رمضان المبارک عبادت، رحمت اور مغفرت کا مہینہ ہے، اس کی چند عبادتیں مخصوص ہیں جیسے روزہ، تراویح، اعتکاف، فدیہ، فطرہ اور زکوۃ کی ادائیگی، زکوۃ ہر اس مسلم، بالغ، عاقل مرد یا خاتون پر عائد ہوجاتی ہے جس کی انفرادی ملکیت میں ایسے اثاثے رہے ہوں جن پر زکوۃ واجب ہے اور ان کی مجموعی مالیت اس نصاب کی رقم کے مساوی ہو، جس پر اس سال مقرر ہوتی ہو، حکومت پاکستان ہر سال زکوۃ کے نصاب کا اعلان کرتی ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی رائج الوقت قیمت کے مساوی ہوتاہے، چونکہ چاندی کا نرخ بدلتا رہتا ہے اسی طرح نصاب کی مالیت ہر سال مختلف ہوتی ہے، نصاب ہر ملک کے اپنے سکے کے لحاظ سے مقرر کیا جاتا ہے، زکوۃ کی ادائیگی قمری یا ہجری سال کے لحاظ سے کی جاتی ہے، پاکستان میں نظام زکوۃ دوعملی ہے، بینکوں، مالیاتی اداروں، مالی دستاویزات وغیرہ پر یکم رمضان کو زکوۃ منہا کرلی جاتی ہے، زرنقد، زیورات پر زکوۃ صاحب نصاب کو خود ادا کرنا ہوتی ہے، ترجیحاً رمضان میں ادا کی جاتی ہے گو زکوۃ دینا فریضہ ہے مگر یہ ملک کی معیشت میں بھی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
عموماً عوام پریشان ہوتے ہیں کہ کن کن چیزوں پر زکوۃ ہے، ذیل کی چیزیں زکوۃ سے مستثنی ہیں رہائش کا ذاتی مکان، بنگلہ، اپارٹمنٹ، فلیٹ وغیرہ، ذاتی سواری موٹر، اسکوٹر، سائیکل، بگھی، تانگہ گاڑی وغیرہ، ذاتی اسلحہ، ذاتی کتابیں، پالتو بھینس، گائے، بکری یا مرغیاں، اگر مکان کا کوئی حصہ یا کمرہ وغیرہ کرائے پر ہوتو اس کے کرائے پر زکوۃ واجب ہوگی، اسی طرح سواری بطور ٹیکسی استعمال ہوتی ہے تو اس کی آمدنی پر زکوۃ دینا ہوگی۔
جائز اغراض کے لیا ہوا قرضہ زکوۃ کی رقم سے منہا کیا جاسکتا ہے اگر قرض کی رقم بڑی ہے تو صرف قسط منہا ہوگی جو سالانہ ادا کی جاتی ہے، بینکوں اور کمپنیوں کے حصص کی صورت میں ان کی وہ قیمت لگائی جائے گی جو اس وقت اسٹاک مارکیٹ میں ہے، ایک کمپنی کے حصے کی ابتدائی قیمت دس روپے ہے مگر بازار میں اس کی قیمت 104روپے کوٹ ہو رہی ہے، گویہ بڑی غیر معمولی صورت ہے مگر اس کے حصوں کی مالیت 104روپے کے حساب سے لگائی جائے گی بطور حصہ دار عرض ہے کہ پی آئی اے جب نیشلائز ہوا تو اس کے حصے کی قیمت گر کر تین روپے پر آگئی اور ایک زمانے میں وہ اسٹاک مارکیٹ میں کوٹ ہونا بھی بند ہوگیا اس نے آج تک پھر کوئی منافع نہیں دیا گو گزشتہ سال سے وہ پھر فہرست میں نظر آنے لگا ہے اور آج کل اس کے حصے کی قیمت 770 روپے کے لگ بھگ لگ رہی ہے راقم کے خیال میں فی الحال اس کو نظر انداز کردیا جائے یا حصوں کی ابتدائی رقم کو زکوۃ کی رقم میں شامل کرلیا جائے۔
اگر کسی نے بیٹی کی شادی یا بیٹے کی بیرون ملک تعلیم کیلئے کوئی فنڈ مخصوص کیا ہے اور وہ ماہانہ یا سہ ماہی رقم جمع کرنے کے علاوہ اس سے کوئی ا ستفادہ نہیں کرتا تو اس پر زکوۃ واجب نہیں۔ اس سال حکومت نے نصاب (زکوۃ کی کم سے کم رقم)35,557 روپے مقرر کی ہے، عائد شدہ زکوۃ کی بڑی رقموں کی صورت میں رقم چند اداروں میں تقسیم کی جاسکتی ہے، آج کل زکوۃ کینسر، کڈنی، تپ دق، آنکھوں کے اسپتالوں اور سینٹروں، دینی مدارس، فلاحی اداروں، بیوائوں کو دی جاتی ہے، کسی مہلک مرض میں مبتلا مریض، غریب ہونہار طالب علم، جہیز کی منتظر لڑکی کو بھی زکوۃ دی جاسکتی، کمپنیوں نے غذائی اشیاء کے مختلف مالیت کے پیکٹس تیار کئے ہیں، دینی اداروں نے تعلیم اور شادی کیلئے زکوۃ سیکشن بنا رکھے ہیں، اپنے اعزا کو بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے مگر ماں، باپ، دادا، دادی، اولاد اور پوتا، پوتی کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی کیونکہ ان کی تو کفالت صاحب نصاب پر فرض ہے اور نہ سادات کو زکوۃ دی جاسکتی ہے، بھائی، بہن اگر الگ رہتے ہیں اور نادار ہیں تو ان کی زکوۃ کی رقم سے مالی مدد کی جاسکتی ہے، مسجد کی تعمیر یا مرمت کیلئے، مردے کی تجہیز و تکفین کیلئے بھی زکوۃ نہیں دی جاسکتی، خادموں اور ملازمین کو ان کی خدمات کے عوض زکوۃ نہیں دی جاسکتی، یہ چند باتیں بطور یاد دہانی عرض کردی ہیں۔
روزے دار پر روزے کا احترام بھی لازمی ہے، جھوٹ، گالم گلوج، مار پیٹ سے بچنا چاہئے، پان، تمباکو کھانے والے، بیڑی، سگریٹ پینے والے، نسوارچبانے والوں کو روزے میں جمائیاں آتی ہیں اور نیند کی کمی سے اونگھ بلکہ جھپکی بھی لگ جاتی ہے، دفتروں میں اس کا مظاہرہ عام ہے، رمضان میں ہر شخص کو گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے موٹر ڈرائیور اور اسکوٹر نشین پھرتی دکھانے کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں اور معمولی سی کسی بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں،انہیں تیز رفتاری سے اجتناب کرنا چاہئے اور ٹریفک کو جام نہ ہونے دینا چاہئے اور معمولی غلطی کو نظرانداز کردینا چاہئے، بازار کی افطاری پر گھر کی افطاری اور رنگین بوتلوں کے مشروبات سے نظریں بچناچاہئے اور سب سے بڑھ کر خوش خوراکی سے اجتناب کرنا چاہئے۔اللہ تعالی ہمیں دینی اور دنیوی فرائض صدق دل سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، وزیراعظم اور دوسرے مریضوں کو جلدازجلد شفا عطا فرمائے۔