بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی
دُنیا بَھر میں ہر سال ڈاؤن سینڈروم آرگنائزیشن کی جانب سے اکتوبر کا مہینہ ’’ڈاؤن سینڈروم اوئیرنس منتھ‘‘کے طور پرمنایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہر سطح تک ڈی ایس سے متعلق معلومات عام کرکے متعلقہ بچّوں کو معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانا ہے۔ رواں برس کے لیے جس تھیم کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ"Inclusion Means" ہے۔
اس کے ذریعے عالمی برادری کی توجّہ اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ڈی ایس بچّوں اور بڑوں کو بھی زندگی کی دوڑ میں شمولیت کے تمام مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ اِسی مناسبت سے ہم نے آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان کرمانی سے خصوصی بات چیت کی۔
ڈاکٹر سلمان کرمانی نے 1999ءمیںڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی سےایم بی بی ایس کے بعد 2004ء میں ڈپلومیٹ امریکن بورڈ پیڈیا ٹرک، 2007ء میںڈپلومیٹ امریکن بورڈ پیڈیاٹرک اینڈوکرینالوجی اور 2009ء میں ڈپلومیٹ امریکن بورڈ میڈیکل جینیٹکس کی اسناد حاصل کیں۔ بعدازاں آغا خان اسپتال، کراچی کے شعبہ پیتھالوجی سے بطور کنسلٹنٹ وابستگی کے ساتھ ایجوکیشن چیئر، ڈیپارٹمنٹ آف میڈیکل جینیٹکس اور کنسلٹنٹ، ڈویژن آف کارڈیوویسکیولر ڈیزیز، ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنل میڈیسن، میو کلینک، روچیسٹر، مِنی سوٹا( یو ایس) ،اسسٹنٹ پروفیسر،میو کلینک کالج آف میڈیسن اینڈ سائنس(یو ایس) اورچیئر، ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ، آغاخان یونی ورسٹی خدمات انجام دیں۔
اس وقت ڈویژن آف ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ، آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی کے چئیرمین ہیں اور بطور کنسلٹنٹ پیڈیاٹریشن بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ ان کی اسپیشلٹیز میڈیکل جینیٹکس اور پیڈیاٹرک اینڈو کرینالوجی ہیں۔ڈاکٹر سلمان نے لگاتار دو برس 2011ء اور 2012ء میں میو فیلو ایسوسی ایشن ٹیچر آف دی ائیرکے ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ اُن سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
س: ڈاؤن سینڈروم کیا ہے اور اس کے محرّکات، عوامل کیا ہوسکتے ہیں؟
ج: ڈاؤن سینڈروم دراصل ایک کنڈیشن یا ڈس آرڈر ہے، جو پیدایشی اور قدرتی طور پر لاحق ہوتا ہے۔ اس میں کزنز میرج کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں۔ دُنیا بَھر میں کوئی 6سو یا 7سو بچّوں میں سے ایک بچّہ ڈاؤن سینڈروم ہوسکتا ہے۔عام طور پرحاملہ کی عُمر 35 سال سے زائد ہو تو ڈی ایس بچّے کی ولادت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، لیکن اب35 سال سے کم عُمر خواتین میں بھی ڈی ایس بچّوں کی پیدایش دیکھنے میں آرہی ہے۔ ڈاؤن سینڈروم جسم کے تمام نظاموں پراثرانداز ہوسکتا ہے۔
