• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں مہنگائی کا ایسا طوفان برپا ہے کہ سنبھلنے میں نہیں آرہا ۔ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ان حالات میں اہلِ کراچی کا ایک بڑا اور تازہ ترین مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ڈیری فارمرز نے دودھ کی قیمتوں میں ہو شربا اضا فہ کر دیا ہے۔ڈیری فارمرز کی جانب سے مہنگا دودھ فروخت کرنے کا اثر ڈبے کے دودھ کی قیمتوں پر بھی پڑا ہے اور دودھ استعمال کرنے والے صارفین کے اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔سرکاری افسران اشیائے خور ونوش کے علاوہ دیگر اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کر نے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔ایک جانب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب ملک میں سیاسی بھو نچال آیا ہوا ہے۔ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ سیاسی عدم استحکام ہی مہنگائی کا سبب بنا ہے اور مستقبل میں سیاسی استحکام سے ہی مہنگائی میں کمی آسکتی ہے لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی در جۂ حرارت میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔

یہاں ایم کیو ایم کی سیاست کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے ۔ ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کی ناکامی کے بعد کراچی کی سیاست میں بڑی تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں ۔ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم میں اپنی واپسی کا عندیہ دے دیا ہے ۔مبصرین کے مطابق فاروق ستار ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کو بچانے کی ضرورت ہے ،وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو اب ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے جس میں عوام سے معافی ،غلطیوں کا اعتراف اور آئندہ صرف خدمت کے پروگرام پیش کئے جانے چاہئیں۔مبصرین کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار کیلئے ایم کیو ایم میںنرم گوشہ پیدا ہو نا اور کامران ٹیسوری کی گورنر شپ سے ایسا لگ رہا ہے کہ ایم کیو ایم کو مستقبل میں شاید ایک نیا کردار مل جائے گا۔سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی نئے بیا نیے میں ایڈجسٹ کئے جانےکا امکان ہے۔

عمران خان ایک بار پھر کافی جار حانہ موڈ میں نظر آرہے ہیں ،سینئر صحافی ارشد شریف کی شہادت کے بعد ان کا لب و لہجہ کافی تلخ ہو گیا ہے ،گزشتہ روز انہوں نے دورۂ پشاور کے دوران ایک بار پھر انتہائی تلخ لہجے میں انصاف لائرز فورم سے خطاب کیا جب کہ ایک بار پھر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے ارکانِ پارلیمان سے بھی ملاقات کی ۔ذرائع کے مطابق عمران خان کی جانب سے پشاور کے ارکان اسمبلی کو کم سے کم 14ہزار افراد کو اکٹھا کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے ،اس موقع پر ارکانِ پارلیمان کی جانب سے پارٹی کے بعض سینئر عہدیداروں کے خلاف شکایات بھی کی گئیں جو تنظیمی معاملات پر اثر انداز ہو تے ہیں،عمران خان کا پشاور کا یہ دورہ پہلے سے طے تھا اس حوالے سے تمام ارکان اسمبلی کو اجلاس میں بھر پور شرکت کی ہدایت کی گئی تھی لیکن خان صاحب کو یقیناً اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب بیشتر ارکان اسمبلی اجلاس سے غائب پائے گئے ،بتایا گیا کہ اکثر پارلیمنٹیرین مختلف ذاتی وجو ہات کی بنا پر شرکت نہیں کرسکے جس پر کپتان کافی برہم بھی ہوئے۔ لانگ مارچ سے قبل اس طرح ارکان اسمبلی کا پارٹی کے اہم اجلاس سے غائب ہو نا یقیناً کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔عمران خان کو اس بات کابھی ادراک ہے کہ انہیں لانگ مارچ کامیاب بنانے کے لئے افرادی قوت کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب پی ٹی آئی کے گڑھ خیبر پختونخوا سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نکالا جا سکے۔

عمران خان نے حتمی طورپر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور یہ لانگ مارچ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ سے جمعہ 28اکتوبر کوشروع ہو گیا ہے۔اس لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے کے حوالے سے عمران خان کا فی یو ٹرن لیتے رہے ہیں مگر آخری بار انہوں نے واضح کردیا تھاکہ وہ اسی جمعرات یا جمعہ کو لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ نہ دینے کی وجہ مبینہ مذاکرات تھے اور ان کی کوشش تھی کہ مذاکرات کے نتیجے میں نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان سامنے آجائے لیکن حکومت واضح طور پر یہ کہہ چکی تھی کہ عمران خان کی ڈکٹیشن کی بنیاد پر نئے انتخابات کا اعلان نہیں کیا جائے گا ۔ان مذاکرات کی ناکامی کا اعتراف عمران خان نے خود بھی کیا اور کہا کہ حکومت کسی بھی صورت میں انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتی اور اب فیصلہ لانگ مارچ کی بنیاد پر ہوگا۔ لانگ مارچ کے اعلان کے بعد بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نے کارکنوں کو متحرک کرنے کا آغاز کردیا ہے ۔پی ٹی آئی کے رہنما و سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری جو طویل عرصہ کے بعد ان دنوں کوئٹہ میں عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہو ئے ہیں ،پر امید ہیں کہ بلوچستان سے بھی بڑی تعداد میں کارکن کپتان کی کال پر لانگ مارچ میں شریک ہوں گے۔ نیز سندھ کے مختلف شہروں سے بھی قافلوں نے روانگی کے لئے کمر کس لی ہے۔

تازہ ترین