• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم نگاروں کو اکثر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم مسائل کی نشاندہی تو خوب کرتے ہیں مگر اِن کا حل نہیں بتاتے،ایسے ہی جیسے کوئی طبیب بیماری کی تشخیص تو کردے مگر علاج نہ بتا سکے۔یہ الزام کچھ ایسا غلط بھی نہیں مگر اِس اِلزام کو چار حصوں میں تقسیم کرکے دیکھنا چاہیے ۔ پہلے حصے میں وہ لکھاری آتے ہیں جو مسائل کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور حل بھی تجویز کرتے ہیں مگر اِن تجاویز پر عمل اسی صورت میں ممکن ہے اگر ملک میں مثالی ماحول دستیاب ہو،وہ چاہتے ہیں کہ پہلے رادھا کو نو من تیل فراہم کیاجائے اُس کے بعد وہ ناچ کر دکھائے گی حالانکہ سارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ملک میں نو من تیل موجود نہیں، تاہم اِن لکھاریوں کوداد دینی چاہیے کہ جیسے تیسے وہ کوئی نہ کوئی حل تجویز تو کرتے رہتے ہیں ۔دوسر ے حصے کے لکھاری و ہ ہیں جو مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں مگر جب حل تجویز کرنے پر آتے ہیں تو یہ لکھ کر فارغ ہو جاتے ہیں کہ ہم سب کو چاہیے کہ بغیر لڑائی جھگڑے کے مل جُل کر رہیں، ہر بندہ خود کو ٹھیک کرے،مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔تیسری قسم وہ ہے جو نہ مرض کی درست تشخیص کرتی ہےاور نہ ہی کوئی علاج بتاتی ہے، وہ محض رٹی رٹائی فرسودہ باتوں پر قلم گھسیٹتے ہیںاور اللہ کی شان دیکھیں اِن کو پتھر میں سے رزق دیتا ہے۔چوتھی قسم کے لکھاری و ہ ہیں جواپنے تئیں مسائل کا حل تو بتاتے ہیں مگر وہ حل کسی نہ کسی عملی شکل میں اپنائے جانے کے بعد ناکام ہوچکا ہے،مثلاً صدارتی نظام ، آمرانہ نظام ، ٹیکنوکریٹ کی حکومت وغیرہ۔ سوال پھر وہیں موجود رہتاہے کہ ملک کے پیچیدہ مسائل کا حل کیاہے؟میری رائے میں یہ سوال درست نہیں کیونکہ مسئلے کا حل اُسی صورت میں تلاش کیا جا سکتا ہے جب مسئلے کی ٹھیک طرح سے پڑتال کی جائےاور اسے جڑ سے پکڑا جائے ۔جب ہم اپنا موازنہ اُن ممالک سے کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے تو پتا چلتا ہے کہ اب ہم اُن سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں جو چالیس پچاس سال قبل ہمارے بغل بچے تھے۔یہ موازنہ بالکل درست ہے مگر یہ مرض کی علامات ہیں، بذات خود مرض کی تشخیص نہیں ۔مرض کی تشخیص بھی لیکن اسی طریقے سے ہوگی جب ہم یہ تجزیہ کریں گے کہ آخر بھارت اور بنگلہ دیش نے ایسا کون سا عمل کیا جو ہم نے نہیں کیا اور انہیں نے ایساکون سا کام نہیں کیا جو ہم نے کیا ، جس کے بعد آج ہم دیوالیہ ہونے کی نہج پر ہیں!

