عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بَھر میں خواتین کی آبادی 3ارب، 99کروڑ، 22لاکھ، 33ہزار ہوچُکی ہے۔ یعنی اس وقت دنیا میں 50اعشاریہ 4فی صد مرد اور 49اعشاریہ 6فی صد خواتین ہیں۔ تاہم، آبادی کے لحاظ سے مَردوں کے برابر ہونے کے باوجود، عورتوں کو صنفی امتیاز اور بنیادی حقوق سے محرومی جیسے سنگین مسائل در پیش ہیں اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں کہ ایسا صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔
اِس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں جنسی امتیاز کے مکمل خاتمے میں ابھی بھی مزید 100سال کا وقت درکار ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ امتیازی سلوک، مَردوں کی بالادستی اور’’صنفِ نازک‘‘ کہلانے کے باوجود خواتین نے مختلف شعبوں میں بے مثال کارہائے نمایاں انجام دئیے۔
اُنہوں نے نہ صرف جنگوں کی قیادت کی بلکہ درجنوں علوم و فنون میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ خوری کے ریکارڈ قائم کرنے سے لے کر خلا میں سفر کرنے تک، زندگی کے ہر شعبے میں اِن کے اَن مِٹ نقوش ثبت ہیں۔ واضح رہے کہ اِس وقت تک100سے زاید خواتین خلا کا سفر کر چُکی ہیں۔
خواتین کے کردار کا ایک سو بااثر خواتین کی اُس فہرست سے بھی کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے، جو بی بی سی اور ہفت روزہ’’ ٹائم میگزین‘‘ کی جانب سے ہر سال شایع کی جاتی ہے۔اِس فہرست سے پتا چلتا ہے کہ اب دنیا کا کوئی شعبہ خواتین کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔
تاہم، دورِ حاضر میں جن شعبوں میں خواتین کی صلاحیتوں کا جادو سَر چڑھ کر بول رہا ہے، وہ زیادہ تر بزنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی خواتین تو بزنس کے شعبے میں اِتنی ترقّی کر چُکی ہیں کہ اب امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل مَردوں کو چیلنج کر کے یہاں بھی اُن کی اجارہ داری توڑ رہی ہیں۔
اِس ضمن میں معروف میگزین ’’فارچون‘‘ نے جنرل موٹرز کی چیف ایگزیکٹیو، میری باراکوب کو دنیا کی طاقت وَر ترین خواتین میں سرِ فہرست قرار دیا۔ واضح رہے، یہ جریدہ گزشتہ 27برسوں سے ہر سال مختلف شعبوں میں دنیا کی 100طاقت وَر خواتین کی فہرست جاری کرتا آ رہا ہے۔ 2024ء کی جاری کردہ فہرست میں 50سے زائد خواتین کسی نہ کسی ادارے کی چیف ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تھیں۔
54فی صد خواتین کا تعلق شمالی امریکا سے، 21 فی صد کا یورپ اور 8فی صد کا ایشیا سے تھا۔ 2024ء میں سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بھی خواتین اپنی مقبولیت اور کارکردگی کی وجہ سے حاوی تھیں کہ اُن کے فالورز کی تعداد کروڑوں میں رہی۔ اِس ضمن میں سرِفہرست خاتون، 43 سالہ معروف امریکی پاپ گلوکارہ (پرنسز آف پاپ) برٹنی اسپیئر رہیں۔
دنیا کی مضبوط ترین خواتین میں2پاکستانی خواتین بھی شامل ہوئیں
اُن کے بعد 35سالہ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ اور 38سالہ گلوکارہ لیڈی گاگا کا نمبر تھا۔اِس ضمن میں ایک دل چسپ پہلو یہ بھی رہا کہ ماضی کی مقبول ترین اداکارہ مارلن منرو، جو 50ء اور60 ء کی دہائی میں ہالی وُڈ پر چھائی رہی اور جس نے36سال کی عُمر میں خودکُشی کرلی تھی۔
پچھلے کئی برس کی طرح سالِ رفتہ بھی اُس کی پُراسرار موت اور دل چسپ زندگی کا کھوج لگانے کے لیے انٹرنیٹ صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اُسے سرچ کیا۔ دیگر سرِفہرست خواتین میں امریکی بزنس وومین Mary Barra، Karen S. Lynch، Jane Fraser، Julie Sweetاور Emma Walmsley وغیرہ نمایاں رہیں۔
