دنیا بھر میں اُردو زبان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار ’’روزنامہ جنگ‘‘ کی پاکستان میں اشاعت کے75برس مکمل ہوگئے۔ یہ اخبارکراچی، راول پنڈی، کوئٹہ، لاہور، ملتان اور لندن سے بیک وقت شایع ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز میں اپنے اجراء سے لے کر آج تک اَن گنت یادگار حالات و واقعات کے گواہ اس روزنامے نے ذمّے دارانہ صحافت کے ذریعے پاکستانی قوم، سیاست معاشرت، ثقافت و روایات اور تہذیب و اقدار کو دُنیا بھر میں مثبت انداز سے متعارف کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
ایک طرف تمام تر اہم مُلکی و غیرمُلکی واقعات کو قلم کیا، تو مُلکی مسائل کےحل کے لیے بے لاگ تبصرے، تجزیے، مباحثے بھی شایع کیے۔ اردو صحافت کا سپہ سالار، ’’روزنامہ جنگ‘‘ صحافتی میدان میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی اپنا کرخود کو ہر دَور سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔
یاد رہے، اولاً ’’روزنامہ جنگ‘‘ کا اجراء دوسری جنگِ عظیم کے دوران دہلی سے ہوا تھا۔ بعدازاں یہ مسلمانانِ برصغیر کی موثر آواز بن کر اُبھرا، تو اپنی خبروں اور اداریوں کے سبب انگریز سرکار کی نظر میں معتوب ٹھہرا۔ 14اگست1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا، تو تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کا ترجمان ہونا اس اخبار کے لیے جرم قرار پایا۔
گوکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی اخبار کی دہلی سے اشاعت جاری تھی۔ تاہم، بڑھتی مشکلات کے پیشِ نظر اخبار کے بانی، میرخلیل الرحمٰن نے اسے پاکستان کے پایۂ تخت، کراچی سے شایع کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں 14اکتوبر 1947ء کو نوزائیدہ مملکت پاکستان کے پہلے دارالخلافہ، کراچی سے روزنامہ جنگ کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہوا۔ اُس زمانے میں چوں کہ اخبار میں ایک دن آگے کی تاریخ لکھی جاتی تھی، تو اسی وجہ سے اُس روز کے اخبار میں 15اکتوبر 1947ء کی تاریخ درج کی گئی۔ ادارئہ تحریر میں میر خلیل الرحمٰن اور غازی انعام نبی پردیسی کے نام درج تھے۔ پہلا شمارہ چارصفحات پر مشتمل تھا۔ اخبار کی لوح بالائی حصّے کے درمیان شایع کی گئی۔
ابتدا میں جنگ اخبار شام کو شایع ہوتا تھا، مگر اس میں سنسنی خیزی کے بجائے قومی مسائل ہی اُجاگر کیے جاتے تھے۔ عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے کے سبب اخبار تیزی سے مقبول ہونے لگا،تو بانی روزنامہ جنگ میر خلیل الرحمٰن نے اخبار کو شام کے بجائے صبح کے اوقات میں شایع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد 2 فروری 1948ء سے روزنامہ جنگ صبح کے اوقات میں شایع ہونے لگا۔ اس وقت چھے صفحات پر مشتمل اخبار کی قیمت چھے پیسے تھی۔ لوح پر منیجنگ ایڈیٹر، میرخلیل الرحمٰن، نیوز ایڈیٹر، یوسف صدیقی، ادارئہ تحریر میں انعام نبی پردیسی اور رئیس امروہوی درج ہوتا تھا۔
اتوار30مارچ 1948ء کو ہفتہ وار ایڈیشن کا آغازہوا، تو اُس کی قیمت دو آنے رکھی گئی۔ دس صفحات پر مشتمل اس ایڈیشن میں پہلی بار تصویری اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ یکم اپریل 1948ء کو ٹارزن کی باتصویر کہانی کا آغاز ہوا اور یہ مقبول سلسلہ 50سال تک متواتر جاری رہا۔ 6 ستمبر 1956ء کو اخبار کی لوح پر پہلی مرتبہ ’’پاکستان بھر میں سب سے زیادہ چَھپنے والا اردو روزنامہ‘‘ شایع ہونے لگا۔ اور تب سے تاحال ’’جنگ‘‘ کا یہ اعزاز برقرار ہے۔
دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد جمعہ 13 نومبر 1959ء سے ’’روزنامہ جنگ، راول پنڈی‘‘ ایڈیشن کا آغاز ہوا۔ جون 1961ء میں جنگ نے پاکستان کی اردو صحافت میں مونو ٹائپ کی مدد سے اخبار کی اشاعت کا تجربہ کیا۔ دسمبر 1965ء سے چھوٹے سائز میں بچّوں کے لیے ہفتہ وار ایڈیشن کا آغاز ہوا۔ 15مارچ 1971ء کو ’’روزنامہ جنگ، لندن‘‘ اور 31 مارچ 1974ء سے کوئٹہ سے اشاعت کا آغاز ہوا۔
یکم اکتوبر1981،سے ’’جنگ، لاہور‘‘ کا آغاز ہوا۔ یہ دنیا کا پہلا اردو اخبار ہے، جو کمپیوٹر پر کمپوز ہوکر شایع ہونا شروع ہوا۔ یعنی پاکستان میں نوری نستعلیق کے ذریعے طباعت کی دنیا کا عہد آفریں انقلاب روزنامہ جنگ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جس کے ذریعے اخبارات و رسائل اور تجارتی سطح پر طباعت و اشاعت کا کام مہینوں کے بجائے دِنوں میں ہونے لگا۔
80 ءکی دہائی میں اخبار نے کئی کام یاب تجربے کیے۔ اس دوران مذہبی صفحہ ’’اقراء‘‘ کے علاوہ معیشت، فلم، کھیل سمیت دیگر رنگین صفحات کا اجرا کیا گیا، جو بلاشبہ اُس زمانے کی بہترین طباعت تھی۔ 7 اکتوبر2002ء سے ’’روزنامہ جنگ، ملتان‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ جنگ کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو دَورِ حاضر کی ضرورت کے مطابق رائج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سو، دنیا بھر میں اردو سمجھنے اور پڑھنے والوں کو پاکستان کے حالات سے باخبر رکھنے کے لیے 1996ء میں ’’جنگ ویب سائٹ‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ 3 فروری1997ء کے عام انتخابات کے موقعے پرجنگ کا آن لائن ایڈیشن مقبولیت میں سرِفہرست رہا، جب کہ ویب سائٹ کی اس مقبولیت میں گزرتے وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ قصّہ مختصر، گزشتہ پچھتّر برسوں سے متواتر شایع ہونے والا اخبار آج بھی نہ صرف مُلک بلکہ بیرونِ مُلک اپنی ساکھ اور مقبولیت کے لحاظ سے معتبر و منفرد حیثیت کا حامل ہے۔