اکثرلوگوں کے منہ سے ناگوار بُو آتی ہے، اُنہیں خود تو اس کا علم نہیں ہوتا، لیکن قریب بیٹھنے والوں کا سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ طبّی اصطلاح میں اسے Halitosis کہا جاتا ہے۔ منہ کی ناگوار بُو کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ مثلاً ٹوتھ برش نہ کرنا، دانتوں میں خوراک کے ذرّات پھنس جانا، مسوڑھوں کی سوزش ،زبان پر گہرا کٹاؤ/زخم، بدہضمی، غیر معیاری کھانا ، مصنوعی بتیسی، تمباکو نوشی اور نسوار کا استعمال وغیرہ۔ اس کے علاوہ بعض امراض مثلاً ذیابطیس، سائنوسائٹس(Sinusitis) بھی منہ سےبُو آنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔
اسی طرح جب ہم سو رہے ہوتے ہیں، تو قدرتی طور پر جسم سے فاسد مادّوں کےاخراج، ٹشوز کی مرمت اور افزایش کا عمل جاری رہتا ہے، اس لیے تھوک کم بنتا ہے، جس کے نتیجے میں جراثیم فعال ہوکر ناگوار بُو کا باعث بن جاتے ہیں۔ جب کہ جاگنے کے دوران چوں کہ تھوک بننے کا عمل جاری رہتا ہے، تو جراثیم بھی خودبخود تلف ہوتے رہتے ہیں۔ ویسے تو منہ کی ناگوار بُو سے نجات کے لیے بہتر ہوگا کہ معالج سے رابطہ کیا جائے، تاکہ حتمی تشخیص کے بعد درست علاج ہوسکے۔ تاہم، عمومی طور پر ذیل میں چنداحتیاطی تدابیر درج کی جارہی ہیں۔
٭سونے سے قبل اور ہر کھانے کے بعد ٹوتھ برش یا مسواک سے دانتوں کی صفائی لازماً کی جائے۔ اس کے علاوہ زبان کی صفائی بھی ضروری ہے، کیوں کہ زبان پر میل جمنے سے جراثیم پرورش پاتے ہیں۔یاد رکھیے، زبان کی بدلی رنگت جراثیم کی افزایش ظاہر کرتی ہے۔ ناک بند ہوتو منہ سے سانس لینے کی صُورت میں عموماً منہ خشک رہتا ہے اور تھوک کم بنتا ہے، نتیجتاً ناگوار بُو آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دانتوں کی مناسب صفائی نہ کرنے سے مسوڑھوں کی کوئی بیماری لاحق ہوسکتی ہے،جو بعد ازاں ناگوار بُو کا سبب بنتی ہے۔
٭جسمانی اور سانس لینے کی ورزشیں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔
٭ لہسن، پیاز، بند گوبھی، پھول گوبھی وغیرہ میں سلفر پایاجاتا ہے۔ انجذاب کے عمل میں یہ غذائیں خون کا حصّہ بن جاتی ہیں، جب خون پھیپھڑوں سے گزرتا ہے، تو سلفر بھی سانس کے ساتھ خارج ہونے کے نتیجے میں ناگوار بُو کاباعث بن جاتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایسے کھانوں کے بعد شوگر فِری چیونگم استعمال کی جائے،تاکہ منہ سے بُو نہ آئے۔
٭تمباکو نوشی کے استعمال سے بھی تھوک کم مقدار میں بنتا ہے، جو جراثیم کو پنپنے کا موقع فراہم کرتا ہے، بہتر ہوگا کہ تمباکو نوشی کا استعمال ترک کر دیا جائے۔
٭بعض ادویہ جو الرجی، اسہال، ذہنی امراض اور عضلات کی سختی سے نجات کے لیےاستعمال کی جاتی ہیں، ان سے بھی منہ خشک ہوجاتا ہے۔ اس کا ایک آسان سا حل یہ ہے کہ دانتوں کی صفائی کے ساتھ زبان کی صفائی بھی Tongue Scraperکے ساتھ کرلی جائے۔
٭سائنوسائٹس اور عام نزلے میں حلق کی جھلّیاں متوّرم ہو جاتی ہیں، جو بیکٹیریا کو پنپنے کا بَھرپور موقع دیتی ہیں، لہٰذا جراثیم کی وجہ سے منہ سے بُو آنے لگتی ہے۔ اگر روزانہ قابلِ برداشت نیم گرم پانی میں نمک مِکس کرکے ناک کے نتھنے صاف کیے جائیں اورساتھ نمک والے پانی سے غرارے بھی کریں،تو اس سےسائنوسائٹس کی شدّت میں رفتہ رفتہ کمی واقع ہوجاتی ہے ،یہاں تک کہ مرض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ نیز، بدبو آنا بھی بند ہو جاتی ہے۔
٭زائد نشاستے والی غذاؤں کے استعمال سے بھی منہ سے بُو آتی ہے، لہٰذا زیادہ سے زیادہ پانی پیئں اور ایسی غذائیں استعمال کریں، جن میں نشاستہ کم مقدار میں پایا جائے۔