مثلاً ذہن، دِل، پٹّھوں، اندرونی اعضاء اور غدود وغیرہ پر۔ ان بچّوں کے جسمانی خدوخال اور چہرے کی بناوٹ منفرد ہوتی ہے اور پیدایش کے وقت چند علامات کی بنیاد پر باآسانی تشخیص کیا جاسکتا ہے۔اگرچہ ڈی ایس بچّوں میں آموزش کا عمل دیگربچّوں کی نسبت تاخیر سے شروع ہوتا ہے، لیکن یہ بچّے والدین کی بَھرپور توجّہ کی بدولت مخصوص وقت کے بعد اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاسکتے ہیں۔ 50 فی صد ڈی ایس بچّوں میں دِل کی بناوٹ میں کچھ نقص پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آنتوں کی اندرونی بناوٹ میں بھی کوئی پیچیدگی جنم لے سکتی ہے، لیکن یہ ایسے طبّی مسائل ہیں، جو علاج کے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ماضی میں ڈی ایس بچّے 10 ،20برس کی عُمر سے زیادہ جی نہیں پاتے تھے، لیکن اب اہلِ خانہ کی توجّہ اور جدید طبّی سہولتوں کی بدولت 50،60 سال کی عُمر تک صحت مند زندگیاں گزار رہے ہیں۔
س: مسال کےلیے جو تھیم"Inclusion Means" منتخب کیا گیا ہے، تو ذرا اس کی بھی کچھ وضاحت کردیں؟
ج: ہمارے یہاں لوگوں میں بڑے عجیب طرح کے تصوّرات پائے جاتے ہیں۔ ایک عام تاثر ہے کہ ڈی ایس بچّہ دورانِ حمل، ماں کی کسی کوتاہی کے نتیجے میں جنم لیتا ہے، بعض گھرانوں میں انہیں بھوت پریت کے سائے کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے، تو ایسا قطعاً نہیں ہے۔ ہمیں ایسے تمام تصوّرات کی بیخ کنی کے ساتھ ڈی ایس افراد کو معاشرے کے لیے کارآمد بنانے میں اپنا بَھرپورکردار ادا کرنا چاہیے۔ مثلاً ڈی ایس بچّوں سے امتیازی سلوک ختم کرکے انہیں عام بچّوں کے ساتھ اسکول میں داخلہ دیا جائے۔
چوں کہ اُن کا لرننگ پراسس سلو ہوتا ہے، تو اسی مناسبت سے اُنہیں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بعدازاں، ان کے طبعی میلانات کے مطابق سرکاری و نجی سطح پر ملازمت کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں۔ چوں کہ ڈی ایس بچّوں میں بعض ایسی منفرد خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو معاشرے میں کئی مثبت تبدیلیاں لاسکتی ہیں، تو کمیونٹی کو چاہیے کہ ان بچّوں کو سب کے ساتھ، سب کی طرح زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرے۔
س: ڈاؤن سینڈروم کی تشخیص پیدایش سے قبل ممکن ہے، اگر ہاں تو کیا پاکستان میں بھی یہ سہولت موجود ہے؟
ج: حمل ٹھہرنے کے دسویں ہفتے کے بعد خون کے ایک ٹیسٹ کے ذریعے ڈاؤن سینڈروم کی تشخیص ممکن ہے۔اگر رپورٹ میں ڈی ایس کے امکانات پائے جائیں، تو پھر حتمی تشخیص کے لیے مزید ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور پاکستان میں بھی اس ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔
س: پاکستان میں ڈاؤن سینڈروم بچّوں کے اعدادوشمار سے متعلق بھی بتائیں، نیز، اگر ایک بچّہ ڈاؤن سینڈروم ہو، تو اگلے بچّے کے متاثر ہونے کے کس قدر امکانات پائے جاتے ہیں؟
ج: پاکستان میں ڈاؤن سینڈروم بچّوں کے اعدادوشمار کے حوالے سے کوئی باقاعدہ طور پر اسٹڈی تو موجود نہیں، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ جیسے دُنیا بَھر میں ہر 6 سو سے7سو بچّوں میں ایک ڈی ایس بچّہ جنم لیتاہے، تو پاکستان میں بھی لگ بھگ یہی شرح ہوگی۔ اگر کسی فیملی میں ایک ڈی ایس بچّہ ہو، تو عمومی طور پر پر اگلے بچّے میں یہ ڈس آرڈر نہیں ہوگا۔ تاہم، ایک فی صد امکان ہو بھی سکتا ہے۔
