• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیر آباد میں فائرنگ میں زخمی ہونے کے بعد ’’کاروانِ حقیقی آزادی ‘‘ کو وقتی طور پر روک دیا تھا لیکن ان کے حکم پر سات روز بعد یہ کارواں دوبارہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہوچکا ہے۔ اس کارواں کی قیادت فی الحال شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ دو ہفتے بعد یہ قافلہ اسلام آباد کے قریب پہنچنے پر عمران خان خود قیادت سنبھال لیں گے ۔ عمران خان فی الحال وڈیو لنک پر لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہے ہیں۔ عمران خان انتخابی سیاست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد میدانِ سیاست میں اپنی شکست تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں،انہوں نے دوبارہ اقتدار کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ اس لڑائی میں جھونک دیا ہے ۔انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ان کی واپسی ممکن نظر نہیں آ رہی۔ لانگ مارچ کی سست روی حکمتِ عملی کے تحت اختیار کی گئی ہے اس دوران حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان پس پردہ رابطے اور ملاقاتیں ہو رہی ہیں جن کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ عمران خان’’فیس سیونگ‘‘ چاہتے ہیں اس کے لئے انہوں نے شرط عائد کر رکھی ہے کہ موجودہ حکومت عام انتخابات کے انعقاد کی جو بھی تاریخ دے گی، قبول کر لیں گے لیکن انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو نئے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار ہونا چاہئے، وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نئی حکومت کے قیام تک آرمی چیف کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جب کہ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری کو آئندہ حکومت تک مؤخر کرنے پر تیار نہیں جہاں تک جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق ہے تو انہوں نےالوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، وہ اب تک سیالکوٹ اور گوجرانوالہ گیریژن میں افسروں اور جوانوں سے خطاب کر چکے ہیں، انہیں مزید عرصہ تک آرمی چیف رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں تاہم اس کے باوجود اسلام آباد اور لندن کے درمیان موجودہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی تجویز زیر غور ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر کوئی اعتراض نہیں ،انہوں نے اس آپشن کو جنرل باجوہ پر چھوڑ رکھا ہے تاہم پی ڈی ایم عمران خان کے دبائو میں قبل از وقت انتخابات کی کوئی تاریخ دینے پرتیار نہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف اور میں نے نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں ان سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ میرا خیال ہے ایک دو روز میں کوئی نہ کوئی فیصلہ ہوجائے گا۔ آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے سمری کی روایت برقرار رہے گی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف پچھلے چھ ماہ کے دوران تیسری بارلندن کے دورے پر گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلیوں پر عالمی کانفرنس میں شرکت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی لندن روانگی غیر معمولی نوعیت کی حامل ہے۔کسی کو قبل ازیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف شرم الشیخ سے لندن جائیں گے۔ میاں شہباز شریف کے پاس بہ ظاہر ملک کا اقتدار ہے لیکن پارٹی کے قائد نواز شریف ہیں جن کے پاس نہ صرف پارٹی کی قیادت ہے بلکہ ان کے مشورے کے بغیر شہباز شریف ایک قدم نہیں اٹھاتے۔ حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں نواز شریف کو ’’ویٹو‘‘ پاور حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کوئی بڑافیصلہ کرنے سے قبل لندن میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو اعتماد میں لیتے ہیں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بارہا مقررہ مدت پر اپنی ریٹائرمنٹ کا کہہ چکے ہیں۔اسلام آباد میں قومی سلامتی سے متعلق ورکشاپ میں بھی جنرل باجوہ نے نومبرکے اواخر میں ریٹائرمنٹ کا عندیہ دیا اور کہا تھا کہ وہ اپنی مدتِ ملازمت میں مزید توسیع کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔

عمران خان نے جس طرح وزیر آباد میں لانگ مارچ پر فائرنگ کے واقعے میں وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ اور حساس ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے‘اس سے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں ۔عمران کے بعض اقدامات نے بھی باہمی اعتماد کو بری طرح متاثر کیا ہے، ان کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا کیس بھی زیر سماعت ہے، اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی تحریک انصاف کی قیادت سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں اجتماع کی اجازت کے سلسلے میں حکومت سے رجوع کرے۔ حکومت عمران خان کو اسلام آباد میں داخلے پر فری ہینڈ دینے پر تیار نہیں، وہ انہیں عدالت کے سامنے بیان ِحلفی کے تحت اس بات کا پابند بنا نا چاہتی ہےکہ کمٹمنٹ کے مطابق جلسہ ختم کر کے پی ٹی آئی کے کارکن پر امن طور پر منتشر ہو جائیں گے۔لانگ مارچ میں شامل کوئی شخص ریڈ زون کا رُخ نہیں کرے گا ۔

دوسری طرف عمران خان اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں۔‘‘ ان کے خیال میں ان کے مطالبے پر فوری طورپر انتخابات نہ کروائے گئے تو انہیں مقررہ مدت پر انتخابات کرانے میں وہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائے گی جس کے حصول کے لئے وہ جدو جہد کر رہے ہیں ۔نواز شریف ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن فوری انتخابات کے حق میں نہیں لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کی خواہش پر قبل ازوقت انتخابات نہیں ہوں گے ۔عمران خان نے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو عبور کر کے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سخت کارروائی کریںگے جب کہ حکومت پاکستان نے عمران خان کی حفاظت پر ماہانہ 2کروڑ 19لاکھ روپے خرچ کیے جانے کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔عمران خان پر حملے کا ایک اور سیکورٹی الرٹ جاری ہو ا ہے، خدا خیر کرے۔

تازہ ترین