• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمونیا پھیپھڑوں کی سوزش کا ایک متعدّی مرض ہے، جو ہر عُمر کے افراد کو متاثر کرسکتا ہے، لیکن پانچ سال سے کم عُمر بچّوں میں، خصوصاً جن کا مدافعتی نظام کم زور ہو، شرح بُلند ہے۔ اگرچہ یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے اور اس سے بچاؤ بھی ممکن ہے، لیکن ترقّی پزیر مُمالک میں یہ بچّوں کی ہلاکت کا ایک بڑا سبب ہے،جس کی مختلف وجوہ میں مرض سے متعلق معلومات کا فقدان بھی شامل ہے۔ 

اسی لیے عالمی ادارۂ صحت اور بچّوں کے امراض سے متعلقہ مختلف تنظیموں کے اشتراک سے ہر سال دُنیا بَھر میں 12نومبر کو ’’ورلڈ نمونیا ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہر سطح تک مرض سے متعلق آگہی عام کرنا ہے، تاکہ اس سے ہونے والی اموات کی شرح پر قابو پایا جاسکے۔ اِمسال کا سلوگن"Pneumonia Affects Everyone" ہے۔ سو، نمونیا کے عالمی یوم کی مناسبت سے ہم نے آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کےاسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر دانش عزیز سے خصوصی بات چیت کی ہے۔

ڈاکٹر دانش عزیز نے 2006ءمیںڈاؤ میڈیکل کالج، کراچی سےایم بی بی ایس کے بعد2012ء میں ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی سے ریذیڈینسی اِن پیڈیاٹرکس کی۔2014ء میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز سے ایف سی پی ایس پیڈیاٹرکس،جب کہ رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ،یوکے سے ایم آر سی پی سی ایچ کی اسناد حاصل کیں۔

ڈاکٹر صاحب نے کیرئیر کا آغاز 2015ءمیں انڈس اسپتال، کراچی سے بطور ایسوسی ایٹ کنسلٹنٹ کیا۔بعدازاں، آغا خان اسپتال، کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ سےبطورسینئر انسٹرکٹر وابستہ ہوگئے۔اب اسی شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ،ڈائریکٹر ریذیڈینسی پروگرام اور بطور کنسلٹنٹ پیڈیاٹریشن خدمات انجام دے رہے ہیں۔انہیں2021ء میں آغا خان یونی ورسٹی اسپتال کی جانب سے’’ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ ‘‘سے بھی نوازا گیا ہے۔ اُن سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

س: عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال نمونیے کا عالمی یوم منایا جاتا ہے، اِمسال کا تھیم"Pneumonia Affects Every One"ہے، تو کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

ج: جی بالکل، یہ مرض پیدایش سے لے کر عُمر کے آخری حصّے تک کسی بھی فرد کوچاہے وہ مَرد ہو یا خاتون متاثر کرسکتا ہے،البتہ پیدایش سے لے کر پانچ سال کی عُمر کے بچّوں میں اس سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ دراصل اس عرصے میں بچّوں کی امیونٹی یعنی قوّتِ مدافعت بن رہی ہوتی ہے، توان کا امیون سسٹم مختلف بیماریوں سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتا ۔یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر صحت سےمتعلقہ مختلف ادارے اور این جی اوز وغیرہ بچّوں کی امیونائزیشن پر زور دیتے ہیں،کیوں کہ اس وقت دُنیا بَھر میں جتنی بھی بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے جارہے ہیں، ان کے پھیلاؤ کی شرح کم ہورہی ہے۔ حفاظتی ٹیکہ جات میں نمونیے کی ویکسین نیوموکوکل (Pneumococcal)بھی شامل ہے۔

