دنیا کے گھمبیر مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جیسے آبادی ،بھوک اورغربت میں اضافہ، دنیا میں پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی مجموعی دولت پر ایک سو خاندان اڑسٹھ فیصد پر قابض ہیں جبکہ تیس فیصد دولت ساڑھے اٹھ ارب انسانوں کے حصے میں، اس لحاظ سے دنیا کی آبادی بھوک افلاس اور تنگدستی کا شکار ہے۔ غربت ختم کرنے کے لئے اول بڑھتی آبادی کی روک تھام کی جائے گی،تب ہی دولت کی منصفانہ تقسیم عمل میں آئےگی۔
سچ یہ ہے کہ دنیا میں کبھی کسی دور میں مساوات قائم نہیں رہی امیری اور غریبی میں ازل سے کشمکش جاری ہے۔ گزرے ادوار میں جاگیرداری، زمینداری اور قبائلی نظام وغیرہ رائج تھے۔ انسانوں نے انسان کو غلام بنا رکھا تھا۔ امیر افراد کے پاس درجنوں غلام اور لونڈیاں کام کرتی تھیں۔ عدل کے عنوان سے ظلم جاری تھا۔
کلیسا اور مذہبی! اجارہ دار لوگوں کو باور کراتے تھے کہ ہر فرد کی قسمت میں لکھا ہے وہ اس طرح زندگی گزارے گا یہ اُوتاروں بھگوانوں کا فیصلہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں علم و آگہی کی روشنی پھوٹنے لگی ، بڑے اُتارچڑھائو انقلابات آے۔ انسان نے انسانوں کا خون بہایا۔ بستیاں اُجاڑدیں لوٹ مار کا بازار گرم رکھا ۔
یہ دنیا کا عظیم المیہ ہے کہ ، انسانیت نے بہت بہت دکھ اٹھائے، دیکھا جائے تو اب بھی دُکھ اٹھا رہی ہے۔
اولین دور میں جب انسان نے قدرے ہوش سنبھالا تھا۔ اس وقت اس کو بھوک مٹانے اور موسم کی دست دراز میں سے محفوظ رہنے کی فکر لاحق تھی۔ دریائوں کے کنارے اپنے پڑائو ڈالتا اور جانوروں کا شکار کرکے بھوک مٹاتا تھا، کبھی خود بھی جنگلی جانوروں کا لقمہ بن جاتا تھا۔ اس طرح رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے ہجوم قبیلوں کی شکل میں رہنے لگے پھر یہاں سے یہ میرا علاقہ وہ تیرا علاقہ کی کشمکش شروع ہوئی اور پھر بہت کچھ ہوا مگر سدھار نہ آیا،پھرنیم وحشی انسان بنا کچھ طور طریقے سیکھے۔ مگر آگ کی دریافت اور پہیہ کی ایجاد کے بعد انسانی رکھ کھائو کا سلیقہ عام ہوتاگیا۔ انسان کاشتکاری اورگلہ بانی کے دور میں داخل ہوا۔
دنیا میں انسان کا وجود ساٹھ لاکھ برسوں سے زائد عرصہ سے قائم و دائم ہے، مختلف ادوار گزرے، تہذیبوں کا عروج و زوال ہوا۔ جنگ و جدل اجارہ داریوں کا سلسلہ دراز ہوا،مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہردور میں انسانیت نے بڑے دُکھ جھیلے اور گہرے زخم کھائے۔ جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا اسی تناسب سے دنیا میں امیروں کے ظلم و ستم بڑھتے رہے،وہ غربت پسماندگی اور بھوک کی چکی میں پستا رہا۔ ایک بڑا دور انسانوں کو غلام بنانے لونڈیوں کو کنیزیں بنانے میں گزرا۔ اس کے علاوہ ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا سلسلہ بھی تادیر قائم رہا۔ دلیل یہ تھی کہ زیادہ بچے زیادہ ہل چلائیں ، تاکہ زمین سے ہل چلا کر اناج پیدا کریں گے۔ مگر اس سے مزید غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوا۔ زورآور غریبوں سے غلہ لوٹ کر لے جاتے تھے اور کاشتکار غریبی و مفلسی کا شکار رہتا تھا۔