س: کیا پاکستان میں سرکاری سطح پر ڈی ایس کے علاج معالجے کی سہولتیں میسّر ہیں؟
ج: سب سے پہلے تو یہ وضاحت کردوں کہ اس سینڈروم کا کوئی علاج نہیں، صرف مینجمنٹ ہوتی ہے۔ سرکاری سطح پر ڈی ایس مینج کرنے کی اتنی اچھی سہولتیں موجود نہیں، جن کی کئی وجوہ ہیں۔ جیسے وسائل کی کمی، پھر کئی ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملے کو بھی ڈی ایس سے متعلق معلومات نہیں،تو ہمیں ڈاکٹرز وغیرہ کو ڈاؤن سینڈروم مینج کرنے اور ان بچّوں کے والدین سے بات کرنے کی تربیت دینا ہوگی۔ نیز، حکومت کو بھی اس سمت میں کچھ مثبت پیش رفت کرنی چاہیے۔
س: ڈاؤن سینڈروم کی پیچیدگیاں کیا ہوسکتی ہیں؟
ج: ڈی ایس بچّوں کی جسمانی نشوونما عام طور پر سُست ہوتی ہے، اسی وجہ سے انھیں بیٹھنے، کھڑے ہونے اور چلنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ سو، ان بچّوں کو والدین یا کسی اور نگران کی توجّہ و نگرانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پھر بعض اوقات یہ کچھ طبّی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں مثلاً بصارت، سماعت کی خرابی، دِل، غدود اور آنتوں کے مسائل وغیرہ۔
س: بچّوں میںکون کون سے موروثی امراض عام ہیں اور ان کے اسباب، علامات اور تشخیص پر بھی روشنی ڈالیں؟
ج: تقریباً 7،8ہزار امراض ایسے ہیں، جو موروثی ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کریں، تو یہاں کزن میرجز کی شرح بُلند ہے، جس کی وجہ سے آٹوسومل ریسیسیو ڈس آرڈرز (Autosomal recessive Disorders)عام ہیں، جیسے تھیلیسیمیا کا مرض، جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہوتا ہے۔ پھر ایس ایم اے(Spinal muscular atrophy) اور سِسٹک فائبروسس بھی عام ہیں۔
بعض تو اتنے خطرناک موروثی امراض ہیں کہ بچّہ مرض کی تشخیص سے قبل ہی انتقال کرجاتا ہے کہ زیادہ ترکیسز میں والدین اسپتال تک رسائی ہی حاصل نہیں کرپاتے، توبعض اوقات مرض کی تشخیص کے لیے ہمارے پاس ٹیسٹ کِٹس موجود نہیں ہوتیں۔ اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ ہر نوزائیدہ بچّے کی اسکریننگ لازمی قرار دے۔ چوں کہ ہر موروثی مرض کی علامات مختلف ہوتی ہیں، تو ان کی تشخیص کے طریقے بھی جدا جدا ہیں۔ پھر بعض موروثی امراض ایسے بھی ہیں کہ بچپن بالکل تن درست گزرتا ہے، لیکن30،40یا 50سال کی عُمر میں علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔
س: کیرئیر ٹیسٹنگ(Carrier Testing)،قبل از پیدایش اسکریننگ (Prenatal Screening) اور نوزائیدہ بچّے کی اسکریننگ (Newborn Screening)کے حوالے کیا کہیں گے؟
ج: کیرئیر ٹیسٹنگ بے حد ضروری ہے،جو شادی سے قبل کروائی جاتی ہے، تاکہ یہ تشخیص کیا جاسکے کہ متعلقہ افراد سے ان کے بچّوں میں کون کون سی بیماریاں منتقل ہوسکتی ہیں۔ اگر لڑکا کسی مرض کا کیرئیر ہو، تو شادی سےقبل اس کی ہونے والی بیوی کا ٹیسٹ بھی ضروری ہے، کیوں کہ اگر ایک فرد کیرئیر ہو اور دوسرا نہیں، تو بچّے میں مرض منتقل ہونے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں، جب کہ دونوں کے کیرئیر ہونے کی صُورت میں امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
