• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ناچیز کا ذکر…

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک شمارے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا متبرّک صفحہ موجود تھا، ایک میں نہیں۔ البتہ دونوں ہی شمارے ’’جشنِ آزادی اسپیشل‘‘ لگے، کیوں کہ اُن میں بیش تر مضامن مثلاً ’’ہجرت کہانیاں‘‘، ’’تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت‘‘، ’’عطائے ربّ کریم پرچم‘‘، ’’اگست سے اگست تک‘‘، ’’پاکستان ہمارے عمل کا منتظر‘‘، ’’پاکستان ایک مقصد‘‘، ’’تعبیرِ خواب‘‘، ’’ہجرت کا کرب سہنے والوں کی داستانِ غم اور ’’آہ، وہ ہجرت کی صعوبتیں‘‘ سب ہی یومِ آزادی سے متعلقہ تھے۔ پھر ’’پاکستان کے75سال، نشیب و فراز، سُود و زیاں کی اِک عجب داستان‘‘ کے عنوان سے ایک لاجواب سروے بھی کیا گیا۔ ’’دل کو چِین کا ہے سفر درپیش‘‘ ایک انتہائی، شان دار سفرنامہ ہے۔ ’’بَڈی ماموں‘‘ کی دو آخری اقساط بھی لاجواب تھیں۔ آل رائونڈر، خوش بخت شجاعت سے طویل گفتگو بےحد پسند آئی۔ کافی عرصے بعد اُنہیں دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ ’’کوئی ایک وزیراعظم بھی آئینی مدّت پوری نہیں کرسکا۔‘‘ شفق رفیع نے بڑی محنت سے یہ رپورٹ تیار کی اور ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاہا نے اپنے خط میں مجھ ناچیز کا ذکر فرمایا، بےحد شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: یہ جو آپ ’’ناچیز کے ذکر‘‘ پر بےحد شکریہ ادا کرتے ہیں، دراصل یہی عمل اگلی بار کسی اور کو اپنے خط میں آپ کے ذکر کی تحریک دیتا ہے۔

75سال کا احوال

اس بار سرِورق پر ماڈلز تمام صوبوں اور کشمیر کے علاقائی ملبوسات کا آہنگ لیے بہت ہی پیارے لگے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت مجدّد الف ثانی کی دینی خدمات اور روحانی زندگی پر محمّد احمد غزالی نے نہایت عُمدگی سے روشنی ڈالی۔ ہجرت کے کرب ناک، رُوح فرسا واقعات کی شفق رفیع نے شان دار منظرکشی کی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں نادیہ ناز غوری اور روبینہ فرید کی ’’یومِ پاکستان‘‘ سے متعلق تحریریں فکر انگیز تھیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فرّخ شہزاد ملک نےصوبہ بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں کی تفصیل گوش گزار کی۔ ’’سروے‘‘ میں رئوف ظفر نے پاکستان کے75سال کا احوال بیان کر ڈالا۔ ’’سب کے لیے سب کچھ ہے اِس میں، یہ ہے پاکستان....‘‘ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریر اور پُراثر دُعائیہ کلمات کا تو کوئی مول ہی نہ تھا۔ منور مرزا نے ایک شان دار تجزیاتی رپورٹ ہماری نذر کی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سلمیٰ اعوان نے چین کے چائے خانوں اور لاہوریوں کی طرح کبوتر بازی کے شوقین چینیوں سے ملاقات کروائی۔ عرفان جاوید کے سیلانی مزاج ’’بَڈی ماموں‘‘ کے حالاتِ زندگی کے تو کیا ہی کہنے۔ قانتہ رابعہ نے ایک بہترین افسانہ ہمارے نام کیا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ پر اختر سعیدی کا تبصرہ پسند آیا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہر طرح کے تنقیدی و توصیفی تبصروں پر آپ کے ٹو دی پوائنٹ جوابات تو گویا جریدے کی جان ہیں۔ (مبارک علی ثاقب، راول پنڈی)

