• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

قسط وار شایع کریں

شفق رفیع نے کیا کمال کا انٹرویو لیا، مارشل آرٹس فائٹر انیتا کریم سے۔’’حالات وواقعات‘‘ میں اپنے منور مرزا نیٹو کی حکمتِ عملی بیان کررہے تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے ’’کُھل جاسم سم‘‘ میں کم الفاظ میں بہت کچھ بیان کر دیا۔ اور ’’اتوار، شان دار‘‘ کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ ’’متفرق‘‘ کے دونوں مضامین اچھے تھے۔ عرفان جاوید کے اسحاق نُور سے میرا تعلق1982ء سے تھا۔ ان کی اولاد سے متعلق پڑھ کر بہت دُکھ ہوا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘ کا حصّہ دوم بھی زبردست تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عشرت زاہد کا افسانہ اور ذکی طارق کی غزل اچھی لگی۔ اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں تائیوان سے متعلق بہترین تجزیہ پڑھنے کو ملا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ہجرت کرنے والوں کے خطوط شایع کر کے تو آپ نے کمال ہی کردیا۔ آپ سے گزارش ہے، ایسے خطوط قسط وار شایع کرنا شروع کردیں۔ ’’گفتگو‘‘ میں خوش بخت شجاعت موجود تھیں۔ ڈھائی صفحے کی طویل گفتگو سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع پاکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ موجود نظر آئیں۔ مضمون پر محنت واضح نظر آرہی تھی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں اس مرتبہ ایک ہی کہانی پڑھنے کو ملی، جب کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ پڑھ کے مزہ آگیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کرچی)

ج:شایع شدہ تحریروں کی اس طرح قسط وار اشاعت تو کسی صُورت ممکن نہیں۔ ہاں کسی موقعے کی مناسبت سے کچھ منتخب خطوط ضرور شایع کیے جاسکتے ہیں۔

بے لگام تحریر

حافظ محمّد عثمان مروندی سے متعلق بہترین معلومات فراہم کی گئیں۔ ہم ان کو شہباز قلندر کے نام سےجانتے ہیں۔ ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت ایک فون کال کے ذریعے لُوٹنے والوں کا ذکر کررہے تھے۔ بہت شکریہ،ایک اہم معاملےپرتوجّہ مبذول کروائی۔ منور مرزا کا تجزیہ بہترین تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری کا مضمون سوالاً جواباً شایع کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی برسی کے موقعے پر مضمون شان دار تھا۔ ارشد فخر الدّین محمّد نے سولجر بازار کا عُمدہ انداز سے ذکر کیا۔’ ’آدمی‘‘ میں عرفان جاوید کی تحریر خاصی بےلگام سی لگی۔ جریدے میں پہلے اتنی بولڈ تحریریں شایع نہیں ہوتی تھیں۔ خیال رکھیں، یہ فیملی میگزین ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں شہناز حمید کا اولاد کی تربیت پر مضمون معلوماتی تھا۔ افسانہ ’’ایک کپ چائے‘‘ بہت اچھا لگا اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی سب ہی کہانیاں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتی ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرے خط کے ساتھ خادم ملک کا خط بھی جگمگا رہا تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔ ’’آدمی‘‘ کی لگام کچھ زیادہ نہیں کسَی جاسکی، تھوڑا ہاتھ ہولا ہی رکھا گیا۔ آئندہ آپ کو ایسی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔

پاک فوج پر فخر ہے

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں ہی میں متبرّک صفحات ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھے۔ ’’جنرل قمر جاوید باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ پڑھا۔ بخدا ہمیں اپنی پاک فوج پر فخر ہے۔ ’’سیلاب زدگان اور حکومتی بےحسی‘‘ پر کیا روئیں، ہر بار ہی ایسا ہوتا ہے کہ حکومتی امداد مستحقین تک نہیں پہنچتی۔ معروف خطّاط، فردوسی گولڈ میڈل حاصل کرنے والے واحد پاکستانی، عرفان احمد سے بات چیت پسند آئی۔ ’’آدمی‘‘ میں معروف دست شناس مطیع الرحمان کے حالاتِ زندگی بھی دل چسپ انداز میں بیان کیے گئے۔ ’’عورت، حجاب اور سماجی رویّے‘‘ بہترین تحریر تھی۔ ’’مجاہدینِ وطن کو سلام‘‘ میں وی آئی پی شخصیات نے مجاہدینِ وطن کو خُوب صُورت انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا۔ ظہیر الدّین نے اپنے خط میں ناچیز کی تعریف کی۔ اُن کا بےحد شُکریہ اور خادم ملک کو تو کوئی ڈھونڈ لائے کہ ہم اُن کے منتظر ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: کیوں بھئی، آپ نے خادم ملک کے لیے کوئی ملازمت ڈھونڈ رکھی ہے کیا؟

ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے

اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ 11ستمبر کے میگزین میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحے کو پسِ پشت ڈال کر بابائے قوم کے یومِ وفات کے سوگ میں اُن کے مضمون کو اہمیت دی گئی۔ خیر، اب تو کرلیاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مضمون معلوماتی تھا اورموقع محل کی مناسبت سے بھی تھا، لیکن پہلا نمبر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہی کا ہونا چاہیے۔ ایک بات میرےحلقۂ احباب میں نوٹ کی گئی ہےکہ ہمارے 90 فی صد لکھاری تاریخی اور دینی واقعات کے مستند حوالوں کا تذکرہ نہیں کرتے۔ اگر احادیث کا ذکر آتا ہے، تو زیادہ سے زیادہ کتاب کا نام لکھ دیتے ہیں، جب کہ ہر حدیث کا اپنا ایک نمبر بھی ہوتا ہے، اگر کسی کتاب سے لی جائے، تو اس کی جِلد نمبر اور صفحہ نمبر ہوتاہے، البتہ محمود میاں نجمی اس بات کا بےحد اہتمام کرتےہیں۔ میرے میاں بتا رہے تھے کہ مکّہ مکرّمہ کی قسط چار میں حوالہ جات کی تعدا د 23تک تھی۔ مضمون نگار کا یہ عمل ظاہر کرتا ہےکہ مضمون کی تیاری کے دوران کتابوں کو کھنگالا،صفحات کی عرق ریزی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مضمون میں ایسے تاریخی حقائق بھی پڑھنے کو ملے، جو ہم نے زندگی میں کبھی نہیں سُنے اور اگرکبھی پڑھے بھی ہوں گے تو اب یاد نہیں۔ میری اور میرے میاں کی رائے ہے کہ مکّہ مکرّمہ کی تاریخ پر یہ سلسلہ میگزین کے بہترین سلسلوں میں سے ایک ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں پر نوشین خالد سے رئوف ظفر کا انٹرویو پڑھا اور سنڈے اسپیشل میں شفق رفیع کا مضمون، میرے خیال میں تو اس تباہی کی صرف ایک ہی وجہ ہے، کرپشن، رشوت اور ناجائز قبضہ جات۔ پہلی بارش میں بلوچستان کے ایک ساتھ 21ڈیم بہہ گئے، وجہ یقیناًناقص میٹریل ہے،توپھر اس قوم کا کیا کیاجائے، چوروں، ڈاکوئوں کی پوری مافیا ہے۔ ایک جملے میں کہوں تو ’’ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے۔‘‘ (شاہدہ تبسّم، کراچی)

ج: جی ہاں، ویسے تو ؎ برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلّو کافی تھا… ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجامِ ِگلستاں کیا ہوگا۔

دُعا گو رہتا ہوں

سنڈے میگزین ایک مکمل اور بےحد معیاری رسالہ ہے، جس کا ہر ہفتے دل وجان سے انتظار رہتاہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے لے کر ’’آپ کا صفحہ‘‘تک میں اِک اِک سلسلے سے بہت فیض یاب ہوتا ہوں۔ اسی لیے دُعاگو بھی رہتاہوں کہ یہ چمن سدا یوں ہی شادو آباد رہے۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

