(گزشتہ سے پیوستہ )
بیگم آئی سی یو میں ، میں بتا رہا تھا،میری روٹین یہ ہوتی،صبح ،اُٹھتا ،فجر کی نماز پڑھتا، ایک روٹی پکواتا، انڈے کا آملیٹ بنواتا، آملیٹ کو روٹی پر لٹاتا، روٹی کا رول بناتا، اسے ٹشو پیپر ز میں لپیٹتا ،رول جیب میں ڈالتا ،آئی سی یو پہنچ جاتا، ساراد ن کبھی ڈاکٹروں سے لمبی لمبی ڈسکشن توکبھی مشینوں ،تاروں میں گھری بیگم کا ہاتھ پکڑ کر باتیں ، اسے کہنا، ہوش میں آؤ، ہم تیرے بنا اداس ، اسے کہنا،جلدی گھر آجاؤ،تیرے بنا گھر ویران، مجھے پتا بیگم وینٹی لیٹر پر، وہ بے ہوش بلکہ کوما میں ، اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا پھر بھی اسے دن بھر کی کارروائی سنا کر گھر آتا، گھر سے جاکرگھر کی ساری رام کہانی سناتا، ویسے تو آئی سی یو
میں کھانے ،پینے کو بالکل دل نہ کرتا، لیکن جب ہمت جواب دے جاتی ،بس ہوجاتی،بھوک سے چکر آنے لگتے ،تب آئی سی یو سے باہر نکلتا ،چائے کا کپ منگواتا ،جیب سے روٹی ،آملیٹ کا رول نکالتا ، کھڑے کھڑے جیسے تیسے دوچار لقمے حلق سے اتارتا ،بقیہ رول جیب میں ڈالتا، بیگم کے پاس آجاتا، ویسے تو آئی سی یو میں گزرتا ہر لمحہ ہی کٹھن مگر جان لیوا وہ لمحے ہوتے جب میں رات واپس گھر آتا، ایک تو بیگم کو آئی سی یو میں چھوڑ کر اکیلے گھر آنا قیامت ،اوپر سے اپنے دونوں بچوں کے سامنے خوش دکھائی دینے کی اداکاری کرنا قیامت سے بڑھ کر قیامت ، گھر داخل ہوتا، انتظارکرتے دونوں بچے آجاتے ، ہمیںماما کے پاس لے چلو، میں انہیں سمجھاتا ،بیٹا کورونا پھیلا ہوا، ماما اسپیشل وارڈ میں ، ڈاکٹروں نے بچوں کو وہاں آنے سے منع کر رکھا، بچے کہتے، اچھا آپ ماما سے ہماری بات کروائیں، میں کہتا، بیٹا ڈاکٹروں نے انہیں ٹیلی فون پر بات کرنے سے منع کر رکھا ، بچے کہتے، اچھا ماما کی کوئی تصویر دکھادیں ، ان کی صحت کیسی ، ہم یہ دیکھنا چاہ
رہے ،میں ان سے وعدہ کرتا، کل تصویر کھینچ کر لاؤں گا، یوں اگلے دن تک ان سے جان چھڑوالیتا۔
بیگم آئی سی یو میں ،دنیا بھر میں اس کیلئے دعا ئیں ہورہیں، اس کی قرآن اسٹوڈنٹس دنیا بھرمیں ، بیگم نامور مذہبی اسکالر ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی شاگرد، ان سے قرآن پڑھا، سیکھا، اب پچھلے کئی سالوں سے خود قرآن پڑھا،سکھا رہی ، راولپنڈی اسلام آباد میں اسکی دورہ قرآن کی روزانہ کئی کلاسیں ہوتیں ، آن لائن کلاسیں الگ، کہیں قرآن پڑھانا، کہیں قرآن ترجمے ،تفسیر سے سکھانا، وہ اسٹریٹ بچوں مطلب غریب بچوں کا ایک اسکول بھی چلا رہی ،مفت تعلیم کیساتھ کتابیں ،یونیفارم بھی مفت، وہ جدید تعلیم والے ایک مدرسے کی بھی نگرانی کررہی ،وہ جس جس علاقے میں مسجد نہ ہوتی ، وہاں وہاں مسجد بنانے میں لگی ہوئی ، سینکڑوں غریبوں کو ماہانہ راشن ،بیسیوں سفیدپوشوں کی مدد ،بیماروں کا علاج، غرب بچیوں کی شادیاں، یہ تومیرے علم میں ، وہ نجانے اسکے علاوہ کیا کیا کررہی، اس کی قرآن اسٹوڈنٹس ،اسکے اسکول ،مدرسے کے بچے اور نجانے کون کون دعائیں مانگ رہے ، نجانے کون کون صدقے دے رہا ،بیگم اللہ کو ماننے والی اور اللہ کی ماننے والی ، 24گھنٹے اللہ ،رسول ؐ ،قرآن ،میرا اللہ ،رسول ؐ ، قرآن سے شعوری تعارف بیگم نے کروایا، شعوری مذہب بیگم نے سکھایا، پانچ وقتی نمازی بیگم نے بنایا، شادی کے شروع کے دنوں میں ،میں ایک کمرے میں فلمیں دیکھ رہا ہوتا، گانے سن رہا ہوتا، وہ لاؤنج میں نمازیں پڑھ رہی ہوتی، قرآن کی تفسیر سمجھ رہی ہوتی، کبھی برا نہ مناتی، مجھ پرزبردستی مذہب تھوپنے کی کوشش نہ کرتی ، میں آہستہ آہستہ اسکے عمل سے متاثر ہوتا گیا، اللہ ،رسول ؐ ،قرآن کے قریب ہوتاگیا، بیگم کومیری صحافت، سیاست ،حکومت کسی چیز سے رتی بھر بھی دلچسپی نہیں ، اسے کچھ پتا نہ ہوتا میڈیا میں کیا ہورہا، حکومت کیا کررہی، بیمار ہونے سے مہینہ بھر پہلے ایسے ہی ایک دن میں نے پوچھ لیا ،ہمارے صدر کا کیا نام، کافی دیر سوچتی رہی،نام نہ بتا سکی ،میں نے کہا،اچھا بتاؤ ،ہمارے وزیر خزانہ کا کیا نام، بولی،شوکت عزیز، میں نے کہا محترمہ۔۔ مشرف دور گزرگیا، اب عمران خان کی حکومت ،شوکت عزیز کو اب بخش دو۔