لفظ لفظ حُسن و دل کشی کا استعارہ

خداوندِ تعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ پاکستان کی پلاٹینیم جوبلی کے حوالے سے مرتّب کردہ آپ کے اسپیشل ایڈیشن کا جواب نہ تھا۔ میری طرف سے مبارک باد قبول فرمائیں۔ ویسے مَیں آج 28 اگست کے جریدے پر تبصرہ کروں گی۔ سب سے پہلے تو ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کا ’’مکّہ مکرّمہ‘‘ سے متعلق نیا سلسلہ شروع کرنے پر آپ کی بےحد ممنون ہوں۔ مضمون کیا ہے، معلومات کا خزانہ ہے اور پھر لفظ لفظ حُسن و دل کشی کا استعارہ بھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کاتجزیاتی مضمون بروقت اوربےمثال تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں وحید زہیر نے ’’سیلاب زدگان اور حکومتی بےحسی‘‘ پرخُوب لکھا۔ انٹرویو میں رئوف ظفر، معروف خطّاط عرفان احمد خان سے بات چیت کرتے نظر آئے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دونوں مضامین معلومات سے بھرپور تھے۔ ویسے ڈاکٹر یاسمین شیخ کا تو ہر مضمون ہی لاجواب ہوتا ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سلمیٰ اعوان ’’دل کو چِین کا ہے سفر درپیش‘‘ کے تحت ہمیں ایک نئی ہی دنیا سے متعارف کرواگئیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹر شفق اختر سے متعلق پڑھ کر اچھا معلوم ہوا۔ اختر سعیدی نے ممتاز شاعر، معتبر صحافی خالد علیگ کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔ عرفان جاوید بھی کیا کمال آدمی ہیں۔ کہاں کہاں کے آدمیوں سے ملاقات نہیں کروادی اور اندازِ تحریر تو اپنی مثال آپ ہے۔ ڈائجسٹ میں جویریہ شاہ رُخ نے اچھوتے موضوع پر قلم آرائی کی۔ عشرت اعجاز کا ’’کچھ زیادہ پرانی بات نہیں‘‘ پڑھ کر بھی لُطف آگیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ہمایوں ظفر کے مرتّب کردہ واقعات سبق آموز ہوتے ہیں۔ محمود شام سے منسوب ابنِ آس کا واقعہ تو دل میں اُتر گیا۔ اور اب آتے ہیں اپنے صفحے کی طرف۔ تمام خطوط ہی دل میں اُترتےمحسوس ہوتےہیں۔ نازلی فیصل، لاہور سے، اسماء خان، بلوچستان سے آتی ہیں، دونوں نے میرے خطوط کا ذکر کیا، اچھابلکہ بہت ہی اچھا لگا۔ نرجس ملک کا آپ کا بےحد شُکریہ، جو ہم سب کو ’’قلمی دوستی‘‘ کے رشتے میں باندھ دیا ہے۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: جی ہاں، فی زمانہ اس دوستی کو ’’ایک نعمتِ غیر مترقبہ‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔

دردمندانہ گزارش

طوفانی بارشوں، سیلاب نے سب تتّربتّر کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسے ایسے مناظ دیکھے کہ حقیقی معنوں میں دل خون کے آنسو رویا۔ یہاں جھڈو میں تو ہم تین ہفتے ’’سنڈے میگزین‘‘ کے دیدار ہی سے محروم رہے۔ دُعا ہے کہ امن، چاہتوں، خوشیوں اور اپنایتوں کا جو کارواں سنڈے میگزین نے رواں دواں رکھا ہے، اس کا سفر کبھی رُکے، نہ تھمے۔ سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والوں کو دل سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور آپ کی ٹیم بلکہ سنڈے میگزین کے ہر لکھاری سے دردمندانہ گزارش ہے کہ ہمیں اپنی دُعائوں میں یاد رکھیں۔ اللہ پاک ہمیں آزمائش سے نمٹنے کی ہمّت و توفیق عطا کرے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: یہ درد سب کا سانجھا ہے اور اِس مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں ہم سب یقیناً ایک دوسرے کے ہم قدم ہیں۔ اللہ ربّ العزت آپ سب کی تکالیف دُور فرمائے اور اس آزمائش کا بہترین نعم البدل عطا کرے۔

