگ‘‘ مکینزم کے تحت کردیا ہے۔
عالمی مالیاتی پالیسی میں تبدیلی نے آئی ایم ایف کے کردار کو بھی بدل دیا۔ حالیہ دہائیوں میں، ادارہ نے قرضوں میں ڈوبے ہوئے ممالک کو مستحکم کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کی حمایت میں رقوم فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی قرض دہندہ کے طور پر اپنے کردار میں اضافہ کیا ہے۔ معاشی بحرانوں پر اپنی توجہ کے پیش نظر، آئی ایم ایف کو اکثر دنیا کا ’’مالیاتی فائر فائٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔
پہلے پہل، آئی ایم ایف نگرانی کے طریقہ کار کے ذریعے مالیاتی استحکام کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں رکن ممالک میں قرضوں کی سطح، مالیاتی پالیسیوں اور مجموعی اقتصادی صحت کی نگرانی شامل ہے۔ اس کے لیے ضرورت پڑنے پر ادارہ، انفرادی ملکوں یا بلاکس کو پالیسی تجاویز فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اس سال ادارے نے السلواڈور پر زور دیا کہ وہ سرکاری کرنسی کے طور پر بٹ کوائن کا استعمال ترک کرے۔
جب کبھی کسی ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہوتا ہے، آئی ایم ایف عدم استحکام کا شکار ان ملکوں کو مالیاتی امداد فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد 2020ء میں یونان سمیت یورپ سے تعلق رکھنے والے کئی ممالک کو قرضہ جات میں اضافے اور تباہ ہوتی معیشتوں کا سامنا تھا۔ اس موقع پر آئی ایم ایف اور یورپ کے مالیاتی اداروں نے مجموعی طور پر 280 ارب یورو مالیت کا کئی برسوں پر مشتمل مالیاتی پیکیج دینے کا معاہدہ کیا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے دیے جانے والے دیگر نمایاں قرضہ جات میں 1990ء کی دہائی میں میکسیکو کو 50ارب ڈالر، 2010ء کے عرب بہار کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی معیشتوں کو مستحکم کرنے کے لیے 37ارب ڈالر اور 2018ء میں ارجنٹائن کو ریکارڈ 58ارب ڈالر مالیت کا قرضہ شامل ہے۔ اسی طرح 1958ء سے اب تک، پاکستان 22 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے اور اس وقت بھی پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔
آئی ایم ایف، قرضے عموماً اس شرط پر دیتا ہے کہ قرض حاصل کرنے والا ملک لازمی معاشی اصلاحات متعارف کروائے گا۔ ان شرائط میں مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر متنازعہ مالی کفایت شعاری کے اقدامات، سرکاری اداروں کی نجکاری، مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے توانائی کے ٹیرف اور ٹیکسوں میں اضافہ، کرنسی کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ شامل ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کئی لازمی شرائط پر تنقید کی جاتی رہی ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے بعد پیدا ہونے والے حالات عوام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے مناسب نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر، اپریل 2022ء میں، آکسفیم نے آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا کہ کووِڈ-19کے دوران قرض حاصل کرنے والےممالک کے لیے کفایت شعاری کی شرائط کو معطل کیا جائے، جن میں ٹیکسوں کی شرح کو بڑھانا بھی شامل تھا۔ ادارہ قرضوں کے علاوہ، بین الاقوامی مالیاتی ادارہ معاشی بدحالی کے شکارممالک کو تکنیکی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ اس میں وزارت خزانہ، مرکزی بینکوں اور ٹیکس حکام کے لیے بہترین پالیسیاں اختیار کرنے کی تجاویز اور مشورے شامل ہوتے ہیں۔
عالمی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا
آج، پیچیدہ بحرانوں نے عالمی معیشت کو ایک نازک صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ خاص طور پر قومی قرضوں کی سطح استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں قرضوں کا بوجھ تشویشناک سطح تک بڑھ چکا ہے، جب کہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات میں شدت آگئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ ممالک قرض ادائیگی کے گھن چکر میں پھنس چکے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق، رواں سال 44مختلف پروگرامز کے ذریعے آئی ایم ایف 140ارب ڈالر مالیت کے قرضے دے چکا ہے۔ آنے والے مہینوں اور برسوں میں، عالمی معیشت کو درپیش بڑھتے چیلنجز کے باعث توقع ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضوں کے اجراء میں مزید اضافہ ہوگا۔