اگر بچّےکو یہ ویکسین بروقت لگوالی جائے، تو نمونیا سے متاثر ہونے کے امکانات خاصے کم ہوجاتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بچّوں کی ذہنی و جسمانی صحت کے ضمن میں ابتدائی پانچ سال بے حد اہم ہیں، کیوں کہ اس دوران نشوونما ہورہی ہوتی ہے۔ اگر اس عرصے میں وہ نمونیا یا پھرکسی اور خطرناک مرض کا شکار ہوجائیں، تو مستقبل میں اس کے اثرات ان کی عمومی صحت پر مرتّب ہوسکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایسے بچّے دماغی اور جسمانی طور پر کم زور ہوجاتے ہیں۔

نمونیا صرف کم زور قوّتِ مدافعت کے حامل بچّوں ہی کو متاثر نہیں کرتا، بلکہ اس کے نشانے پر صحت مند بچّے بھی رہتے ہیں۔ پھر کچھ بیماریاں بھی ایسی ہیں، جو نمونیے کا سبب بن جاتی ہیں۔اس کے علاوہ غذائیت کی کمی بھی، جسے Protein-Calorie Malnutrition  کہا جاتا ہے ،نمونیا میں مبتلا کرسکتی ہے۔ کئی اسٹڈیز کے مطابق جن بچّوں کا قد اور وزن اپنی عُمر کی مناسبت سے کم ہو، ان میں نمونیا سمیت دیگر امراض سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگربچّے کے جین میں کسی بھی قسم کی الرجی کامرض موجود ہو یا وہ نزلہ زکام کا زیادہ شکار رہے،تو بھی نمونیا سے متاثر ہوسکتا ہے۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے  عکّاسی: اسرائیل انصاری
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے  عکّاسی: اسرائیل انصاری

س: نمونیے کےمحرّکات،اقسام اورعلامات سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: بچّوں میں کی اُن عُمر کے مناسبت نمونیے سے متاثر ہونے کےاسباب بھی مختلف ہیں۔جیسے ابتدائی 5سال میں بچّےبیکٹریل اور وائرل نمونیا کا شکار ہوجاتے ہیں۔یاد رہے،پیدایشی نمونیاکی وجہ بیکٹریا ہے،جوبعض اوقات دورانِ حمل ماں سے منتقل ہوسکتا ہے، اسے Congenital Peumonia کہا جاتا ہے۔اسی طرح پیدایش کے بعد اسپتال کے ماحول میں موجود بیکٹریا بھی نومولود کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتاہے ۔اس کے علاوہ جوبچّے کسی بھی وجہ سے اسپتال میںداخل رہیں، توان میں بھی نمونیاسے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔طبّی اصطلاح میں اسےNosocomial کہتے ہیں۔

بعض بچّوں میں نمونیاکے جراثیم کمیونٹی کے ذریعے منتقل ہوتےہیں۔نمونیے کی عام علامات میں بخار چڑھنا، سردی لگنا ،بلغمی کھانسی ، سانس لینے میں دشواری، سانس کا تیز چلنا، سینے میں درد یا جکڑن،نزلہ زکام، سُستی، بےچینی، متلی ، اسہال،جھٹکے لگنا،بچّے کا دودھ کم یا بالکل نہ پینا اور چہرے اور ہاتھوں کا نیلا پڑ جانا وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے،90فی صد بچّوں میں نمونیا کی ابتدا نزلہ،زکام،کھانسی سے ہوتی ہے۔

بعض چھوٹے بچّوں میں یہ علامات ظاہر نہیں ہوتیں،تاہم بخار، سانس کا تیز چلنا اور پسلی چلنا وغیرہ وہ بنیادی علامات ہیں، جنہیں کبھی بھی معمولی یا موسمی اثرات جان کر نظر انداز نہ کیا جائے کہ اکثر والدین بچّوں کی سیلف میڈی کیشن کرتے ہیں، جس سے وقتی طور پر تو آرام مل جاتا ہے، لیکن اصل مسئلہ برقرار ہی رہتا ہے۔بعض بچّوں میں بار بار نمونیا سے ان کی سانس کی نالیاں مستقل طور پر پُھول جاتی ہیں اور ان میں بلغم جم جاتا ہے، طبّی اصطلاح میں اسے Bronchiolitis کہتےہیں۔ بہرحال، اگر بچّے کونزلے اور بلغم والی کھانسی کے ساتھ تیز بخار بھی ہو،تو یہ نمونیا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی، لہٰذا سیلف میڈی کیشن کے بجائےفوری طور پر مستند معالج سے رابطہ کیا جائے۔