تقلید کرنی چاہیے

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا برطانیہ کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں کے سیاست دان اپنے مسائل خُود حل کرتے ہیں، وہاں کوئی کسی کو لوٹا یا غدّار قرار نہیں دیتا اور بالکل درست کہتے ہیں، ہمارے سیاست دانوں کو اُن کی تقلید کرنی چاہیے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت مجدّد الف ثانیؒ کا ذکر بہترین انداز سے کیا گیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر منزّہ اے خالد نےماں کےدودھ سے متعلق بےحد معلوماتی مضمون تحریر کیا۔ سلمیٰ اعوان چین کی خُوب سر کررہی ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رخسانہ شکیل نے نکاح سے متعلق اچھا مضمون قلم بند کیا۔ ’’آدمی‘‘ کی یہ قسط کچھ زیادہ اچھی نہیں لگی۔ ’’رتّی گلی جھیل، وادئ نیلم کے ماتھے کا جھومر‘‘، محمّد ریحان کی سیر ہمیں بھی اچھی لگی۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر محمّد ذوہیب حنیف کا مضمون ’’اسلامیات میں طلبہ کی عدم دل چسپی‘‘ منفرد تحریر تھی اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات اچھوتے سے تھے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: اور آپ کو کچھ اچھے تبصرہ نگاروں کی تقلید کی سخت ضرورت ہے۔

طویل مدّت سے ہم راہی

جنگ، سنڈے میگزین آج سے نہیں، ایک طویل مدّت سے میرا ہم راہی ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں وقتاً فوقتاً اس کا حصّہ بنتا رہتا ہوں۔ دعا ہے کہ یہ ساتھ تازندگی قائم رہے۔ (شری مرلی چند گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

میرا پہلا تبصرہ

’’سنڈے میگزین‘‘ بہت اچھا میگزین ہے، مَیں نے کچھ ہی ماہ سے اِس کا مطالعہ شروع کیا ہے۔ تقریباً سب ہی رائٹرز بہت اچھا لکھتے ہیں، خاص طورپر منور راجپوت، عرفان جاوید، سلمیٰ اعوان اور شفق رفیع تو جریدے کی جان ہیں، جب کہ محمود میاں نجمی کے نئے مضمون ’’مکّہ مکرّمہ:ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ کی تو کیا ہی بات ہے۔ بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ سارہ عُمر نے مائوں کے بارے میں بالکل ٹھیک لکھا کہ ’’ماں جدید زمانے کی ہو یا پہلے دَور کی۔ ماں، ماں ہی ہوتی ہے۔ اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا‘‘ اور اقصیٰ منوّر کی کہانی بہت اچھی لگی۔ یہ میرا جریدے کے لیے پہلا تبصرہ ہے، اگر آپ نے حوصلہ افزائی کی، تو آئندہ بھی لکھتی رہوں گی۔ (معلّمہ ثناء انور، صادق آباد)

ج:خوش آمدید۔ اب معلّمہ، پتا نہیں آپ کا نام ہے یا آپ نے بحیثیت استاد یہ حق استعمال کیا ہے۔ بہرحال، آپ آتی جاتی رہیں، یہ آپ کا اپنا جریدہ، اپنی بزم ہے۔