قبل از پیدایش اسکریننگ، حمل ٹھہرنے کے بعد کی جاتی ہے، جس کے ذریعے بچّےکی نشوونما اور دیگر معاملات جانچے جاتے ہیں اور کسی اندیشےکی صُورت میںمختلف ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔ نوزائیدہ بچّے کی اسکریننگ کے ذریعے بھی آئندہ لاحق ہونے والے امراض کی تشخیص ممکن ہے۔ اس طرح بچّے کو بروقت علاج مہیا کرکے اُسے کئی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
س: جینیاتی امراض کے کوئی علاج کے ایسے کون سے طریقے ہیں، جن کے ذریعے مرض بڑھنے کی رفتار سُست کی جا سکتی ہے یا مریض کی زندگی پر ان کے اثرات کم کیے جاسکتے ہیں؟
ج: آج کل جو زیادہ تر علاج دستیاب ہیں، وہ امراض کو سُست ہی کرتے ہیں، جیسے میٹابولک ڈس آرڈرز میں غذا کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ مِرگی کے علاج کے لیے ایسی ادویہ دی جاتی ہیں،جن سے جھٹکے کم کیے جاسکتے ہیں۔ پھر بعض مسلزڈس آرڈرز ہیں، جو فزیو تھراپی کے ذریعے بہتر کیے جاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ جدید طریقۂ علاج میں ادویہ اور انجیکشنز وغیرہ بھی شامل ہیں،تو جین تھراپی کے ذریعے بھی مرض کا جڑ سے خاتمہ کردیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جین تھراپی کا علاج چیریٹی پروگرام کے تحت کیا جارہا ہے،کیوں کہ یہ بہت ہی زیادہ منہگی تھراپی ہے۔ اس وقت دَمے کے مرض کے لیے جو جین تھراپی کی جارہی ہے، اُس کی لاگت تقریباً پاکستانی 50کروڑ روپے بنتی ہے۔ پاکستان میں پانچ بچّوں کی جین تھراپی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جین ایڈیٹنگ تھراپی Gene Editing Therapy منظوری کے مراحل میں ہے اور قوی امکانات ہیں کہ یہ تھراپی تھیلیسیمیا کے خاتمے میں مؤثر ثابت ہوگئی۔
س: آج سے دو سال پاکستان میں ہر 200 ملین افراد میں سے 29ملین موروثی امراض کا شکار تھے، اب صُورتِ حال کیا ہے اور ان امراض کی شرح لڑکیوں میں بُلند ہے یا لڑکوں میں؟
ج: میرا اندازہ ہے کہ اب یہ شرح 50ملین تک پہنچ چُکی ہوگی،کیوں کہ زیادہ تر مریضوں میں موروثی مرض تشخیص ہی نہیں ہوتا۔ بہرحال، عام طور پر دُنیا بَھر میں جو جینیٹک امراض کی شرح پائی جاتی ہے، ہمارے یہاں بھی وہی ہے، لیکن چوں کہ ہماری آبادی زیادہ ہے، پھر موروثی امراض سے متعلق معلومات بھی عام نہیں، توعموماً ایک فیملی میں بروقت اور درست تشخیص نہ ہونے کی صُورت میں دو، تین بچّے متاثر ہوجاتے ہیں۔ کزن میرج کے نتیجے میں جنم لینے والے موروثی امراض کی شرح مَرد و خواتین میں برابر ہے،البتہ ایکس لنکڈ ڈس آرڈرز(X linked disorders)کی شرح مَردوں میں بُلند ہے۔
س: جینیاتی امراض کے باعث بچّوں میں اموات کی شرح کیا ہے؟
ج: یہ بتانا بھی خاصا مشکل ہے، لیکن چوں کہ ہمارے یہاں جینیاتی امراض کے علاج معالجے کی سہولتیں زیادہ آسانی سے میسّر نہیں، تو ان امراض میں مبتلا بچّوں کی شرحِ اموات عام بچّوں سے زائد ہی ہے۔
س: بچّوں کی صحت کے ضمن میں حفاظتی ٹیکوں کا کردار کتنا اہم ہے؟
ج: حفاظتی ٹیکوں کی افادیت سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا ہے، کیوں کہ ان کی بدولت بچّہ جان لیوا امراض اور عُمر بَھر کی معذوری سے بچ سکتا ہے، لہٰذا والدین اپنے بچّوں کی شیڈول کے مطابق ویکسی نیشن لازمی کروائیں۔ ہمارے یہاں یہ تصوّر عام ہے کہ موروثی امراض میں مبتلا بچّوں کی ویکسی نیشن ضروری نہیں، تو یہ بالکل غلط تاثر ہے۔
