• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
سندھ میں رائے عامہ کے ایک حصے کا خیال ہے کہ اُن کے صوبے کو آبی حقوق سے محروم کرنے کے لئے مغربی پاکستان کو وَن یونٹ بنایا گیا تھا۔ مقصد تھا کہ بھارت سے مذاکرات کے عمل جس کے نتیجے میںسندھ طاس معاہدہ ہوا اُس سے صوبہ سندھ کو علیحدہ رکھا جائے۔
اگرچہ اس تصور کا کالاباغ ڈیم منصوبے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے تاہم میں نے اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا ہے تاکہ وَن یونٹ کے قیام اور سندھ طاس معاہدے کی منظوری کے بارے میں عدم اعتماد کو دور کیا جاسکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پانی کے مسائل پر بھارت کے ساتھ مذاکرات 1947ء سے 1960ء تک جاری رہے اور اِسی دوران 1955ء میں صوبہ سندھ کو وَن یونٹ میں ضم کر دیا گیا ۔ آیا ایسا سندھ کی منشا کے بغیر اور کیا بھارت کے ساتھ مذاکرات سے صوبہ سندھ کو علیحدہ رکھنے کے لئے کیا گیا تھا؟بدقسمتی سے پنجاب میں کالاباغ ڈیم کی حمایت کرنے والے وَن یونٹ کے قیام اور سندھ طاس معاہدہ جیسے معاملات پر صوبہ سندھ کی حساسیت کو سمجھ نہیں پاتے ۔سندھ میں رائے عامہ کا ایک حصہ اس بیانیہ پر یقین رکھتا ہے کہ حصول آزادی کے بعد پنجاب کے غلبہ کے زیرِ اثر پاکستانی قیادت نے پہلے تو وَن یونٹ کے قیام کے ساتھ سندھ کی سیاسی شناخت چھین لی اور بعد ازاں اس سیاسی خلا میں ایک ایسے معاہدے پر اتفاق کیا جو صوبہ سندھ کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتاتھا۔ اُن کے نزدیک (Indus Basin Replacement Works) بھی اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ سندھ پانی کے اپنے جائز حصے سے محروم ہوجائے، علاوہ ازیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبوں میں اِن ترقیاتی کاموں کی بدولت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے راہ ہموار کی جاسکے ۔ اُن کی فہم کے مطابق یہ سب کچھ سندھ کی قیمت پر کیا گیا، جس نے ان کاموں کیلئے حاصل کئے گئے قرضوں سے استفادہ تو نہیں کیا، لیکن وہ ان کی ادائیگی کیلئے مساوی طور پر ذمہ دار ٹھہرا۔اس بیانیہ کا خاکہ جوش و جذبے کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے تشکیل دیا گیا ہے ۔ محترم ایم ایچ پینہور ایک مصنف، جنہوں نے وَن یونٹ کے قیام کو پانی کے معاملات کے ساتھ منسلک کیا ہے۔اُنہوں نے فروری 2001ء میں انور پیرزادہ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں نشاندہی کی کہ ’’1954ء میں ایوب کھوڑو نے 11 پیشگی شرائط کے ساتھ وَن یونٹ کے قیام کو منظور کیا تھا۔ اوّلین شرط یہ تھی کہ ’’ پانی کی تقسیم سے متعلق 1945 ء کا معاہدہ برقرار رہے گا۔‘‘ اِس بیان کو دیکھنے پر تجسس پیدا ہوا، میں نے وَن یونٹ کے بارے میں سندھ اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود دستاویزات کا جائزہ لیا اور سندھ اسمبلی کی اس مکمل قرارداد کا مطالعہ کیا جس میں وفاق کو وَن یونٹ اسکیم اختیار کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔سرکاری ریکارڈ میں اس بات کی کہیں نشاندہی موجود نہیں ہے کہ اِس سیاسی اسکیم کو اختیارکرنے کاعمل کسی بھی لحاظ سے پانی کے معاملات کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔ مزید برآں تقریباً تمام سیاسی مؤرخین نے وَن یونٹ اسکیم کے بارے میں بہت کچھ تحریر کیا ہے مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اسے پانی کے معاملات کے ساتھ منسلک نہیں کیا۔