• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: چھوٹی چھوٹی باتوں پر کسی پر طنز کرنا شرعاً کیسا ہے ؟

جواب: طنز اور طعنہ زنی ایک مذموم صفت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ:’’ اے ایمان والو! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے، وہ اُن (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہترہوں اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے بلاؤ ایمان کے بعد فاسق کہلانا کتنا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں، (سورۃالحجرات:11)‘‘۔(۲) ترجمہ:’’ ہرطعنہ زن عیب جو کے لیے ہلاکت ہے،(سورۂ ہمزہ:1)‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گفتگو کرنے والا بیہودہ ہوتا ہے، (سُنن ترمذی:1977)‘‘۔

حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی ؒ اس حدیث ِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’ یہ عیب سچے مسلمان میں نہیں ہوتے، اپنے عیب نہ دیکھنا دوسرے مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنا، ہر ایک کو لعن طعن کرنا اسلامی شعار کے خلاف ہے۔(مرآۃ الناجیح ،جلد6، ص:469)

علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی ؒ لکھتے ہیں : ’’کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا، اُس کا مذاق اڑانا، اُس کی نقل اتارنایا اسے طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اسے بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بناء پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں، کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں،لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے،(جہنم کے خطرات،ص:175)‘‘۔

بہادرشاہ ظفر نے کہا ہے: نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے دوسروں کے عیب وہنر … پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برانہ رہا۔

پس دوسرے کے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکا جائے اور اپنی خامیوں کا ادراک کرکے اُن کی اصلاح کی جائے۔