س: تشخیص کے لیے کون سے ٹیسٹس تجویزکیے جاتے ہیں؟ اور اس وقت سب سے مؤثر طریقۂ علاج کیا ہے اور کیا ہمارے یہاں علاج کی تمام ترجدید سہولتیں دست یاب ہیں؟

ج: بعض اوقات بچّے کا تعلق کسی ایسےدیہی یا دُور دراز کے علاقے سے ہوتا ہے، جہاں ایکس رے کی سہولت دست یاب نہیں، تو اس صُورت میں عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف نے تشخیص کا ایک طریقۂ کار وضع کیا ہے، جو ایکس رے یا دیگر ٹیسٹس کے بغیر بھی ممکن ہے۔ اس طریقۂ کار میں سب سے پہلے بچّے کی فی منٹ سانس کی رفتار چیک کی جاتی ہے۔ واضح رہے، بچّوں میں ان کی عُمر کی مناسبت سے سانس لینے کی رفتار بھی مختلف ہوتی ہے۔جیسے دو ماہ کی عُمر کے بچّے کی فی منٹ سانس کی رفتار60، اس سے بڑی عُمر کے بچّوں میں 50اور چھے سال کے بچّے میں 40 سےکم نارمل کہلائے گئی۔ 

اگلے مرحلے میں سانس لینے کا پیٹرن دیکھا جاتا ہے کہ آیا بچّہ جب سانس لے رہا ہے، تو اس دوران اس کے ناک کے نتھنے پُھول رہے ہیں، کہیں سینے میں گڑھے تو نہیں پڑ رہے۔ یہ گڑھے Tracheal Notch یعنی حلق کے نیچے، پسلیوں کے درمیان یا نیچے پڑتے ہیں۔ پھر تیسرے مرحلے میں سینے سے خرخراہٹ جیسی غیر معمولی آوازیں جانچی جاتی ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کہیں سانس لینے کے ساتھ سیٹی کی سی آواز تو سُنائی نہیں دے رہی۔ جن علاقوں میں نمونیا کی تشخیصی سہولتیں دست یاب ہوں، وہاں ایکس رے،خون اور بلغم کے ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں، کیوں کہ ایکس رے کے ذریعے یہ پتا چل جاتا ہے کہ نمونیا پھیپھڑوں میں کس جگہ موجود ہے اور کس حد تک پھیل چُکا ہے۔

خون کا ٹیسٹ انفیکشنز اور ان کی شدّت جانچنے،جب کہ بلغم کا ٹیسٹ جراثیم، پیپ اور ٹی بی وغیرہ کی تشخیص کے لیے تجویز کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ Oxygen Saturation ، بلڈ پریشر، نبض وغیرہ بھی چیک کی جاتی ہے، تو بعض کیسز میں سانس کی نالی کے اندرونی معائنے کے لیے Broncho Scopyبھی تجویز کی جاسکتی ہے۔ بعض اوقات بچّے کو بار بار نمونیا ہوتا ہے، تو پھر سی۔ٹی اسکین کے ذریعے یہ جانچا جاتا ہے کہ کہیں پیدایشی طور پر سانس کی نالیاں متوّرم تو نہیں۔ اسی طرح کبھی کوئی بچّہ کچھ ایسا کھا لیتا ہے، جو بار بار سانس کی نالی میں اٹکنے یا پھنسنے کی وجہ سے نمونیا لاحق ہونے کا سبب بنتا ہے، تو اس کی جانچ بھی سی-ٹی اسکین ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ 