چند اعتراضات… عرفان جاوید کی وضاحت

نوٹ: گزشتہ دِنوں ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں تواتر سے کئی خطوط شایع ہوئے، جن میں ہمارے حال ہی میں ختم ہونے والے سلسلے ’’آدمی‘‘ کے نسبتاً بولڈ طرز تحریر پر کچھ اعتراضات اُٹھائے گئے۔ جواباً مصنّف کی جانب سے بھی ایک مکتوب کی صُورت درج ذیل جواب موصول ہوا ہے۔ اُمید ہے، اِس سے اعتراض کنندگان کی کافی حد تک تشفّی ہو جائے گی۔

’’پچھلے چھے برسوں میں، میرے خاکوں کے سلسلوں ’’دروازے‘‘، ’’سُرخاب‘‘ اور مضامین کے سلسلے’’عجائب خانہ‘‘کے بعد یہ چوتھا سلسلہ تھا، جسے جنگ ایسے موقر اخبار نے اپنےصفحات پرجگہ دے کر میری عزّت افزائی کی۔ مَیں، اُن تمام قارئین کا بھی شُکر گزار ہوں، جنھوں نے وقتاً فوقتاً توصیفی رائے سے میری حوصلہ افزائی کی، تو چند مقامات پر تصحیح کر کے راہ نمائی بھی کی۔ مَیں یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک ادیب کا کردار ایک مبلّغ اور مصلح کا نہیں، بلکہ عکّاس، شارح اور فن کار کا ہوتا ہے۔ براہِ راست وعظ و تلقین اُس کا کام نہیں، صاحبِ منبر کا ہے، البتہ اُس کا بیان حقیقت کی ایسی عکّاسی ضرور کرتا ہو کہ قاری کے دل و دماغ میں ظلم و برائی کے خلاف حقارت جنم لے، تو حیاتِ بشر کے لطیف پہلوؤں کی جانب رغبت ہو۔ جہاں میرے قلم نے میرے مرشد و استاد، احمد ندیم قاسمی اور شکیل عادل زادہ ایسے شان دار ادبا اور انسانوں کے لفظی پیکرتراشے، اے حمید جیسے رومانی انسان کی شخصیت کے لطیف پہلو وا کیے، نصیر کوی اور استاد دامن جیسے درویشوں کے خاکوں میں رنگ بَھرے، وہیں اسحاق نُور کی آزاد رَوی کو لفظی پیراہن اوڑھایا، بَڈی ماموں کی رنگین و سنگین زندگی کو (جو یادیں اکٹھی کرنے نکلے اور نسیان کےسبب اپنی سب متاع، زندگی ہی میں کھو بیٹھے) قابلِ رشک نہیں بلکہ باعثِ ندامت دکھایا۔ آصف فرّخی کے علاوہ یہ احباب کم معروف یا غیر معروف تھے۔ ہمارے گلی محلّوں میں چلتے پِھرتے عام کردار، البتہ انوکھے اور منفرد لوگ۔ اِن خاکوں میں صد فی صد حقائق بیان کیےگئے، سوائے اس کے کہ اِدھراُدھر کے ماحول کے بیان میں فنی تقاضوں کے تحت کچھ رنگ آمیزی کرنی پڑی۔ اگر چند کرداروں کی بےباکی کچھ قارئین کے مزاجوں پر گراں گزری، تو عرض ہےکہ میرا کام حقیقت چُھپانا نہیں بلکہ اُسے بیان کرنا ہے۔ سب سے سہل کام زنِ بازاری پر اُنگشت نمائی اور دشوارتر اُسے عقد میں لانا ہے۔ مَیں نے ہر دو طرح کے حقائق بیان کیے، مَیں مُنصف نہیں کہ فیصلے صادر کروں کہ اگر مَیں خُود فقط انصاف کا تقاضا کروں، تو سب سے پہلے میری اپنی ذات اِس کی زَد میں آئے گی، مَیں رحم کا قائل ہوں کہ اِسی کے قابل ہوں۔‘‘ (عرفان جاوید)