وہ اسے صرف مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم نہ کرنے اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے اشتراک کو مشرقی پاکستان کے مساوی لانے کی سیاسی کوشش سمجھتے ہیں۔
اِسی بیانیہ میں ایک اور مفروضہ بھی موجود ہے جس کے مطابق وَن یونٹ بنانے کا مقصد پانی کی تقسیم کے معاہدے سے سندھ کی صوبائی حکومت کو علیحدہ کرناتھا ۔ اس مفروضے کا جائزہ لینے سے پہلے سندھ طاس معاہدے کے پس منظر کا اجمالی تذکرہ کیا جائے ۔ مئی 1948 ء میں رونما ہونے والے آبی تنازع کو حل کرنے کیلئے دو ممکنہ طریقے تھے۔
(الف)بھارت کے ساتھ مل کر سندھ طاس کا مشترکہ انتظام و انصرام کیا جائے۔( ب)دونوں ملکوں کے درمیان دریائوں کی مستقل طور پر تقسیم کی جائے۔
مذکورہ بالادونوں صورتوں میں شمال کے بالائی علاقوں میں بہنے والے دریائوں کے پانی کو جنوب کے زیریں علاقوں میں بہنے والے دریائوں میں منتقل کرنے کی ضرورت تھی۔
امریکہ اور یورپی اقوام اِس تنازع کے پر امن اور مستقل حل کے خواہش مند تھے۔ عالمی بنک نے اس معاملے میں مداخلت کی اور سندھ طاس کے انتظام و انصرام کیلئے دونوں ملکوں کے مشترکہ نظام کی حمایت کی۔ڈیوڈ للی اینتھل کو اس مقصد کیلئے بھیجا گیا۔ للی اینتھل انتہائی قابل انسان تھے۔ انہوں نے ٹینسی ویلی اتھارٹی کے معاملات کو نہایت مہارت کے ساتھ چلایا تھا۔انہیں سندھ طاس کے انتظام کیلئے ممکنہ حل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ للی اینتھل بھارت اور پاکستان آئے ، لیاقت علی خان اور جواہرلال نہروسے ملاقات کی اورامریکہ واپس جا کر اُنہوں نے Collier`s Magazineکے اگست 1951 ء کے شمارے میں ’’ایک اور کوریا بننے کو ہے‘‘ کے عنوان سے مضمون تحریر کیا۔ ٹینسی ویلی اتھارٹی میں اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ سندھ طاس کے دریائوں کا انتظام بھارت اور پاکستان مشترکہ طور پر کرسکتے ہیں۔ نہری نظام اور بیراجوں کے خطِ تقسیم کو دیکھنے کے بعد ان کی رائے تھی کہ ’’کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ برصغیرکی تقسیم میں پنجاب کیلئے زندگی کا درجہ رکھنے والے پانی کے معاملات میں اس قدر بے دردی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا ہے۔‘‘اگر ہم اس غیرجانبدار مُبصر کی ذیل میں دی گئی رائے کا بغور مطالعہ کریں تو یہ آبی تنازع ہماری سوچ میں موجود ابہام کی وضاحت ہوجائے گی۔ انہوں نے تحریر کیا کہ ’’ تقسیم سے ہندوستان کو، تقریباً نہ ہونے کے برابر نہریں اور نظامِ آبپاشی سے سیراب اراضی ملی۔سندھ طاس میں 2 کروڑ 20 لاکھ ایکڑ آبپاش زمین میں سے پاکستان کے پاس ایک کروڑ 80 لاکھ ایکڑ اراضی موجود ہے، جبکہ بھارت کے پاس تقریباً 50لاکھ ایکڑ آبپاش اراضی ہے۔ بھارت کے حصے میں 2 کروڑ لوگ آباد ہیں جبکہ پاکستان کے حصے میں آنے والے سندھ طاس کے علاقوںمیں کم و بیش 2 کروڑ 20 لاکھ لوگ آباد ہیں۔ سندھ طاس کے بھارتی حصے میں 3کروڑ 50 لاکھ ایکڑ مزید اراضی واقع ہے۔ اگر اس اراضی کو سیراب کیا جائے تو غذائی پیداوار بڑھ سکتی ہے۔ چنانچہ بھارت نہروں، ہیڈورکس اور ڈیموں کی تعمیر پر پوری رفتار سے پیش رفت کر رہا ہے تاکہ مذکورہ اراضی کو سیراب کرنے کیلئے بالائی جانب سے پانی کے بہائو کو تبدیل کیا جاسکے۔‘‘