اگر تعصب اور جانبداری کی عینک اُتار کر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس دور کی دریافت شدہ دنیا میں ایک دور میں منگولوں، چنگیزیوں نے دنیا کو تاراج اور انسانیت کو بار بار زخمی کیا۔ بستیاں اجاڑدیں، انسانوں کے سر قلم کئے، علاقوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کئے، لوٹ مار کی خاص طور پر ان کا نشانہ مشرق وسطیٰ وسط ایشیائی ریاستیں جنوبی ایشیا رہا۔
چنگیزی لشکر سب کچھ روندتا ہوا مصر کے قریب پہنچا ۔ مصر پر حملہ کی پوری تیاری تھی جہاں کمزور حکومت تھی مگر عین موقع پر چنگیزخان کی ایک غلطی مصر اور اس کے خطے کے مسلمانوں کی جان و مال بچا گئی۔
ظلم ناانصافی، لوٹ مار اور وحشیانہ رویوں نے دنیا میں غربت کوخوب خوب پروان چڑھایا۔ اس طرح آبادیاں بڑھتی بھی رہیں، کم بھی ہوتی رہیں۔ فصلیں اُگتی بھی رہیں لٹیروں کے ہاتھوں برباد بھی ہوتی رہیں۔ نتیجہ ظاہر تھا کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا مگر اناج کی کمی اور اشیاء صرف کی کمیابی نے غربت و افلاس کا پیچھے نہ چھوڑا۔
دوسرے معنوں میں غربت، افلاس، پسماندگی اور وبائی امراض انسانی معاشروں میں گھرکرتے رہے۔ انسانی طمع ،لالچ دوسروں کے اسباب پر قبضہ کے وطیرے نے ان مسائل کو انسان کا نصیب بنا دیا۔ غربت پسماندگی انسانی سائے کی طرح پیچھا کرتے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی غربت پسماندگی اور مسائل کا خود ذمہ دار ہے۔ جہالت، ہٹ دھرمی، قبائلی تعصب، حرص اور طمع نے انسان کو درست معنوں میں انسانیت کا درجہ نہیں حاصل ہونے دیا۔
کہاجاتا ہے کہ اس کائنات میں اب تک کی دریافت کے مطابق سب سے اہم اور پیچیدہ چیز انسانی دماغ ہے۔ ہرچند کہ انسان نے اپنے قیمتی دماغ سے تباہی کے سامان زیادہ پیدا کئے ،بلاشبہ اعلیٰ اور حیرت انگیز ایجادات بھی خوب کیں، مگریہ سب کچھ دولت کمانے کے لئے کیا۔
طرفہ تماشا ملاحظہ ہو انسانوں نے انسانوں کو مسائل کی دلدل میں دھکیلنے کے علاوہ قدرتی ماحول اور صدیوں سے قائم موسمی طور طریقوں سے بھی چھیڑ چھاڑ کرکے ان کی تربیت بھی گڑ بڑ کردی۔ قدرتی ماحول دنیا کا سب سے بڑا تشویشناک مسئلہ بن کر ابھرآیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ماحولیات میں بگاڑ کا بھی سراسر انسان ذمہ دار ہے ۔
جدید دنیا کی ضروریات کی تکمیل اور زیادہ منافع کمانے کی حرص میں آنکھیں بند کرکے وہ تمام طریقے اپناتا رہا،جس سےآلودگی تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔ مزید ستم یہ کہ آلودگی اور موسمی بے ترتیبی کے حوالے سے آگہی کے باوجود اپنے طور طریقے تبدیل نہیں کئے اپنے معمولات میں زرہ برابر تبدیلی نہیں کی، بلکہ اضافہ کرتا رہا۔
کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو زیادہ آلودگی پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں وہ متبادل انرجی پیدا کرنے پرسنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اس کے حصول کیلئے قدرتی کوئلہ ،گیس ،تیل کے بجائے ہوا، پانی، دھوپ اور سمندر کو استعمال کیا ۔ اس وقت دنیا میں زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے ملکوں میں اولین ممالک امریکہ، چین، برازیل اور بھارت ہیں۔