پھر بعض بیماریاں بھی بچّے کے پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوکر نمونیے کا باعث بنتی ہیں، جیسے خسرہ ،کالی کھانسی، سِسٹس فیبروسس وغیرہ۔اگر نمونیےکی وجہ وائرس ہو، تو اینٹی بائیوٹکس تجویز نہیں کی جاتیں، جب کہ بیکٹریا یا فنگس کی صُورت میں اُسی مناسبت سے اینٹی بائیوٹکس یا دیگر ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔بعض اوقات دائمی نمونیے کے مریض بچّوں میں بلغم کے مخصوص ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، تاکہ حتمی وجہ کا تعیّن کیا جاسکے۔

رہی بات نمونیا کے جدید اور مؤثر طریقۂ علاج کی، تو اس ضمن میں درست تشخیص کے ساتھ بروقت اینٹی بائیوٹکس کا استعمال ہی سب سے مؤثر اور جدید علاج ہے۔ اگر بچّے کو آکسیجن کی ضرورت ہو، تو بھی ہرگز تاخیر نہ کریں۔اکثر بچّے ڈی ہائیڈریشن کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، توان کے جسم میں نمکیات کی کمی نہ ہونے دیں۔ بخار کی شدّت کم کرنے کے لیے عموماً سیرپ تجویز کیا جاتا ہے، جس سے زیادہ تر بچّے5سے7دِن میں صحت یاب ہوجاتے ہیں، لیکن کبھی 2سے 3 ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔

س: نمونیےکی تشخیص وعلاج میں تاخیرسے کس قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں؟

ج: یوں تو مختلف پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔ تاہم ،سب سے عام پیچیدگی پھیپھڑوں کی جھلّیوں میں رطوبت یا پیپ بَھرجاناہے، جس کے باعث سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ اس صُورت میںٹیوب کے ذریعےیہ موادنکالا جاتا ہے۔ اگر پھیپھڑوں کاکوئی حصّہ زیادہ متاثر ہوجائے تو پھر سرجری کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔بعض کیسز میں نمونیے کی شدّت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اُس کے اثرات دِل پر بھی مرتّب ہوجاتے ہیں۔

س: بچّوں میں دَمے کی وجوہ کیا ہوتی ہیں اور اس میں موروثیت کا کتنا عمل دخل ہے؟

ج: دَمہ سانس کی نالی میں سوزش کا مرض ہے، جس کیکئی وجوہ ہوسکتی ہیں اور ان میں موروثیت بھی شامل ہے۔اگر فیملی ہسٹری میں الرجی کا مرض پایاجائے، تو بچّے میں اس کی منتقلی کے امکانات خاصے بڑھ جاتے ہیں۔یاد رکھیے،بچّے میں پیدایشی طور پر الرجی کا جین موجود ہو اور ماحولیاتی اثرات کے نتیجے میں وہ فعال ہوجائے، تو الرجی کی نوعیت شدید ہوتی ہے۔دَمے کی علامات ہر بچّے میں مختلف ہوتی ہیں، جیسے کسی بچّے میں کھانسی کی علامت ظاہر ہوتی ہے اور کسی میں نہیں۔

البتہ عمومی علامات میں سانس لیتے ہوئے سیٹی کی سی آواز آنا،سینے میں جکڑن اور بار بار کھانسی (جو خشک، بار بار ہو اور لمبے عرصےتک ر ہے) شامل ہیں۔ موروثیت کے علاوہ دیگر عوامل میں آلودگی ،اسموگ، گردوغبار، پولن، پالتو بلیاں، کتّے، بال و پَر والے جانور، پرندے، ہائوس ڈسٹ مائٹس،روئیں دار کھلونے اور بعض کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ پیسیو اسموکنگ بھی وجہ بن سکتی ہے۔

س: عام طور پر کہا جاتا ہے کہ چھوٹے بچّوں میں دَمے کی تشخیص ممکن نہیں، تو کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