تعریف کی مستحق ہیں

رواں ہفتے کا سنڈے میگزین دیکھا، اپنی مثال آپ تھا۔ آپ اور آپ کی ٹیم جریدے پرجس قدر محنت کررہی ہے، وہ اِک اِک سطر سے دکھائی بھی دیتی ہے۔ اسی لیےہم کبھی کبھار آپ کی بزم میں شریک ہوکےبےحدخوشی محسوس کرتےہیں۔ یوں تو جریدے کے تمام ہی سلسلے اچھے ہیں، لیکن میں صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ زیادہ پسند کرتا ہوں۔ اس کے مرتّب، محمّدہمایوں ظفر واقعتاً تعریف کے مستحق ہیں۔ اس بار جن واقعات نے متاثر کیا، وہ شمیم یاسمین کا قصّہ اور نام وَر صحافی محمود شام سے متعلق تحریر کردہ واقعہ تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں’’کمردرد،منفی طرز زندگی کا شاخسانہ‘‘ ایک اثرانگیز تحریر لگی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا رائٹ اَپ پسند آیا اور ایک درخواست ہے، میرے لیڈر سائیں بلاول بھٹو زرداری کا انٹرویو بھی جلد ازجلد شایع کردیں، تو مہربانی ہوگی۔ اگلے شمارے کے سرِورق پر ماڈل سونیا دکھائی دیں، اچھا انتخاب تھا۔ ’’متفرق‘‘ میں ’’وہ بھی کیا دن تھے‘‘بہت پسند آیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں تابش دہلوی کی اٹھارہویں برسی پر پروفیسر شاہدہ حسن نے نہایت خُوب صُورت تحریررقم کی۔ دل چاہا،باربارپڑھوں اور ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کا سلسلہ وار مضمون شروع کرکے تو آپ نے سب کے دل ہی جیت لیے ہیں۔ (اسلم قریشی، گلزارِ ہجری، کراچی)

دوبارہ چین جائیں گی؟

’’وطن نامہ‘‘ موصول ہوا، پڑھا، اچھا لگا۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒکی سوانح حیات کامختصراً احوال محمّد احمد غزالی کی عمدہ کاوش ٹھہری۔ ’’اگست سے اگست تک‘‘ لاجواب تجزیہ تھا۔ جشن آزادی کے موقعے پر واقعی شفق خُوب روشن تھا۔ ’’ہجرت کہانیاں‘‘ دل میں اُتر گئیں۔ فرّخ شہزاد نے بلوچستان میں طوفانی بارشوں کی تفصیل بیان کی۔ ’’سروے‘‘ میں رئوف ظفرنےبہترین دانش وَروں سےآدھی ملاقات کروادی، بہت خُوب بھئی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں چین کے بادشاہوں کی تاریخ پڑھی، مزہ آگیا۔ کیا سلمیٰ اعوان کبھی دوبارہ چین جائیں گی؟ واللہ، اگر ایسا ہو، تو ہمارا مزہ بھی دوبالا ہوجائے گا۔ عرفان جاوید کیسے ’’آدمی‘‘ ہیں، ’’بَڈی ماموں‘‘کے حالاتِ زندگی سُنا کے ہمیں تو دیوانہ سا کردیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ یومِ آزادی کے موقعے پر ’’پاک سرزمین شادباد‘‘ گنگناتا رہا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانی بہترین تھی۔قانتہ رابعہ نےبروقت گُتھی سلجھائی۔ ملّی نغمےبھی عُمدہ رہے۔ ’’متفرق‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ کے اوراق بھی سرِورق کی طرح جذبۂ حب الوطنی سے سرشاراچھے لگے۔ ’’ہمارا پرچم، یہ پیارا پرچم‘‘ میرے خیال میں تو ’’متفرق‘‘ سلسلے کا اب تک کاسب سے اچھا مضمون تھا۔ اسماء خاں دمڑ تمہارا تو کوئی ثانی ہی نہیں اور نئی کتابوں کی زیارت کرنا بھی اچھا لگتا ہے۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج : سلمیٰ جی کے دوبارہ چِین جانے کا انتظار کرنے کے بجائے خود رختِ سفر باندھنےکا قصد کیوں نہیں کر لیتے؟