بھارتی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ، غربت کے خاتمے یا کمی کے لئے انرجی کا کلیدی کردار ہے اور بھارت اس کے لئے قدرتی کوئلہ بھی استعمال کر رہا ہے،تاہم 2050ء تک وہ قدرتی کوئلہ استعمال کرے گا۔ اس کے علاوہ پانی اور ہوا سے بھی انرجی کے حصول پر کام کیا جا رہا ہے۔ کچھ اسیے ہی اقدام امریکہ، برازیل اور بعض یورپی ممالک کر رہے ہیں۔ مذکورہ ممالک اور دیگر اب سنجیدگی سے قدرتی ماحول میں بگاڑ پر غور کر رہے ہیں۔
گرچہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک نے غربت کے خاتمے اور آرام دہ زندگی گزارنے کے تمام سامان تیار کرلئے ہیں، مگر ان کے کارخانوں کا دھواں زیادہ خطرناک ہے۔ سنا ہے کہ آلودہ دھوئیں کو فضا میں تحلیل ہونے سے تیل ہی ختم کردیا جائے، جس پر کام کیا جا رہاہے۔ حال ہی میں امریکی نائب صدر کملاہیرس نے بتایا کہ امریکی صدر نے قدرتی ماحول میں سدھار کی جدوجہد کے لئے ایک سوبلین ڈالر کا بجٹ مختص کیا ہے اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں سے بھی کہاگیا ہے کہ، وہ قدرتی ماحول میں سدھار اور آلودگی میں کمی لانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ورنہ موسمی تبدیلیوں سے بہت زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے۔ مگر اب اس مسئلے میں مغربی ممالک مشرق کی طرف انگلی اٹھارہے ہیں کہ ان ممالک کی آبادی زیادہ، گندگی کوڑا کرکٹ اور آلودگی زیادہ ہے۔ ہر گائوں جو دریا یا نہرکے کنارے ہے کوڑا کرکٹ اس میں ڈالتا ہے شہروں کا کوڑا کارخانوں کا زہر یلا گندا پانی سمندر میں ڈالتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک کے حکمران طبقے بدعنوانی میں اپنا ایک نام رکھتے ہیں۔ ان ممالک کی افسرشاہی کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عدلیہ کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک کی پولیس اور اس کا سپاہی ہلاکو کی فوجوں کا سپاہی محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت ہے کہ بیشتر ترقی پذیر ملکوں کی پولیس والے ان کے مطلوبہ وزن سے زیادہ فربہ ہیں۔ امیروں کی چاپلوس اور غریبوں کے لئے قہر، ایسے غیر منصفانہ معاشروں میں غربت تنگدستی عام ہے۔
جہاں تک آبادی میں اضافہ کا تعلق ہے اس ضمن میں بہت کچھ کہاگیا بہت کچھ لکھا گیا جا چکا ،مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
اس حوالے سے حال ہی میں اٹلی کی وزیراعظم کے علم میں ایک کیس آیا کہ، ایک جنوبی ایشیائی ملک کا خاندان ہے جس میں ماں باپ کے علاوہ آٹھ بچے ہیں ،کیا انہیں بیروزگاری الائونس، بیکاری الائونس دیا جاسکتا ہے، اس خاندان کو بلایا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا یہ آٹھ بچے تمہارے ہیں؟ اس نے کہا میرے ہیں بس اوپر والے کی دین ہے۔ اٹلی کی وزیراعظم نے کہا اس شخص اور اس کی بیوی کو الائونس دیا جائے مگر آٹھ بچوں کے الائونس کے لئے کہو اوپر والے سے رابطہ کرے۔ وزیراعظم نے آٹھ بچوں کا الائونس منظور نہیں کیا۔ کچھ ایسی ہی کشمکش برطانیہ میں شروع ہو چکی ہے۔