بھارتی اداکارہ اور سابقہ مِس یونیورس، پریانکا چوپڑا نے بھی گزشتہ برسوں کی طرح انٹرنیٹ پر اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔ اُن کی دولت کا اندازہ 7کروڑ ڈالرز لگایا گیا، جب کہ سوشل میڈیا پر اُن کے فالورز کی تعداد 8کروڑ 60لاکھ رہی۔ امریکا کی سابق خاتونِ اوّل، ہلیری کلنٹن بھی 2024ء کی مقبول ترین خواتین کی فہرست میں شامل رہیں۔
ہفت روزہ’’ٹائم میگزین‘‘ کی100 بااثر خواتین کی فہرست میں اداکارہ، لکھاری اور بلاک بسٹر مووی’’باربی‘‘ کی ڈائریکٹر، Greta Gerwig، اداکارہ اور کاروباری شخصیت Taraji Henson، آرٹسٹ Andra Day ، ٹینس پلیئر Coco Gauff ، عراق سے تعلق رکھنے والی ہیومن رائٹس ایکٹیویسٹ نادیہ مُراد، میڈیکل سائنٹیسٹ،Marlena Fejzo، امریکی شاعرہ Ada Limón اور دیگر خواتین شامل تھیں، جب کہ بی بی سی کی جانب سے جاری کردہ اِسی نوعیت کی فہرست میں دو پاکستانی خواتین بھی شامل تھیں۔
نیز، امن کا نوبیل پرائز جیتنے والی عراق کی نادیہ مُراد، اداکارہ شیرون اسٹون، دو اولمپیئنز ریبکا انڈیڈ اور ریلسن میکس، گلوکارہ Raye، ویژول آرٹسٹ ٹریسی ایمن، ماحولیاتی ماہر Adenike اور لکھاری Cristina Rivera Garza بھی نمایاں رہیں۔
کاروباری میدان میں خواتین نے نئے سنگِ میل طے کیے، فوربز کی’’طاقت وَر ترین بزنس وومین‘‘ کی فہرست میں دو پاکستانی خواتین نے بھی جگہ بنائی
دیگر خواتین میں اقلیتوں کے حقوق کی علم بردار، بھارت کی پوجا شرما، افغانستان کی گلوکارہ ایلاہا سرور اور ماہرِ تعلیم حمیدہ امان کے علاوہ فہرست میں فلسطین سے تعلق رکھنے والی متعدّد خواتین بھی شامل تھیں۔دنیا کی طاقت وَر ترین خواتین میں امریکا میں مقیم ایک ہندو خاتون، تُلسی گبارڈ کا نام بھی لیا گیا، جن کا رسمی طور پر بھارت سے کوئی تعلق نہیں۔ اُنہیں امریکا کی نیشنل انٹیلی جینس ایجینسی کی نئی ڈائریکٹر مقرّر کیا گیا ہے۔
وہ امریکا کی118انٹیلی جینس ایجینسیز کی نگرانی کریں گی، جب کہ وہ امریکن کانگریس کی پہلی ہندو خاتون رُکن بھی رہ چُکی ہیں۔ 2024ء میں بھی خواتین نے نوبیل پرائز ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ گزشتہ سال ادب کا نوبیل انعام جنوبی کوریا کی ادیبہ Han Kang کے حصّے میں آیا۔یاد رہے، 1901ء سے2024ء تک 65خواتین مختلف شعبوں میں یہ ایوارڈ حاصل کر چُکی ہیں۔
خواتین سے متعلق صُورتِ حال کے روشن پہلو اپنی جگہ، لیکن زمینی حقائق اور دیگر حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں خواتین کی 70فی صد تعداد اب بھی مختلف مسائل سے دوچار ہے، جن میں غربت، جنسی تشدّد، امتیازی سلوک اور دیگر ناانصافیاں شامل ہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ برس دنیا میں 70فی صد خواتین غربت کی چکّی میں پسی رہیں اور 2030ء تک مزید 34کروڑ خواتین غربت کا شکار ہو جائیں گی۔
اِس صُورتِ حال کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ بیش تر ممالک خواتین کی بہتری پر بجٹ کا 5فی صد سے بھی کم خرچ کرتے ہیں، جب کہ اُن پر تشدّد کے انسداد کے ضمن میں تو 0.42سے بھی کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں ہر 10منٹ میں ایک خاتون اپنے ساتھی یا رشتے دار کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے زمانے میں عورتوں پر بے روزگاری، صنفی امتیاز اور غربت کی صُورت جو افتاد وارد ہوئی، اُس کا تسلسل گزشتہ برس بھی برقرار رہا۔ مَردوں کے مقابلے میں اُنہیں کم تن خواہ دی جاتی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسا صرف ترقّی پذیر ممالک ہی میں نہیں ہوتا، ترقّی یافتہ ممالک کی خواتین ورکرز کو بھی ان ہی مسائل کا سامنا ہے۔
