یہ جہانِ باغ و بہاراں میں رنگ و بُو کیا ہے
حصار کی طرح میرے یہ چار سُو کیا ہے
سمجھ گیا ہوں مَیں اُس رازِ گُم شُنیدہ کو
ہوئی جو دونوں کے باہم وہ گفتگو کیا ہے
تیرا رفیق ہوں، مجھ کو بتا دے جاناں
جو تیرے دل میں بسی ہے، وہ آرزو کیا ہے
کوئی نہ جان سکا آج تک یہ فنکاری
تخیّلات مِرے کیا ہیں، جستجو کیا ہے
کبھی تُو شعلہ بنا اور کبھی بنا شبنم
کوئی نہ جان سکا میرے سوا تُو کیا ہے
بنا ہے خاک سے تُو، خاک ہی میں جانا ہے
تیری بساط ہی کیا ہے، تیری نمو کیا ہے
(سیّد سخاوت علی جوہر)
**************************
لذّتِ ادراک بھی آزار بن جاتی ہے کیوں
اِک حقیقت شام کا اخبار بن جاتی ہے کیوں
کون رکھ دیتا ہے آکر مسئلے دہلیز پر
راستوں کے درمیان دیوار بن جاتی ہے کیوں
ایک لڑکی جو سفر میں ہم سفر ہے آپ کی
کچھ دنوں میں وہ گلے کا ہار بن جاتی ہے کیوں
حادثے کیوں جسم و جاں سے ہونے لگتے ہیں قریب
اِک لطافت بھی غموں کا بار بن جاتی ہے کیوں
جرم ہے سچ بولنا جن محفلوں میں آج کل
خامشی میری وہاں اظہار بن جاتی ہے کیوں
مصلحت بھی وقت کی حامدؔ کہ ضرورت ہے، مگر
کج کلاہوں میں یہ کاروبار بن جاتی ہے کیوں
(حامد علی سیّد)