ہر خاندان اپنے سمیت چار چھ بچوں کا بھی بیروزگاری الائونس وصول کر رہا اور ان پیسوں سے ملک میں جائیدادیں بنا رہا ہے۔ اس صورتحال میں برطانیہ بھی جلد کوئی فیصلہ کرنے والا ہے۔ آبادی میں اضافہ کی روک تھام کیلئے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سمیت افریقی ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس طلب کرکے اہم فیصلے کرنا اور قوانین وضع کرنا ضروری ہے،تاکہ آبادی میں اضافہ کی روک تھام کی جا سکے۔
اس کو مذہبی معاملہ بنا دیاگیا ہے۔ ستر کی دہائی میں ہالی ووڈ نے فلم بنائی تھی’’پاپولیشن ایکسپلوژن‘‘ اس فلم میں دنیا میں آبادی میں اضافہ یہاں تک دکھایا کہ فٹ پاتھ پر لوگوں کو چلنے میں شدید دشواریاں ہو رہی ہیں ،لوگ بسوں کی چھتوں پر مکھیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں، ہر طرف صرف انسانی سروں کے سوا کچھ نہیں دکھائی دے رہا۔ اس طرح کے مناظر دیکھ کر خواتین بدحواس ہو کر سینما ہال سے نکل بھاگتی تھیں۔ واقعی یہ سبق آموز چشم کشا فلم ہے۔ انسانوں کی اتنی بھیڑ دیکھ کر انسانوں کے دل دہل جاتے ہیں۔
اگرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو محسو س ہوتا ہے کہ ہماری دنیا واقعی ایسی صورتحال سے گزر سکتی ہے بلکہ گزرنے کے قریب جارہی ہے۔ چین کسی حد تک آبادی کے اضافے کو کنٹرول کرے گا مگر بھارت کی صورتحال طبی نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی ہے۔ ہندو اور مسلمانوں میں ایک دوڑ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد میں طبی سائنس اور عقلی دلائل کو تسلیم کرتے ہیں۔ آج کے انسان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس سے اولاد کو فائدہ نہیں حاصل ہو سکتا بلکہ اپنے لئے مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ بھارت میں شکوہ ہے مسلمانوں کو تعلیم کے مواقع نہیں، روزگار کے مواقع نہیں ،سماجی طور پر بھی مسلمانوں کو پیچھے رکھا جاتا ہے۔
ہندو مسلم تعصب ،سیاسی تنازعات اپنی جگہ مگر یہ شکوہ شکایتیں آج کے دور میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، اس لئے جاری دور سخت مسابقت کا دور ہے۔ تعلیم، تجربہ، تحقیق اور مشاہدہ کا دورہے۔ کوٹہ سسٹم، سماجی کوٹہ سسٹم، معاشرتی یا سیاسی تقسیم کا کوٹہ سسٹم سب ایک دم فضول اور بیساکھیاں ہیں۔ انسانوں کو اپنی محنت صلاحیت اور وژن پر بھروسہ کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ کوئی ان کی جھولی نہیں بھرے گا۔ تاریخ اور جدید تاریخ جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ اقلیتوں اور سماجی طور پر کمزور افراد یا طبقوں کو خیرات اور امداد دے کر جسمانی اور ذہنی طور پر محنت اور علم سے دُور رکھا جاتا رہا ہےتا کہ وہ کوئی کام نہ کریں محنت سے جی چرائیں اور ان کے کاسہ لیس رہیں۔
تاریخی طور پر انسان نے جو بھی ترقی کی وہ اپنی محنت سے ،جس حد تک اس کا علم بصیرت اور وژن تھا اس کی بدولت حاصل کی۔ جبکہ جو تباہی اور بربادی کی وہ اپنی حسد ،طمع کی وجہ سے مول لی ،جس سے ایک قدم آگے دو قدم ییچھے رہا۔
