• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال کی طرح اس سال بھی 25 نومبر کا دن آگیا، وہ دن کہ جس دن کو اقوام متحدہ نے مخصوص کیا، خواتین پر تشدد کے خلاف ،عالمی دن کے طور پر منایا جائے اور پھر سولہ دسمبر تک اس دن کے حوالے سے شعور و آگہی تقسیم کی جائے اسی لئے ہر سال 25 نومبر سے خواتین کے خلاف تشدد پر آگاہی مہم شروع کی جاتی ہے۔

اس مہم سے آگاہی کو ایک باضابطہ رنگ بھی دیا گیا ہے اور وہ " نارنجی رنگ " ہے جو جذبات ، شوروشوق، قدرت ، عزت ، خوشی ،شفتگی، سوچ کی پختگی اور دوسروں پر غوروفکر کارنگ کہلاتا ہے لیکن نجانے کیوں نارنجی رنگ سے ڈوبتے سورج کا خیال بھی آتا ہے اس لئے خواتین کے خلاف تشدد کے دن کو آپ اپنی سوچ کے مطابق اس رنگ سے منسوب کرسکتے ہیں۔

ویسے تو پوری دنیا میں ہی خواتین پر تشدد کے واقعات ہوتے ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک میں ان پر ایکشن لیا جاتا ہے، شور مچتا ہے، انصاف ملتا ہے ، تدارک کیا جاتا ہے ، روک تھام کے اقدامات ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ ترقی پذیر ملکوں میں کچھ نہیں ہوتا اور ہمارا ملک بھی ان میں سے ایک ہے۔ ہمارے ملک میں 25 نومبر آتا ہے تو:

" فضل بہار آگئی ، زخم بحال ہوگئے "

یعنی…

ٹیلی ویژن پر خواتین پر تشدد کے حوالے سے ایک دو پروگرام ہوتے ہیں کسی مارننگ شو میں شوہر سے مار کھائی ہوئی، منہ سوجی ہوئی، عورت کو بٹھا کر اس کے زخموں پر نمک چھڑک چھڑک کر اسے رلایا جاتا ہے تاکہ لوگ دیکھیں اور ریٹنگ بڑھے اور بس پھر سب بھول بھال کر اپنی دنیا میں مست ہوجاتے ہیں۔

عورت ،قدرتی طور پر نرم و نازک تخلیق کی گئی عورت کی پہچان بھی عورت سے ہی ہو ۔عورت " بنت حوا " ہی نہیں " بنت آدم " بھی ہے اسے قدرتی طور پر مضبوط اور سخت جان مردوں کے نام اور سہارے کی ضرورت باپ، بھائی ، شوہر اور بیٹے کی شکل میں ہر وقت ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک بچے سے لےکر بوڑھے مرد کو ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کی توجہ اور خدمت چاہئے ہوتی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں خواتین کو پتہ ہی نہیں ہے کہ تشدد ہونے پر انہیں کرنا کیا ہے اور اگر پتہ بھی ہو تو وہ ہمت کہاں سے لائیں کہ اس کے خلاف آواز بلند کرسکیں کیونکہ،

اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے

اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

تشدد کی بہت قسمیں ہیں لیکن " تین ج " اس میں سب سے اہم ہیں یعنی جسمانی تشدد ، جنسی تشدد ، جذباتی تشدد نفسیاتی استحصال،مار پیٹ، گالم گلوچ ، بے عزتی، مالی تنگی ، ہراسانی، زبردستی کی شادی ، عزت پر حملے، کاروکاری، قرآن سے شادی یہ سب انہی " تین ج" کی ڈیلی شاخیں ہیں ۔ یہ تشدد شوہر ، سسرال ، خاندان ،دوست ، اجنبیوں اور باپ بھائیوں کی طرف سے ہوسکتا ہے ۔ کبھی کبھی عورت بھی عورت پر تشدد کرتی ہے لیکن زیادہ تر مرد ہی عورت پر تشدد میں ملوث ہوتے ہیں۔