فیس بُک کی سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے کافی عرصہ قبل اپنی ایک کتاب میں لکھا تھا کہ’’امریکا میں زیادہ تر مَردوں کو نوکری کی صرف 60فی صد شرائط پوری کرنے پر رکھ لیا جاتا ہے، جب کہ خواتین درخواست گزاروں سے 100فی صد شرائط پوری کرنے کی توقّع کی جاتی ہے۔‘‘ امریکا میں ایک بڑی ریٹیل چَین کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ خواتین کو بہتر کارکردگی کے باوجود کم اسکور دیا جاتا ہے، جس سے اُن کی سالانہ ترقّی کے امکانات 14فی صد کم ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی خواتین: 2024ء کا سال بھی پاکستانی خواتین کے لیے دیگر سالوں سے مختلف نہیں تھا، کیوں کہ سالِ رفتہ بھی اُن کی مجموعی حالت میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔ جنسی تشدّد ہو یا بنیادی حقوق کی پامالی یا پھر صنفی امتیاز کے معاملات، صُورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔
خواتین کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان کا درجہ پانچواں ہی رہا، جب کہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صنفی امتیاز میں بھی پاکستان، دنیا میں 146ویں نمبر پر رہا، جو کہ اِس حوالے سے دنیا کے پَست ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
سیاسی حوالے سے بھی انٹرپارلیمینٹری یونین کی رینکنگ میں پاکستان کا190 ممالک میں 100واں نمبر رہا۔ماہرین کے مطابق، پاکستانی خواتین کی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ مَردوں کی روایتی بالادستی، نسلی گروہ بندیاں اور صدیوں سے چلی آنے والی پابندیاں ہیں اور یہ معاملات گزشتہ برس بھی جُوں کے تُوں تھے۔ ہمارے یہاں مجموعی طور پر آج بھی عورتوں کو مَردوں کے مقابلے میں کم زور اور پس ماندہ سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ گھروں میں ننّھی بچیاں بھی اپنے بھائیوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا شکار رہتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سب سے زیادہ پس ماندہ سندھی خواتین ہیں، ان کے بعد سرائیکی، بلوچ اور پشتون خواتین کا نمبر ہے۔ رپورٹ کے مطابق، غریب خواتین ہر علاقے میں یک ساں طور پر پس ماندگی کا شکار ہیں اور پاکستان کی74 فی صد خواتین ایسی ہیں، جنہوں نے پرائمری سے کم تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
سندھ میں40 فی صد خواتین خوراک کی کمی کی شکار ہیں، جب کہ قومی سطح پر یہ شرح 13فی صد ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں خواتین تعلیم و ترقّی کی نئی منازل طے کر رہی ہیں، پاکستان میں اب بھی ان کے سروں پر کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل کی تلواریں لٹک رہی ہیں۔
سال2024ء کے11مہینوں میں(30نومبر تک)سندھ کے مختلف علاقوں میں کاروکاری کے123واقعات رپورٹ ہوئے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق، کاروکاری کے سب سے زیادہ واقعات ضلع شکار پور میں رپورٹ ہوئے، جن کی تعداد 20رہی۔ضلع گھوٹکی میں 16، جیکب آباد میں 10، کشمور میں14، قمبرشہدادکوٹ میں 17، سکھر میں9، نوشہرو فیروز میں11، لاڑکانہ میں7، شہید بے نظیر آباد میں5، خیرپور میں 3، ٹھٹھہ میں 4، دادو میں 2، سانگھڑ میں ایک، مٹیاری میں ایک، کراچی کے ضلع ایسٹ میں ایک، ضلع کورنگی میں ایک اور ضلع ویسٹ میں کاروکاری کا ایک کیس رپورٹ ہوا۔
تاہم، اِن تمام منفی پہلوئوں کے باوجود، 2024ء میں پاکستانی خواتین نے سیاسی میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ مُلک کی 5کروڑ 90لاکھ خواتین ووٹروز کی اکثریت نے 2024ء کے عام انتخابات میں جوش و خروش سے حصّہ لیا۔ اگرچہ مجموعاً ٹرن آؤٹ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا، لیکن ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے خواتین نے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کرکے ثابت کیا کہ ماضی کے مقابلے میں انہوں نے سیاسی شعور اور اپنے بنیادی حقوق سے آگہی کی کئی منازل طے کرلی ہیں۔