یہ درست ہے کہ آج کی دنیا نے بے مثال ترقی کی ہے اگر ساٹھ لاکھ برسوں کی تاریخ کاجائزہ لیں اور اندازہ کریں کہ ترقی زیادہ کی یا تباہی بربادی زیادہ۔ بلاشبہ انسانی تباہی بربادی میں قدرتی ماحول کی اونچ نیچ کا بھی بڑا دخل رہا۔ اس طویل عرصہ میں انسانوں نے غربت ،بھوک اور جاہلیت پر کم محنت کی، ورنہ اس عرصہ میں پوری دنیا ایک ارضی جنت ہوتی غربت ،پسماندگی بھوک جنگ و جدل کا نام تک نہ جانتے۔ سچ ہے انسان نے وقت زیادہ برباد کیا۔ اب جاکر ہوش آیا مگر ماضی بعید کے امراض غربت، پسماندگی اور بھوک کو جڑ سے نہ ختم کر سکا۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے کہ ہر رات پوری دنیا میں 68لاکھ افراد رات بھوکے سوتے ہیں۔ غربت اور پسماندگی ان کی دامن گیر ہے۔ دوسری طرف امارات اور شان و شوکت نے دنیا کو شدید متاثر کیا ہے۔
دنیا میں خصوصاً ترقی پذیر دنیا میں آبادی میں اضافہ کی بڑی وجہ ان کی توہم پرستی کم علمی اور اطراف سے لاپرواہی ہے۔ ترقی پذیر دنیا کی اکثریت کے ذہنوں میں یہ مفروضہ گھرکرچکا ہے کہ یہ تو امیروں، طاقت ورلوگوں کی دنیا ہے، ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،اس لئے جو کرسکتے ہیں وہ کر رہے ہیں۔ اس دنیا سے ان کی سماجی سیاسی لاتعلقی واضح ہے۔ مایوسی، تنک مزاجی اور بدمزاجی عام ہوتی جا رہی ہے۔
غربت انسان کو مشیت دنیاوی معاملات سے بیگانہ کرتی جارہی ہے۔ اکثر اخلاقی اور معاشرتی اقدار سے بھی بیگانہ ہوتے چلے جاتے ہیں، مایوسی گہری ہوتی جاتی ہے۔ کچھ دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ غربت میں بھی انسان خوش رہتے ہیں، غم خوشی مستی کا امیری غریبی سے تعلق نہیں ہے، یہ انسان کے اندر سے جنم لیتی ہیں ۔ اکثر غریب اپنی غربت میں بھی مست ملنگے، ہنستے قہقہے لگاتے، مسکراتے مذاق کرتے رہتے ہیں، یہ بھی انسانی زندگی اور زندگی کی نیرنگی کا ایک رُخ ہے۔ ایسے مست ملنگ افراد ہر حال میں خوش رہتے ہیں اور یہی زندگی ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ورلڈ پاپولیشن بیورو نے دنیا کے 224 چھوٹے بڑے ممالک شمار کئے ہیں ان میں دس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ممالک پندرہ ہیں، جن میں چین، بھارت، یورپی یونین، امریکہ، انڈونیشیا، پاکستان، نائیجریا، برازیل، بنگلہ دیش، روس، میکسیکو، جاپان، ایتھوپیا، مصر اور ویت نام شامل ہیں۔ کم آبادی والے پونے دو سو ممالک کے لگ بھگ ہیں،ان میں بیس سے زائد جزائر پر مشتمل ہیں۔
آج کے ترقی پذیر اورغریب ممالک کی غربت پسماندگی اور ناانصافی کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ ماضی قریب میں گزرا وقت آبادی نظام اور غلامی تھی۔ دو سو سال سے زائد عرصہ دنیا دس یورپی ممالک کی غلامی میں سانس لیتی رہے۔ سب سے زیادہ نو آبادیات پر برطانیہ قابض رہا ،اس کی بڑی اور سب سے امیر نوآبادی ہندوستان تھا، جہاں پہلے ڈیڑھ سو برس برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو لوٹا پھر تاج برطانیہ ہندوستان کو ستر سال سے زائد عرصہ غلامی میں رکھا۔
