میں یہ جان کر حیرت زدہ رہ گیا کہ نیویارک میں پاکستانی قونصل خانہ کے ان ملازمین کے ساتھ جو وزارت خارجہ میں ڈیپوٹیشن پر ملازمت کر رہے ہیں، سے سوتیلے پن سے بھی آگے کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔
نیویارک اور اس کے گرد و نواح میں لاکھوں پاکستانی بستے ہیں،جن کے مسائل کے حل کی ذمہ داری کونسل خانے پر عائد ہوتی ہے مگر وہاں کے ملازمین بیچارے کسی کا کیا مسئلہ حل کریں گے جب وہ خود ہی مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ پینے کے پانی تک کی فراہمی، باقاعدہ ایک حکم نامہ کے ذریعے روک دی گئی ہے ۔
چھ ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی، پردیس نہ جانے کیسے کاٹ رہے ہوں گے۔ ہاؤس رینٹ اول تو ادا ہی نہیں کیا جارہا اور کاغذوں میں جو ہاؤس رینٹ ہے وہ بھی 2006 کی مناسبت سے طے ہے،جس میں اب نیویارک میں ایک کمرہ بھی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔
پھر طرفہ تماشہ یہ کہ مارچ سے گیس ہی نہیں ہے۔ سنٹرل ایئرکنڈیشننگ اور ہیٹنگ کا نظام بیکار ہو چکا ہے ۔ پارکنگ موجود نہیں اورقونصل خانے کا اندر کا ماحول بھی آثار قدیمہ جیسا ہوچکا ہے ۔
وزارت خارجہ کے ذمہ داران کو اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر تنخواہوں سے لے کر دیگر معاملات تک تمام مسائل فوری حل کرنا چاہیے تاکہ عملہ اپنے مسائل کو سوچنے کی بجائے دیگر پاکستانیوں کے امور پر توجہ مرکوز کرسکے۔
راقم الحروف نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی 20 ویں نیشنل کانگریس، اس کے اقدامات اور ان کے پاکستان پر اثرات پر ایک سیمینار کا انعقاد کروایا جس میں چینی قونصل جنرل، ڈپٹی قونصل جنرل، سجاد میر ، سابق ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ نذیر حسین ، ڈاکٹر قیس اسلم ، ڈاکٹر حسین پراچہ ، ڈاکٹر امجد مگسی ، ساجد خان ، ڈاکٹر وحید ، ضمیر آفاقی ، سلیم قریشی سابق صدر پاکستان انجینئرنگ کونسل ، ڈاکٹر خالد جرار ،کامران الطاف، طیب قریشی، یاسر خان سمیت مختلف افراد نے شرکت کی۔
اس موقع پرچین کے قونصل جنرل ژائو شیریں نے کہا کہ 2023پاک چائنہ تعلقات اورسی پیک کی ترقی اور تعاون کی نئی شکلوں اور قسموں کی جدید مثال قائم کرے گا .
نئے سال کو’’ پاک چین ٹور ازم اور ایکسچینج ‘‘ کے طو رپر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس ضمن میں بیجنگ کے پیلس میوزیم (palace musume)میں گندھارا آرٹ نمائش کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا ۔20ویں سی پی سی کانگرس کے پاک چین تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ،کانگرس کے اختتام پر پوری دنیا سے سب سے پہلے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کا چین کا دورہ اور صدر شی جن پنگ سے ملاقات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ چین پاکستان کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام اور عزت دیتا ہے۔ م.
لاقات کے اختتام پر پاکستانی اور چینی قیادت نے ایم ایل ون اور کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبوں پرفوری طور پر عملدرآمد کرنے پر مکمل رضا مندی کا اظہار کیا ہے ۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے چین کی طرف سے تقریباً36ارب روپے سے زائد کی امداد فراہم کی گئی ہے۔
اس موقع پر میں نے اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم آج کی دنیا میں ہمسایوں سے ایک غیرمعمولی تعلق رکھتے ہیں۔ ارد گرد کے حالات سے وطن عزیز ضرور اثر قبول کرتا ہے اور جب چین کی بات کی جائے تو یہ اثر ہمیشہ خوشگوار ہوتا ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کی حالیہ بیسویں نیشنل کانگریس نے جہاں چینی عوام کی ترجیحات کو دنیا کے سامنے بیان کیا ہے وہیں پر سیاسی حوالے سے غیر معمولی فیصلے بھی سامنے آئے ہیں ۔
چین نے کمیونسٹ انقلاب کو اپنے عظیم رہنما ماؤ زے تنگ کی قیادت میں حاصل کیا تھا، اسی وجہ سے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی تھی کہ چیئرمین ماؤ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک چینی قوم کی قیادت کرتے رہے ۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ چین نے 70 کروڑ سے زائد عوام کو خط غربت سے نکالتے ہوئے غربت کے خلاف فتح حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بی آر آئی کی صورت میں اپنی کامیابیوں کو دنیا کے ساتھ مل کر آگے بڑھانے اور مشترکہ مستقبل کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ چینی تاریخ میں انقلاب کے بعد دوسرا اہم ترین موقع ہے۔
اسی سبب سے یہ چین کیلئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ چین میں قیادت کا تسلسل قائم رہے تاکہ پالیسیوں کے تسلسل کے حوالے سے کوئی ابہام جگہ نہ پا سکے۔ جب بی آر آئی کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کے پائلٹ پروجیکٹ سی پیک کی افادیت کا ذکر ضروری ہے۔ بہت افسوس کے ساتھ یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سی پیک جس رفتار سے آگے بڑھنا چاہیے تھا بدقسمتی سے اس رفتار سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔ 2018سے درحقیقت اس کو روک دیا گیا ۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی سی پیک کا پہلا مرحلہ ہی مکمل نہیں ہو سکا اور ہم ابھی اس کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے بہت دور ہیں ۔ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ ہم ریلویز کی بحالی کے مرکزی پروگرام ایم ایل ون کے پروگرام کو ہی زیر بحث لا رہے ہیں جو کہ اب تک بہت آگے بڑھ جانا چاہیے تھا ۔ اس کے علاوہ اکنامک زونز کا اعلان تو کردیا گیا مگر ابھی تک ایک بھی اکنامک زون فعال نہیں کیا جا سکا ہے ۔
بدقسمتی سے اس تمام دیر کی وجہ پاکستان کی جانب سے کوتاہی کی پالیسی تھی۔ پاکستان کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ سی پیک کی اہمیت ہماری خارجہ و معاشی پالیسی میں کلیدی ہے۔
اسلئے سی پیک کے حوالے سے پاکستان کی ایک طے شدہ پالیسی ہونی چاہیے جیسا کہ ایٹمی توانائی اور چین سے دوستی کے حوالے سے پاکستان کی ایک طے شدہ پالیسی ہے اور پاکستان میں آئندہ جو چاہے سیاسی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں مگر اس پروجیکٹ پر آئندہ کوئی منفی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔
جہاں یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے یکسو ہو وہیں پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی سی پیک کو اپنے منشور کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ہمارا دوست ہمسایہ ملک اس حوالے سے مکمل طور پر بے فکر ہو جائے کہ پاکستان کے سیاسی حالات کیا ہیں یا کیا ہو سکتے ہیں۔