’’سنڈے میگزین‘‘ کا اعزاز

جنگ، سنڈے میگزین میں مُحمود میاں نجمی صاحب کی ایک بار پھر آمد پر ہم انہیں تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ مجھ سمیت متعدّد پاکستانی بارہا مکّہ معظمہ جا چکے ہیں، لیکن مضمون نگار مستند حوالوں کے ساتھ جو تحقیقی معلومات فراہم کر رہے ہیں، وہ نہ صرف نادر و نایاب ہیں، بلکہ ایک عام آدمی کے لیے گویا ایک اَن مول خزانہ بھی ہیں۔ اِس طرح کے تحقیقی مضامین مقدّس مقامات کی عزت و حُرمت میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ نجمی صاحب ماضی کی طرح اپنی بیش بہا تحقیقی تحریروں اور منفرد و دل کش اندازِ تحریر کے ذریعے سنڈے میگزین کے قارئین کی معلومات میں اِسی طرح اضافہ کرتے رہیں گے۔ ہم سب اُن کے لیے دُعاگو ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل بھی شعبۂ تعلیم کا ایک بڑا نام ہے۔ خصوصاً اُن کی ذاتی لائبریری کی تو بڑی دھوم ہے۔ اِسی طرح ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی عظیم باپ کی عظیم صاحب زادی اور مسلمان خواتین کے لیے رول ماڈل ہیں۔ سلمیٰ اعوان معروف، نیک نام سیّاح اور سفرنامہ نگار ہیں۔ اللہ نے اُنہیں دولت کے ساتھ نگرنگر گھومنے کا شوق اور پھر سونے پہ سہاگا، فنِ تحریر سے بھی خُوب نوازا ہے۔ جب کہ طرح عرفان جاوید بظاہر سرکاری افسر، بیورو کریسی کا حصّہ ہیں، لیکن اُردو ادب کے لیے وہ بھی کسی بیش بہا نعمت سے کم نہیں۔ ہمارے خیال میں تو اس قدر جیّد لکھاریوں کا آپ کی ٹیم میں شامل ہونا خُود سنڈے میگزین کے لیے بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔ (سیّد آصف، کراچی)

ج:جی، بلاشبہ اللہ کا بڑا کرم ہےکہ’’سنڈے میگزین‘‘ کو ابتدا ہی سےبہترین قلم کاروں کا ساتھ، معاونت حاصل رہی ہے اور اِس کے لیے ہمیں کچھ زیادہ تردّد بھی نہیں کرنا پڑتا۔ خود اِن جیّد لکھاریوں کی بھی اوّلین ترجیح جنگ، سنڈے میگزین ہی ہے۔

ناشر کا پورا پتا؟

عرض ہے کہ 4 ستمبر کے شمارے میں مولانا عون نقوی کی کتاب ’’عرفانِ عون‘‘ پر تبصرہ پڑھا۔ آپ سے گزارش ہے کہ براہِ کرم اس کتاب کو منگوانے کے لیے ناشر کا پورا پتا تحریر فرمادیں۔ تاکہ کتاب منگوائی جاسکے۔ (ایس ایم حسین، ماڈل کالونی، کراچی)

ج: کتاب پر جو پتا تحریر تھا، بعینہ تبصرے کے ساتھ شایع کردیا گیا تھا۔ ہمیں بھی کتابیں بذریعہ ڈاک ملتی ہیں۔ لہٰذا ہم وہی پتا تحریر کرسکتے ہیں، جو کتب پر درج ہوتا ہے۔

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

جنگ کے قاری تو ہم بچپن ہی سے تھے، لیکن اب سنڈے میگزین کا انتظار بےچینی سے کیا جاتاہے۔ وہ لوگ جو کسی کو منہ نہیں لگاتے، وہ بھی گھنٹوں میگزین منہ سے لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ آج اتوار کے دن، صبح ہی سے بارش دیکھ رہی تھی۔ اخبار بھی بھیگا، نُچڑا ہوا ہی ملا۔ خیر، بجلی موجود تھی، جلدی جلدی استری کر کے سُکھایا، تو اس کی اور ہماری جان میں جان آئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ایک بار پھر ایک عُمدہ تحریر نظرنواز ہوئی۔ بہترین معلومات فراہم کر کے نجمی صاحب نے تو اپنا گرویدہ کرلیا۔ منور مرزا ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پر اُن کی تحریر روشنی کا مینار لگتی ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ پڑھ کر دُکھ ہوا۔ وہ کیا ہےکہ ؎ جس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی.....اُس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ پسند آیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر یاسمین شیخ اور ڈاکٹر شاہ جہاں کھتری کےمضامین معلومات سےبھرپور تھے۔ سلمیٰ اعوان تو اپنےسفرنامے میں گویا رُوح پھونک دیتی ہیں۔ چٍین سے ایسا متعارف کروایا کہ بس اب تو ہمیں چِین جاکر ہی چَین آئےگا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی پَری پیکر کو دیکھ کر تو آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ حسین ملبوسات اور تاج پہن کر واقعی شہزادی لگ رہی تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی تحریریں بھی بہت جان دار تھیں۔ میٹھے سوڈے کے فوائد تو گویا ہم نے حفظ کر لیے۔ ’’اِک رشتہ اِک کہانی‘‘ کی بھی ہر کہانی چاہت و الفت کے جذبوں سے گُندھی، پیار کی چاشنی میں ڈوبی معلوم ہوئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تحریر سبق آموز تھی۔ ہمایوں ظفر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ عُمدگی سے مرتّب کررہے ہیں۔ محمود شام سے متعلقہ واقعے کا جواب نہ تھا۔ وہ یوں بھی میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں، ہر اتوار اُن کا کالم ضرور پڑھتی ہوں۔ اختر سعیدی نے کتابوں پر کیا خُوب تبصرہ کیا، بس خریدنے کی تشنگی رہ جاتی ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو سمجھیں جریدے کی جان ہے کہ اِس میں ہم اپنے دل کی بات بنا کسی روک ٹوک کے بآسانی کہہ جو پاتے ہیں۔ آخر میں صرف اتنا کہ ’’سنڈے میگزین!! ہماری زندگیوں میں روشنی پھیلانے کابےحد شکریہ۔‘‘ (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج:آپ کا بھی بےحد شکریہ کہ سنڈے میگزین آج جہاں، جس مقام پر ہے، صرف اور صرف آپ قارئین ہی کی بدولت ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* آپ نے میرا سفر نامہ ’’رتی گلی جھیل‘‘ شایع کیا، جس پر مَیں بےحد ممنون ہوں۔ (محمّد ریحان)