حالیہ ریکارڈ کے مطابق برطانیہ صرف ہندوستان سے 44 ٹریلین ڈالر لوٹ کر لے گئے،اس کے بعد ان یورپی طاقتوں نے سب سے زیادہ لوٹ مار، ظلم زیادتی اور ناانصافی براعظم افریقہ سے روا رکھی، یہاں تک کہ، ہزاروں سیاہ فام مردوں، عورتوں اور بچوں کو اغواء کرکے لے گئے اور انہیں اپنے ملکوں میں غلام لونڈیاں بناکر رکھا اور وہاں ان پر مزید ظلم ڈھائے۔
براعظم سے نوآبادکاروں نے سونا ،ہیرے جواہرات اور دیگر قیمتی معدنیات نکال لیں، جو براعظم دنیا میں سب سے زیادہ امیر اور قدرتی معدنیات کے قیمتی ذخیروں کے لئے مشہور تھا ،وہ کنگال اور غریب تر ہوگیا۔ نو آبادکاروں نے تعلیم صحت عامہ اور جدید سماجی اقدار سے بھی دور رکھا۔ دنیا خاص طور پر براعظم ایشیا اور افریقہ میں غربت، تنگ دستی اور جہالت کی بڑی وجہ یہ ہے اسی لوٹ مار سے صرف یورپی نو دولتیوں کے ایوان جگمگا اٹھے۔
دنیا میں آبادی آٹھ ارب چند کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے۔ براعظموں کی تعداد سات ہے ان میں سب سے زیادہ آبادی ساڑھے چار ارب براعظم افریقہ دوسرے نمبر پر ہے جہاں آبادی سوا چھ ارب کے لگ بھگ ہے۔ براعظم یورپ میں آبادی پچھتر کروڑ کے قریب ہے۔ شمالی امریکہ میں ساٹھ کروڑ آبادی ہے۔ جنوبی امریکہ میں لگ بھگ چالیس کروڑ ہے جبکہ قطب جنوبی برفانی براعظم میں صرف چار سو کے قریب لوگ ہیں جو وہاں تحقیق کے لئے مقیم ہیں۔
ماضی قریب میں جن نو آبادکاروں نے دنیا بھر میں لوٹ مارمچائی اور دنیا کو غربت اور تنگ دستی کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔ ان میں برطانیہ، فرانس، اسپین، اٹلی، ہالینڈ، روس، بلجیئم، جرمی اور پرتگال نمایاں تھے۔ سا ل رواں میں آبادی کے حوالے سے سب سے زیادہ روس، چین اور بھارت کی ہے جو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی والے ملک ہیں۔ تاہم چینی آبادی پر قابو پانے کے لئے کوششیں کر رہا ہے مگر بھارت کا معاملہ دوسرا ہے توہم پرستی مختلف تعصبات نے بھارتی معاشرہ میں آبادی کی روک تھام کی کوششیں زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ آبادی منصوبہ بندی اس حوالے سے کوششیں کررہا ہے۔ زیادہ خطرناک مسئلہ براعظم افریقہ کا ہے جہاں آبادی میں اضافہ غربت بھوک اور وبائی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ بیشتر افریقی ممالک اس اہم مسئلہ پر کام کر رہے ہیں مگر نتائج زیادہ بارآور نظر نہیں آتے تاہم کوششیں جاری ہیں یونیسیف کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اب سب سے بڑا اور اہم مسئلہ مصیبت ڈھا رہا ہے وہ قدرتی ماحول اور موسمی تبدیلیوں کا ہے۔
گلوبل وارمنگ، خشک سالی اور کووڈ۔19نے بھی معیشت اور سماجی معاملات کو شدید نقصان پہنچایا مگر حیرت انگیز بات یہ کہ کووڈ۔19سے دنیا کو جو نقصانات اٹھانے پڑے۔ اس کے مقابلے میں براعظم افریقہ کو متاثر ہوا۔ مگر کووڈ۔19 نے دنیا کی معیشت کو شدید متاثر کیا جس سے غربت میں مہنگائی بیروزگاری میں اضافہ ہوا اس کے علاوہ سماجی معاملات کو بھی زبردست زک پہنچی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ۔19کے نقصانات کو پورا کرنے سدھار لانے میں کم از کم بیس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
