• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستان میں سب سے بڑی اور اہم خبر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو سمجھا جارہاہے۔ایک عام ریڑھی بان بھی یہی سوال کرتا نظر آتا ہے کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ اسی تعیناتی کو لے کر گزشتہ دو ماہ سے ملک میں معاشی جمود کی کیفیت ہے۔تمام بڑے ،چھوٹے کاروباری حضرات عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔کسی بھی ملک کی معاشی ترقی سیاسی استحکام سے جڑی ہوتی ہے۔جب تک سیاسی استحکام نہ ہو کسی بھی ملک کی معیشت ترقی نہیں کرسکتی۔ آرمی چیف کی تعیناتی کبھی اتنی زیر بحث نہیں آئی،جتنی اس مرتبہ آئی ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اس کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے اداروںمیں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس آئینی عمل کو متنازعہ بنانے میں عمران خان کا کردار کچھ اچھا نہیں رہا مگر آج اداروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ انہوں نے کیسے ایک شخص کی خاطر ملک کے سب سے غیر متنازعہ ادارے کو سیاست میں دھکیلا ہوا تھا؟گزشتہ کئی سالوں سے سیاسی انجینئرنگ عروج پر رہی۔حتی کہ ادارے کے اپنے اند ر کچھ افراد نے اپنی روایات کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔کورس کے ٹاپر کو اسی پوسٹ کو اپ گریڈ کرکے چارج دے دیا گیا،تاکہ وہ نومبر سے ایک ماہ پہلے ہی ریٹائر ہوجائیں،جب کہ کورس میں 178نمبر پر موجود افسر نے خود کو دوڑ میں رکھنے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔اسی طرح جس افسر نے 5دسمبر کو چارج لیا ،اس کی تاریخ تبدیل کرکے ایک ماہ پہلے کردی گئی مگر جب اس افسر نے بھرپور احتجاج کیا تومیرٹ پر تاریخ درست کرنے کے بجائے درمیانی راستہ نکال لیا گیا اور 27نومبر کی تاریخ کردی گئی۔یہ سب باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔گزشتہ چار سالوں کی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں مگر مناسب نہیں سمجھتاکہ ان گوشوں کی نشاندہی کروں۔آج اگر آرمی چیف کی تعیناتی ہر جگہ موضوع بحث ہے تو اس میں سب سے بڑا قصور ادارے کا اپنا ہے کہ اس نے گزشتہ چند سالوں میں خود کو اتنا سیاسی کردیا تھا کہ ہر معاملے میں ادارے کا نام آتا تھا۔ملک میں کچھ بھی ہورہا تھا عام آدمی یہی سمجھتا تھا کہ ادارہ اس کے پیچھے ہے۔عین ممکن ہے کہ بہت سے معاملات میں فوج نے بحیثیت ادارہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت نہ کی ہو مگر چند افسران کی جانب سے عمران خان حکومت کا آلہ کار بننے کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔پاک فوج پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔دنیا کی بہترین افواج میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس ادارے کے سربراہ کو غیر متنازعہ رہنے دیں۔

فوج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک قومی ادارہ ہے اور قومی ادارے کے حوالے سے قوم کی اکثریت کا متفق ہونا اشد ضروری ہوتا ہے۔اس بات کا تعین پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں کرتی ہیں کہ قومی ادارے کی کیا پالیسی ہونی چاہئے،کیونکہ یہی جماعتیں قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے پارلیمنٹ تک پہنچتی ہیں۔آج پارلیمنٹ میں موجود اکثریتی جماعتیں ایک پیچ پر ہیں۔جبکہ جس جماعت کے پیچھے ادارے نے اپنی ساکھ داؤ پرلگائی ہے ،وہی عمران خان ادارے کو سب سے زیادہ متنازعہ کرنے کی کوشش میں ہے۔آج ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سیاست اور اپنے بیانیے کا جس طرح مرضی استعمال کریں مگر خدارا اس ایک ادارے کو چھوڑ دیں۔اپنی سیاسی چپقلش میں ادارے کو بیچ میں نہ لے کرآئیں۔ادارے کا بھی فرض ہے کہ جس طرح آج خود کو نیوٹرل کیا ہے او ر سیاسی معاملات سے دور کیا ہے۔اس پر قائم رہیں۔ میں بحیثیت پاکستانی یہ سمجھتا ہوں کہ جب ادارہ تنقید کی زد میں ہوتا ہے تو دراصل وطن عزیز کی سالمیت خطرے میں ہوتی ہے۔ آج پاکستان کو معاشی و سفارتی حوالوں سے مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

جب عمران خان نے حکومت چھوڑی تو پاکستان معاشی و سفارتی لحاظ سے تنہا کھڑا نظر آتا تھا۔شہباز شریف اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت سے دیوالیہ ہونے کاخطرہ ٹل گیا۔سفارتی محاذ پر جمی برف کو پگھلانے میں شہباز شریف نے بہت محنت کی ہے۔ شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین نے پاکستان کو دوبارہ ٹریک پر چڑھا دیا ہے۔گزشتہ رات ایک سینئر سفارتکار بتارہے تھے کہ شہباز شریف بیرون ملک دوروں کے دوران پاکستان کے وزیراعظم سے زیادہ ملک کے سفیر لگ رہے ہوتے ہیں۔ایک ایک ملک کے سربراہ مملکت سے مل کر پاکستان کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کرتے ہیں۔کسی ایک جگہ سکون سے نہیں بیٹھے بلکہ معاشی مسائل کے حوالے سے انتہائی بے چین دکھائی دیتے ہیں۔آج اداروں کی ذمہ داری ہے کہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایسے شخص کو مضبوط کریں ،جس نے نامساعد حالات کے باجود آپکا وزن اٹھایا ہے۔اپنی چالیس سال کی مضبوط سیاسی ساکھ کو داؤپرلگادیا ۔ایک ایسے چیلنج کو قبول کیا ،جو کسی بھی مقبول جماعت کا سربراہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھامگر اس نے اپنے دن کا آغاز صبح چھ بجے اور اختتام رات بارہ بجے کرنا شروع کردیا۔آج اگر اس کی محنت کے ثمرات آنا شروع ہوگئے ہیں تواسے مزید مضبوط کریں۔

تازہ ترین