• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان مشکل اور خطرناک ترین نہج پر پہنچ گیا ہے، ویسے تو سارا ملک تباہی کے کنارے پر ہے جبکہ ملک کے دو صوبے سندھ اور بلوچستان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں، آدھا بلوچستان اب بھی سیلابی پانی کے نرغے میں ہے جبکہ سندھ کے 60فیصد سے زیادہ علاقےمیں صورتحال بہت خراب ہے، ان علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد جن میں عورتیں اور بچے بھی ہیں،کھلے میدان میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اکثر چھوٹے بڑے شہر اوردیہات سیلابی پانی کے گھیرے میں ہیں یہاں کے متاثرین کو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کیلئےکشتیوں کا سہارا لینا پڑرہا ہے، ترقیاتی کام بند ہیں حتیٰ کہ ان علاقوں میں اسپتال بھی بند ہیں اور سندھ کے اکثر لوگ علاج سے محروم ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ کچھ بین الاقوامی و ملکی اداروں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں مگر مختلف علاقوں سے آنے والی تازہ ترین خبروں میں دکھایا جاتا ہے کہ اکثر علاقوں کے لوگ کسی بھی امداد سے محروم ہیں‘ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف حکومت کی مخالف سیاسی جماعت کو ان علاقوں کی اس انتہائی گمبھیر صورتحال کا کوئی احساس نہیں‘ وہ ان علاقوں کے پریشان حال لوگوں کی امداد کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مقاصدکے حصول کیلئے دبائو ڈال رہی ہے کہ جلد سے جلد ملک میں انتخابات کرائے جائیں‘دکھ تو اس بات کا ہے کہ ملک کی سیاست اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اس میں انسانیت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ۔ افسوس کہ ان سیاستدانوں کو فکر صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد اقتدار میں آجائیں، یا کسی طرح ان کا اقتدار برقرار رہے، کیا اسے حقیقی عوامی سیاست کہہ سکتے ہیں؟ ملک میں حقیقی عوامی سیاست تو اس وقت ہوتی ہے جب ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت ہو؟ بدقسمتی سے پاکستان زیادہ عرصہ عوامی اور حقیقی جمہوریت کیلئے ترستا رہا ہے، ملکی تاریخ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کی کیا صورتحال رہی،کیا یہ حقیقت نہیں کہ 1973 ء تک پاکستان میں نہ آئین پر عمل تھا اور نہ قانون کی حکمرانی ،ضروری ہے کہ اس ایشو پر بھی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائے کہ اس عرصے میں ملک کو حقیقی آئین اور حقیقی جمہوریت سے کیوں محروم رکھا گیا، اس عرصے کے دوران یا تو مارشل لاء رہا یا آمروں کی حکومت رہی، آئین بنا تو اس میں عوام اور جمہوریت کا کردار برائے نام بھی نہیں تھا، ایسے ہی ایک آئین، جو ایک آمر نے بنایا،کے خلاف پاکستان کے ممتاز شاعر حبیب جالب نے کہا تھا کہ ’’ ایسے دستور کو صبح بے نور کو ....میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا‘‘ یہ شعر ملک بھر میں اتنا مقبول ہوا کہ یہ آئین بنانے والے قانون دان بقیہ آئین سازی سے علیحدہ ہوگئے ۔

یہی دور تھا جب مغربی پاکستان میں انتہائی غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے ون یونٹ بناکر مشرقی اور مغربی پاکستان کی مساوی نمائندگی ڈکلیئر کی گئی‘ ایک طرف ون یونٹ بنانے کے خلاف مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں‘ خاص طور پر سندھ میں شدید احتجاج کیا گیا تو دوسری طرف مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا ہونے لگیں کیونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی کو کم کرکے مغربی پاکستان کی آبادی کے مساوی کیا گیا،آخر کار مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہوگیا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ1970ء میں پہلی بار پاکستان میں ’’ون مین‘ ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے ، ان انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی اس نے متفقہ طور پر ایک وفاقی پارلیمنٹری نظام پر مشتمل1973 آئین منظور کیا‘ چھوٹے صوبے کے سیاسی حلقوں کی رائے یہ تھی کہ آئین کے تحت صوبوں کو کچھ مزید اختیارات دیے جائیں مگر اس کے باوجود سارے ملک نے اس آئین کو قبول کیا ۔تاہم اس آئین اور اس آئین کے تحت چلنے والی حکومت کو بھی چلنے نہ دیا گیا اور ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء کے روپ میں آیا اور ایک بار پھر ملک کے گلے میں مارشل لاء کا پھندا ڈال دیا، اس کے بعد بھی پاکستان کے عوام کے نصیب میں کئی بار آمریت کا سامنا کرنا لکھا تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان میں آمریت نہیں مگراس وقت ملک کی جو صورتحال ہے اور ہماری کچھ سیاسی قوتوں کا جو عوام دشمن رجحان ہے ،اس کے نتیجے میں ایک بار پھر ملک پر آمریت مسلط ہوسکتی ہے۔ ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور حقیقی آئین کے تحت حکومت کی جائے مگر کیا ایسی قیادت اس وقت ملک میں موجود ہے جو ایسا کرے؟ اگر نہیں ہے تو ایسی جمہوری قیادت کیسے آئے، اس کیلئےملک کے دانشوروں اور حقیقی عوام دوست سیاسی سوچ رکھنے والوں کو آگے آناہوگا اور ملک بھر میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنا پڑیگا کہ ملک کی سیاست میں نوابوں، سرداروں اور وڈیروں کا کردار ختم کیا جائے اور ایسا آئین بنایا جائے جس کے تحت سیاست میں ان کی شرکت پر پابندی ہو۔ (جاری ہے)

تازہ ترین