تاہم، بعض ایسے جینیاتی امراض ہیں، جو بچّے کی قوّتِ مدافعت کم کردیتے ہیں، تو اس صُورت میں بچّے کو متبادل حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ اکثر والدین ہمیں کہتے ہیں ’’ڈاکٹر صاحب! ہمارے بچّے کو موروثی مرض سے تحفّظ کا حفاظتی ٹیکا لگا دیں‘‘ تویاد رکھیں، پوری دُنیا میں ایسا کوئی ٹیکا نہیں، جو جینیاتی امراض سے تحفّظ فراہم کرسکے۔
س: کیا یہ درست ہے کہ ماؤں میں بچّوں کو اپنا دودھ پلانے کا رجحان کم ہو رہا ہے؟
ج: جی بالکل، ماؤں میں اپنا دودھ پلانے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے، جس کی مختلف وجوہ ہیں۔ اوّل تو ماؤں کو اس حوالے سے شعور و آگہی فراہم نہیں کی جاتی۔ پھر آج کل خواتین کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ ہے، تو انہیں کام کی جگہوں پر یہ سہولت میسّر نہیں ہوتی، اس ضمن میں ہمیں آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ میرے خیال میں تو مدر فیڈ کے حوالے سے ہم سب کو مل کر ایک حوصلہ افزا ماحول تشکیل دینا چاہیے۔
س: موروثی امراض کو تین گروپس کروموسومل (Chromosomal)، کمپلیکس ملٹی فیکٹوریل (Complex Multifactorial) اور سنگل جین مونوجینک (Single-Gene Monogenic) میں منقسم کیا گیا ہے، تو ان تینوں میں کیا فرق ہے؟
ج: دیکھیں، ہمارے جینیٹک انسائیکلوپیڈیا کے23والیمز ہیں،جو کروموسومز کہلاتے ہیں۔ان میں سے 22تک کروموسومز کووَن، ٹو ، تھری وغیرہ کا نام دیا گیا ہے، جب کہ 23ویں کروموسوم کو ایکس یا وائےسے موسوم کیاجاتا ہے، جو مَردوں میں ایکس وائے اور خواتین میں ایکس ایکس ہے۔ ہر کروموسوم کے دو دو جوڑے ہوتے ہیں اور ان میں معمولی سی بھی گڑبڑ یعنی زیادتی یا کمی کسی بھی جینیاتی خرابی کی وجہ بن سکتی ہے۔
موروثی امراض میں سے زیادہ تر سنگل جین یعنی مونو جینک ہوتے ہیں۔کچھ موروثی امراض کروموسومل ہوتے ہیں، جو کہ کروموسومز کی زیادتی یا کمی سے لاحق ہوجاتے ہیں۔جیسے ولیمز سینڈروم(Williams Syndrome) یا ڈاؤن سینڈروم وغیرہ۔ان عوارض میں کزنز میرج کا کوئی عمل دخل نہیں۔ کمپلیکس ملٹی فیکٹوریل سے مُراد ہے، جینیاتی تغیّرات اور دیگر عوامل سے مل کر جنم لینے والی بیماریاں ۔جیسے کسی فرد کی فیملی ہسٹری میں ذیابطیس یا بُلند فشارِ خون کا مرض شامل ہو، لیکن یہ تب تک لاحق نہیں ہوگا، جب تک دیگر عوامل اثرانداز نہ ہوں۔
س: کسی جینیاتی مرض کے ساتھ پوری زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے،نیز اگر علاج میں کوتاہی ہو تو کس طرح کی پیچیدگیاں جنم لےسکتی ہیں؟
ج: کئی جینیاتی امراض زندگی کا دورانیہ مختصر کردیتے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں، جن کے ساتھ 40،50 یا60سال سے زائد عُمرگزاری جاسکتی ہے۔ مَیں نے کئی ایسے مریض دیکھے ہیں، جو بہتر دیکھ بھال کی بدولت اپنےجینیاتی مرض کے باوجود اچھی صحت کے ساتھ خاصی پُرسُکون زندگیاں گزار رہے ہیں۔رہی بات پیچیدگیوں کی، تو یہ ہر مرض کی مختلف ہوتی ہیں، جیسا کہ میٹابولک امراض میںمعمولی سی بھی کوتاہی موت کی وجہ بن سکتی ہے۔