مرد اپنی مردانگی کے اظہار کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے اور یہ  "زہریلی مردانگی " کہلاتی ہے۔ ہر مرد زہریلا نہیں ہوتا لیکن وہ عورت کو اپنے سے آگے بڑھتا بھی نہیں دیکھ سکتا ۔ایسے مرد ہمیں اپنے ملک کے ہر طبقے میں ملیں گے غریب ، متوسط، امیر ، جاہل ، پڑھے لکھے ، بہت پڑھے لکھے غرض ہر طبقے میں موجود ہیں جو، وقتا فوقتا خبروں میں بھی آتے رہتے ہیں ۔وہ عورت کی عزت نفس مجروح کرکے خوش ہوتے ہیں ، انہیں عورت کو مار کر خوشی ملتی ہے ، وہ عورت کو اپنے سے آگے بڑھتادیکھ ہی نہیں سکتے ، اسے اپنی خواہشات کے آگے ہر وقت جھکا دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہمارے ملک میں خواتیں پر تشدد کے حوالے سے اعدادوشمار خطرناک ہیں کچھ دن پہلے کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں گذشتہ تین سالوں میں خواتین پر تشدد کے 63000 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے جن میں جسمانی تشدد۔ ریپ اور قتل کے واقعات شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ،ورنہ ہزاروں ایسے واقعات بھی ہونگے جن کی رپورٹ ہی درج نہیں کروائی گئی ہوگی اور میرے خیال میں تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔

اس سال کچھ کیسز ایسے بھی ہوئے جن کی میڈیا میں بھی بہت تشہیر ہوئی کیونکہ وہ پڑھے لکھے لوگوں کے کیسز تھے۔ ابھی لوگ " نور مقدم " کیس کو ہی نہیں بھول پائے تھے کہ ملک کے مشہور صحافی کے بیٹے " شاہنواز امیر " نے اپنی نو بیاہتا بیوی " سارہ انعام "کو سر پر ڈمبل مار کر قتل کردیا ،افسوس کہ لڑکی اعلی تعلیم یافتہ اور نہایت لائق فائق ہونے کے باوجود اس انسان نما جانور کو نہیں پہچان سکی اور اس کے جھانسے میں آکر مبینہ طور پر اسکی تیسری بیوی بن بیٹھی تھی اور پھر بے چاری بھیانک طریقے سے قتل کردی گئی اب کیس عدالت میں ہے اور ہماری دعا ہے کہ اس کے لواحقین کو انصاف مل جائے۔ کوئٹہ میں آمنہ بیبی اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہوئی۔

کراچی میں " نرگس " نامی عورت اپنے چھ بچوں کے سامنے شوہر کے ہاتھوں ماری گئی اور مبینہ طور پر اسکی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دیگ میں ڈالا گیا۔

کراچی کی ایک مشہور گارمنٹ فیکٹری کی ورکر کو ریپ کے بعد قتل کرکے لاش سڑک پر پھینک دی گئی۔

حال ہی میں گلشن حدید سے انٹرویو کے لئے جانے والی خاتون کا تادم تحریر پتہ نہیں چل سکا۔ اسی طرح سسرال سے جھگڑے کے بعد اپنے چھوٹے سے بچے کو لیکر میکے جانے والی لڑکی کا بھی تا دم تحریر پتہ نہیں لگ سکا۔

چھوٹی بچیوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات بھی آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ قائد آباد میں سات سالہ بچی سے زیادتی کا ہے ،جس میں اسے زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ ایسے نجانے کتنے واقعات اور بھی ہیں جن میں سے کچھ رپورٹ ہوئے اور باقی چھپائے گئے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ سب سے پہلے ہم خود یعنی خواتین تشدد کے خلاف آواز بلند کرنا سیکھیں ۔ایک سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کی دو تہائی عورتیں کسی نہ کسی قسم کا تشدد برداشت کرتی ہیں یہ تشدد جسمانی بھی ہوسکتا ہے اور نفسیاتی بھی۔

لوگوں کو یہ شعور ہی نہیں کہ تشدد زبان سے بھی کیا جاتا ہے اور اس کا درد اور تکلیف بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے جتنی کہ جسمانی تشدد کی ۔ اکژ خواتین تکلیف دہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ مردوں کا حاکمانہ انداز ،گالم گلوچ، بے عزتی ، مالی تنگی ، ہراسانی ، تھپڑ مار دینا اور پھر کہنا کہ ذرا سا تھپڑ ہی تو مارا ہے، دھکا دینا اور کہنا کہ ذرا سا " یوں " ہی تو کیا تھا ، کھانا پسند نہ آنے پر دیوار پر پلیٹ اٹھا کر پھینک دینا ، دوستوں اور رشتے داروں میں یٹھ کر بیوی کامذاق اڑانا، ضروریات زندگی کو ترسانا ، باپ بھائیوں کا لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہ کرنے دینا، زبردستی کی شادی کروانا، قابلیت، وقت اور خواہش ہونے کے باوجود لڑکیوں کو ملازمت نہ کرنے دینا ، زبردستی پردہ کروانا یا زبردستی پردہ نہ کرنے پر مجبور کرنا ، اپنی خواہش پر زیادہ بچے پیدا کروانا یا بچے پیدا نہ کروانا ، شریک حیات جیسا جائز رشتہ ہوتے ہوئے بھی دوسری عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھنا ، یہان تک کہ زبردستی بیوی کو اپنی پسند کے کپڑے پہننے پر مجبور کرنا جبکہ وہ ایسا نہ چاہ رہی ہو ،نفسیاتی یا ذہنی تشدد کہلائے گا اور اس طرح کا ذہنی تشدد ہی عموما پھر جسمانی تشدد میں بھی تبدیل ہوجاتا ہے ،ورنہ زندگی ایسے ہی گذر جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ عورت بے حس ہوجاتی ہے۔بقول شاعر :

میں تو بےحس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں

چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے

بےحسوں کے چارہ گر ایسے ہی ہوتے ہیں جب تک مظلوم ظالم کے ہاتھ نہیں پکڑے گا ظلم نہیں رکے گا ۔ ہمارے معاشرے کی تو یہ کیفیت ہے کہ اگر کوئی لڑکی ہراسانی کی شکایت کرے ، کوئی عورت اپنے شوہر کی بدسلوکی کی بات کرے ، کوئی بچی کسی رشتے دار کی دست درازی کا بتائے تو والدین ہی اسے خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ یہ سب شکایات سننے کے بعد نتیجتا لڑکیوں کو کالج اسکول بھیجنا روک دیا جاتا ہے ، رشتے داری خراب نہ ہو، اس ڈر سے رشتے داروں کی جنسی ہراسانی کو خاموشی سے برداشت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، اور یوں لوگ کیا کہیں گے کہ ڈر سے بہت سے کیسز گھر کے گھر میں ہی دبادئے جاتے ہیں۔

لڑکی کو یہ شعور و اعتماد دینے کے بجائے کہ وہ نکاح نامے پر اپنی شرائط سے دستخط کرے لڑکی کی شادی کرتے وقت یہ کہنا کہ اب اس گھر سے تمہارا جنازہ ہی نکلے گا، والے روپے نے ہزاروں عورتوں کی زندگی تباہ کی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی برداشت کا نام ہے اور ایک کامیاب شادی کے لئے مردو عورت دونوں کو ایک دوسرے کی بہت سی خامیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، کیونکہ دو انسان کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ایک دوسرے کو خامیوں و خوبیوں کے ساتھ برداشت کرنے کا نام ہی شادی ہے لیکن لڑکیوں کو درندہ صفت شوہروں کے ساتھ یہ کہہ کر رہنے پر مجبور کرنا کہ اب یہی تمہارا آخری ٹھکانہ ہے بالکل غلط ہے۔

خواتین پر تشدد کے حوالے سے عملی اقدامات کرنے ہیں تو اس کے لئے سب سے پہلا قدم تو یہی ہے کہ لڑکیوں کو مضبوط بنائیں ،انہیں تعلیم دلوائیں ، اتنا پر اعتماد بنائیں کہ وہ ہر غلط طرزعمل پر آواز اٹھاسکیں اور اپنی زندگی کے مسائل کو خوش اسلوبی سے خود حل کرسکیں ۔ انہیں اس قابل کریں کہ وہ زندگی میں کبھی برا وقت پڑنے پر کسی کی دست نگر نہ ہوں اوراپنا بوجھ خود اٹھاسکیں۔

خواتین کو یہ شعور ہونا چاہئے کہ وہ دنیا میں اس لئے نہیں بھیجی گئیں کہ مردوں کا خاموشی سے نشانہ بنتی اور اسے برداشت کرتی رہیں۔ سب سے پہلے تو خود بولنا سیکھیں ۔ اس وقت بڑے پیمانے پر ایک آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے اسکولوں اور کالجوں میں لڑکیوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو پھر حکومتی سطح پر بھی ایسا مربوط نظام بنانے کی ضرورت ہے، جس میں عورت اپنی پریشانیاں اور دکھ درد بتاتے ہوئے جھجکے نہیں بلکہ تشدد کے خلاف آواز بلند کرسکے، اس کی بات سنی بھی جائے اور اس کے سدباب کے لئے کوشش بھی کی جائے۔ عدالتیں انصاف دلائیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک فون پر ایکشن لیا جاتا ہے وہاں عورتوں کو سکھایا جاتا ہے کہ :

1 - تشدد کی رپورٹ کیجئے۔

2- تشدد سے بچنے کے اقدامات کیجئے۔

3- تشدد سے محفوظ رہئے۔

ہمیں بھی ایسے اقدامات کی شدت سے ضرورت ہے کہ خواتین کی شکایت پر فوری عمل کیا جائے، کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو تشدد کا شکار خواتین کی مدد کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ امید ہے کہ اس سال خواتین پر تشدد کے عالمی دن کے موقع پر تشدد کا شکار خواتین پر صرف پروگرام وسیمینار ہی نہیں بلکہ ان کی دادرسی کے لئے بہتر اقدامات بھی کئے جائیں گے۔

اور آخر میں خواتین سے ایک بار پھر یہی کہنا ہے کہ :

کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن

پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر

خواتین پر مظالم روکنے کیلئے اقوام متحدہ کا نیا تحفظ پروگرام

اقوام متحدہ کی خواتین وزارت قانونی و انصاف اور بین الاقوامی منشیات اور قانون نافذ کرنے والے امور کے بیورو نے پاکستان میں خواتین میں ہونے والے تحفظ کے لیے نیا پروگرام شروع کر دیا۔ پروگرام کا مقصد خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام اور انصاف تک ان کی رسائی کو بڑھانے پر توجہ دینا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی خواتین نےوزارت قانون و انصاف کے اشتراک اور امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لاء انفورسمنٹ (INL )کی طرف سے مکمل طور پر مالی اعانت فراہم کرتے ہوئے مشترکہ طور پر خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف انصاف اور خدمات تک رسائی اور روک تھام کے لیے تحفظ کے نام سے ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ مذکورہ پروگرام خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام اور انصاف تک جلد اور بہتر رسائی کو بڑھانے پر توجہ دے گا۔ پروگرام تحفظ کو پنجاب اور سندھ کے 5 اضلاع کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری میں 2022 سے 2024 تک نافذ کیا جائے گا۔ 

اس موقع پر اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یو این ویمن کی ڈپٹی کنٹری ریپریزنٹیٹیو Jacqul ketunuti نے کہہ کہ اس منصوبے کے پچھلے مرحلے کی کامیابیوں کی بنیاد پر یو این ویمن خواتین کے خلاف تشدد (VAW )کے مسئلے کو ایک جامع نقطہ نظر کے ذریعے حل کرے گی، جس میں حکومتی اداروں، انصاف اور سیکورٹی کے شعبے کے حکام کے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ صنفی اور سماجی شمولیت کی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہوئے یہ پروگرام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وی اے ڈبلیو کو تمام زاویوں سے حل کیا جائے۔ 

انصاف تک رسائی میں خواتین کو سہولت فراہم کرنے والے اداروں کو قابل رسائی، معیاری اور صنفی جوابدہ خدمات فراہم کرنے کے لئے مضبوط بنایا جائے۔ آئی این ایل کے ڈائریکٹر لوری اینٹوینز کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت، یو این ویمن کو 1.5ملین ڈالر دے رہی ہے، تا کہ پاکستانی خواتین کو تحفظ کے ذریعے انصاف اور قانونی خدمات تک بہتر رسائی میں مدد ملے۔ مذکورہ پروگرام پاکستانی حکومت، پاکستانی شہریوں اور اقوام متحدہ کی خواتین کے ساتھ آئی این ایل کی کئی سالوں کی حمایت اور شراکت داری کے باعث شروع کیا گیا ہے۔ 

پروگرام تحفظ اپنے مقررہ عرصے کے دوران قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی صلاحیت کو صنف کے بارے میں علم اور رویوں کو بہتر بنانے، VAW کے کیسوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی اور انصاف کے شعبے کے اسٹیک ہولڈرز، فارنسک افسران اور طبی معائنہ کاروں کے درمیان بہتر ہم آہنگی کے ذریعے مضبوط کرے گا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے خواتین پر تشدد کی روک تھام اور تحفظ کے لئے حکومت کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ 

انہوں نے آئی این ایل اور یو این ویمن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بہت سے ترقی پسند قوانین نافذ کئے گئے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ قوانین پر مکمل عملدرآمد ہو ، ہمارے ملک کے شہری خاص طور پر خواتین اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہیں۔ یہ پروگرام خواتین اور لڑکیوں کے لئے ایک محفوظ اور قابل ماحول بنانے میں مدد کرے گا ،تا کہ وہ قومی ترقی اور پائیدار ترقی میں فعال کردار ادا کر سکیں۔