ج: چھوٹے بچّوں میں دَمے کی تشخیص بہت اہم اور مشکل امر ہے۔اس لیے اسے مختلف کیٹیگریز میں منقسم کیا جاتاہے۔ جیسے پہلی کیٹیگری 2 سے 5سال کی عُمر پر مشتمل ہے، دوسری 5 سے12 سال اور تیسری12سال کے بعد کی عُمر ہے۔ دو سے پانچ سال کی عُمر کی کیٹیگری میں شامل بچّوں میں تشخیص ہمیشہ علامات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ جیسے ایک بچّہ دو یا ڈھائی سال کی عُمر میں سانس کی تیز رفتار اور سیٹی کی سی آواز جیسی علامات کے ساتھ آئے، تو ہم اسے نیبولائز کرتے ہیں یا پھر اِن ہیلر کا استعمال کروایا جاتا ہےاور طبیعت بہتر ہونے پر گھر بھیج دیتے ہیں۔

پھر اگردو تین مہینے بعد دوبارہ اسی شکایت کے ساتھ آئے، تو بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے،کیوں کہ دَمے کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال قطعاً مناسب نہیں، لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ کئی معالجین دَمے کی درست تشخیص نہیں کرپاتے اور نمونیا کا علاج شروع کردیتے ہیں۔یوں اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے کے نتیجے میں بچّے کے جسم میں اینٹی بائیوٹکس ریزیسٹینس پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لیے دَمے کی درست تشخیص ازحد ضروری ہے۔

تشخیص کے ضمن میں سب سے پہلے بچّے کی علامات کا معائنہ کیا جائے اور پھر ماں کی بات بھی غور سے سُنیں کہ اکثر معالجین اس جانب دھیان ہی نہیں دیتے، حالاں کہ ماں سے بچّے کی مکمل طور پر ہسٹری لینا تشخیص کا مرحلہ سہل کردیتا ہے۔دَمے کا وقتی علاج نیبولائزر یا اِن ہیلر ہے، جب کہ دائمی علاج میں نیبولائزر یا اِن ہیلر کے ساتھ بعض ادویہ بھی تجویز کی جاتی ہیں۔5سال سے زائد عُمر کے بچّوں میں پلمونری فنکشن ٹیسٹ کے ذریعے دَمے کی تشخیص ممکن ہے۔تاہم،اس کیٹیگری میں بھی بچّوں کی علامات جانچنے کے بعد ماں سے ہسٹری لینا ضروری ہے۔

س: وہ کون سی احتیاطی تدابیر ہیں، جنہیں اختیارکرکے دَمےپر کنٹرول ممکن ہے؟

ج: صرف یہی کہوں گا کہ والدین اِدھر اُدھر کے مشوروں پر کان دھرنے کی بجائے اپنے معالج کی ہدایات پر عمل کریں اورجس ماحول میں بچّے میں دَمے یا الرجی کی علامات جنم لیتی ہیں، اُن سے احتیاط برتیں۔ گھر کاماحول صاف ستھرا رکھیں، باورچی خانے میں ایگزاسٹ فین لگوائیں،گھر کا کوئی فردتمباکو نوشی کرتا ہے، توبہتر ہوگا کہ اس سے مکمل طور پر دور رہاجائے۔

اگر کسی فیکٹری کے قریب رہایش ہو تو بچّے کا بہت زیادہ خیال رکھیں، کوشش کریں کہ کسی صاف ستھرے علاقے میں منتقل ہوجائیں ۔کراچی میں آلودگی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، تو بچّے جب بھی گھر سے باہر جائیں، ماسک کا استعمال لازماً کریں۔غذامتوازن ہو، گھر کا پکاکھانا کھلائیں، جب کہ پریزرویٹیو (Preservative) اور کلرز والے کھانوں کے استعمال سے پرہیز کیا جائے ۔

س: سسٹک فیبروسس (Cystic Fibrosis)سے متعلق بھی بتائیں،نیز، اس کی علامات، تشخیص اور علاج پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

