پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم سواتی کی ضمانت منظوری کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
اسپیشل جج سینٹرل اسلام آباد راجہ آصف محمود نے 6 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق بغاوت پر اکسانے کی دفعات کے تحت کیس میں مزید انکوائری کی ضرورت ہے، ٹرائل میں شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ثابت ہوگا کہ پٹیشنر کا ٹوئٹ کرنے کا مقصد اور ارادہ کیا تھا، ملزم کی عمر 74 سال ہے اور کوئی سابقہ مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کو سلاخوں کے پیچھے بھجوا دیا گیا ہے جس سے مزید تفتیش کی ضرورت نہیں، اعظم سواتی کی دس لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کی جاتی ہے، وہ اپنا اوریجنل پاسپورٹ تاحکم ثانی عدالت میں جمع کرائیں۔
اسپیشل جج سینٹرل اسلام آباد راجہ آصف محمود نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن کے مطابق ٹوئٹ میں آرمی چیف کو کریمنلز کو چھوڑنے کا منصوبہ ساز لکھا گیا، پراسیکیوشن کے مطابق آرمی چیف کو کرپشن کو جائز قرار دینے کی پلان کی کامیابی پر مبارکباد دی گئی، پراسیکیوشن کے مطابق بذریعہ ٹوئٹ پاک فوج میں تفریق ڈالنے اور ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن کے مطابق عوام میں پاک فوج اور آرمی کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، ٹوئٹ سے تاثر دیا گیا کہ آرمی چیف کرپشن اور مجرموں کی حمایت کر رہے ہیں، ٹوئٹ سے تاثر دیا گیا آرمی چیف عدلیہ پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تحریری فیصلے کے مطابق پاک فوج، نیوی یا ایئر فورس کے کسی افسر، سپاہی، سیلریا ایئرمین کو شریک ملزم نہیں بنایا گیا، ایسے کسی افسر کا نام ریکارڈ پر نہیں جس نے موجودہ ملزم کی معاونت کی، یا ان کی معاونت کی گئی ہو، اعظم سواتی کے خلاف بغاوت میں معاونت کرنے کی دفعات کا کیس نہیں بنتا، اگر مان لیا جائے پٹیشنر کا ارادہ بغاوت پر اکسانے کا تھا تو اس کے لیے پاکستان پینل کوڈ کی الگ دفعہ ہے۔
تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پٹیشنر کے وکیل نے کہاکہ اعظم سواتی پر سیاسی مخالفین کی ایما پر مقدمہ بنایاگیاجو بدنیتی پر مبنی ہے، مقدمے کا مقصد اعظم سواتی کی تضحیک، ان پر تشدد اور ہراساں کرنا تھا۔