                        فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید ہے، سب خیروعافیت سے ہوں گے اور کیا بات ہوگئی بھئی کہ لڑکیوں بالیوں نے بزم میں آنا جانا خاصا کم کردیا ہے۔ خیر، ہم نے بھی جیسے تیسے وقت نکال کر آج لکھنے کا تہیّہ کرہی لیا۔ ماہِ ستمبر کا دوسرا شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ پہلے ہی صفحے پر ’’حالات و واقعات‘‘ کے تناظر میں منور مرزا استفسار کر رہے تھے ’’کیا یہ آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوسکتا ہے…؟‘‘ مگر ایم سوری! میرے پاس تو اس کا جواب ہی نہیں اور وپسے بھی آپ ہی تو کہتی ہیں، ’’ہر صفحہ ہر ایک کے لیے نہیں ہوتا۔‘‘ ہاہاہا… ’’پیارا گھر‘‘ میں مضمون نگار نے بجا فرمایا کہ نفرت کا عفریت ہی خوشیوں کا دشمن ہوا کرتا ہے۔ جب کہ ’’انٹرویو‘‘ میں کتب و نوادرات جمع کرنے کے شیدائی، عبدالقادررند سےمختصر سی بات چیت بھی خاصی دل چسپ تھی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’پرندے بھی سب جذبوں سے آشنا ہوتے ہیں‘‘ بہت اچھی تحریر تھی۔ نئی کتابوں کے تبصروں میں From Sorrow to the Star پر نظر پڑی تو جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس کتاب کی مصنّفہ ایک 17 سالہ طالبہ ہے۔ بھئی واہ۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع سیلاب زدگان کا احوال پیش کررہی تھیں۔ اُف!’’کھا گیا سب کو یہ ناگہاں پانی‘‘ جب کہ اگلے جریدے میں واٹر مینجمینٹ کی ماہر، ڈاکٹر نوشین خالد کا تجزیہ بہترین تھا کہ گزشتہ 75سالوں میں مُلک میں سیلابوں سے بے انتہا تباہی ہوئی، لیکن ہم ہر تباہی کے بعد سوائے رونے دھونے اور دلاسوں کے کچھ نہ کرسکے۔ افسوس ناک امَر یہ ہے کہ مُلک میں ڈیمز کی تعمیر بھی سیاسی نعروں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ سرِمنبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں…علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں۔ دبستانِ دہلی کےآخری چشم و چراغ، تابش دہلوی کی اٹھارہویں برسی پر لکھا گیا مضمون سیرحاصل تھا۔ جب کہ ’’آدمی‘‘ سلسلے کے ’’مطیع الرحمٰن‘‘ سے متعلق نو کمنٹس۔ ہاں، ’’گیبرئیل‘‘ بہت شوق سے پڑھا تھا۔ ’’وہ سادگی میں بھی ہے عجب دل کشی لیے…‘‘ کافی عرصے بعد ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے سارے ہی ملبوسات اچھے لگے، وگرنہ تو ایک نظر دیکھ کر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ بھی بےحد دل چسپی سے پڑھا جارہا ہے۔ سلمیٰ اعوان کا شوخ و شنگ قلم ہو اور ہم تحریر نہ پڑھیں، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اب آتے ہیں ’’ڈائجسٹ‘‘ کی طرف، غزلیات تو بس ٹھیک ہی تھیں اور’’حفظِ ماتقدم‘‘، عنوان ہی اس قدر ڈیسنٹ تھا، تو بس کیا کہوں، ویل ڈن اقصیٰ۔ اور ہاں یاد آیا، ابھی کچھ عرصہ پہلے اقصیٰ کی ایک تحریر چَھپی تھی ’’نیم کے لہلہاتے درخت‘‘ واللہ! اگر مَیں نے اقصیٰ کو دیکھا نہ ہوتا تو یہی سمجھتی کہ یہ تحریر کسی 50، 60سالہ خاتون کی ہے۔ ہاہاہا… اب اِسے ایڈیٹنگ کا کمال کہیں یا کچھ اور…اور یہ بھی سچ ہے کہ ہماری ملاقات سنڈے میگزین ہی کے توسّط سے ہوئی، وگرنہ ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی ہم ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے۔ دو تین ہفتوں سے خادم ملک نظر نہیں آرہے۔ خیر تو ہے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی مسندِ خاص پر راجہ صاحب براجمان تھے مگر، یہ کون سی نئی بات ہے۔ وہ تو اکثروبیش تر ہی اس مسندِ خاص پر استراحت فرما رہے ہوتے ہیں…ہاہاہا۔ (عیشاءرانا، صادق آباد)