گزشتہ برس 12خواتین عام نشستوں پر رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں، جب کہ مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ کا اعزاز مریم نواز شریف کے حصّے آیا۔ نیز، پاکستان تحریکِ انصاف سے وابستہ خواتین ورکرز نے بعض ناانصافیوں کا مقابلہ کر کے بھی دنیا بَھر کی توجّہ اپنی جانب مبذول کروائی۔
مجموعی طور پر تو پاکستانی خواتین کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آسکی، تاہم انفرادی طور پر خواتین نے بین الاقوامی سطح پر مُلک و قوم کا نام روشن کیا۔ بی بی سی نے 2024ء کی جن 100 با اثر خواتین کی فہرست جاری کی، ان میں دو پاکستانی خواتین، بلوچستان سے سیاسی ایکٹیویسٹ ماہ رنگ بلوچ اور گلوکارہ حدیقہ کیانی کے نام بھی شامل تھے۔
ماہ رنگ بلوچ نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور بلوچستان سے1600 کلو میٹر پیدل چل کر وہاں پہنچیں، جب کہ حدیقہ کیانی نے اپنی این جی او کے ذریعے خواتین کی فلاح و بہبود کے کاموں کے ساتھ، سیلاب متاثرہ علاقوں میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
اِسی طرح کاروباری میدان میں بھی بعض پاکستانی خواتین نے مَردوں کے شانہ بشانہ، بلکہ بعض اوقات اُن سے آگے بڑھ کر، اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اِس سلسلے میں امریکی جریدے’’ فوربز‘‘ نے دنیا کی طاقت وَر ترین بزنس ویمن کی فہرست میں پاکستان کی دو خواتین، شائستہ آصف اور شاذیہ سیّد کو بھی شامل کیا۔ اُنہیں مِڈل ایسٹ میں کام یاب 100بزنس ویمن کی فہرست کا بھی حصّہ بنایا گیا۔
امریکا میں 118خفیہ اداروں کی نگرانی ایک خاتون کے سپرد کی گئی، ادب کا نوبیل پرائز کورین خاتون نے جیتا
بزنس ہی کے حوالے سے ایک پاکستانی بزنس وومن، چارٹر اکاؤنٹنٹ عائلہ مجید نے دنیا بَھر میں مُلک و قوم کا نام روشن کیا کہ اُنہیں دنیا بَھر کےسی۔ ایز کی معروف تنظیم ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹینسٹس ’’ACCA‘‘ کا صدر منتخب کیا گیا۔ وہ اس تنظیم کی 120سالہ تاریخ میں پاکستان سے منتخب ہونے والی پہلی پاکستانی خاتون صدر ہیں۔ واضح رہے، 180ممالک پر مشتمل اس تنظیم کے ڈھائی لاکھ سے زاید ارکان ہیں۔ راول پنڈی میں تعیّنات خاتون پولیس آفیسر، بینش فاطمہ کو انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف چیفس آف پولیس 2024ء کا ایوارڈ ملا۔
یہ تقریب بوسٹن میں منعقد ہوئی۔ گزشتہ سال پولیس آفیسر، اے ایس پی شہربانو نقوی بھی توجّہ کا مرکز رہیں۔ اُنھوں نے 26فروری 2024ء کو اچھرہ بازار، لاہور میں ایک خاتون کو، جس کے لباس پرعربی حروفِ تہجّی تحریرتھے، بمشکل مشتعل ہجوم سے بچایا، تو اِس شان دار کارکردگی پر جہاں عوامی و سماجی حلقوں نے اُنھیں سراہا، وہیں حکومتِ پاکستان نے بھی خصوصی اعزاز سے نوازا، جب کہ سعودی حکومت نے اُنھیں شاہی مہمان کے طور پر فریضۂ حج کی سعادت حاصل کرنے کی دعوت دی۔
بیرونِ مُلک نمایاں کارکردگی کی حامل پاکستانی خواتین میں کراچی سے تعلق رکھنے والی وجیہہ حسن بھی شامل ہیں، جنہیں آکلینڈ (کینیڈا) میں ایک تقریب کے دَوران’’مِس پاکستان ورلڈ 2024ء‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا۔ یاد رہے، وہ ایک سینئیر سافٹ ویئر انجنئیر ہیں، جب کہ اِس سے قبل ’’سوشل میڈیا کوئین‘‘ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کر چُکی ہیں۔
قصّہ مختصر، پاکستانی خواتین 2024ء میں گونا گوں مسائل کے باوجود انفرادی طور پر ہر شعبۂ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی رہیں، تاہم مجموعی طور پر حکومت کی توجّہ سے محروم ہی رہیں، حالاں کہ اگر حکومت خواتین کے لیے وسائل کی فراہمی، ان کی ضروریات کی تکمیل کو اولین ترجیح بنالے، تو وہ مُلکی ترقّی میں مزید بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ حکومتی دل چسپی کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ’’قومی کمیشن برائے حقوقِ نسواں‘‘ کی چیئرپرسن کا عُہدہ گزشتہ کئی ماہ سے خالی پڑا ہے۔