بعض موروثی بیماریوں میں دماغ متاثر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ڈاؤن سینڈروم بچّوں کی فزیو تھراپی جلد از جلد شروع کردینی چاہیے کہ تاخیر کے نتیجے میں کئی پیچیدگیاں جنم لےسکتی ہیں۔ مَیں والدین کو یہی مشورہ دوں گا کہ اگر بچّہ کسی موروثی مرض میں مبتلا ہے، تو علاج معالجے میں قطعاً تاخیر نہ کریں، کیوں کہ اس طرح بچّہ تو پیچیدگیوں کا شکار ہوگا ہی، آپ پربھی معاشی بوجھ بڑھ جائے گا۔
س: اگر خاندان میں کوئی موروثی مرض موجودہے، تو شادی سے قبل جوڑےکے کون سے ٹیسٹ ضروری ہیں؟
ج: یہ ٹیسٹ طبّی اصطلاح میں کمپری ہینسیو کیرئیر اسکریننگ (Comprehensive Carrier Screening) کہلاتا ہے اورتقریباً 300 ایسے امراض کی تشخیص کرسکتا ہے، جو والدین کے ذریعے بچّے میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کی پاکستان میں سہولت دستیاب نہیں۔ ہم امریکا کی ایک لیبارٹری کے ذریعے یہ ٹیسٹ کرواتے ہیں اور تقریباً 4 سے 5 ہفتے میں رپورٹ آجاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ لڑکا، لڑکی دونوں کا کیا جاتا ہے، جس کی کُل لاگت 60سے75ہزارروپے بنتی ہے۔
س: اینجل مین سینڈروم(Angelman syndrome) ، سِسٹک فائبروسس (Cystic fibrosis)اور ایم ڈی (muscular dystrophies) سے متعلق بھی بتائیں؟
ج: اینجل مین سینڈروم دماغ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ بچّے تاعُمر بول نہیں پاتے، چل پھر نہیں سکتے۔ وہیل چیئر پر رہتے ہیں۔ بچّے کادماغ چھوٹا ہوتا ہے، اسی لیے والدین پر انحصار کرتے ہیں۔ ایم ڈی مرض میں پٹّھوں کی کارکردگی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور بالآخر بچّے کا انتقال ہوجاتا ہے، اس کا علاج مشکل ہے۔ سِسٹک فائبروسس سینے اور آنتوں کو متاثر کرتا ہے۔
سینے میں جو مفید بلغم بن رہا ہوتا ہے، وہ اس قدرگاڑھا ہوجاتا ہے کہ بچّے بار بار انفیکشن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ یہ بچّے زیادہ سے زیادہ 10سے15سال کی عُمر تک زندہ رہتے ہیں۔ اس کی نئی تھراپیز متعارف کروائی گئی ہیں، لیکن وہ منہگی ہیں۔ ہمارے یہاں سِسٹک فائبروسس کے کئی مریض موجود ہیں، جن کا علاج دستیاب وسائل کے مطابق ہی کیا جاتا ہے۔
س: کیا ڈاؤن سینڈروم بچّوں کی دیکھ بھال مشکل امر ہے؟
ج: متاثرہ بچّوں کی دیکھ بھال صرف والدین ہی کی نہیں،پورے معاشرے کی ذمّے داری ہے۔اس ضمن میں ہمیں والدین کو ٹرینڈ کرنا ہے کہ وہ اپنے مختلف نظر آنے والے بچّوں پر کچھ خاص توجّہ دیں اوران کی تھراپیز کروائیں، تاکہ وہ بہت حد تک نارمل زندگی گزار سکیں۔ ڈاؤن سینڈ روم بچّوں کے لیے ایک ٹرم استعمال کی جاتی ہے،’’ پہلے تین سال‘‘۔یاد رکھیے، اگر پہلے تین سال میں ڈٹ کر محنت کی جائے تو باقی سال زندگی گزارنے کے لیےہم وار ہوجاتے ہیں۔
س: ماؤں کی صحت کتنی ضروری ہے اور کیا ابتدائی عُمر ہی سے لڑکیوں کی صحت پر زیادہ توجّہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟
ج: اگر ہم آج سے کم عُمر لڑکیوں کی صحت و تعلیم پر توجّہ دینا شروع کریں، تو معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آنا شروع ہوجائیں گی، کیوں کہ ان ہی لڑکیوں نے آگے چل کر ماں بننا ہے۔ جب ماں باشعور اور صحت مند ہوگی تو اس کے اثرات نئی نسل پر ضرور مرتّب ہوں گے۔ یاد رہے، امسال آغا خان یونی ورسٹی کی فیکلٹی آف ہیلتھ سائنس کے 24 ویں نیشنل ہیلتھ سائنسز ریسرچ سمپوزیم کا عنوان بھی یہی ہے کہ ’’ہم خواتین اور بچّوں کی صحت کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟‘‘
س: مائیں بچّوں کا مدافتی نظام کس طرح مضبوط بنا سکتی ہیں؟
ج: پیدائش سے چھے ماہ تک بچّے کی اپنی قوّتِ مدافعت نہیں بنی ہوتی، اُس میں ماں کے دودھ کے ذریعے ہی اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں۔ اب فارمولا ملک خواہ جتنا بھی منہگا اور بڑی کمپنی کا ہو، اُس میں قدرتی اینٹی باڈیز نہیں پائی جاتیں، لہٰذا بچّے کا مدافعتی نظام مضبوط بنانے کے لیے صرف ماں کا دودھ پلایا جائے۔ پھر جب بچّہ ٹھوس غذا کا استعمال شروع کر دے، تو گھر کی پکی غذائیں کھلائیں، کیوں کہ بازاری کھانے امیون سسٹم مضبوط نہیں، کم زور کرتے ہیں۔
س: بچّوں میں اینڈو کرائن سے متعلقہ کون سے طبّی مسائل جنم لے سکتے ہیں؟
ج: بچّوں میں ہارمونز کے تو کئی امراض ہیں، تاہم اس وقت موٹاپے اور ذیابطیس کی شرح میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، تو اس طرف دھیان دینا ازحد ضروری ہے، کیوں کہ بچپن کا موٹاپا اور ذیا بطیس آگے چل کر کئی طبّی مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔
س: اگر والدین میں سے کسی ایک کے جین میں کسی بھی مرض کا کوڈ موجود ہو، تو کیاوہ بچّے میں منتقل ہوسکتا ہے، اس حوالے سے تفصیلاً بتائیں؟
ج: ہر بچّے میں کروموسومز کی دو دو کاپیز یا جوڑے پائے جاتے ہیں، جن کی کُل تعداد 46 ہے۔ ان میں سے نصف ماں اور بقیہ نصف باپ سے منتقل ہوتے ہیں۔ اگر کروموسومز میں معمولی سی بھی گڑبڑ واقع ہوجائے تو یہ امر کسی بھی جینیاتی خرابی کی وجہ بن سکتا ہے۔
جیسا کہ ڈاؤن سینڈروم کا بنیادی سبب 21ویں کروموسوم کے دو کی بجائے تین جوڑے بننا ہے۔ اسی طرح تھیلیسیمیا بھی ایک موروثی بیماری ہے، جو والدین کے متاثر ہونے سے بچّے میں منتقل ہوجاتی ہے۔ واضح رہے، اس مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ کزن میرجز ہیں۔ اسی طرح بریسٹ کینسر بھی اُس صورت میں موروثی ثابت ہوتا ہے، جب خاندان کے کسی فرد کے جین میں سرطان کا کوڈ محفوظ ہو۔
س: کیا جینیاتی عوارض سے بچا ؤ ممکن ہے؟
ج: جی صرف کزنز میرج کے نتیجے میں جنم لینے والے موروثی امراض سے تحفّظ ممکن ہے۔ وہ بھی اس طور کہ اگر شادی سے قبل کزنزجوڑے اپنا ٹیسٹ کروالیں۔
س: جینیاتی امراض کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات ناگزیر ہیں اور اس ضمن میں کیا کیا جارہا ہے؟
ج: اس ضمن میں سب سے پہلا اور اہم اقدام معاشرے میں جینیاتی امراض سے متعلق شعور و آگہی اُجاگر کرنا ہے، پھر اس حوالے سے ڈاکٹرز اور طبّی عملے کو بھی ٹرینڈ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی جینیاتی امراض کے تشخیصی ٹیسٹس اور علاج معالجے کی سہولتیں سستی اور ان تک رسائی سہل بنائی جائے۔
س: ایسے نادار بچّوں کے لیے، جو جینیاتی امراض میں مبتلا ہیں، کیا کچھ معالج، مخیّر افراد یا ادارے کچھ قابلِ ذکر خدمات انجام دے رہے ہیں؟
ج: جی بالکل، ایسے کئی ادارے ہیں، جو جینیاتی امراض میں مبتلا بچّوں کے علاج معالجے کے ضمن میں اپنی خدمات پیش کررہے ہیں، جیسا کہ آغا خان اسپتال میں مخصوص ویلفئیر فنڈز صرف جینیاتی امراض میں مبتلا بچّوں کے علاج کے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
س: آپ بھی ایک ادارے’’کراچی ڈاؤن سینڈروم پروگرام‘‘ سے وابستہ ہیں، تو اس سے متعلق بھی کچھ بتائیں، ادارے کی خدمات اور دائرۂ کار پر کچھ روشنی ڈالیں؟
ج: مَیں ’’کے ڈی ایس پی‘‘ کا بورڈ ممبر ہوں اور صحت و تعلیم سے متعلقہ تمام معاملات لیڈ کررہا ہوں۔ اس ادارے نے تو پاکستان میں ڈاؤن سینڈروم سے متعلق سوچ ہی بدل ڈالی ہے، کیوں کہ اس ادارے کے جو بانی سرپرست ہیں، اُن کی اپنی بچّی ڈاؤن سینڈروم ہے، توچوں کہ انہوں نے خود پاکستان میں اس حوالے سے سخت رویّوں کا سامنا کیا، تو اب وہ بیرونِ مُمالک کے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں اپنے وطن میں ڈی ایس بچّوں کو بہترین ماحول اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے میں کوشاں ہیں۔
اگرچہ یہ ایک مشکل امر تھا، لیکن انہوں نے اپنی ہمّت، حوصلے اور سچی لگن کی بدولت یہ کر دکھایا۔ دیکھیں، موروثی امراض کو "Orphan Disease" یعنی یتیم امراض بھی کہا جاتا ہے، تو ہم سب نے ان امراض کو یتیمی کے دائرے سے باہر نکالنا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم نے اس طرح کے ڈس آرڈرز کے شکار بچّوں کو عام بچّوں کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے ہیں۔
والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ڈی ایس بچّے کو ہر طرح کی معاشرتی و سماجی سرگرمیوں میں اپنے ساتھ رکھیں۔ یاد رکھیں، ڈاؤن سینڈروم سے متعلق معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ ایک صحت مند معاشرہ ہی مضبوط پاکستان کی بنیاد ہے ۔
س: ’’ورلڈ ڈاؤن سینڈروم اوئیرنس منتھ‘‘ کی مناسبت سے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: ہمیں مل جل کر اپنے معاشرے کو اتنا پیار بَھرا بنانا ہے کہ اگر کسی کےگھر ڈی ایس بچّہ جنم لے، تووہ سوگ منانے کی بجائے خوشیاں منائے اوراس امرپر توجّہ دے کہ یہ جو ایک نئی زندگی ہمارے گھر آئی ہے، اسے ہم نے بہت پیار و توجّہ سے پروان چڑھانا ہے۔ دیکھیں، جیسے ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے،تو ڈی ایس افراد بھی عام لوگوں سے تھوڑے سے مختلف ہوتے ہیں ،لیکن ان کے بھی وہی حقوق ہیں، جو عام افراد کے ہیں۔
ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دیناہے کہ جب یہ بچّے بڑے ہوں، تو معاشرہ انہیں ایک فعال فرد کی طرح قبول کرلے۔ ویسے اب ماضی کی نسبت معاشرتی رویّوں میں خاصی تبدیلی آرہی ہے۔ پھر کئی فیملیز اپنے ڈی ایس بچّوں کو بہت سپورٹ کررہی ہیں۔ جیسے ایک ڈی ایس بچّی کی پینٹنگز کی لندن تک نمایشیں ہوتی ہیں، جو یقیناً اہلِ خانہ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
پھر بعض والدین نے اپنے بچّوں کو اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کرلیا ہے، تو مَیں ہر ایک سے یہ درخواست کروں گا کہ ڈی ایس بچّے مختلف یا منفرد ہیں، بیمار نہیں، تو اُنہیں اُن کی خصوصیات کے ساتھ معاشرے میں اُن کا جائز مقام دیں۔