ج: تم بھی تو کئی بار اس مسند کے ہُونٹے لے چُکی ہو۔ مطلب جُھولا جُھول چُکی ہو۔

گوشہ برقی خطوط

* ’’دل کو چِین کا ہے سفر درپیش‘‘ ایک انتہائی شان دار سفرنامہ تھا۔ آخری قسط پڑھ کر بےحد دُکھ ہوا کہ اتنا دل چسب سفرنامہ ایسے اچانک کیوں ختم ہوگیا۔ ساتھ ہی ’’آدمی‘‘ بھی تمام ہوا۔ لیکن اُس کی آخری قسط پڑھ کر زیادہ دُکھ نہیں ہوا کہ مجھے صرف ڈاکٹر آصف فرخی اور گیبرئیل ہی کی داستانِ حیات پڑھ کے مزہ آیا تھا۔ ہاں ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی رونق و چاشنی برقرار ہے، جو یقیناً خطوط سے زیادہ آپ کے جوابات کے سبب ہے۔ (امیر خان، کراچی)

ج: کوشش کرتے ہیں کہ جلد ہی کوئی اور قسط وار سفرنامہ شروع کردیں کہ آپ کا دُکھ تو کچھ کم ہو۔

* معروف مصنّف ابنِ آس کی تفصیلی کہانی ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے ذریعے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ گو کہ موصوف سے میری مناسب شناسائی ہے، لیکن اِس حقیقت سے قطعاً واقف نہ تھا کہ آج وہ جس مقام پر ہیں، اِس کے حصول میں انہوں نے کس قدر مشقّت اٹھائی ہے، حتیٰ کہ عام مزدوروں کی طرح اینٹ، پتھر بھی ڈھوئے۔ ایسے قابلِ قدر افراد کی ضرور پذیرائی کی جانی چاہیے۔ بہرحال، اس واقعے میں ایک انتہائی اہم سبق بھی پوشیدہ تھا کہ محنت اور صلاحیت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ (رضی الدین سیّد)

* آپ بھی کیسے کیسے لوگوں کو جھیلتی ہیں۔ ویسے کئی لوگوں کی دُعائیں بھی لیتی ہوں گی، مثلاً میری۔ کیوں کہ مجھ میں لکھنے لکھانے کی یہ جو ’’بونس صلاحیت‘‘ پیدا ہوئی ہے، یہ آپ ہی کی بدولت ہے۔ سچ کہوں تو بےشمار لوگ ہوں گے، جن کی حقیقی معنوں میں آپ ہی استاد ہیں، مگر ہر ایک اتنا ظرف نہیں رکھتا ناں کہ اس بات کو تسلیم بھی کرے۔ بہرحال، میری کئی اساتذہ قابلِ قدر ہیں، اُن میں سے ایک کے لیے تو میں نے ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی لکھی۔ آپ کاجریدہ ہر دل عزیز ہے اور مَیں اس سے ہمیشہ رشتہ استوار رکھنا چاہوں گی۔ (نام نہیں لکھا)

ج: نہیں بھئی۔ ہم تمہارے استاد نہیں ہوسکتے کہ ہمارے شاگرد کو اتنا تو پتا ہونا ہی چاہیے کہ تحریر کے ساتھ اپنا نام، پتا لکھنا لازم ہوتا ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk