بیشتر قارئین کسی نہ کسی حوالےسے،ہندوستان کی سابق ریاست ’’پٹوڈی‘‘ کے نام سے واقف ہوں گے۔ اِس ریاست کے ایک والی، منصور علی خان حادثے میں داہنی آنکھ سے محروم ہونے کے باوجود، ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے۔ اُن کی شادی، مشہور اداکارہ، شرمیلا ٹیگور سے ہوئی۔ اولاد میں سیف علی خان، بھارتی فلموں میں چوٹی کے اداکار رہے۔ اُن کا بیاہ ایک اداکارہ امریتا سے ہوا۔ دونوں کی بیٹی سارہ علی خان آج کل ہندوستانی فلموں کی مقبول ہیروئن ہے۔ اِس تحریر میں پٹوڈی خاندان کے ایک فرزند، منصور علی خان کے بھائی، نوابزادہ شیر علی خان کا انڈین آرمی میں ’’رجمنٹ‘‘ کی تشکیل کے حوالے سے تذکرہ ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کی انڈین آرمی میں شامل ہوئے اور بٹوارے کے بعد پاکستانی فوج کا حصہ بنے۔ وہ سب سے پرانی رجمنٹ، وَن پنجاب کا حصہ تھے اور اُس کی کمان بھی سنبھالی۔ اُن کی خود نوشت ’’پاکستان اور ہندوستان میں سیاست اور سپاہ گری کی رُوداد‘ ‘ میں چند دلچسپ واقعات کا ذکر ہے۔ فرماتے ہیں، ’’ 1857ء کے تجربات کی روشنی میں مخلوط رجمنٹوں کا نقشہ بنا۔ مجھے ہزارہ وال کمپنی ملی تھی۔ اے سکھوں، سی پنجابی مسلمانوں اور ڈی کمپنی ، راجپوتوں پر مشتمل تھی۔ گورکھوں اور وفادار سکھوں وغیرہ کی دو تین بٹالینوں پر مشتمل معدودے چند مستثنیات کے، تمام رجمنٹیں مخلوط تھیں۔‘‘ مزید لکھا ، ’’رجمنٹ کے غیر مسلم سپاہیوں کو معلوم تھا، ہماری ریاست میں گائے کے گوشت کی فروخت پر پابندی تھی، مور کا شکار ممنوع تھااور کسی کو بندر مارنے، پکڑنے یا فروخت کرنے کی اجازت نہ تھی۔‘‘ نوابزادہ شیر علی خان کو اِس بات کا تذکرہ کرنے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کہ ذاتی حیثیت میں، اسلامی عبادات پر عمل پیرا ہونے کے باوجود، اُنہوں نے سیکولر طرز عمل سے غیر مسلموں کا اعتماد حاصل کیا۔ لکھتے ہیں، ’’ برما کے محاذ پر، برستی گولیوں میں میرے محافظ نے مجھے فی الواقع اپنے بدن سے ڈھانپ لیا۔ ایک مسلمان کی سکھ نے حفاظت کی۔ یہ بات اُس وقت کے سپاہی تو باآسانی سمجھ سکتے ہیں، مگر آج کل کے حالات میں رجمنٹ سے جذباتی لگائو کو سمجھنا آسان نہیں، جس کے پیش نظر ایک انسان دُوسرے انسان کو بچانے کے لئے اپنی زندگی دائو پر لگا دیتا ہے۔‘‘نوابزادہ شیر علی خان کی خود نوشت کا یہ حصہ، انڈین آرمی میں ’’فوجی رجمنٹ‘‘ کی تخلیق کے کرشمے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ رجمنٹ کی محبت میں سرشاری سے سپاہیوں کو نہ کسی مذہبی جوش و جذبے اور نہ مادرِ وطن کے تحفظ کا نعرہ لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ اپنے فوجی یونٹ سے مخلصانہ لگائو کی ذہنی تربیت کا معجزہ تھا کہ وہ بلا تامل، اپنے کمانڈنگ افسر کا حکم بجا لاتے۔ برطانوی حکومت نے انڈین آرمی کو قواعد و ضوابط کا پابند کر کے، نظم و ضبط کی پابندی سکھائی اور سپاہی اپنے جذبات پر قابو پانا سیکھ گئے۔ سپاہیوں کو اپنی بٹالین کے کُنبے پر اتنا فخر اور ناز تھا کہ وہ ایک دُوسرے کے لئے جان کی بازی لگانے پر آمادہ رہتے۔
جنگ کے دوران، نوابزادہ شیر علی، برما کے محاذ سے جُڑے ایک اہم واقعے کا اِن الفاظ میں ذکر کرتے ہیں، ’’میرے محافظ جوگندر سنگھ اور مہندر سنگھ کے علاوہ، صوبیدار میجر فیروز بھی میرے ساتھ ہو لئے۔ ہم نے ابھی نصف فاصلہ طے کیا ہو گا کہ کمین گاہوں سے گولیاں برسنے لگیں۔ اِن تینوں نے مجھے اپنی آڑ میں لے لیا۔ ایک گولی جوگندر سنگھ کے سر پر لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ صوبیدار میجر نے فوراً اِس کی جگہ سنبھالی تو ایک گولی اُس کے سینے میں پیوست ہو گئی،یہ واقعہ میں کبھی فراموش نہ کر پائوں گا کہ جوگندر سنگھ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے میری جان بچائی۔‘‘
پٹوڈی خاندان کے فرزند ہونے کی بنا پر نوابزادہ شیر علی خان کے انگریز جرنیلوں اور ہندوستان کے سیاست دانوں سے گہرے تعلقات تھے۔ اُن کی خود نوشت میں ایوب خان کی شخصیت کا بھی تذکرہ ہے۔ وہ پاکستان آرمی کے ابتدائی دنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب بائونڈری فورس کی ناقص کارکردگی اور ایوب خان کی قائدانہ صلاحیت پر اُنگلیاں اُٹھیں تو ایوب خان نے اُنہیں درخواست کی کہ وہ پاکستانی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل میسروی سے اپنے ذاتی تعلق کی بنا پر ممکنہ تادیبی کارروائی روکنے کی سفارش کریں۔ نوابزادہ شیر علی خان کا تذکرہ الطاف گوہر کی یادداشت میں بھی ملتا ہے۔ الطاف گوہر 1958ء کا مارشل لا لگنے سے پہلے، وزیر اعظم پاکستان، فیروز خان نون کے اسٹاف میں تھے۔ ایوب خان کی توسیع شدہ مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی اور وہ مزید توسیع کے خواہاں تھے۔ ایوب خان کو خدشہ لاحق تھا کہ ہلالِ جرأت کے حامل میجر جنرل نوابزادہ شیر علی خان اپنے خاندانی پس منظر اور تعلقات کو استعمال کر کے فوج کی کمان سنبھالنا چاہتے ہیں مگر صدر اسکندر مرزا کی وجہ سے ایوب خان کو توسیع مل گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل شیر علی خان یحییٰ خان کی کابینہ میں وزیر اطلاعات رہے۔ مخلوط رجمنٹ میں سیکولر طرز عمل کی ضرورت سے آزاد ہونے پر ، وہ کھل کر مذہبی جماعتوں کی حمایت اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کرتے رہے۔ بھٹو سے اِس مخاصمت کا خمیازہ، ایک نوجوان سی ایس پی افسر کو بھگتنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سرکاری میڈیا کے ناروا سلوک کی شکایت کا جواب وزارت اطلاعات کے افسراحمد مقصود حمیدی(سی ایس پی) دیا کرتے۔ وہ جوابی خط میں لکھتے کہ پیپلز پارٹی ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت ہے۔ پہلی دفعہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہے اور کسی اسمبلی میں اُس کی نمائندگی نہیں رہی۔ بے پناہ عوامی مقبولیت سے سرشار، بھٹو صاحب کو یہ دلیل بہت ناگوار گزرتی ہو گی یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے فوراً بعد، مارشل لا کا ضابطہ استعمال کیا اور احمد مقصود حمیدی(مرحوم)، جو مشہور شخصیت ، انور مقصود کے بھائی تھے، ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نوابزادہ شیر علی خان کی خود نوشت میں کہیں کہیں طنز و مزاح کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ فوجی تربیت کے دوران، پیٹھ پر وزنی سامان اٹھانے کے حوالے سے وہ فیض احمد فیضؔ کے ایک مصرعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’میری رائفل اتنی بھاری تھی کہ اسلحہ ساز کارخانے میں اِس سے زیادہ وزنی رائفل ایک مدت تک نہ بنی ہو گی۔ ایک سو گولیوں کی پیٹی کے وزن سے میری گردن جھکی جا رہی تھی۔ جنگ کی شاید رسم ہی یہ ہے کہ ’’کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے۔‘‘