پاکستان ،بھارت ، بنگلہ دیش ہوں یا شمالی اور جنوبی کوریا، اِن تمام ممالک کی کہانی کم و بیش ایک جیسی ہے، اِس کہانی میں سرحدی تنازعات بھی ہیں اور جنگیں بھی، استبدادی حکومتیں بھی ہیں اور معاشی بحران بھی ، لیکن اِس کے باوجود کچھ ممالک کی حالت دوسروں سے بہتر ہے حالانکہ سب کو آزاد ہوئے ایک جتناہی وقت ہوا ہے ۔اِس کی وجہ کیا ہے ؟اِس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انسان ہویا قومیں وہ جس کام میں جُت جاتی ہیں اُس میں کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے، شمالی کوریا کا فوکس ہتھیاروں کا حصول ہے سو وہ اِس میں کامیاب ہے ، بنگلہ دیش کا فوکس معاشی ترقی ہے ،نتیجہ سامنے ہے ، بنگلہ دیش کے معاشی اشاریے ہم سے بہتر ہیں۔ دوسری وجہ ہے مسئلے کو جڑ سے پکڑنا، انفرادی یا اجتماعی سطح پر فرد اور قوم کے مسائل کی جڑ یں چاہے کتنی ہی پھیلی کیوں نہ ہوں،کہیں نہ کہیں اُن کاسرا تلاش کرنا پڑتا ہے ،جب تک ہم وہ سرا تلاش نہیں کریں گے، ہمیں مسئلے کا پوری طرح ادراک نہیں ہوگا اور جب تک یہ ادراک نہیں ہوگا، مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پاکستان کے معاملے میںکسی حد تک یہ ادراک موجودہے کہ ہمارے مسائل کی اصل جڑ کہاں ہے، اُس کی جڑ وہیں ہے جس کا ذکر کرتے ہوئےبہو بیٹیاں بھی شرماتی ہیں۔

اب رہی یہ بات کہ اِس مسئلے کا حل کیا ہے تودل کرتا ہے کہ میں بھی یہ لکھ کر امر ہو جاؤں کہ’ ہمیں چاہیے کہ انفرادی طور پر ٹھیک ہوجائیں یہ مسئلہ حل ہوجائےگا‘ مگر پھر کعبے کس منہ سے جاؤں گا! سچی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ہماری زندگیوں میں حل نہیں ہوگا، میں خود کو پیدائشی رجائیت پسند کہتا ہوں مگر اِس معاملے میں خالی خولی رجائیت پسندی سے کام لینے کا کوئی فائدہ نہیں،جو مرض دائمی نوعیت کا ہواُس کا علاج کسی ایک ٹیکے سے ممکن نہیں ۔ ہندوستان نےیہ مسئلہ آزادی کے فوراً بعد ہی حل کر لیا تھا بلکہ اسے پنپنے ہی نہیں دیا جبکہ بنگلہ دیش نے ہم سے علیحدگی کے ،کئی سال بعد ہی سہی ،یہ فیصلہ کیا کہ حقِ حکمرانی صرف عوام کا ہے ، کسی ادارے کا عمل دخل اُس میں قبول نہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ اِس ایک فیصلے نے ہی اُن کی کایا کلپ کردی،سچی بات ہے کہ دیگرعوامل نے بھی بنگلہ دیش کی ترقی میں کردار ادا کیا ، جیسے آبادی پر قابو پانا، عورتوں کو معیشت میں حصہ دار بنانا اور ملک کو سیکولر قرار دیناجبکہ ہم نے اِن میں سے ایک بھی کام نہیں کیا۔ملین ڈالر سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ ہمیں یہ تمام کام کرنے سے کون روکتا ہے ؟ جواب ہے کہ بظاہر کوئی نہیں روکتالیکن جب قوم کی ذہن سازی مخصوص خطوط پر کی جائے جس کے نتیجے میں سوچنے سمجھنے والے ذہن پیدا ہونے بند ہوجائیں تو پھر لوگ آسمان سے کسی مسیحا کا انتظار کرنے لگتے ہیں ، پھر ہوتا یہ ہے کہ مسیحائی کا دعوی ٰ کرنے والا آتا ہے اور عوام کو پہلے سے بھی زیادہ مایوس کرکے چلا جاتا ہے ۔ یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک عوام اِس قسم کے تمام تجربات کرکے ناکام ہوجائیں گے ،اسی لیے میرا خیال ہے کہ یہ کام اب ہماری زندگیوں میں ممکن نہیں ۔میں اپنے قارئین سے معافی چاہتا ہوں کہ ملک کے تمام مسائل کا فوری حل اپنی پٹاری سے نکال کر پیش نہیں کرسکا، جس قسم کے چٹ پٹے حل کی آپ کو تلاش ہے ویسا حل صرف نائیک جیسی فلموں میں ملتا ہے ، جبکہ خاکسار ٹھہرا پرلے درجے کا حقیقت پسند۔ آج احساس ہو رہا ہے کہ بندے کو اتنا حقیقت پسند بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ، کیا پتا کب کوئی خواب حقیقت میں بدل جائے!

تازہ ترین