پاکستان کے ردّعمل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کے مذکورہ عمل سے وہ اس پانی سے محروم ہوجائے گا جس پر اُس کا قانونی اور اخلاقی حق بنتا ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ یہ اُس کا پانی ہے، اُس کے ڈیم ہیں اور اُس کے باشندوں کو بھی خوراک چاہئے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ چنانچہ اس وجہ سے ایک تلخ تنازع نے جنم لیا۔‘‘ اُنہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’یہ خالصتاً بارود ہے۔ اس آتش گیر مواد کی موجودگی میں برصغیر پاک و ہند میں امن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر پانی پر جلد کوئی بہتر حل سامنے نہ آیا، امن قائم نہیں ہوگا چاہے کشمیر میں استصوابِ رائے ہی کیوں نہ کرا دیا جائے‘‘۔
اُنہوں نے درج ذیل الفاظ میں ممکنہ حل تجویز کیا’’ دریائے سندھ کے پورے نظام کو ایک مربوط اکائی کے طور پر ترقی دی جانی چاہئےاور امریکہ میں سات ریاستوں کے مابین تشکیل پانے والے ٹینسی ویلی اتھارٹی سسٹم کی مانند اِسے ایک یونٹ کے طور پر ہی ڈیزائن اور تعمیر کیا جانا چاہئے۔‘‘
یہ بات عیاں ہے کہ 1951 ء میں سندھ طاس کو مشترکہ طور پر ترقی دینے اور اس کے انتظام و انصرام کیلئے بھارت کے ساتھ تعاون ایک موہوم اور ناقابلِ قبول تجویز تھی۔ تو پھر متبادل کیا تھا؟ بظاہر یہ ڈرامائی بات دکھائی دیتی ہے لیکن پانی کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ مسئلہ کشمیر سے بھی زیادہ تھا۔ اِسی لئے دونوں ملکوں پراس معاملے کو طے کرنے کیلئے بے انتہا دبائو تھا۔بھارت اور پاکستان کی جانب سے سندھ طاس کے مشترکہ انتظام کی بابت دستیاب آپشن کے بارے میں مجید اختر نے 2013 ء میں ’’The Geopolitics of Infrastructure:Development, Expertise and Nation on the Indus River ‘‘ کے عنوان سے اپنےپی ایچ ڈی مقالہ میں تحریر کیا ہےکہ ’’ 1954 ء میںللی اینتھل کی جانب سے پیش کئے گئے سندھ طاس کے مشترکہ نظام کا تصور رسمی طور پر ترک کر دیا گیا تھا، اور تمام فریقین نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ سندھ طاس کے دریائوں کا بٹوارہ ہونا چاہئے جس کے تحت مغربی دریا پاکستان جبکہ مشرقی دریا بھارت کو دے دیئے جائیں۔ پاکستان نے اس بات پر اصرار کیا کہ یہ بٹوارہ دریائی پانی کی منتقلی کے بڑے منصوبوں کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔
وَن یونٹ اور سندھ طاس معاہدے کے پس منظر کو اس لئے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جاسکے کہ مذکورہ دونوں عوامل سندھ کو اس کے پانی کے حصے سے محروم کرنے کیلئے پنجاب کی جانب سے کی گئی کسی سازش کا حصہ تھے۔
تازہ ترین