وہ میڈیا سے دور رہتی ،بیسیوں بارمختلف ٹی وی چینلز نے عید شو،فیملی پروگراموں میں بلایا، ہر دفعہ انکار، مجھے اجازت نہ تھی کہ میں بچوں کی تصویر ٹوئیٹر،فیس بک کہیں بھی لگاؤں یا بچوں کو میڈیا پر لاؤں، میرے میڈیا میں ہونے پر اسے صرف دو مرتبہ خوشی ہوئی،ایک بار جب میں خانہ کعبہ کے امام شیخ عبدالرحمن ا سدیس سے ملا، دوسری بار جب میں مکہ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملا، اس کے علاوہ اسے ککھ پتا نہ ہوتا میں کس پروگرام میں، کیا کررہا،کیا کہہ رہا، میں نے 22سالوں میں کبھی نہیں دیکھا کہ بیگم نے کوئی دعا مانگی ہو اور وہ قبول نہ ہوئی ہو، اس نے زندگی بھر مجھ سے کبھی کسی چیز کی فرمائش نہ کی، سوائے ایک فرمائش کہ عمرہ کراد و، ہم دونوں نے 3حج اور بے شمار عمر ے کئے ،عمرے ،حج پر اسکی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی، بمشکل دوچار گھنٹے سونے یاکچھ کھانے کیلئے حرم سے باہر آنا ورنہ ہر وقت حرم میں ، یہ چھوڑیں ،ہم کسی ملک جاتے ، جائے نماز اس کے بیگ میں ہوتا ، جہاں کہیں چند لمحے مل جاتے فوراً دونفل پڑھ لیتی ، میں پوچھتا یہ کیوں، کہتی قیامت والے دن یہ زمین گواہی دے گی کہ میں نے سجدہ کیا، ہم گھوم رہے ہوتے، اچانک آواز آتی ،ارشاد اونچی آواز میں کلمہ پڑھو، میں پوچھتا، کیوں ،کہتی قیامت والے دن یہ درخت ،یہ پہاڑ ،یہ جھیلیں تمہاری گواہی دیں گے تم نے کلمہ پڑھا۔
بیگم آئی سی یو ،چار دن گزر گئے ،پانچواں دن، دوپہر کا وقت ،آئی سی یو انچارج ڈاکٹر آیا، بیگم کا معائنہ کیا، بلڈ پریشر ،دل کی دھڑکنوں ،آکسیجن بتاتی ٹی وی اسکرینوں پر نظر ماری، سب رپورٹیں دیکھیں ، ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹروں ، نرسوں سے سوال جواب کئے ،میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا ،سلام دعا ،چند رسمی جملوں کے بعد بولا، میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک چانس لینا چاہئے، آج ہمیں وینٹی لیٹر اتارنا چاہئے، لیکن آپ کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کامیابی کے چانسز ففٹی ففٹی، ہوسکتا ہے وینٹی لیٹر اتارنے کے بعد آپکی اہلیہ ہوش میں آجائیں ،پہچاننا ،بات کرنا شروع کردیں ،لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے ان کی کنڈیشن خراب ہوجائے اور ہمیں دوبارہ وینٹی لیٹر لگانا پڑجائے، اور یہ بھی بتا دوں ،دوبارہ وینٹی لیٹر لگاتے ہوئے رسک لیول بڑھ جاتا ہے، یہ کہہ کر ڈاکٹر چند لمحے خاموش رہ کر دوبارہ بولا، آپ کیا کہتے ہو، میں نے جواب دیا، ڈاکٹر صاحب جو آپ بہتر سمجھتے ہیں کریں ، ڈاکٹر بولا، اوکے ایک چانس لیتے ہیں ، ایک گھنٹے بعد وینٹی لیٹر اتارتے ہیں، یہ کہہ کر ڈاکٹر اُٹھا،آئی سی یو سے نکلا ، میں نے وضو کیا، دونفل پڑھے، دعائیں مانگنا شروع کر دیں ، ایک گھنٹہ گزرا، ڈاکٹر اپنی ٹیم کے ہمراہ آیا ،سب بیگم کے اِردگرد کھڑ ے ہوئے، میں نے بھیگی آنکھوں سے آئی سی یو کھڑکی سے باہر آسمان کی طر ف دیکھا، بے اختیار منہ سے نکلا، اللّٰہ رحم ،کرم ،فضل (جاری ہے )