اس تمام حوالوں سے بیشتر ماہرین ماحولیات معاشیات اور سماجیات کا کہنا ہے کہ دنیا کو اپنی نئی نسلوں کو ایک گرم اور مسائل سے دو چار دنیا میں زندگی گزارنے کا عادی بنانا ہوگا۔
آئندہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول اور موسمی تبدیلیاں انسانوں کو مزید پریشان کرتی جائیں گی۔
جاری حالات میں قدرتی ماحول اور موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بعض ترقی پذیر ممالک کا مؤقف یہ ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے کارخانوں نے کاریں اور تعیشات کا سامان بنانے انہیں استعمال کرنے میں اضافہ سے دنیا میں آلودگی میں اضافہ کیا۔ آلودگی میں اضافہ کا ذمہ دار وہ بھی ہے جو ان ملکوں سے لاکھوں کاریں، تعیشات کا سامان خرید کرتا اور استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے آلودگی کو سرحدوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ غریب ممالک قدرتی آفات کا شکار ہونے کے بعد امیر ممالک سے امداد ضرور طلب کر سکتے ہیں۔
آلودگی کا مطلب صرف کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں نہیں یہ ایک اہم فیکٹر ضرور ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس دھوئیں کا توڑ کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں بلکہ ہر وہ فعل جس سے گندگی پھیلتی ہے۔ کوڑا کرکٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔ لاکھوں گاڑیاں مشینیں گھریلو بجلی کے آلات کا استعمال لکڑی کوئلے تیل کا دھواں و دیگراشیاء جو محسوس اور غیر محسوس طور پر فضا یا پانی کو متاثر کرتے ہیں یہ سب کچھ آلودگی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ خاص طور پر غریب ترقی پذیرممالک میں صفائی ستھرائی، صحت عامہ وغیرہ پر توجہ کم ہے، ان کا طرز زندگی اور معمولات میں آلودگی اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
اب ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں قدرتی ماحول، موسمی تبدیلیوں کے مہیب اثرات اورآلودگی کے حوالے سے پڑھایاجائے، کیونکہ یہ صرف آج کا مسئلہ نہیں رہا،بلکہ زندگی کا ایک دائمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر انسان ان قدرتی مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنا طرز زندگی تبدیل کرنا ہوگا،گر چہ یہ کام بہت مشکل ہے، اس کے لئے حقیقی آگہی اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔
اب یعض یورپی باشندوں نے سنجیدگی سے اس طرف توجہ دینا شروع کردیا ہے، مگر ترقی پذیر ممالک کے رہنما اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کیلئے سنجیدہ نظر نہیں آتے، وہ ہر مسئلے کو کسی نہ کسی کے کاندھے پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ خطرناک ہے۔
اقوام متحدہ کی عالمی یوم آبادی کی مناسبت سے سالانہ آبادی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دُنیا کی آبادی اگلے روز 8؍ارب تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2030ء میں دنیا کی آبادی بڑھ کر ساڑھے 8ارب ہو جائے گی۔ یعنی اگلے 8؍برس میں 50 کروڑ لوگوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2050ء میں کرئہ ارض پر 9؍ارب 70کروڑ نفوس رُو رہے ہوں گے جبکہ 2100ء میں انسانوں کی تعداد 10؍ارب 40کرو ڑ تک پہنچ جائے گی۔