٭دانتوں کے خلال کے لیےڈینٹل فلاس( مضبوط دھاگا ) استعمال کریں ۔ علاوہ ازیں، اینٹی سیپٹک ماؤتھ واش دِن میں کم از کم دو بار استعمال کریں۔
٭خراب، گلے سڑے دانتوں کی فلنگ یعنی بَھرائی کروائیں اور ان پر خول لگوالیں۔ اگر ممکن ہو تو پولشنگ بھی کروائی جاسکتی ہے۔ اس طرح دانت منہ کی بُو کا موجب نہیں بنتے ہیں۔
٭الکحل کا استعمال بھی منہ کی ناگوار بُو کا سبب بنتا ہے، اس سے مکمل طور پر پرہیز کیا جائے۔
٭سینے کی جلن اور گیسٹروایسوفیجل ریفلکس (Gastroesophageal Reflux) سے متاثرہ افراد کے منہ سے بھی ناگوار بُو آسکتی ہے، لہٰذا تیز مرچ مسالے، چٹ پٹی اشیاء، مغربی میٹھے مشروب، جوسز، کافی اور الکحل کے استعمال سے اجتناب برتا جائے۔ ریشے دار زود ہضم غذائیں استعمال کر یں، جب کہ پانی اتنا پیئں کہ پیشاب کی رنگت سفید رہے۔
٭حلق کو صاف رکھنے والی گولیوں کے استعمال سے افاقہ تو ہو جاتا ہے، مگر بعد ازاں حلق جراثیم کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ اس صُورت میں منہ سے پیپ جیسی بُو آتی ہے، لہٰذا روزانہ کھانے کے بعد زبان اور دانت صاف کیے جائیں، جب کہ نمکین نیم گرم پانی سے غرارے بھی ضرورکریں۔
٭ہاضمے کے خرابی سے نہ صرف عمومی صحت، بلکہ 80 فی صد قوّتِ مدافعت بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ واضح رہے، نظام ِہضم میں 85فی صد مفید اور 15فی صد مضرِ صحت بیکٹیریا حصّہ لیتے ہیں۔ اگر اس نظام میں کوئی خرابی واقع ہوجائے یا السر کی شکایت ہو،تو دونوں صُورتوں میں اکثر منہ سے ناگوار بُو آتی ہے۔ اسی طرح گُردوں کے افعال متاثر ہونے سے بھی منہ سے مچھلی جیسی، جب کہ ذیابطیس کے عارضے میں پھلوں کی سی میٹھی خوشبو آتی ہے۔ اس صُورت میں غذائیں اپنے معالج کے مشورے سے استعمال کریں اور جن اشیاء سے پرہیز تجویز کیا جائے، اس پر سختی سے عمل کریں۔
٭بعض اوقات قوّتِ مدافعت کی کم زوری سےبھی منہ سے ناگوار بُو آنا شروع ہو جاتی ہے، لہٰذا مدافعتی نظام مضبوط رکھنے کے لیے روزانہ ہلکی پھلکی ورزش کریں۔ نیز، سونے جاگنے کے اوقات اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل ضروری ہے۔
٭سونے سے قبل تیز مرچ مسالے والی غذاؤں، کافی، چائے کے استعمال اور تمباکو نوشی سے گریز کیا جائے کہ ان سے منہ خشک ہوجاتا ہے اور تھوک نہیں بنتا۔ یوں بیکٹریا کی زائد افزایش، جاگنے پر منہ سے ناگوار بُو کی وجہ بن جاتی ہے۔
٭میٹھی اشیاء کے استعمال سے جو ذرّات دانتوں میں رہ جاتے ہیں، اُن میں جراثیم پلتے ہیں اور منہ سے بُو آتی ہے۔ اس لیے ہر کھانے کے بعد دانت اور زبان اچھی طرح صاف کریں۔
٭ڈیپریشن اور ایسی ادویہ، جو جسم میں پانی کی کمی ہونے سے متعلقہ امراض میں تجویز کی جاتی ہیں، منہ کی بُو کا سبب بنتی ہیں۔ اس صُورت میں پریشان نہ ہوں کہ جب ان ادویہ کا استعمال ترک کردیا جاتا ہے، تو بُو بھی آنا بند ہوجاتی ہے، لیکن بہتر ہوگا کہ معالج کے مشورے سے ماؤتھ واش استعمال کرلیا جائے۔
٭ خشک میوہ جات میں مٹھاس کی مقدار زائد ہوتی ہے۔ مثلا ًایک چوتھائی چائے کی پیالی کشمش میں21گرام شکر،جب کہ اتنی ہی مقدار کی خوبانی میں17گرام یعنی تقریباً پانچ چائے کے چمچ چینی پائی جاتی ہے۔ خشک میوہ جات خردبینی جراثیم کی مرغوب غذا ہیں۔ ڈرائی فروٹس کھانے کی صُورت میں اکثر ان کے ذرّات دانتوں میں پھنس جاتے ہیں اور جراثیم تیزی سے پنپتے ہیں۔یوں انتہائی ناگوار بُو پیدا ہوجاتی ہے ،جو منہ سے آنے والی سڑاند کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اس بُو سے بچنے کے لیے خشک میوہ جات کے استعمال کے بعد زبان اور دانت صاف کرکے نمکین نیم گرم پانی سے غرارے کرلیں۔ (مضمون نگار، ڈائو یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے وابستہ رہ چُکے ہیں)