ج: یہ ایک جینیاتی ڈس آرڈر ہے۔ اگر ماں باپ دونوں سِسٹک فیبروسس کے کیرئیر ہوں، تو یہ مرض بچّے میں منتقل ہوجاتا ہے۔پاکستان کی بعض کمیونٹیزمیں کزنز میرج کی وجہ سے یہ مرض پایا جاتاہے ۔ ان بچّوںکے پسینے میںکلورائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اسی بنیاد پر مرض تشخیص کیاجاتا ہے۔یہ مرض بلغم کو گاڑھا کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں بلغم خارج نہیں ہوتااور اس میں بیکٹریا پیدا ہوجاتے ہیں۔بعد ازاں، یہ امر انفیکشن کا باعث بن جاتاہے۔ دو تین سال کی عُمر میں اس مرض سے متاثرہ بچّوں میں نمونیے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو بعد ازاں شدّت اختیار کرلیتی ہیں۔

اگر اس مرحلے پر بروقت تشخیص نہ ہو تو پھیپھڑے مکمل طور پر خراب ہوجاتے ہیں۔ بعض بچّوں میں یہ مرض ابتدا ہی میں تشخیص ہوجاتا ہے۔ وہ اس طور کہ اگر نومولود پہلا پاخانہ نہ کرے یا تاخیر سے کرے یا پھرآنتیں مکمل طور پربند ہوں، لیکن ضروری نہیں کہ یہ علامت سِسٹس فیبروسس ہی کی ہوں، لہٰذا حتمی تشخیص کے لیے جینیاتی ٹیسٹس کیے جاتے ہیں۔ چوں کہ پاکستان میں بعض مخصوص جینیاتی ٹیسٹس کی سہولت دست یاب نہیں، تو ہم پسینے اور بلغم کے ٹیسٹس کے ذریعے ہی یہ مرض تشخیص کرتے ہیں۔ سِسٹس فیبروسس کی بنیادی علامت بار بار نمونیا ہونا ہے۔ 

دوسری اہم علامت ہاضمے کی خرابی ہے۔دراصل ان بچّوں میں چکنائی ہضم کرنے کی صلاحیت قدرے کم ہوتی ہےیابعد میں ختم ہو جاتی ہے اور اسی بنا پر ہاضمہ خراب رہتا ہے۔ ان کا لبلبہ بہت جلد اینزائم بنانا چھوڑ دیتا ہے،نتیجتاً انہیںتاعُمر ہر کھانے کے بعد Creons استعمال کرنے پڑتے ہیں۔دیگر علامات میں سانس کی خرابی، چکنا پاخانہ اور وزن نہ بڑھنا شامل ہیں۔اگر کوئی بچّہ ان علامات کے ساتھ آتا ہے، تو سب سے پہلے والدین سے فیملی ہسٹری لی جاتی ہے، پھر ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔

یہ مرض بچّے کی عُمر کم کردیتا ہے۔اس کے شکار بچّے 15سے22 سال کی عُمر سے زیادہ نہیں جی سکتے،لیکن اگرہمیں مخصوص جینیٹک ٹیسٹنگ کی سہولت مہیا ہوجائے تو بیرونِ مُمالک کی طرح اس مرض کے شکار افراد بھی50سے 60سال جی سکتے ہیں۔مرض کی تاخیر سے تشخیص کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں، جیسے بعض معالجین ٹی بی یا نمونیا سمجھ کر علاج کرتے ہیں، پھر والدین بھی اس مرض کو تسلیم نہیں کرتے۔ سِسٹس فیبروسس کے علاج کا بنیادی مقصد بلغم پتلا کرنا ہے، جس کے لیے مخصوص ادویہ کا استعمال مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

بچّوں کے سینے کی فزیو تھراپی بھی کی جاتی ہے کہ سینہ جتنا صاف ہوگا، بچّے کے طبّی مسائل میں اُتنی ہی کمی آئے گی۔ڈی ہائیڈریشن سے تحفّظ کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی پلایا جاتا ہے۔نیز، نمکیات کی کمی دُور کرنے کے لیے او آر ایس اور خاص طور پر گرمیوں میں کھانے میں نمک کا زائد استعمال بھی کروایا جاتا ہے۔

بہرحال، جہاں اس مرض سے متاثرہ بچّوں کی دیکھ بھال خاصا مشکل امر ہے، وہیں علاج بھی بہت منہگا ہے۔ جیسے بیرونِ مُلک سے پاکستان میںCreonsکم تعداد میں درآمد کیے ہیں اورصرف ایک پیکٹ کی قیمت 5 سے 6 ہزار ہے، جو ایک ہی ہفتے میں ختم بھی ہوجاتے ہیں۔ پھر ہردو تین مہینے بعد بچّہ انفیکشن کا شکار ہوجاتا ہے، جس کا علاج بھی ناگزیر ہے۔ تو ایسے کئی طبّی مسائل ہیں،جن سے بچّہ متاثر ہوتا رہتا ہے۔

تاہم، ابGenetic Modulation Therapyکی بدولت اس مرض کا علاج قدرے سہل ہوچُکا ہے، لیکن یہ بہت ہی منہگا طریقۂ علاج ہے۔ آغا خان اسپتال میں سِسٹس فیبروسس کےتقریباً ایک سو سے زائد بچّے رجسٹرڈ ہیں، لیکن حقیقتاً متاثرہ بچّوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو عدم تشخیص اور دیگر مختلف وجوہ کی بنا پر رجسٹر نہیں ہو پاتے۔

س: کیا ڈاؤن سینڈروم بچّوں میں بھی دَمے اور نمونیے کی شرح زیادہ دیکھی جاتی ہے اور اس کی کوئی خاص وجہ؟

ج: ایسا نہیں کہ سارے ہی ڈاؤن سینڈروم بچّے بار بار دَمے یا نمونیے کا شکار ہوتے ہیں، البتہ جن بچّوں کی قوّتِ مدافعت کم زور ہو، وہ بار بار نمونیے یا دَمے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

س: ماں اور بچّے کی صحت کے حوالے سے بات کریں تو ہم دُنیا بَھر کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں؟

ج: میرے خیال میں تو دُنیا بَھر میں ماں اور بچّے کی صحت کے حوالے سے ہم کہیں بہت آخری نمبروں پر کھڑے ہیں۔اور یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ اس حوالے سے سرکاری سطح پر ٹھوس اقدمات کے ساتھ عوام الناس میں شعور و آگہی اُجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دُنیا کے اُن مُمالک میں کیا جاتا ہے، جہاں نوزائیدہ بچّوں کی شرحِ اموات بہت بُلند ہے اور اس کے ویسے تو کئی عوامل ہیں، لیکن بنیادی وجہ ویکسی نیشن نہ کروانا اور پیدایش کے بعد ابتدائی تین ماہ میں بچّے کی صحت کا خیال نہ رکھنا ہے۔

س: نمونیا کے عالمی یوم پر والدین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: نمونیا قابلِ علاج مرض ہے اور اس سے بچاؤ بھی ممکن ہے، مگر مرض سے متعلق معلومات نہ ہونے کے سبب اکثر بچّے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔سو، نمونیا کی بروقت اور درست تشخیص ازحد ضروری ہے۔ اگر والدین بچّے میں کوئی بھی غیر معمولی علامت محسوس کریں ،تو سیلف میڈی کیشن کے بجائے مستند ماہرِ امراضِ اطفال سے رجوع کریں کہ بچّوں میں سینے، پھیپھڑے اور سانس سے متعلقہ امراض کی تشخیص ایک ماہرِ امراض اطفال ہی کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ بچّے کی ویکسی نیشن کا کورس لازماً مکمل کروائیں اور جو بچّے بار بار دَمے یا نمونیے کا شکار ہوں تو معالج کے مشورے سے اُن کی انفلوائنزا کی ویکسی نیشن بھی کروالی جائے۔