عالمی آبادی کو 7؍ارب سے بڑھ کر 8؍ارب ہونے میں 12؍برس لگے اور 9؍ارب پہنچنے میں تقریباً 15برس لگیں گے یعنی 2037ء تک دنیا کی آبادی 9؍ارب ہوگی۔ 2022ء میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے 2ممالک براعظم ایشیا میں واقع ہیں۔ 2022 ء میں 1426ملین آبادی کے ساتھ چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک جب کہ بھارت کی آبادی 1412ملین ہے۔ اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ 2050ء تک عالمی آبادی میں ہونے والی مجموعی اضافے کا نصف سے زیادہ صرف 8ممالک میں رہ رہا ہوگا۔ ان میں پاکستان، بھارت، چین، کانگو، مصر، ایتھوپیا، نائیجریا، فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں۔
دوسری طرف پاکستان آبادیاتی سروے 2020ء کے مطابق ملک میں شہریوں کی اوسط عمر میں کمی ہوئی ہے۔ آبادیاتی سر وے 2020ء کے مطابق ملک میں شہریوں کی اوسط عمر 65.4سال سے کم ہوکر 65سال ہوگئی ہے۔ مردوں کی ا وسط عمر 64.3 سے بڑھ کر 64.5سال ہوگئی ہے۔ دوسری جانب خواتین کی اوسط عمر 66.5سے کم ہو کر 65.5 پر آگئی۔ دنیا بھر کے ماہرین آبادی کے حوالے سے اپنی اپنی آراء دیتے آرہے ہیں۔
اقوام متحدہ بھی ہر سال اپنی رپورٹ شائع کرتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر چین اور جنوبی ایشیا کی آبادی کو جمع کیا جائے تو کرئہ ارض کے اس خطے میں اڑھائی ارب سے زائد انسان رہ رہے ہیں۔ جب کہ کرئہ ارض کے باقی رقبے پر سوا پانچ ارب انسان موجود ہیں، دیکھا جائے تو چین اور جنوبی ایشیاآبادی کے زیادہ دباؤ کا شکار ہیں۔
ماہرین یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کی آبادی میں غیرمعمولی اضافہ ہے جس کے نتیجے میں غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک ترقی کا عمل سست ہے تاہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر آبادی کو درست طریقے سے عمل میں لایا جائے اور نوجوان طبقے کو جدید تعلیم اور ہنرمندی سے آراستہ کیا جائے۔
پاکستان ان آٹھ افریقی و ایشیائی ممالک میں شامل ہے جو 2050ء تک دنیا کی متوقع آبادی کے نصف حصے کے حامل ہوں گے۔ حالیہ عالمی اعداد وشمار کے برعکس پاکستان کے اعدادو شمار موجودہ اور مستقبل کے پاکستان میں معیارِ زندگی، فلاح و بہبود اورلوگوں کی خوشحالی کے حوالے سے ایک مشکل منظرنامے کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 1.9فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے، جو 2022ء میں 0.8فیصد کی عالمی سالانہ شرح سے دوگنا (237فیصد) سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں شرح افزائش نسل 3.6 فیصد ہے جو عالمی شرح سے 157فیصد زیادہ ہے۔ اس سے قدرتی وسائل، معیشت اور اس کے نتیجے میں ملک میں معاشرتی تانے بانے کے ساتھ ساتھ ریاست کی تمام لوگوں کو آئین اور آئی سی پی ڈی 25 اور ایف پی 2030ء کے متفقہ بین الاقوامی معاہدوں میں دیئے گئے حقوق فراہم کرنے کی صلاحیتوں پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