ج: ممنونیت کی کوئی بات نہیں۔ آپ کی تحریر قابلِ اشاعت تھی، سو شامل کرلی گئی۔

* آن لائن بزنس کا دَور دورہ ہے۔ بے شمار کمپنیاں آن لائن کام کر رہی ہیں، لیکن اس کاروبار میں دو نمبری بھی بہت ہے۔ تو براہِ مہربانی اس موضوع پر تفصیلی کام کروائیں کہ آن لائن کسی دھوکے، فراڈ سے بچنے کا کیا طریقۂ کار ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی تحقیقی مضمون لکھوائیں، تو بڑی مہربانی ہوگی۔ (زاہد اسماعیل)

ج: جی، پوری کوشش کریں گے۔

* ہمیں لکھنے پڑھنےسےخاصا شغف ہے۔ معاشرتی زیادہ، کم کم سیاسی مسائل پر لکھتے ہیں۔ کتب پر تبصرہ کرتے ہیں۔ ویڈیوز بنا کر اَپ لوڈ کرتے ہیں۔ عرض یہ کرنا تھا کہ اگر ہم ہفتہ وار بنیادوں پر کسی کتاب کا خلاصہ جنگ، سنڈے میگزین کے لیے بھیجیں، تو کیا آپ اُسے چھاپنے میں دل چسپی رکھتی ہیں۔ اور اگر ہاں، تو کیا اِس کے عوض ہمارے لیے ماہانہ مشاہرے کا کوئی بندوبست ہو سکتا ہے۔ (عمیر محمود)

ج: اوّل تو ’’نئی کتابیں‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل سلسلہ جریدے کا حصّہ ہے۔ دوم، جس کتاب پر آپ تبصرہ فرمائیں گے، اُس کا انتخاب بھی یقیناً آپ کریں گے، تو اس کتاب کے اہم یا غیر اہم ہونے کا فیصلہ کیوں کر ہوگا۔ اور تیسری بات یہ کہ اخباری صنعت کے بحران کا تو یہ عالم ہے کہ باقاعدہ ملازمین کی تن خواہیں تک ادا نہیں کی جا رہیں ، تو آپ کی ایک شوقیہ سرگرمی کا مشاہرہ کون اور کہاں سے دےگا۔ تو قصّہ مختصر، آپ اس پراجیکٹ کو سابق وزیراعظم کی ایف آئی آر ہی سمجھیں، جس میں کچھ بھی آپ کے حسبِ منشاء ہونا ممکن نہیں۔

* کیا آپ اپنے جریدے میں میری حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب ’’خدا کے نام خط‘‘ پر تبصرہ شایع کرسکتی ہیں۔ (عقیلہ جدون)

ج: آپ کی کتاب پر تبصرہ شایع کردیا گیا ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk