• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرانس جینڈر ایکٹ (اسلامی تعلیمات کے تناظر میں)

مولانا کامران اجمل

حالیہ ملکی بحران جس میں ملک سیلابی صورت حال سے دو چار ہے ، جہاں ملک بدترین معاشی مسائل اورمشکلات کا شکارہے ،غربت و افلاس کے سبب جہاں لوگوں کے باہمی تعلقات کا حال یہ ہو کہ ایک ہی گھر میں مختلف نظریات اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کا منہ تک دیکھنے کو تیار نہ ہوں ، غرض ملک کا پورا نظام ڈاواں ڈول ہورہا ہو، ایسے میں ملک میں ایک بار پھر اس قانون کی بات چھڑ گئی جو ملک و قوم کی رسوائی کا باعث بنا ، اور اگر یوں کہا جائے کہ ایسا قانون جو عذاب الٰہی کا موجب وباعث بھی بن سکتا ہے ،تو بے جا نہیں ہوگا ، جسے ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ درحقیقت جن مقاصد کے لیے بنایا گیا ، جن نکتوں کو سامنے رکھ کر یہ قانو ن معرض وجود میں لایا گیا ، جن باتوں کو بنیاد بناکر قوم پر اس قانون کو نافذ کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی، وہ دعویٰ تو غلط نہ تھا ، وہ ایک خوش نما اور اسلام کے موافق نعرہ تھا ،لیکن افسوس کہ دیگر بہت سے خوش نما دعوؤں کی طرح یہ دعویٰ بھی درحقیقت ایک سوچی سمجھی یا ِ بِن سوچی سازش بنا جو جہاں عام مسلمانوں کی تکلیف کا باعث بنا ،وہیں اس نے اس طبقے کو بھی غم وغصے میں مبتلا کیا ،جن کا فائدہ اس قانون میں مقصود تھا۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ میں جہاں اس صنف سے جڑے لوگوں کا مذاق بنایا گیا ، تحفظ کے لیے جو قوانین پہلے سے موجود تھے ،انہیں منصہ شہود پر لانے کے بجائے یہ باور کرایا گیا کہ اس ظلم کے خاتمے کے لیے قانون بنایا جارہا ہے ، جو درحقیقت اس کے نام پر ہونے والی فحاشی کی بنیاد تھا ، ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ایک طبقے کو مظلوم ظاہر کرکے ان کی آڑ میں ایسے اوباشوں کو آزادی دینے کی کوشش کی گئی جو اپنے اعمال کی وجہ سے ملک وقوم کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر سکتے ہیں، ایسی قانون سازی کی گئی کہ اگر وہ نافذ ہوجائے تو خواجہ سرا، عورتیں تو کیا مرد بھی اپنے حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھیں، جس قانون کا نفاذ اس طرح ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کونام نہاد آزادی دینے کی آڑ میں انہیں دنیا کے لیے تختہ مشق یا ایک کھلونا بنانے کی کوشش کی گئی ، ایک ایسا قانون جو بظاہر تو خواجہ سراؤں کے فائدے کے لیے بنایا گیا ، لیکن اس میں سدومیت (اغلام بازی ) کے فروغ کے مواقع فراہم کرنا مقصدظاہر ہوتا ہے ، جس میں بظاہرخواجہ سراؤں کو رکھ کر پس پردہ ایل جی بی ٹی کو خوش کرنا مقصد تھا ، جس کے لیے الفاظ وشقیں ظاہری طور پر اگرچہ ہماری پارلیمنٹ نے چنے ہوں ،لیکن اس کے تانے بانے یہود ونصاریٰ کے اس لبرل طبقے کی سازش سے جڑتے ہیں جو انہوں نے نیو ورلڈ آرڈر میں پیش کیےہیں۔

ایک ایسا ایکٹ جسے ایک اسلامی جمہوریہ میں پیش کیا جارہا ہے ،جب کہ اس کی مخالفت یورپی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے ، جو ایسے پاکیزہ مذہب میں داخل کی جانے کی کوشش کی جارہی ہے ، جو جسم کے ساتھ ساتھ نیتوں کی پاکیزگی کو بھی لازم کرتا ہے ،جو صرف گندگی ہی نہیں، اس کے اسباب، بدنظری وغیرہ پر بھی پابندی لگاتا ہے ، جس میں صاف الفاظ میں خیانت کرنے والے دل اور خیانت کرنے والی آنکھوں کی برائی ومذمت بھی بیان کی گئی ہے، اس میں ایک اسی چیز کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی برائی گندگیوں میں مبتلا لوگ بھی محسوس کرچکے ہیں ، جس کی بنیاد پر پاکیزگی سے عاری دنیا کے لوگ بھی اپنے لیے ہلاکت خیز سمجھ چکے ہیں ، جس کی قباحت اور برائی کے لیے تعلیمات اسلامیہ کی ضرورت تو کیا محسوس ہوتی اس کی گندگی بیان کرنے کے لیے کفار بھی پیش پیش ہیں۔

ظلم بالائے ظلم تو یہ ہوا کہ اسے رد کرنے والے مسلمان ملک میں جو اسلام کے نام پر بنا ہے، اتنے کم تھے کہ وہ بل جمہوریت کی ریل پیل میں کسی فرق و امتیاز کے بغیر اکثریت کی بنیاد پر منظور بھی ہوگیا ، جہاں اس کے خلاف آواز اٹھانے والی دینی جماعت کی ایک صنف نازک کی ناتواں آواز تھی یا کسی دوسری دینی جماعت کے ناتواں سفید ریش تھے، اس کے لیے پارلیمنٹ میں یا سینیٹ میں لوگوں کی تعداد کی کمی ناجانے کن ان کہی باتوں کو بیان کر رہی تھی ، وہ کن مضمر رازوں کی طرف اشارہ کر رہی تھی ، یا ان کے دلوں میں چھپی بدنیتی یا پھر ان گنت ایسے سوالات جن کے جواب شاید خود ہماری یا پوری قوم کی رسوائی کا باعث بن سکتی ہے۔

ایک ایسی پارلیمنٹ جس کا فریضۂ اول قرآن وحدیث کی بالادستی ہو ، جس میں خلاف شریعت کسی قسم کا قانون پاس ہونے کی اجازت نہ دی گئی ہو ، جس میں واضح طور پر اس بات کا ذکر ہو کہ اللہ کا حکم سب سے بلند وبرتر رہے گا ، وہ حلف اٹھانے والوں نے اس قانون کی پاس داری پر حلف اٹھایا ہو ، اس کے باوجود اس قسم کے قانون کا پاس ہونا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات اور اسلام کے نظام عفت و عصمت و شرم و حیا کے تقاضوں کے یکسر خلاف ہے۔ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ملک کے اسلامی ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں کہ اس کا نام اسلامی جمہوریہ رکھ دیا جائے، بلکہ اس ملک میں موجود مسلمانوں کے ترجمانوں کا صحیح وباعمل مسلمان ہونا بھی بے حد ضروری ہے ، جو اللہ ورسولﷺ کے احکام کے خلاف کوئی قانون لاگو نہ کرسکیں، جنہیں اپنی ، قوم کی، اور پورے معاشرے کی سدھار کے لیے اسلامی تعلیمات کا علم ہو اور اسی کے مطابق وہ امت کی رہنمائی کر سکیں ،ورنہ تو وہ نام کے مسلمان ہو کر بھی اغیار کے اشاروں اور ان کے بتائے ہوئے قوانین کے حساب سے چلتے رہیں گے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیں گے۔یاد رکھیے ،مملکت ِ خدادا د اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی اور شریعت کی رو ح کے برخلاف نہ تو نافذ ہوسکتا ہے اور نہ منظور ہوسکتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قانون کے خلاف الحمدللہ ملک کابیش تر طبقہ سراپا احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کے لیے کوشاں ہے ، بلکہ خود وہ طبقہ بھی سراپا احتجاج ہے جن کے نام پر اس قانون کو بنایا گیا ہے ،ایسے میں اس امید پر کہ شاید امت پر اس ایکٹ کی برائی اور قباحت واضح ہوسکے، اس لیے اس ایکٹ کے متعلق چند باتیں اور خرابیاں ذکر کی جائیں گی ، اسے اختصار سے بیان کیا جائے گا ،کوشش ہوگی کہ اس کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جاسکے اور خصوصاً اجتماعیت سے متعلق اس کی خرابیوں کو پیش کیا جاسکے ، تاکہ امت اس سلسلے میں ایک ہوکر اس کے متعلق فکر مند ہوسکے۔

اگر یہ قانون اغیار کی ایماء پر پیش کیا گیا تو اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر مرمٹنے والے مسلمانوں کی قوت کے ذریعے ختم کیا جاسکے ، غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرکے اپنے رب کے حضور ان غلطیوں کا ازالہ کرسکیں یا کم از کم اپنی براءت کا اعلان کرسکیں ،تاکہ ہم بہ حیثیت مسلمان اس اجتماعی گناہ سے اجتماعی براءت کا اعلان کرکے اللہ کے ہاں مجرموں کی فہرست میں شامل نہ ہوں۔ (جاری ہے )

اقراء سے مزید